زندگی جستجو اور آرزو کا نام ہے۔ عالم آب و گل اور جہان رنگ و بو سب آرزو کے رہین اور امین ہیں۔ فلسفہ جدید میں ارتقاء کے طرح طرح کے نظریات پیدا ہوئے۔ ان نظریات میں سے برگسان کا نظریہ ارتقا تخلیقی اقبال کے خیالات کے عین مطابق ہے۔ اعضا سے وظائف اعضا پیدا نہیں ہوتے بلکہ حیات کی ارتقائی تمنائیں اعضا و آلات میں صورت پذیر ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہ آنکھ ڈاروینی اتفاقات اور میکانیکی توافق سے بن گئی اور اس سے بینائی ممکن ہو گئی۔
اقبال کہتا ہے کہ علت و معلول کا سلسلہ یہاں برعکس ہے۔ لذت دیدار اور شوق بینش نے آنکھ بنائی ہے۔ ذوق رفتار نے پاؤں بنائے اور ذوق نوا نے منقار۔
اقبال نے اسرار خودی میں بھی اور بعد کے کلام میں بھی سینکڑوں دلکش اور بصیرت افروز اشعار عشق اور عقل کے موازنے اور مقابلے میں لکھے ہیں۔
(جاری ہے)
یہ صوفیہ اور بعض حکما کا قدیم مضمون ہے،لیکن اس مسئلے پر اقبال کے ہاں جس قدر بصیرت اور قدرت پائی جاتی ہے وہ اور کہیں نہیں ملتی۔
یہ اس کا خاص مضمون بن گیا اور اس مضمون کے ہر شعر میں اقبال کے کلام میں حکمت کے ساز کے ساتھ وجد و مستی کا سوز توام ہو گیا ہے۔ میلان حیات اور آرزوے ارتقا اس کے ہاں ماہیت وجود ہیں۔ یہی اصل ہیں اور باقی جو کچھ ہے،عقل ہو یا علوم و فنون یا آئین و رسوم،سب کی حیثیت فروعی ہے۔ صحیفہ وحی آسمانی ہو یا صحیفہ فطرت،اس علم الوجود یا علم الکتاب کے مقابلے میں عشق ام الکتاب ہے۔
اصل ماخذ زندگی اور اس کی سعی تکمیل ہے۔ اجرام فلکیہ ہوں یا اجسام حیانیہ یا شعوری و ادراک،یہ سب زندگی نے اپنی بقا کیلئے آلات بنائے ہیں۔ علوم و فن خود مقصود نہیں اور عقل انسان کا معبود نہیں۔ یہ سب کچھ نمود ہے بود نہیں:
علم و فن از پیش خیزان حیات
علم و فن از خانہ زادان حیات
انسان کا کام صحیفہ کائنات کی تفسیر نہیں بلکہ موجودات کی تسخیر ہے۔
انسان کا فرض ہے کہ ماسوا کی تسخیر کرے اور خود اپنے آپ کو مسخر ہونے سے بچائے اور ماسوا کی تسخیر سے آگے قدم بڑھاتا ہوا اس وقت تک دم نہ لے جب تک کہ خدا یعنی ذات مطلق کی خودی کو مسخر کرکے اپنا نہ لے۔ اس بارے میں بھی وہ رومی کا ہم آہنگ ہے،جو کہتا ہے:
بزیر گنگرہ کبریاش مردانند
فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر
اسی مضمون کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں ڈھالا ہے:
در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
اقبال کے ہاں خودی اور عشق کے مضامین ہم معنی ہیں۔
ایک ہی چیز ہے جس کو کبھی وہ خودی کہتا ہے اور کبھی عشق۔ اگرچہ اسرار خودی میں اس نے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ ’خودی عقل سے استوار ہوتی ہے‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خودی جس عشق سے استوار ہوتی ہے وہ کس ہستی یا کس چیز کا عشق ہے۔ کیا خودی کو اپنے سے خارج کسی محبوب کو تلاش کرنا ہے یا خودی کے خود اپنے میلانات کے اظہار کا نام عشق ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی کے اندر لامتناہی ممکنات مضمر ہیں۔
خودی کو استوار کرنا ان ممکنات کو بطون سے شہود میں لانا ہے۔ عقل خودی کی ماہیت ہے اور اپنی ذات سے باہر کسی محبوب کا گرویدہ ہونا نہیں ہے۔ خودی ارتقا طلب ہے۔ وہ ہر حاصل شدہ کیفیت سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اس کو اپنے ارتقا سے عشق ہے۔
ہست معشوقے نہاں اندر دلت
چشم اگر داری بیا بنمایمت
عاشقان او ز خوبان خوب تر
خوشتر و زیبا تر و محبوب تر
ہاں ایک طریق خودی کی استواری کا،جس کا اقبال بڑی شدت کے ساتھ قائل ہے،یہ ہے کہ جن ہستیوں نے اپنی خودی کے ممکنات کو وجود پذیر کیا ہے اور اپنی خاک کو رشک افلاک بنایا ہے ان سے عشق پیدا کیا جائے۔
ایسے بزرگوں کے عشق سے انسان کی خودی فرومائگی نہیں بن جاتی بلکہ معشوق کی خودی کا رنگ عاشق پر چڑھ جاتا ہے۔ انبیا کا کام یہ نہیں ہوتا کہ امت کے افراد کی خودی کو عجز میں تبدیل کر دیں۔ انبیا خود احرار ہوتے ہیں اور وہ انسانوں کو ہر قسم کی غلامی سے چھڑا کر مردان حر بنانا چاہتے ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ خاتم النبیین محمد مصطفیﷺ نے شبستان حرا میں خلوت گزیں ہو کر اپنی خودی کے جوہر کو چمکایا۔
قوم و آئین و حکومت اسی جوہر کی کرنیں ہیں۔ دین کا جوہر ان معنوں میں عشق یا محبت ہے کہ مرد مومن تمام افراد اور اشیا سے قلبی تعلق پیدا کرکے کائنات کی خودی وحدت کا ثبوت دیتا ہے۔ دوسروں سے محبت کرتا اور دوسروں کو اپنا ہم ذات سمجھتا ہے۔ اس طرح سے محبت کے ذریعے خودی قوی تر اور وسیع تر ہوتی جاتی ہے۔ خودی کا اصل انداز عمل مخاصمانہ یا رقیبانہ نہیں بلکہ عاشقانہ ہے۔
خودی کے ضمن میں اقبال نے یہ تحقیق کی ہے کہ نفی خودی کی تعلیم کہاں سے پیدا ہوئی اور کن اسباب سے وہ بعض اقوام پر چھا گئی۔ اس تحقیق میں اقبال نطشے سے متفق ہے کہ یہ انحطاط یافتہ اور مغلوب اقوام کی ایجاد ہے۔ جن اقوام کے قواے حیات سست پڑ جاتے ہیں،ان سست عناصر اقوام کو قوی اور جلیل اقوام کے مقابلے میں زندہ رہنے کی کوئی ترکیب سوچنی پڑتی ہے۔
زبردست اقوام تسخیر پسند ہوتی ہیں۔ زبردستوں کے ہتھیار اور ہوتے ہیں اور کمزوروں کے ہتھیار اور کمزور کبھی تو فریب اور خوشامد سے کام نکلتا ہے اور کبھی وہ ایسے نظریات کی تبلیغ کرتا ہے جس سے اس کی کمزوری ذلت کی بجائے فضیلت دکھائی دینے لگے۔ اپنی بے بضاعتی کی وجہ سے وہ فکر کو سراہنے لگتا ہے۔ ہمت کو دنیا طلبی اور عجز کو روحانیت کے رنگ میں پیش کرتا ہے۔
اپنی تعلیم میں وہ ایسی دلکشی اور لطافت پیدا کرتا ہے کہ اہل ہمت بھی یہ افیون کھانے لگتے ہیں۔ یہ مضمون نطشے کا خاص مضمون ہے اور اس نے اس نقطہ نظر سے عیسائیت پر اور اس کے پیدا کردہ اخلاقیات پر بھرپور وار کیا ہے۔ عیسوی رہبانیت کی یہ تعلیم کہ جنت ضعیفوں اور عاجزوں کو ملے گی اور صاحبان ہمت و ثروت و جبروت اس میں داخل نہ ہو سکیں گے،نطشے کے نزدیک نوع انسان کو قعر مذلت میں دھکیل گئی اور مغرب میں شیروں کو بکرا بنا گئی:
جنت از بہر ضعیفان است و بس
قوت از اسباب خسران است و بس
جستجوے عظمت و سطوت شر است
تنگدستی از امارت خوشتر است
یہ سازش مغلوب اور کمزور اقوام کسی شعوری تدبیر اور تنظیم سے نہیں کرتیں بلکہ ان کی کمزوری غیر شعوری طور پر ان کے تحفظ کیلئے یہ آلات وضع کرتی ہے۔
اقبال نے کہیں عجمی تصورات کو اور کہیں افلاطونی نظریات کو،ادبیات و حیات اسلامی کو مسموم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اسلامی سیاست کی تاریخ میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ یہود و نصاریٰ اور بعض عجمی گروہوں نے،اسلام سے مغلوب ہونے اور ظاہر میں اسلام کو قبول کرنے کے بعد،اس کی بیخ کنی کیلئے نہایت پوشیدہ اور لطیف ذرائع اختیار کئے۔ بعض تصورات فلسفے اور تصوف کے انداز میں پیش کئے گئے اور بعض تصورات موضوع احادیث نبوی کے پیرایے ہیں۔
متحققین حدیث نے ان مخترعات اور موضوعات کو بہت کچھ چھانٹا لیکن اس کے باوجود بعض چیزیں مروجہ طور پر مسلم احادیث میں ایسی ملتی ہیں جن پر شبہ ہوتا ہے کہ یہ غیر اسلامی تصورات کو اسلام میں داخل کرنے کی سازش کا نتیجہ ہیں۔ عام ادبیات اسلامیہ میں ایسے ایسے زوایاے نگاہ مسلمات میں داخل ہو گئے،جنہوں نے مسلمانوں کو زندگی کی جدوجد سے باز رکھا۔
قناعت پرستی،لذت پرستی،سکون پرستی،قطع علائق،انسان کو خود داری سے محروم کرنے والے تصورات عشق،ہوس پرستی،مصنوعی محبت،ادبیات کا تار و پود بن گئے۔
ایسا ادب قوم کے انحطاط کی علت بھی ہے اور اس کا معلول بھی۔ کسی قوم کا ادب اس کی زندگی اور اس کی تمناؤں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جب قوم پست ہمت اور سست عناصر ہو جائے تو ادب میں زندگی کی گرمی اور عمل کا جوش نظر نہیں آتا۔
عاشق خود وار کی بجائے ”آوارہٴ مجنو نے رسوا سر بازارے“ انسانیت کا دلکش نمونہ بن جاتا ہے۔ فارسی اور اُردو عام تغزل زیادہ تر اسی انحطاط کا آئینہ دار ہے۔ ایسی شاعری کے خلاف پہلے حالی نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ قیامت کے روز باقی گنہگار تو چھوٹ جائیں گے،لیکن ہمارے شعرا کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ حالی نے کسی خاص شاعر کو چن کر ہدف ملامت نہیں بنایا تھا۔ اس کی تنقید زیادہ تر عام تھی۔ لیکن اقبال نے جوش اصلاح میں حافظ پر شدید حملہ کر دیا کہ اس کا کلام مسلمانوں کیلئے افیون کا کام کرتا ہے۔
مار گلزارے کہ دارد زہر ناب
صید را اول ہمی آرد بخواب