Episode 92 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 92 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

زندگی جستجو اور آرزو کا نام ہے۔ عالم آب و گل اور جہان رنگ و بو سب آرزو کے رہین اور امین ہیں۔ فلسفہ جدید میں ارتقاء کے طرح طرح کے نظریات پیدا ہوئے۔ ان نظریات میں سے برگسان کا نظریہ ارتقا تخلیقی اقبال کے خیالات کے عین مطابق ہے۔ اعضا سے وظائف اعضا پیدا نہیں ہوتے بلکہ حیات کی ارتقائی تمنائیں اعضا و آلات میں صورت پذیر ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہ آنکھ ڈاروینی اتفاقات اور میکانیکی توافق سے بن گئی اور اس سے بینائی ممکن ہو گئی۔
اقبال کہتا ہے کہ علت و معلول کا سلسلہ یہاں برعکس ہے۔ لذت دیدار اور شوق بینش نے آنکھ بنائی ہے۔ ذوق رفتار نے پاؤں بنائے اور ذوق نوا نے منقار۔
اقبال نے اسرار خودی میں بھی اور بعد کے کلام میں بھی سینکڑوں دلکش اور بصیرت افروز اشعار عشق اور عقل کے موازنے اور مقابلے میں لکھے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ صوفیہ اور بعض حکما کا قدیم مضمون ہے،لیکن اس مسئلے پر اقبال کے ہاں جس قدر بصیرت اور قدرت پائی جاتی ہے وہ اور کہیں نہیں ملتی۔

یہ اس کا خاص مضمون بن گیا اور اس مضمون کے ہر شعر میں اقبال کے کلام میں حکمت کے ساز کے ساتھ وجد و مستی کا سوز توام ہو گیا ہے۔ میلان حیات اور آرزوے ارتقا اس کے ہاں ماہیت وجود ہیں۔ یہی اصل ہیں اور باقی جو کچھ ہے،عقل ہو یا علوم و فنون یا آئین و رسوم،سب کی حیثیت فروعی ہے۔ صحیفہ وحی آسمانی ہو یا صحیفہ فطرت،اس علم الوجود یا علم الکتاب کے مقابلے میں عشق ام الکتاب ہے۔
اصل ماخذ زندگی اور اس کی سعی تکمیل ہے۔ اجرام فلکیہ ہوں یا اجسام حیانیہ یا شعوری و ادراک،یہ سب زندگی نے اپنی بقا کیلئے آلات بنائے ہیں۔ علوم و فن خود مقصود نہیں اور عقل انسان کا معبود نہیں۔ یہ سب کچھ نمود ہے بود نہیں:
علم و فن از پیش خیزان حیات
علم و فن از خانہ زادان حیات
انسان کا کام صحیفہ کائنات کی تفسیر نہیں بلکہ موجودات کی تسخیر ہے۔
انسان کا فرض ہے کہ ماسوا کی تسخیر کرے اور خود اپنے آپ کو مسخر ہونے سے بچائے اور ماسوا کی تسخیر سے آگے قدم بڑھاتا ہوا اس وقت تک دم نہ لے جب تک کہ خدا یعنی ذات مطلق کی خودی کو مسخر کرکے اپنا نہ لے۔ اس بارے میں بھی وہ رومی کا ہم آہنگ ہے،جو کہتا ہے:
بزیر گنگرہ کبریاش مردانند
فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر
اسی مضمون کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں ڈھالا ہے:
در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
اقبال کے ہاں خودی اور عشق کے مضامین ہم معنی ہیں۔
ایک ہی چیز ہے جس کو کبھی وہ خودی کہتا ہے اور کبھی عشق۔ اگرچہ اسرار خودی میں اس نے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ ’خودی عقل سے استوار ہوتی ہے‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خودی جس عشق سے استوار ہوتی ہے وہ کس ہستی یا کس چیز کا عشق ہے۔ کیا خودی کو اپنے سے خارج کسی محبوب کو تلاش کرنا ہے یا خودی کے خود اپنے میلانات کے اظہار کا نام عشق ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی کے اندر لامتناہی ممکنات مضمر ہیں۔
خودی کو استوار کرنا ان ممکنات کو بطون سے شہود میں لانا ہے۔ عقل خودی کی ماہیت ہے اور اپنی ذات سے باہر کسی محبوب کا گرویدہ ہونا نہیں ہے۔ خودی ارتقا طلب ہے۔ وہ ہر حاصل شدہ کیفیت سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اس کو اپنے ارتقا سے عشق ہے۔
ہست معشوقے نہاں اندر دلت
چشم اگر داری بیا بنمایمت
عاشقان او ز خوبان خوب تر
خوشتر و زیبا تر و محبوب تر
ہاں ایک طریق خودی کی استواری کا،جس کا اقبال بڑی شدت کے ساتھ قائل ہے،یہ ہے کہ جن ہستیوں نے اپنی خودی کے ممکنات کو وجود پذیر کیا ہے اور اپنی خاک کو رشک افلاک بنایا ہے ان سے عشق پیدا کیا جائے۔
ایسے بزرگوں کے عشق سے انسان کی خودی فرومائگی نہیں بن جاتی بلکہ معشوق کی خودی کا رنگ عاشق پر چڑھ جاتا ہے۔ انبیا کا کام یہ نہیں ہوتا کہ امت کے افراد کی خودی کو عجز میں تبدیل کر دیں۔ انبیا خود احرار ہوتے ہیں اور وہ انسانوں کو ہر قسم کی غلامی سے چھڑا کر مردان حر بنانا چاہتے ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ خاتم النبیین محمد مصطفیﷺ نے شبستان حرا میں خلوت گزیں ہو کر اپنی خودی کے جوہر کو چمکایا۔
قوم و آئین و حکومت اسی جوہر کی کرنیں ہیں۔ دین کا جوہر ان معنوں میں عشق یا محبت ہے کہ مرد مومن تمام افراد اور اشیا سے قلبی تعلق پیدا کرکے کائنات کی خودی وحدت کا ثبوت دیتا ہے۔ دوسروں سے محبت کرتا اور دوسروں کو اپنا ہم ذات سمجھتا ہے۔ اس طرح سے محبت کے ذریعے خودی قوی تر اور وسیع تر ہوتی جاتی ہے۔ خودی کا اصل انداز عمل مخاصمانہ یا رقیبانہ نہیں بلکہ عاشقانہ ہے۔
خودی کے ضمن میں اقبال نے یہ تحقیق کی ہے کہ نفی خودی کی تعلیم کہاں سے پیدا ہوئی اور کن اسباب سے وہ بعض اقوام پر چھا گئی۔ اس تحقیق میں اقبال نطشے سے متفق ہے کہ یہ انحطاط یافتہ اور مغلوب اقوام کی ایجاد ہے۔ جن اقوام کے قواے حیات سست پڑ جاتے ہیں،ان سست عناصر اقوام کو قوی اور جلیل اقوام کے مقابلے میں زندہ رہنے کی کوئی ترکیب سوچنی پڑتی ہے۔
زبردست اقوام تسخیر پسند ہوتی ہیں۔ زبردستوں کے ہتھیار اور ہوتے ہیں اور کمزوروں کے ہتھیار اور کمزور کبھی تو فریب اور خوشامد سے کام نکلتا ہے اور کبھی وہ ایسے نظریات کی تبلیغ کرتا ہے جس سے اس کی کمزوری ذلت کی بجائے فضیلت دکھائی دینے لگے۔ اپنی بے بضاعتی کی وجہ سے وہ فکر کو سراہنے لگتا ہے۔ ہمت کو دنیا طلبی اور عجز کو روحانیت کے رنگ میں پیش کرتا ہے۔
اپنی تعلیم میں وہ ایسی دلکشی اور لطافت پیدا کرتا ہے کہ اہل ہمت بھی یہ افیون کھانے لگتے ہیں۔ یہ مضمون نطشے کا خاص مضمون ہے اور اس نے اس نقطہ نظر سے عیسائیت پر اور اس کے پیدا کردہ اخلاقیات پر بھرپور وار کیا ہے۔ عیسوی رہبانیت کی یہ تعلیم کہ جنت ضعیفوں اور عاجزوں کو ملے گی اور صاحبان ہمت و ثروت و جبروت اس میں داخل نہ ہو سکیں گے،نطشے کے نزدیک نوع انسان کو قعر مذلت میں دھکیل گئی اور مغرب میں شیروں کو بکرا بنا گئی:
جنت از بہر ضعیفان است و بس
قوت از اسباب خسران است و بس
جستجوے عظمت و سطوت شر است
تنگدستی از امارت خوشتر است
یہ سازش مغلوب اور کمزور اقوام کسی شعوری تدبیر اور تنظیم سے نہیں کرتیں بلکہ ان کی کمزوری غیر شعوری طور پر ان کے تحفظ کیلئے یہ آلات وضع کرتی ہے۔
اقبال نے کہیں عجمی تصورات کو اور کہیں افلاطونی نظریات کو،ادبیات و حیات اسلامی کو مسموم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اسلامی سیاست کی تاریخ میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ یہود و نصاریٰ اور بعض عجمی گروہوں نے،اسلام سے مغلوب ہونے اور ظاہر میں اسلام کو قبول کرنے کے بعد،اس کی بیخ کنی کیلئے نہایت پوشیدہ اور لطیف ذرائع اختیار کئے۔ بعض تصورات فلسفے اور تصوف کے انداز میں پیش کئے گئے اور بعض تصورات موضوع احادیث نبوی کے پیرایے ہیں۔
متحققین حدیث نے ان مخترعات اور موضوعات کو بہت کچھ چھانٹا لیکن اس کے باوجود بعض چیزیں مروجہ طور پر مسلم احادیث میں ایسی ملتی ہیں جن پر شبہ ہوتا ہے کہ یہ غیر اسلامی تصورات کو اسلام میں داخل کرنے کی سازش کا نتیجہ ہیں۔ عام ادبیات اسلامیہ میں ایسے ایسے زوایاے نگاہ مسلمات میں داخل ہو گئے،جنہوں نے مسلمانوں کو زندگی کی جدوجد سے باز رکھا۔
قناعت پرستی،لذت پرستی،سکون پرستی،قطع علائق،انسان کو خود داری سے محروم کرنے والے تصورات عشق،ہوس پرستی،مصنوعی محبت،ادبیات کا تار و پود بن گئے۔
 ایسا ادب قوم کے انحطاط کی علت بھی ہے اور اس کا معلول بھی۔ کسی قوم کا ادب اس کی زندگی اور اس کی تمناؤں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جب قوم پست ہمت اور سست عناصر ہو جائے تو ادب میں زندگی کی گرمی اور عمل کا جوش نظر نہیں آتا۔
عاشق خود وار کی بجائے ”آوارہٴ مجنو نے رسوا سر بازارے“ انسانیت کا دلکش نمونہ بن جاتا ہے۔ فارسی اور اُردو عام تغزل زیادہ تر اسی انحطاط کا آئینہ دار ہے۔ ایسی شاعری کے خلاف پہلے حالی نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ قیامت کے روز باقی گنہگار تو چھوٹ جائیں گے،لیکن ہمارے شعرا کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ حالی نے کسی خاص شاعر کو چن کر ہدف ملامت نہیں بنایا تھا۔ اس کی تنقید زیادہ تر عام تھی۔ لیکن اقبال نے جوش اصلاح میں حافظ پر شدید حملہ کر دیا کہ اس کا کلام مسلمانوں کیلئے افیون کا کام کرتا ہے۔
مار گلزارے کہ دارد زہر ناب
صید را اول ہمی آرد بخواب

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط