Episode 98 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 98 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

عالم شباب میں جب عشق مجازی اور کسی حسین کی کشش کو محسوس کرتا ہے تو اس کو چھپاتا نہیں۔ کسی دور میں بھی اپنی طبیعت کے کسی میلان اور کسی جذبے کو چھپانا اقبال کا شیوہ نہ تھا۔ اس نے کبھی لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو زاہد و عابد بنا کر پیش نہیں کیا۔ ایک روز مجھ سے فرمانے لگے کہ ریا میری فطرت میں نہیں۔ اگر میں دنیا داری میں ریاکاری کی کوشش بھی کروں تو کبھی کامیابی سے اس کو نبھا نہ سکوں۔
شبابی عشق کی عاشقانہ نظمیں بانگ درا کے مجموعے میں موجو ہیں،جن سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس کی فطرت زندگی کے کسی تجربے سے محروم نہیں رہی۔ ”در عنفوان جوانی چنانکہ افتد دانی“ یہاں بھی موجود ہے۔ اکبر الہ آبادی نے ایک شعر میں کہا ہے کہ میں اپنی زندگی کی تمام روئیداد ”افتددانی کے سوا“ سنانے کو تیار ہوں۔

(جاری ہے)

مگر اقبال ان واقعات کو نظم میں بھی بیان کرتا ہے اور گفتگو میں بھی احباب سے اس کا تذکرہ کرنے میں دریغ نہیں کرتا:

جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے
خوبی قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے
نامرادی محفل گل میں مری مشہور تھی صبح
میری آئینہ دار شب دیجور تھی
اب تاثر کے جہاں میں وہ پریشانی نہیں
اہل گلشن پر گراں میری غزل خوانی نہیں
ہماری روایتی شاعری میں عاشقوں نے ہمیشہ معشوقوں پر ہرجائی ہونے کا الزام لگایا ہے۔
حالانکہ ہوس پرستی میں عاشق بھی معشوقوں سے کم ہرجائی نہیں ہوتے۔ لیکن شعر کہنے والے عاشق ہیں اور ”قلم در کف دشمن است“ محبوبوں کی بے وفائی کا رونا روتے ہیں،مگر اپنے ہرجائی ہونے کا ذکر نہیں کرتے۔ کبھی کبھار کوئی شاعر صرف واسوخت میں انتقاماً کہہ جاتا ہے کہ:
تو جو ہرجائی ہے اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
لیکن اقبال کی راست بیانی کی داد دیجئے کہ اس نے اپنے ”عاشق ہرجائی“ ہونے پر ایک مستقل نظم لکھ ڈالی ہے۔
زور شور سے اس کا اقرار کیا ہے۔ اگرچہ اس صفت کیلئے صوفیانہ اور حکیمانہ جواز پیدا کرنے کی بھی دلکش کوشش کی ہے:
حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کیلئے
پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پرواہ بھی ہے
تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار
تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟
جیسے کسی نبی صادق کی صداقت کا ایک قاطع ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنی کسی کمزوری یا بتقاضاے بشریت ادنیٰ لغزش کو بھی ہمیشہ کیلئے تمام جہاں پر طشت ازبام کر دے،اسی طرح ایسی شاعری کا بھی یہی شیوہ ہے،جسے جزو پیغمبری کہتے ہیں کہ ننگ و نام سے بے پروا ہو کر شاعر پر جو واردات گزری ہے،اسے فن لطیف کے سانچے میں ڈھال کر بقاے دوام بخش دے۔
اقبال نے بھی یہی کیا،تاکہ لوگ اسے بعد میں شروع سے آخر تک زاہد و عابد اور صوفی و مجدد ہی نہ سمجھ لیں۔ زندگی کے تمام مراحل سے گزرنے والا حقائق نفس انسانی کے متعلق زیادہ بصیرت حاصل کر سکتا ہے اور بہتر قسم کا مجدد بن سکتا ہے۔ عشرت امروز میں اپنے شباب کی کیفیت اور شباب کے نظریہ حیات:
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
کو کیا عمدگی سے کھول کر بیان کیا ہے:
نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش و سرور
نہ کھینچ نقشہٴ کیفیت شراب طہور
مجھے فریفتہ ساقی جمیل نہ کر
بیان حور نہ کر ذکر سلسبیل نہ کر
شباب آہ کہاں تک امیدوار ہے
وہ عیش عیش نہیں جس کا انتظار رہے
عجیب چیز ہے احساس زندگانی کا
عقیدہ ’عشرت امروز‘ ہے جوانی کا
یورپ میں عملی زندگی کی گہما گہمی اور ہر سمت میں اہل فرنگ کی جدوجہد کا اقبال نے جب اپنی ملت کی معاشرت سے مقابلہ کیا تو وہ اس کو نہایت خفتہ اور انفعالی نظر آئی۔
پڑھے لکھے مسلمانوں بلکہ ان پڑھوں میں بھی ہمارے ہاں شاعروں،متشاعروں اور تک بندوں کی جو کثرت ہے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں پائی جاتی۔ شاعر مغرب میں بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن لاکھوں میں ایک۔ یہاں پر تو یہ صنعت گھر گھر پھیلی ہوئی ہے۔ مغرب میں اقبال کے دل میں یہ خیال گزرا کہ کام کرنے والی قوموں میں یہ وبا نظر نہیں آتی۔ اگر ملت خفتہ کو عمل پر آمادہ کرنا ہے تو اس شغل بے کاری سے اس کا رخ پھیرنا چاہئے اور مثال قائم کرنے کیلئے خود بھی یہ ارادہ کیا کہ شاعری ترک کر دوں۔
یہ قصہ ان کے دوست سر عبد القادر مرحوم نے بیان کیا ہے۔ اقبال ایک ہنگامی جذبے میں یہ بھول گیا کہ ایک قسم کی شاعری قوموں کے انحطاط کا مظہر اور ان کی قوتوں کو سلا دینے والی ہوتی ہے۔ لیکن ایک دوسری قسم کی شاعری،جس کی کمال درجے کی اہلیت اس میں موجود تھی،قوموں کیلئے پیام حیات بھی ہو سکتی ہے۔ تھوڑے عرصے تک اقبال اپنے خاص مشن سے غافل ہو گیا،لیکن پھر اس کی فطرت نے اندر سے بڑے زور شور سے پکارا:
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرف آرزو کا
اب وہ سنبھل گئے اور اس حقیقت کو پا گئے کہ قوموں کو بیدار اور خود دار بنانے کیلئے حکمت و ہمت اور ضمیر فطرت سے ابھرنے والی شاعری ایک زبردست آلہ ہے۔
جس دوست سے شاعری کے ترک کرنے کا ذکر کیا تھا اب اسی کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ:
اٹھ کر ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
ٹینی سن نے کیا خواب کہا ہے کہ جس شاعری سے ملت کے دل قوی ہوں وہ خود ایک زبردست عمل ہے:
شاعر دلنواز بھی بات اگر کہے کھری
ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری
اہل زمیں کو نسخہ زندگی دوام ہے
خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری
گلشن دہر میں اگر جوے مے سخن نہ ہو
پھول نہ ہو کلی نہ ہو سبزہ نہ ہو چمن نہ ہو
رات اور شاعر کے عنوان سے جو نظم کہی ہے اس میں شاعر کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ اقبال کی اپنی کیفیت ہے:
میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں
چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں
#
دن کی شورش میں نکلتے ہوئے شرماتے ہیں
عزلت شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں
برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے
دیکھنے والی جو ہے آنکھ کہاں سوتی ہے؟
ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں
تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط