Episode 95 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 95 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

چودھواں باب:
اقبال اپنی نظر میں
اقبال نے حیات و کائنات پر جو وسیع اور گہری نظر ڈالی اس سے پیدا شدہ افکار و تاثرات سے اس کا کلام لبریز ہے لیکن اقبال کی تعلیم و تلقین کا ایک بڑا اہم عنصر چشم بر خویشتن کشادی ہے۔ انسان بدن سے زیادہ ایک نفس ہے اور اس کے ظاہر سے زیادہ اس کا باطن اہم ہے۔ اقبال کے کلام سے شروع سے آخر تک مسلسل ارتقاے فکر پایا جاتا ہے۔
ابتدا میں وہ زیادہ تر ”فی کل واد یہیمون“ والا شاعر دکھائی دیتا ہے۔ گرد و پیش کی جس شے سے متاثر ہوتا ہے،اس کو فن لطیف کا لباس پہنا دیتا ہے اور خود اپنے اندر جو کیفیت محسوس ہوتی ہے،اعلیٰ ہو یا ادنیٰ صلحا و حکما و عباد کے نزدیک مستحسن ہو یا مشتبہ،سب کومن و عن ببانگ دہل،یا لطافت کے لحاظ سے یوں کہئے کہ بہ بانگ چنگ نغموں میں منتقل کر دیتا ہے۔

(جاری ہے)

اگرچہ یہ نغمے جابجا فریاد کی لے سے بھی خالی نہیں ”کوچہ گرد نے ہوا جس دم نفس فریاد ہے“ ہر شاعر اپنی شاعری میں اپنے متعلق بہت کچھ کہتا ہے۔ کبھی براہ راست اور کبھی ”گفتہ آید در حدیث دیگراں“ لیکن دنیا عام طور پر شاعروں کے اپنے متعلق بیان کا اعتبار نہیں کرتی۔ نہ صرف اس لئے کہ کبھی وہ کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ اور ہمارے ہاں کے عام بلکہ بعض خاص غزل نویس تو ایک ہی غزل کے مختلف اشعار میں فکر و تاثر کے تضاد کی پروا نہیں کرتے۔
صدیوں سے ہماری شاعری،جس میں ہم فارسی اور اُردو شاعری دونوں کو شامل کرتے ہیں،خلوص اور حقیقت سے عاری رہی ہے۔ قصائد کا دفتر تو دروغ بافی کا ایک طومار ہے۔ ان میں تمام صناعی کے محور خوشامد اور مبالغہ ہیں۔ اس طومار میں کہیں فن براے فن ہے اور کہیں فن براے زر۔ ایسی شاعری میں شاذو نادر ہی اپنی زندگی پر حقیقت طلب نگاہ ڈالی گئی ہے۔ شاعر فقط اپنے انداز بیان اور ندرت صنعت کی داد حاصل کرنا چاہتا ہے۔
نہ اس کو اس سے غرض ہے کہ وہ اپنے یا دوسروں کے متعلق سچ کہہ رہا ہے وہ واقعی محسوس کردہ ہیں یا تکلف و تصنع کا نتیجہ ہیں۔ اس لئے کوئی سخن فہم یا نقاد سنجیدہ طور پر اسے قابل غور نہیں سمجھتا کہ شاعر نے اپنے متعلق کیا کیا کہا ہے۔ کئی شعرا نے تصوف کے افکار و جذبات سے اپنے کلام میں لطف پیدا کیا،لیکن وہ اپنی زندگی میں عشق الٰہی سے کوسوں دور تھے۔
ایسوں ہی کے متعلق شیخ علی حزیں کا قول درست ہے کہ ”تصوف براے شعر گفتن خوب است۔“
اسی طرح عشق مجازی کے احوال و معاملات سے ہمارے اکثر شعرا کے دیوان بھرے پڑے ہیں،لیکن ان میں بہت سے ایسے ہیں کہ کبھی عشق مجازی کے قریب نہیں پھٹکے۔ ہوس پرستی کی شاعری میں ذوق کی صناعی دیکھئے،لیکن اس کی زندگی میں کہیں یہ دکھائی نہیں دیتا کہ وہ کبھی جنسی عشق کی گرفت میں آیا ہو۔
اس کی صناعی خود اس کی غماز ہے کہ یہاں محض فن برائے فن ہے اور بیان عشق کی تہہ میں کوئی جذبہ کافرما نہیں۔ امیر مینائی کو دیکھئے کہ تہجد گزار،تسبیح بدست عابد و زاہد،نہ جنس لطیف سے واسطہ اور نہ ہم جنسوں کے کسی قدر غیر فطری عشق سے کوئی تعلق،لیکن محض صناعی کی داد لینے کیلئے برہنہ گوئی اور فحش نگاری سے بھی گریز نہیں۔ شراب کے قطرے سے کبھی زبان آلودہ یا لطف اندوز نہیں ہوئی مگر غزلوں میں پکے شرابی بن رہے ہیں اور شراب بھی وہی افشردہ انگور،ام الخبائث جس پر کبھی صہباے عشق الٰہی کا دھوکا نہ ہو سکے۔
بعض شعرا ایسے ہیں کہ ان کا واحد مضمون خمریات ہی ہے۔ جام و مینا و خم کی جزئیات،سکر کی نفسی کیفیات،ان کی تعریف و توصیف،کمال درجے کی نکتہ آفرینی اور ترغیب شراب نوشی،لیکن اصل زندگی میں زاہد و پاکباز۔ انہیں وجوہ سے ہماری شاعری میں یہ ایک روایت پیدا ہو گئی کہ شاعر جو کچھ اپنے متعلق کہتا ہے اس پر نہ اعتبار کرو۔ کیوں کہ اس بیان کا کچھ تعلق ان کے حقائق نفسی سے نہیں ہوتا۔
اقبال کو پھر اگر کوئی شخص اسی قسم کا شاعر سمجھ لے تو اقبال اپنی نظر میں ایک بے حقیقت عنوان بن جاتا ہے۔ لیکن اقبال کی روش شروع سے ہماری روائتی شاعری سے الگ رہی ہے۔ غالب تک بھی محض لطف بیان کو وظیفہ فن لطیف سمجھتا ہے اور شاعری کا کام کبھی مضمون آفرینی قرار دیتا ہے اور کبھی کہتا ہے کہ ”نگویم اگر نغزنباشد“ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اظہار حقیقت نہیں بلکہ محض نغز گوئی اس کا مطمع نظر ہے۔
اقبال کی شاعری میں شروع ہی سے خلوص نظر آتا ہے۔ جو کچھ محسوس کرتا ہے وہی کہتا ہے اور جب تک طبیعت پر کوئی تاثر طاری نہیں ہوتا،وہ نہ دوسروں کے تقاضے سے شعر کہتا ہے اور نہ صناعی کے شوق سے۔ شعر کہنا تو درکنار جب تک طبیعت میں خاص کیفیت موجود نہ ہو وہ کسی کے تقاضے سے شعر سناتا بھی نہیں۔ فن میں خلوص کا یہ کمال ہمارے شاعرا میں الشاذ کالمعدوم ہے۔
حیات و کائنات کے متعلق اقبال کے افکار و تاثرات بہت کچھ بیان ہو چکے ہیں،لیکن یہ بیان تشنہ رہ جاتا ہے اگر اس کے ساتھ ہی اس کا جائزہ نہ لیں کہ حکیمانہ اور الہامی شاعری کے علاوہ یہ صاحب کامل شخص وقتاً فوقتاً خود اپنے اوپر نظر ڈال کر اپنی کیفیت کس طرح بیان کرتا ہے۔ اقبال ان شعرا میں سے نہیں ہے جن کے فن کو ان کی زندگی سے کوئی قریبی رابطہ نہیں ہوتا۔
اس کے کلام کا زیادہ تر حصہ حیات و کائنات کے مظاہر و حوادث پر اس کے اپنے نفس کا رد عمل ہے۔ اس کے نظریات حیات کی اپنی نفسی کیفیات کے ساتھ وابستہ ہیں۔
ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ شعرا کے اپنے بیان ذات و صفات پر لوگ اس لئے اعتبار نہیں کرتے کہ ان میں کچھ ہم آہنگی نہیں ہوتی اور خلوص کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ اگر کوئی کامل یک آہنگی اقبال میں بھی ڈھونڈے،جس کے اندر کوئی داخلی تضاد نظر نہ آئے تو اسے اس طلب میں مایوسی ہو گی۔
اقبال بھی اپنے متعلق مختلف حالات اور کیفیات میں متضاد باتیں کرتا ہے،لیکن یہ تضاد مصنوعی یا وہمی نہیں ہوتا۔ زندگی میں کامل یک آہنگی تو شاید کسی کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔ یہ ایک کمالی نصب العین ہے اور جو اس کے حصول کے مدعی ہیں وہ یا دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں یا خود دھوکا کھائے ہوئے ہیں۔ کم و بیش اندرونی پیکار اور مختلف میلانات میں کشمکش،ہمیشہ انسانی زندگی میں موجود رہتی ہے۔
برگزیدہ انسانوں کے متعلق اگر یہ درست ہے کہ:
گہے بر طارم اعلیٰ نشینم
گہے بر پشت پاے خود نہ بینم
تو عام انسانوں کے اندر،جنہیں انبیا و اولیا کا مرتبہ حاصل نہیں،یہ کیفیت اور بھی زیادہ تضاد آفرین ہوتی ہے۔ اقبال کو اخیر عمر میں بعض معتقدوں نے عابد و زاہد،عارف و ولی یا مجدد عصر سمجھنا شروع کیا،لیکن اقبال کی طبیعت میں اس قدر شناسی نے کچھ مغالطہ پیدا نہ کیا۔
وہ آخر تک معتقدوں کے اس مغالطے کو رفع کرنے کی کوشش کرتا رہا اور اس پوجا سے بچنے کیلئے اپنی کمزوریوں کو طشت از بام کرتا رہا۔ اس پر بعض معتقدوں نے یہ نظریہ قائم کیا کہ یہ عارفانہ کسر نفسی کا مظاہرہ ہے اور ایک مشہور شخص نے یہ کہا کہ حضرت اقبال صوفیہ کے فرقہ ملامتیہ میں داخل ہیں۔ جو ستائش خلق کی آفت سے بچنے کیلئے خواہ مخواہ اپنے آپ کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ لوگ انہیں عاصی یا رند سمجھیں۔
اقبال نے اپنے انداز تفکر و تاثر کو کس کس طرح بیان کیا ہے اسے پہلے اس کے ابتدائی کلام میں تلاش کرنا چاہئے۔ بانگ درا میں ”گل رنگیں“ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی فطرت کا خارجی فطرت سے مقابلہ کیا ہے۔ سوز و ساز آرزو،جو ترقی یافتہ کلام میں اس کا موضوع خاص بن گیا اور جس کیلئے آخر میں اس نے عشق کی اصطلاح کو مخصوص کر لیا،وہ ابتدا میں بھی موجود ہے۔
اس لئے کہ اقبال کی فطرت کا اصلی جوہر یہی تھا جو ارتقا کی ہر منزل میں نمایاں ہے۔ پھول کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تو بڑا مطمئن خود مست اور بے پروا معلوم ہوتا ہے۔ زندگی کی شورش اور کشاکش سے تجھے فراغت حاصل ہے جو میرے لئے باعث رشک ہے:
تو شناساے خراش عقدہ مشکل نہیں
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیب محفل ہے شریک شورش محفل نہیں
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو
اور تیری زندگانی بے گداز آرزو
اس سے آگے چل کر وہ اطمینان کو قابل رشک نہیں سمجھتا اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے،جسے وہ ابھی پورے یقین کے ساتھ پیش نہیں کرتا،کہ تو مطمئن ہے اور میں مثال بو پریشاں اور زخمی شمشیر ذوق جستجو،بظاہریہ بے اطمینانی تو خواہ مخواہ کی سزا معلوم ہوتی ہے،لیکن اس کا بھی احتمال ہے کہ انسان کا نصب العین جس انداز کی جمعیت خاطر ہے،وہ اضطراب و جستجو اور سوز و ساز ہی کے وسیلے سے پیدا ہوتی ہے اور شاید حکمت کا سرچشمہ بھی یہی بیتابی ہو:
یہ پریشانی مری سامان جمعیت نہ ہو
یہ جگہ سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو
ناتوانی ہی مری سرمایہ قوت نہ ہو
رشک جام جم مرا آئینہ حیرت نہ ہو
یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے
توسن ادراک انسان کو خرام آموز ہے

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط