اسرار خودی میں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے،ان مفکرین مغرب کے افکار کا پر تو نظر آتا ہے جو اقبال کے ہم مزاج ہیں اور جن کے افکار کے کسی پہلو کو اقبال نے اپنے نظریہ حیات کا موٴید سمجھا ہے۔ مثلاً اس بیان میں کہ اصل نظام عالم خودی ہے اور تعینات وجود کی ذمہ دار بھی خودی ہے،وہ مشہور جرمن فلسفی فشٹے کا ہم نوا ہو کر کہتا ہے کہ کائنات کا وجود یا پیکر ہستی خودی ہی کا نتیجہ ہے۔
عالم ادراک اور عالم آب و گل یا تصوف کی زبان میں یوں کہئے کہ ما سوا کا وجود،خدا کی خودی سے سرزد ہوا ہے خودی کا اثبات نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ خودی اپنا غیر پیدا نہ کرتی۔ خودی کی ماہیت خلاقی اور ورزش ارتقا ہے۔ نفی اثبات خود اثبات کا تقاضا ہے۔ جس غیر کو خودی نے اپنے ممکنات وجود کو ظہور میں لانے کیلئے خلق کیا ہے وہ ایک لحاظ سے غیر ہے اور دوسرے لحاظ سے خودہی کا مظہر ہے:
صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او
غیر او پیدا ست از اثبات او
در جہاں تخم خصومت کاشت است
خویشتن را غیر خود پنداشت است
سازد از خود پیکر اغیار را
تا فزاید لذت پیکار را
اقبال کہتا ہے کہ یہ ایک طرح کی خودی کی خود فریبی ہے۔
(جاری ہے)
اقبال جس خودی کا ذکر کرتا ہے وہ انسانوں کے انفرادی انا کی خودی ہی نہیں بلکہ خدا کی خودی ہے،جو مصدر خلقت ہے۔ مسلمہ اسلامی عقیدہ توحید عام طور پر اس انداز سے بیان نہیں ہوتا۔ اسرار خودی کے عام قارئین نے اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی کہ اقبال جس مطلق خودی کا ذکر کر رہا ہے وہ وجود مطلق اور ذات واجب الوجود کی ماہیت ہے،لیکن خدا کی نسبت مومن یہ کس طرح گوارا کرے گا کہ اس قسم کے عقائد بیان ہوں کہ آفرینش حیات و کائنات سے خدا نے ورزش ارتقا کی خاطر تخم خصومت بویا ہے اور عالم آفرینی ایک طرح کی خود فریبی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے ہاں وجود سرمدی کا تصور عام توحید پرستوں سے بہت کچھ الگ ہو گیا ہے۔ خدا ’الان کما کان‘ بھی ہے اور ”کل یوم ھو فی شان“ بھی! اقبال نے خدا کا لاتبدیل سرمدی پہلو نظر انداز کر دیا ہے اور مسلسل تغیر اور ارتقا اور لامتناہی خلاقی کی صفت اس پر بہت زیادہ منکشف ہوئی ہے۔ وہ صوفیاء کرام کے اس مقولے یا روحانی تجربے کا بھی شیدائی ہے کہ تجلی میں تکرار نہیں۔
وجود کے یکے بعد دیگرے آنے والے کوئی دو کوائف ہم رنگ نہیں ہوتے۔ خلاقی کا قدم ہر دم آگے ہی کی طرف اٹھتا ہے۔ ذات مطلق کی خودی کو اپنی تکمیل مقصود ہے۔ اپنے اثبات اور ارتقا کی خاطر وہ ہستیوں کو وجود میں لاتی اور ساتھ ہی ساتھ مٹاتی بھی جاتی ہے۔ زندگی کے طویل ارتقا میں لاتعداد اقسام کے پھول معرض وجود میں آکر نابود ہو گئے ہوں گے،پیشتر اس کے کہ گلاب کا ایک پھول ظہور میں آ سکے۔
حیات و کائنات میں جو درد و کرب،جور و ستم اور شر دکھائی دیتا ہے،اقبال کا نظریہ خودی اس کی ایک توجیہ ہے:
عذر ایں اسراف و ایں سنگیں دلی
خلق و تکمیل جمال معنوی
صدیوں سے اسلامی تصوف میں وحدت وجود کا جو نظریہ کسی قدر فروعی اختلافات کے ساتھ،اکثر اکابر صوفیہ کی تعلیم میں ملتا ہے،اقبال اس سے گریز کرتا رہا کیوں کہ اس سے انسان اور تمام حوادث کو ایک ذات کا مظہر سمجھ کر زندگی کی جدوجہد کو بے کار سمجھنے لگتا ہے ولیم جیمز وحدت وجود میں خیر و شریک رنگ ہو کر اخلاق کو تعطیل حاصل ہو جاتی ہے،صدیوں سے اسلامی تصوف میں وحدت وجود کا جو نظریہ کسی قدر فروعی اختلافات کے ساتھ،اکثر اکابر صوفیہ کی تعلیم میں ملتا ہے،اقبال اس سے گریز کرتا رہا کیوں کہ اس سے انسان خیر و شر اور تمام حوادث کو ایک ذات کا مظہر سمجھ کر زندگی کی جدوجہد کو بے کار سمجھنے لگتا ہے یا بقول ولیم جیمز وحدت وجود میں خیر و شریک رنگ ہو کر اخلاق کو تعطیل حاصل ہو جاتی ہے،لیکن اقبال کے ذہن میں وحدت وجود کا نظریہ دوسرے رنگ میں ابھرتا ہے۔
ہستی مطلق کی ماہیت خودی سے ہے۔ ’ماسوا‘ اس کے اظہار ذات کیلئے ضروری ہے لیکن ماسوا بھی خدا کے سوا کچھ نہیں،اگرچہ عمل کی خاطر خدا اس کو اپنا غیر سمجھ لیتا ہے کیوں کہ یہ خود فریبی عین حیات اور باعث تکمیل حیات ہے۔ ورنہ اصلیت یہ ہے کہ:
می شود از بہر اغراض عمل
عامل و معمول و اسباب و علل
خیزد، انگیزد، پرد، تابد، رمد
سوزد، افروزد، کشد، میرد، دمد
بظاہر یہ انداز بیان اس سے کچھ زیادہ متمائز معلوم نہیں ہوتا جسے ایک قدیم وحدت الوجودی صوفی وجد و مستی میں آکر گاتا ہے کہ:
خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گل کوزہ
خود بر سر آں کوزہ خریدار بر آمد
بشکست و رواں شد
اقبال کے ہاں ذات مطلق کی ماہیت خودی ہے۔
خودی ایک انا یا ایغو کے بغیر متصور نہیں ہو سکتی۔ اس کے مطلق خودی نے ذوق نمود اور ورزش وجود میں اپنے اندر سے لاتعداد انا یا ایغو یا خودی کے مراکز خلق کئے ہیں۔ یہ تصور مشہور حدیث قدسی کے اس تصور سے کسی قدر مشابہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے متعلق یہ انکشاف کرتا ہے کہ ”کنت کنزا مخفیا فاجبت ان اعرف مخلقت الخق“۔ (میں ایک خزینہ پنہاں تھا میں نے چاہا کہ میں ظاہر ہوں اور پہچانا جاؤں اس لئے میں نے خلق کو خلق کیا):
وانمودن خویش را خوے خودی است
خفتہ در ہر ذرہ نیروے خودی است
خودی کی ماہیت کو جاننا عرفان نفس بھی ہے اور عرفان رب بھی اور اس عرفان میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ زور خودی سے حیات عالم وابستہ ہے اور ہر انفرادی نفس کی استواری اس کی زندگی کی ضامن ہے۔
جو قطرہ شبنم بنتا ہے وہ چند لمحوں میں خودی کے ضعف کی وجہ سے نابود ہو جاتا ہے۔ جو قطرہ اشک بنتا ہے وہ ٹپک کر ناپید ہو جاتا ہے،لیکن جو قطرہ صدف نشین ہو کر اپنی خودی کو مستحکم کر لیتا ہے وہ گوہر بن جاتا ہے۔ جس کی موج نور تلاطم قلزم میں بھی منتشر نہیں ہوتی۔ اقبال فطرت کے مظاہر میں اپنے اس نظریے کی بہت سی دلکش مثالیں پیش کرتا ہے۔ زمین کا وجود قمر کے مقابلے میں زیادہ قوی ہے،اس لئے زمین اس سے مسحور ہو کر اس کے گرد چکر کاٹتی رہتی ہے۔
اقبال رہبانیت کے خلاف جہاد کرتا ہے اور جتنے رہبانی تصورات عجمی تصوف کے راستے سے اسلامی افکار کا جزو بن گئے ہیں،ان سے وہ ملت کا دامن چھڑانا چاہتا ہے۔ قناعت اور توکل اور تسنیم و رضا کے غلط معنی لے کر مسلمانوں میں بھی یہ تصور عام ہو گیا کہ نفس کشی کے معنی تمام آرزوؤں کا قلع قمع کرنا ہے۔ انسان جتنا بے مدعا ہوتا جائے اتنا ہی خدا کے قریب ہوتا جاتا ہے۔
غالب نے یہی متصوفانہ خیال اس شعر میں ظاہر کیا ہے کہ:
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ
اسی سے ملتا جلتا صائب کا ایک شعر ہے:
حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن
از شیشہ بے مے مے بے شیشہ طلب کن
یہ خیال ہندو مت اور بدھ مت کی الہیات میں بھی ایک مسلمہ بن گیا تھا کہ اپنی خودی کو صفر کر دینے سے انسان خدا کا ہم ذات ہو جاتا ہے یا خود خدا بن جاتا ہے۔
بھگوت گیتا میں ارجنا کرشن سے پوچھتا ہے کہ تم خدا کیسے بن گئے؟ وہ جواب دیتا ہے:
من از ہر سہ عالم جدا گشتہ ام
تہی گشتہ از خود خدا گشتہ ام
(ترجمہ فیضی)
اقبال کی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خود خدا کی ماہیت خودی اور خودی کی ماہیت مقصد آفرینی اور مقصد کوشی ”تخلقو باخلاق اللہ“ کی تعلیم کے مطابق انسان کو بھی تخلیق مقاصد سے اپنی خودی کو استوار کرنا چاہئے۔
اس تعلیم میں وہ اپنے مرشد رومی کا ہم خیال ہے۔ رومی کہتا ہے کہ زمین و آسمان کی خلقت حاجت کی پیداوار ہے،حاجت ہی سے ہستی کی آفرینش اور اس کا ارتقا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ نصیحت کرتا ہے:
پس بیفزا حاجت ساے محتاج زود
اسی خیال کو اقبال نے طرح طرح کے لطیف پیرایوں میں ادا کیا ہے۔ مثلاً:
زندگانی را بقا از مدعا است
کاروانش را درا از مدعا است