Episode 96 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 96 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

دیکھئے کہ آخر میں ایک مخصوص نظریہٴ حیات کی تلقین کرنے والا اقبال اس ابتدائی نظم میں بھی موجود ہے۔ اقبال کے آخری کلام کے اشجار مثمر کے بیچ ان اشعار میں موجود ہیں۔
’خفتگان خاک‘ سے جو سوالات پوچھے ہیں وہ اقبال کی اپنی زندگی کا نقشہ ہے۔ انداز استفہام میں اپنی تمام دلی آرزوئیں بھی بیان کردی ہیں،لیکن یہ دور حیرت و تذبذب ہے۔ ابھی اقبال کو داناے راز ہونے کا احساس پیدا نہیں ہوا۔
حیات بعد الموت کے متعلق کوئی یقینی تصور ہے۔ زندوں سے اسرار کی گرہ کشائی نہ ہوئی تو اب اس دنیا کی طرف گئے ہوئے لوگوں سے پوچھتا ہے:
تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے
اپنے وطن اور اپنی ملت میں اخوت اور وحدت کا فقدان اس کیلئے سوہان روح ہے۔

(جاری ہے)

جب تک اس وطن میں وحدت مقصد اور مودت پیدا نہ ہو یہ غلام ہی رہے گا۔

اس شدت احساس نے اس کے وطنیت پر ولولہ انگیز نظمیں لکھوائیں۔ ابھی تک اس کا یہی خیال تھا کہ مذاہب تو نفاق انگیزی ہی پر تلے ہوئے ہیں۔ اگرچہ مذہب کی حقیقت افزونی محبت ہے،لیکن ہندوستان میں مذاہب اور مذاہب کے فرقوں اور ذات پات نے خلیجیں اور نفرت پیدا کر رکھی ہے۔ اقبال کا احساس دل اس سے جلتا ہے اور مایوسی میں خود کشی کرنے کو آمادہ ہوتا ہے:
چل رہا ہوں، کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے
سرزمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا، یاں تو اک قرب فراق آمیز ہے
ایسی قوم میں اس کو اپنی شاعری بھی بے کار معلوم ہوتی ہے اور وہ نغمہ پیراء سے بھی بیزار ہو جاتا ہے:
جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں
اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں
ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں
کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے
پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے
روح کے اندر گہرائی جلوت میں نہیں بلکہ خلوص میں پیدا ہوتی ہے۔
اسی ذوق نے بعض اہل دل کو راہب بنا دیا۔ جب مخلوق میں اس ذوق کی پرورش نہیں ہوتی تو طبیعت گریز کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اقبال نے کبھی صحرا و کوہسار کی طرف گریز نہ کیا،لیکن آرزو کی جو لہر طبیعت میں پیدا ہوئی،اس کو ایک آرزو والی نظم میں بیان کر دیا۔ تخیل میں اس خلوت او رفطرت سے ہم آہنگی کا لطف اٹھا لیا،اگرچہ یہ خواب کبھی زندگی میں شرمندہ تعبیر نہ ہوا:
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
آزاد فکر سے ہوں، عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا کانٹا دل سے نکل گیا ہو
اس دور میں ابھی ملت اسلامیہ اقبال کی نظرگاہ اور اس کا محور فکر نہیں بنی۔
ابھی اس کی طبیعت تمام فطرت اور تمام نوع انسان کے ساتھ رابطہ پیدا کرنے کی آرزو مند ہے۔ بعد میں اپنی ملت کو بیدار کرنے میں اپنی تمام قوت صرف کرنے سے اقبال تنگ نظر نہیں ہو گیا۔ یہ وسعت آخر تک اس کے کلام میں جھلکتی ہے،لیکن ملی شاعری میں اس نے اپنی شعاعوں کو شعلہ انگیزی کیلئے جذبہ ملی میں مرتکز کر دیا ہے۔ عقل سلیم کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اصلاح اپنے گھر سے شروع ہونی چاہئے۔
”آفتاب صبح“ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی آرزوئیں بیان کر جاتا ہے۔ ملتوں کے متعلق ابھی اس کا زاویہ نگاہ صوفیانہ ہی معلوم ہوتا ہے:
جنگ ہفتاد و دو ملت ہمہ را عذر بنہ
چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند
(حافظ)
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزاے ایماں ہو گئیں
(غالب)
ملتوں کی جنگ نہ ہندوستان کو متحد ہونے دیتی تھی اور نہ آزاد ملتوں کو صلح کی طرف مائل کرتی تھی۔
اس لئے ہر صلح جو انسان کی طرح اقبال کے دل میں بھی یہ جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ وہ جہاں بینی اور یک بینی کیلئے چشم آفتاب کا طالب ہے اور سورج کو مخاطب کرکے کہتا ہے:
شوق آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے
زندگی پھر قید زنجیر تعلق میں رہے
زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کیلئے
آرزو ہے کچھ اسی چشم تماشا کی مجھے
آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو
امتیاز ملت و آئیں سے دل آزاد ہو
بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں
نوع انسان قوم ہو میری، وطن میرا جہاں
دیدہ باطن پہ راز نظم قدرت ہو عیاں
ہو شناساے فلک شمع تخیل کا دھواں
عقدہ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے
حسن عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے
جس طرح پھول کے اطمینان پر پہلے اظہار رشک کرکے آخر میں کہا کہ نہیں ہماری بیتابی اس اطمینان سے زیادہ قیمتی معلوم ہوتی ہے،اسی طرح آفتاب کو بھی آخر میں کہتا ہے کہ ہماری جستجو کی بدولت ہمیں شاید تیری بصارت سے زیادہ بصیرت حاصل ہو۔
یہ حیرت و استفہام جو تجھ میں نہیں اور مجھ میں ہے،اسی وجہ سے مجھے پر افشاے راز قدرت ہو گا:
آرزو نور حقیقت کی ہمارے دل میں ہے
لیلیٰ ذوق طلب کا گھر اسی محمل میں ہے
کس قدر لذت کشود عقدہ مشکل میں ہے
لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے
درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں
جستجوے راز قدرت کا شناسا تو نہیں
آخر تک اقبال نے زندگی کو جستجو اور آرزو ہی سمجھا اور اس کا آرزو مند رہا کہ یہ مرحلہ شوق کبھی طے نہ ہو۔
سید کی لوح تربت کے عنوان سے جو نظم ہے اس میں بھی اقبال اپنا مقصود حیات اور لائحہ عمل سید کی زبان سے بیان کر رہا ہے:
مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں
ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
وا نہ کرنا فرقہ بندی کیلئے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جواب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط