Episode 99 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 99 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اقبال کو جن لوگوں نے فرقہ ملامتیہ کا ایک فرد قرار دیا ہے ان کو اپنے اس نظریے کا ثبوت سب سے مضبوط اس نظم میں مل سکتا ہے جس کا عنوان ہے نصیحت۔ اس میں ایک ریاکار لیڈر کا نقشہ کھینچا ہے اور اپنے آپ کو تمام بیان کردہ صفات مذمومہ سے ملوث کر دیا ہے۔ مگر اس نظم کا انداز اس قسم کا ہے کہ اقبال کے کہنے کے باوجود کوئی شخص یہ دھوکا نہیں کھا سکتا کہ یہ خود حضرت اقبال کی سیرت اور اعمال کا نقشہ ہے۔
ایک دلکش شاعرانہ انداز بیان ہے۔ اقبال کے زمانے میں بھی سیاسی لیڈر ایسے ہی تھے اور اب بھی قوم کی بدقسمتی سے ایسی ہی سیرت کے مالک قوم کی رہبری کے مدعی ہیں اور انگریزی سیاسی لیڈروں کے انتخاب کا جو طریقہ چھوڑ گیا ہے جب تک اس میں کوئی انقلابی تبدیلی واقع نہ ہو،قوم کی قسمت کی باگیں اسی قسم کے ریاکاروں اور مجرموں کے ہاتھوں میں رہیں گی۔

(جاری ہے)

الا ماشاء اللہ۔ کچھ اللہ کے مومن،خلوص کیش اور ایثار پیشہ لوگ ابھی کبھی کبھی صاحب اقتدار اور ارباب حل و عقد ہو جاتے ہیں،لیکن ان کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ ان کے نیک ارادے اور مخلصانہ اعمال حسب دل خواہ نتائج پیدا نہیں کر سکتے۔ اقبال نے ان رہزن رہنماؤں کے صفات جو بیان کئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کی رہبری کا دعویٰ ہے اور اسلام اسلام پکارتے ہیں لیکن نماز روزہ غائب۔

 دل میں لندن کی ہوس،لب پہ ذکر حجاز۔ سرکاری کاموں کے سلسلے میں یا جھوٹ موٹ یوں ہی سرکاری کام پیدا کرکے فرنگ اور امریکہ کے دس چکر لگاتے ہیں۔ ساحل حجاز کے قریب سے گزرتے ہیں لیکن کسی کو حج یا عمرہ کی توفیق نہیں ہوتی۔ اپنے ہر دروغ کو مصلحت اندیشی سمجھ لیتے ہیں۔ خوشامد کا فن لطیف اعجاز کے درجے تک پہنچ گیا ہے۔ جس کے ہاتھ میں حکومت آ جائے اس کی مدح سرائی شروع ہو جاتی ہے اور جہاں اس کا تختہ الٹا،اس کی مذمت میں صاف گوئی کی داد لینا چاہتے ہیں اور نئے آنے والیکی قیصدہ خوانی شروع ہو جاتی ہے۔
درحکام کا طواف ان کا شیوہ ہے۔ ہوس جاہ کو پردہٴ خدمت دیں میں چھپاتے ہیں۔ اس میں سیاسی قسم کے علماء دین کہلانے والے بھی داخل ہیں اور دین سے مطلقاً بے بہرہ اقتدار کے طالب بھی۔ عید کے روز یہ سب ریاکار عید گاہ میں نظر آتے ہیں تاکہ عوام ان کی دینداری سے آگاہ ہو جائیں۔ کچھ اخباروں کو اپنے ہاتھ میں رکھنا لازمی ہے تاکہ ان کی ہر حرکت اور ہر تقریر،خواہ دوسروں سے لکھوائی ہوئی ہو مشتہر ہوتی رہے۔
ان تمام صفات کے ساتھ اگر شاعری بھی آتی ہو تو سبحان اللہ۔ اس ساحری کی بدولت تقریر و تحریر میں اور جذبہ آفرینی ہو سکتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ جس میں یہ سب اوصاف موجود ہوں جو مجموعی طور پر سیاسی اقتدار کے ضامن ہیں اور پھر ایسا شخص حصول اقتدار کی تگ و تاز میں شامل نہ ہو تو نہایت تعجب انگیز بات ہے۔ اس نظم میں بے چارے اقبال نے ریا کاری اور گناہوں کا بھاری پلندہ اپنی گردن پر رکھ لیا ہے۔
جس طرح کوئی مرد معصوم ناکردہ گناہ اپنی قربانی سے گناہ گاروں کے اعمال کا کفارہ بن جائے۔ اس تمام نظم میں حقیقی اقبال کہیں بھی نہیں۔
اقبال کے کلام میں جا بجا یاس کا اندھیرا بھی ہے اور امید کی افق تابی بھی۔ لیکن وہ زندگی کے لامتناہی ممکنات کا معتقد ہے اس لئے حاضر کی تیرہ بختی اس کو مستقبل سے نا امید نہیں کرتی۔ اس کی یاس انگیز نظموں میں بھی آخری حصے میں امید یاس پر غالب آ جاتی ہے۔
زندگی امید و بیم کی مسلسل کشا کش کا نام ہے۔ کبھی اقبال کو یہ خوشگوار احساس ہوتا تھا کہ میں نے اس خستہ و خفتہ ملت میں نئی روح پھونک دی ہے اور میری نوا سے مردے زندہ ہو گئے ہیں۔ لیکن پھر گرد و پیش نظر ڈالتا تھا تو نفوس میں کہیں حیات انگیز انقلاب دکھائی نہ دیتا تھا۔ پھر مایوسی کی ایک لہر دل میں اٹھتی تھی۔ اس نے اپنے کلام کے ایک مجموعے کا نام بانگ درا تجویز کیا اور قومی ترانے کے مقطع میں کہا:
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
لیکن پھر کسی دوسری کیفیت میں وہ حسرت و یاس سے کہتا ہے کہ جس کو میں آواز رحیل کارواں سمجھا تھا اور تو اک درماندہ رہرو کی صداے درد ناک تھی:
تھی کسی درماندہ رہرو کی صداے درد ناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں
اور اپنی نوا گری اس کو اسی قسم کی نظر آنے لگتی ہے کہ اجڑے ہوئے گلستاں میں کسی سوکھی ہوئی شاخ پر ایک بلبل نالہ گر ہے اور تاثیر کا طالب ہے کہ شاید اس کی نوا سے باغ میں پھر بہار عود کر آئے:
میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے
#
عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرداز چمن
ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
یاس کی ان ہنگامی لہروں کے باوجود اقبال کا پیام، پیام امید ہے۔
اس کے نزدیک نہ صرف ملت اسلامیہ بلکہ تمام نوع انسان کا مستقبل نہایت درخشندہ ہے اور فطرت ایک نیا آدم تعمیر کرنے میں کوشاں ہے۔ جس کی بدولت علم و عشق کی آمیزش سے ایک نیا عالم ظہور میں آئے گا۔
تقسیم برصغیر سے پہلے ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک ہیجان پیدا ہوا اور انہوں نے محسوس کیا کہ اب سیاست محض کھیل نہیں بلکہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔
اسی دور میں اقبال نے عملی سیاست میں قدم رکھا ورنہ وہ تمام عمر سیاست کی ابلیسانہ بساط شطرنج سے دور ہے۔ سیاست میں جس قسم کی تگ و دو اور جوڑ توڑ کرنے پڑتے ہیں وہ طبعاً اس کیلئے موزوں نہ تھے۔ سیاسی رہنما اور ہیجان آفرین لیڈر ان کو بے عمل کہتے تھے اور کاہل ہونے کا طعنہ بھی دیتے تھے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوتے۔ جس زمانے میں اقبال انار کلی میں رہتے تھے ایک روز محمد علی اور شوکت علی ان کے ہاں وارد ہوئے اور کہا کہ ظالم تو سب کو گرما کر اور جدوجہد پر آمادہ کرکے خود یہاں سکون سے بیٹھا ہے۔
یہ کیا تساہل ہے۔ اٹھ! تو خود بھی شریک تک و تاز ہو۔ اس کے جواب میں علامہ نے انہیں ایک نہایت لطیف جواب دیا کہ بھائی تم اس حقیقت سے ناواقف معلوم ہوتے ہو کہ میں قوم کا قوال ہوں۔ قوال گاتا ہے تو محفل میں لوگوں کو وجد آتا ہے اور سر و پا کا ہوش نہیں رہتا۔ تم نے کبھی کسی قوال کو بھی دیکھا ہے کہ وہ خود بھی وجد میں آکر الٹنا پلٹنا شروع کر دے۔ اگر قوال ایسا کرے تو قوالی ہی ختم ہو جائے۔
تم لوگ جاؤ جوش و مستی میں ’حال کھیلو‘ قوال سے یہ توقع نہ رکھو۔ لوگوں کے طعنے سن سن کر اقبال نے بھی اپنے آپ کو بے عمل کہنا شروع کر دیا کہ میں گفتار کا غازی ہوں کردار کا غازی نہیں:
دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپناوہ اک
مرد تن آساں تھا تن آسانوں کے کام آیا
اقبال تن آسان ہو تو ہو ’من آسان‘ نہیں تھا۔ من میں تو وہی سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی اور دل و جگر سے شعلے اٹھنے کے ساتھ آتش نوائی:
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
جہاد صرف تلوار ہی سے نہیں ہوتا بلکہ قلم اور زبان اور افکار و جذبات سے بھی ہوتا ہے اور جب تک نفوس میں انقلاب پیدا نہ ہو از روے قرآن کسی قوم کی حالت نہیں بدل سکتی۔
اقبال اس بلند سطح پر مجاہد تھے۔ لیکن عام لوگوں کے نزدیک جسے سیاست کہتے ہیں اس ابلیسانہ بازی کے کھلاڑی نہ تھے۔ ایک صاحب نے خط میں یہی تقاضا کیا کہ آپ عملی سیاست میں کیوں حصہ نہیں لیتے۔ اس کے جواب میں جو اشعار کہے ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال اپنی طبیعت کے انداز اور اپنے وظیفہ حیات سے پوری طرح واقف ہو گیا تھا۔ اب لوگوں کے تقاضے اور طعنے اس کو اپنے مخصوص مشن سے ہٹا نہ سکتے تھے۔
ایک خط کے جواب میں
ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میں ہمت تگ و تاز
حصول جاہ ہے وابستہ مذاق تلاش
ہزار شکر طبیعت ہے ریزہ کار مری ہزار
شکر نہیں ہے دماغ فتنہ تراش
مرے سخن سے دلوں کی ہیں کھیتیاں سرسبز
جہاں میں ہوں میں مثال سحاب دریا پاش
یہ عقدہاے سیاست تجھے مبارک ہوں
کہ فرض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش
ہواے بزم سلاطین دلیل مردہ دلی
کیا ہے حافظ رنگیں نوا نے راز یہ فاش
’گرت ہواست کہ با خضر ہم نشیں باشی
نہاں ز چشم سکندر چوآب حیواں باش‘
میں اور تو کے عنوان سے بانگ درا میں ایک غزل نما نظم ہے،جس میں اقبال اپنی کیفیت کا عام افراد ملت کے فکر و عمل سے مقابلہ کرتا ہے۔
یہ ان چند نظموں میں سے ہے جن میں یاس کا رنگ امید پر کسی قدر غالب معلوم ہوتا ہے۔ ملت کی موجودہ پست حالت کے مد نظر وہ اپنی کوششوں کو بے سود اور بے اثر سمجھتا ہے:
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں ہلاک جادوے سامری، تو قتیل شیوہٴ آزری

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط