Episode 94 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 94 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اسرار خودی لکھنے کے زمانے میں اقبال نطشے کے افکار کے ایک پہلو کا مداح تھا۔ ضعف پسندی اور نفی خودی کا اقبال بھی مخالف تھا اور نطشے بھی۔ تہذیب فرنگی کا نطشے بھی ایسا ہی مخالف تھا جیسا کہ اقبال۔ انحطاط اور پستی اور ضعف خودی کے متعلق اقبال اور نطشے کی زبان بہت ملتی جلتی ہے اور اسرار خودی میں بعض افکار اور بعض مثالیں نطشے سے ماخوذ ہیں۔ لیکن دوسرے لحاظ سے اقبال اور نطشے میں بعد المشرقین ہے۔
دونوں میں افکار کے ایک پہلو کی ظاہری مناسبت ہے۔ یہ سرسری اور ظاہری مناسبت تو منصور حلاج اور فرعون میں بھی پائی جاتی تھی۔ منصور نے بھی انالحق کہا اور فرعون نے بھی اناالحق کہا۔ لیکن دونوں کا انا بھی الگ تھا اور دونوں کا حق کا تصور بھی الگ۔ ویسے تو مولانا روم اور نطشے کے افکار میں بھی ظاہری مماثلت مل سکتی ہے۔

(جاری ہے)

مولانا بھی آرزو مند ہیں کہ موجودہ انسان اپنی موجودہ مادہ پسندی اور حیوانیت سے اوپر اٹھ جائے اور ایک نئی مخلوق بن جائے۔

مولانا کی ایک طویل غزل میں سے اقبال نے تین اشعار اس تصور کے منتخب کرکے ان کو مثنوی کا فاتحة الکتاب بنایا ہے۔ الفاظ کا ظاہر ایسا ہے کہ نطشے بھی سنتا تو پھڑک اٹھتا اور کہنے لگتا کہ میں بھی تو یہی چاہتا ہوں:
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دام و دو ملولم و انسانم آرزوست
زیں ہمرہان سست عناصر دلم گرفت
شیر خدا و رستم دستانم آرزوست
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
الفاظ کی ہم آہنگی کے باوجود رومی اور نطشے میں خاک و افلاک کا فرق ہے۔
ایک انسان کو الوہیت کا دامن چھونے کیلئے افلاک پر پہنچانا چاہتا ہے اور دوسرے کے ہاں خاک کے سوا خاک نہیں۔ اقبال کو نطشے میں یہ بات پسند تھی کہ اس سست عناصر انسان کی خودی کو مضبوط کرنا چاہئے،لیکن نطشے کے ہاں خودی کا تصور ہی محدود اور مہمل تھا۔ نطشے قوت اس لئے چاہتا ہے کہ ایک اعلیٰ تر نوع حیوان وجود میں آ سکے۔ رومی اور اقبال قوت تسخیر اس لئے چاہتے ہیں کہ انسان کی خودی مضبوط ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچ جائے کہ اس میں الٰہی صفات کی شان جھلکنے لگے۔
اقبال اور رومی عالمگیر عشق کی طرف انسانی خودی کو گامزن کرنے کے آرزو مند ہیں۔ جلال الدین رومی بھی جلالی ہیں اور اقبال بھی جلالی،لیکن ان کے ہاں جلال جمال سے ہم آغوش ہے۔ نطشے بھی قاہری کی تعلیم دیتا ہے لیکن اس کی قاہری میں دلبری نہیں۔ مومن کا یہ حال ہے کہ:
طبع مسلم از محبت قاہر است
مسلم ار عاشق نباشد کافر است
در رضائش مرضی حق گم شود
ایں سخن کے باور مردم شود
اسرار خودی میں اقبال نے وقت یا ماہیت زمان کے مسئلے کو بہت ہمیت دی ہے۔
یہ مسئلہ ہمیشہ ایک معرکة الاآرا موضوع بحث رہا ہے۔ عامت الناس اور عام دیندار لوگ اس کو کوئی دینی مسئلہ نہیں سمجھتے،لیکن حکمت پسند لوگ اس میں حیران اور سرگردان رہتے ہیں کہ وقت کو کوئی چیز بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں۔ دنیا میں یا تو اشیا و اشخاص ہیں اور یا افعال و حوادث۔ وقت نہ کوئی شے ہے،نہ کوئی شخص،نہ کوئی فعل اور نہ کوئی حادثہ۔ سب کچھ وقت میں واضع ہوتا ہے لیکن وقت کوئی واقعہ نہیں۔
فلسفیوں کی زبان میں یوں کہئے کہ یہ نہ تو جوہر ہے اور نہ عرض۔ ہر قسم کا وجود جن صفات سے متصف ہو کر وجود بنتا ہے ان میں سے کوئی صفت وقت میں نہیں پائی جاتی۔ کیا وقت ازلی اور ابدی ہے یا یہ بھی کسی وقت خلق ہوا اگر یہ خو مخلوق ہے تو اس کے خلق ہونے سے قبل بھی تو آخر کوئی زمانہ تھا تو وہ بھی وقت تھا۔
قرآن کریم کے الفاظ یہ کہتے ہیں کہ خدا نے چھ ایام میں زمین و آسمان کا خلق کیا،لیکن ہمارے ذہن میں شب و روز ایام کا جو تصور ہے وہ تو گردش ارض و مہر و ماہ سے تعلق رکھتا ہے۔
اجرام فلکیہ کے خلق ہونے اور ان کی گردش مقرر ہونے سے قبل ایام کے کچھ معنی نہیں ہو سکتے۔ اقبال مرد مومن بھی تھا اور مرد حکیم بھی۔ یہ ناممکن تھا کہ ایسا اہم مسئلہ اس کے دماغ میں گردش نہ کرتا رہے اور وہ اس کا حل تلاش کرنے کیلئے مضطرب نہ ہو۔ اپنے انگریزی خطبات میں بھی اقبال نے مسئلہ زمان کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اس کو مسلمانوں اور انسانوں کیلئے موت و حیات کا سوال قرار دیا ہے۔
یہ مسئلہ اتنا لطیف اور پیچیدہ ہے کہ اس مختصر سے مقدمے میں اس کے چند اہم پہلوؤں کو واضح کرنا بھی ناممکن ہے۔ کانٹ جیسے حکیم کبیر نے کہا کہ زمان و مکان دونوں فہم انسانی کے سانچے ڈھانچے ہیں۔ یہ دو رنگی عینک لگا کر انسان کا فہم آفاق کے مظاہر کو علائق و روابط میں منسلک کرتا ہے۔ زمان و مکان دونوں کا وجود نفسی اور اعتباری ہے۔ ماہیت ہستی میں نہ زمان ہے نہ مکان۔
بالفاظ اقبال ”نہ ہے زمانہ نہ مکان،لا الہ الا اللہ“ اقبال کا خیال بھی کچھ اسی قسم کا تھا۔ چنانچہ پیام مشرق کے ایک قطے میں فرماتے ہیں کہ:
جہان ما کہ پایانے نہ دارد
چو ماہی در یم ایام غرق است
یہ ہماری نا پیدا کنار دنیا،یہ لامتناہی عالم،مچھلی کی طرح وقت کے سمندر میں تیر رہا ہے،لیکن یہ وقت کا سمندر ہمارے نفس سے خارج کوئی مستقل حقیقت نہیں بلکہ اس کی یہ کیفیت ہے کہ ’یم ایام در یک جام غرق است‘۔
وقت کا یہ دریاے بے پایاں نفس کے کوزے میں سمایا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اقبال وقت کے مسئلے کو ایسا اہم کیوں سمجھتا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ زمان کو ماہیت وجود اور عین خودی سمجھتا ہے،لیکن یہ زمان شب و روز کا زمان نہیں بلکہ تخلیقی ارتقا کا نام ہے۔ یہ نظریہ زمان وہی ہے جسے برگساں نے بڑے دلنشین انداز میں اپنے نظریہ حیات کا اہم جزو بنایا۔
اقبال خود اس نتیجے پر پہنچے تھے۔ علامہ نے اپنے بعض علم دوست احباب سے بیان کیا کہ برگساں کا مطالعہ کرنے سے قبل میں حقیقت زماں کے متعلق آزادانہ طور پر یہ تصور قائم کر چکا تھتا اور انگلستان میں اپنی طالب علمی کے زمانے میں میں نے اس پر ایک مختصر سا مضمون بھی لکھا جس کو میرے پروفیسر نے کچھ قابل اعتنا نہ سمجھا،کیوں کہ بات بہت انوکھی تھی۔
برگساں کے زور و فکر اور قوت استدلال نے اس میں بہت وسعت اور گہرائی پیدا کر دی لیکن اقبال کے کلام کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اس مسئلے میں برگساں سے کچھ کم نہیں۔ برگساں کا بڑا مداح تھا اور اس کے فلسفے سے اقبال نے فیض بھی حاصل کیا۔
اس سے اقبال کے کلام پر کوئی دھبا نہں لگتا۔ ایسا بار ہا ہوا ہے کہ بڑے بڑے سائنٹیفک نظریات،فنی ایجادات اور حکیمانہ افکار،ایک ہی زمانے میں،ایک سے زیادہ اشخاص کی طبیعتوں میں سے ابھرے۔
اس کے بعد مورخ اس بات پر جھگڑتے رہتے ہیں کہ اولیت کا سہرا کس کے سر ہے۔ کون موجد ہے اور کون نقال،لیکن اقبال اور برگساں یا اقبال اور نطشے کے متعلق یہ بحث بے کار ہے۔
شعر میں گہرا اور پیچیدہ فلسفیانہ استدلال تو نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہو تو شاعری محض منظوم منطق بن کر رہ جائے اور اپنے فطری تاثر کو کھو بیٹھے۔ اس لئے ”الوقت سیف“ کا عنوان قائم کرکے اقبال نے اپنے تصور کے بعض اساسی خطوط کھینچ دیے ہیں۔
ان کی تشریح و تعبیر،سمجھنے والوں اور شارحوں کیلئے چھوڑ دی ہے۔ یہ عنوان اقبال نے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک قول سے حاصل کیا ہے۔ اس کے تحت میں اقبال نے جو اشعار لکھے ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ زمان یا دہر کوئی مجرد یا ساکن حقیقت نہیں بلکہ ایک تخلیقی حرکت ہے۔ ایک حدیث قدسی ہے: ”لا تسبوالدھر فانی انالدھر“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمانے کو گالیاں نہ دو کیوں کہ میں زمانہ ہوں۔
علامہ اقبال فرماتے تھے کہ گول میز کانفرنس کے سفر کے دوران میں میں برگساں سے ملا کہ اپنے اس ہم فکر اور ہم طبع مفکر سے تبادلہ خیالات کروں۔ دوران ملاقات میں حقیقت زمان پر گفتگو ہوئی جو اقبال اور برگساں کا واحد مضمون تھا۔ اقبال کہتے ہیں کہ میں نے برگساں کو بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دہر کے متعلق یہ فرمایا ہے۔ فرماتے تھے کہ برگساں سن کر اچھل پڑا اور اس کی روح بے انتہا مسرت سے لبریز ہو گئی کہ ایک نبی عظیم کے قلب پر وہی حقیقت وارد ہوئی جسے وہ استدلال اور ذاتی وجدان کی بنا پر دنیا کے سامنے عمر بھر پیش کرتا رہا۔
غرضیکہ اس نظریے کے مطابق دہر خلاق ایک شمشیر ہے جو خود اپنا راستہ کاٹتی ہوئی اور مزاحمتوں کو راستے سے ہٹاتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ دہر کی ارتقائی اور خلاقی قوت کبھی کلیم کے اندر کارفرما ہوتی ہے اور کبھی حیدر کرار کے پنجہ خیبر گیر میں۔ اس زمان حقیقی میں دوش و فردا نہیں ہیں،نہ انقلاب روز و شب ہے۔ لوگوں نے زمان کو مکان پر قیاس کر لیا ہے اور یوں سمجھ لیا ہے کہ لامتناہی لکیر ہے جو ازل سے ابد تک کھنچی ہوئی ہے۔
نافہم انسان وقت کو لیل و نہار کے پیمانوں سے ناپتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح خدا کا وقت ہمارا وقت نہیں،اسی طرح خودی میں ڈوب کر زندگی سے آگاہ ہونے اور زندگی کی قوتوں کو وسعت دینے والے انسان کا وقت بھی ماضی،حال اور مستقبل میں تقسیم شدہ کوئی مکانی انداز کی چیز نہیں۔ خودی کی ماہیت حیات جاوداں ہے:
تو کہ از اصل زماں اگہ نہٴ
از حیات جاوداں آگہ نہٴ
زندگی وقت میں نہیں گزرتی بلکہ وقت زندگی کی تخلیقی قوت ہے۔
گردش خورشید سے پیدا ہونے والا وقت مکانی اور مادی وقت ہے۔ حقیقی وقت کا اس سے کچھ تعلق نہیں۔ لیل و نہار کا شکار غلام ہوتا ہے۔ زندگی جب مردہ ہو جاتی ہے تو وہ لیل و نہار کا کفن پہن لیتی ہے اور انسان افسوس کرتا ہے کہ عمر گراں مایہ کے اتنے ایام گزر گئے اور گردش ایام مجھے موت کے قریب لے جا رہی ہے۔
اقبال مسئلہ زمان کو اس لئے اہمیت دیتا ہے کہ اس کے ہاں عبد اور حرکی تمیز کا معیار ہی یہی ہے کہ کوئی روح ایام کی زنجیر سے پابجولاں ہے یا مکانی وقت سے آزاد ہو کر اور حقیقی زمان میں غوطہ لگا کر،تسخیر مسلسل اور خلاقی کا شغل رکھتی ہے۔
اقبال کا خیال ہے کہ ازل سے ابد تک بنی بنائی تقدیر کا تصور بھی زمان کے غلط تصور کی پیداوار ہے:
عبد را ایام زنجیر است و بس
بر لب او حرف تقدیر است و بس
ہمت حر با قضا گردد مشیر
حادثات از دست او صورت پذیر
جس انسان کے ہاتھ میں زمانے کی تلوار ہو وہی زندگی کے ممکنات کو نمایاں کر سکتا ہے۔ زمانے کی ایک ظاہری صورت ہے اور ایک اس کا باطن ہے۔
زمانے کی ظاہری صورت سے موافقت پیدا کرنے والا پست ہمت زمانہ ساز ہوتا ہے۔ مرد جو زمانہ ساز نہیں ہوتا بلکہ زمانے کے ساتھ ستیز کیلئے آمادہ ہوتا ہے اور اس پیکار میں اس کو کامیابی اسی حالت میں حاصل ہوتی ہے جب کہ حقیقت زمان کی شمشیر اس کے ہاتھ میں ہو:
یاد ایامیکہ سیف روزگار
با توانا دستی ما بود یار
###

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط