اقبال نے اپنی طبیعت کے ایک اور امتیازی عنصر کو بھی کئی جگہ بیان کیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آفرینش فکر اور فن لطیف کیلئے خارجی محرکات لازمی ہیں اور جب تک ماحول میں کوئی تقاضا موجود نہ ہو،طبیعتوں کے اندر سے نئی باتیں نہیں ابھرتیں۔ یہ ایک متنازع مسئلہ ہے کہ انسانی تاریخ میں انقلاب ماحول کے تغیر سے پیدا ہوئے ہیں یا غیر معمولی انسانوں کے نمودار ہونے سے۔
اشتراکی فلسفہ ماحول کو اہم اور مقدم سمجھتا ہے اور اس کی تعلیم یہ ہے کہ معاشی زندگی میں تبدیلی سے علوم و فنون اور مذہب و اخلاق بھی متغیر ہو جاتے ہیں۔ انبیا ہوں یا مصلحین،سب معاشی تغیرات کی پیداوار ہیں۔ اقبال اس کے برعکس اور کار لائل کا ہم نوا ہو کر،زندگی کو بدلنے والے اور آگے بڑھانے والے عوام میں غیر معمولی انسانی کو موثر حاصل سمجھتا ہے۔
(جاری ہے)
اب سوال یہ ہے کہ اقبال کو ماحول نے پیدا کیا یا اقبال نے ایک نیا ماحول پیدا کیا۔ اقبال کا اپنے متعلق یہ احساس ہے کہ میں نے یہ کچھ کہا ہے وہ میرے باطن میں ابھرا ہے۔ پنجاب کے یا ہندوستان کے عام ماحول نے،جس سے مسلمان کم و بیش ایک ہی طرح متاثر تھے،نہ اقبال سے پہلے کوئی ایسا شاعر پیداکیا اور نہ اقبال کے بعد۔ اُردو شاعری کو ہندوستان کے اہل زباں اور وہاں بھی خاص شہروں کے لوگ اپنا اجارہ سمجھتے تھے اور حالی جیسے شاعر پر بھی طعنہ زنی کرتے تھے کہ وہ دہلی کا نہیں بلکہ پانی پت کا باشندہ ہے۔
اس سے جل کر حالی نے کہا تھا:
حالی کو تو بدنام کیا اس کے وطن نے
پر آپ نے بدنام کیا اپنے وطن کو
اہل پنجاب کو تو بھلا یہ لوگ کس شمار میں لاتے،لیکن دہلی اور لکھنوٴ کوئی اقبال پیدا نہ کر سکے۔ سرسید کی تحریک بڑے زور کی اصلاحی تحریک تھی۔ سرسید کے رفقا نے مسلمانوں کے عروج و زوال کا جائزہ لیا اور مسلمانوں کیلئے بصیرت افزا چیزیں چھوڑ گئے۔
اس تحریک نے حالی کی تو معمولی غزل گوئی سے نکال کر قومی اور حکیمانہ شاعری کی طرف رہنمائی کی،لیکن وہاں بھی ادیبوں اور شاعروں کے ہجوم میں سے کوئی اقبال پیدا نہ ہو سکا۔ اس لحاظ سے اقبال کا یہ خیال غلط نہ تھا کہ میرے نظریات اور جذبات اور میرے کلام میں جو امتیازی خصوصیت ہے وہ میرے باطن میں سے ابھری ہے۔ میں اس کیلئے خارجی ماحول کا نہ محتاج تھا اور نہ رہین منت:
اقبال نے کل اہل خیاباں کو سنایا
یہ شعر نشاط آور و پر سوز و طربناک
میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج
کرتا ہے مرا جوش جنوں میری قبا چاک
غالب کہتا ہے:
چاک مت کر جیب بے ایام گل
کچھ ادھر کا بھی اشارا چاہئے
لیکن حضرت اقبال خارجی بہار کے اشاروں پر نہیں بلکہ باطنی وجدان کے اشاروں پر چلتے ہیں۔
اس لئے فرماتے ہیں کہ میں دست صبا کا محتاج کیوں ہوں،میری فطرت خود نسیم سحری ہے:
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سرخار کو سوزن کی طرح تیز
اقبال کو طبعاً امارت کے ٹھاٹھ پسند نہ تھے۔ اگر وکالت کے پیشے کی طرف پوری توجہ کرتے تو بہت سی دولت کما لیتے،لیکن زر اندوزی ان کا مقصود نہ تھا۔
رہائش کا طرز نہایت سادہ تھا۔ خورو نوش بھی سادہ،مکان میں آرائش کا سامان مفقود۔ کچھ طالب علمانہ اور قلندرانہ سی زندگی تھی۔ اسے درویشی یا غریبی تو نہیں کہہ سکتے،لیکن سادگی ضرور تھی۔ طبیعت میں اسباب حیات اور ماحول کے متعلق ایک قلندرانہ بے پروائی تھی۔ اقبال نے جابجا قلندری کا ذکر کیا ہے۔ یہ کوئی بناوٹ کی بات نہ تھی بلکہ اس کی فطرت کا میلان تھا۔
اپنے فرزند جاوید کو بھی نصیحت کرتے ہیں:
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
آرائش و زیبائش کے سامان اور امیرانہ طرز زندگی کسی حد تک خودی کو بیچ کر ہی حاصل ہوتے ہیں۔ کہیں دروغ،کہیں خوشامد دنیاداری کے دام فریب،اخلاق اور روحانیت بلکہ علم و فن میں بھی اپنے کمال کو ملوث ہونے سے بچانے کیلئے قلت احتیاج لازمی چیز ہے۔
احتیاج میں اضافہ کرنا بزدلی اور مکاری پیدا کرتا ہے۔ اقبال نے اپنی خودی کو اپنی سادہ زندگی کی بدولت بچایا۔ میری اور امیری زیادہ تر ایسے ہی لوگوں کے درمیان نظر آتی ہے جو یا تو دین سے معرا ہیں اور یا دین اور دولت کے درمیان عقل کی حیلہ گری سے ایک سمجھوتا قائم کر لیا ہے۔ روحانی لحاظ سے تو دنیا کے اکثر دولت مند مردان فرومایہ ہی نظر آتے ہیں۔
اس لئے تاریخ ادیان پر نظر ڈالو تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہر روحانی پیشوا درویش تھا۔ اقبال بھی کہتا ہے:
اک مفلس خوددار یہ کہتا تھا خدا سے
میں کر نہیں سکتا گلہ درد فقیری
لیکن یہ بتا تیری اجازت سے فرشتے
کرتے ہیں عطا مرد فرو مایہ کو میری؟
ہندوستان میں فرنگی حکومت کے دوران میں کسی شخص کو جاہ و مال حاصل نہ ہو سکتا تھا جب تک کہ وہ حکام کی خوشامد نہ کرے اور مال کو قرب حکام کا ذریعہ نہ بنائے۔
خوشامد سے عہدے اور خطاب ملتے تھے۔ کسی شخص کے حقیقی کمال کی کچھ پرسش نہ تھی۔ ایسی حالت میں اہل دل کیلئے درویشی اور بھی زیادہ لازم ہو جاتی ہے۔ اسی کیفیت کو اقبال نے اس قطعے میں بیان کیا ہے:
فرنگ آئین رزاقی بداند
بایں بخشد ازو وا می ستاند
بہ شیطان آنچناں روزی رساند
کہ یزداں اندراں حیران بماند
اقبال جو اپنے کلام میں خودی کا پیامبر دکھائی دیتا ہے وہ اپنی زندگی میں بھی نہایت درجہ خود دار تھا۔
اسے اپنی خود داری کا بڑا پاس اور گہرا احساس تھا۔ سر اکبر حیدری نے جو اقبال کی دوستی کا دم بھرتے تھے،لیکن حد درجے کے دنیا دار تھے،یہ دیکھ کر کہ اقبال مفلس ہو گیا ہے،اس کو نظام کے توشہ خانے سے ایک ہزار روپیہ کا چیک بھجوا دیا۔ یہ حقیقت میں ایک خیراتی فنڈ میں سے دیا گیا تھا۔ اقبال کی خود داری کو اس سے نہایت ٹھیس لگی وہ چیک واپس کرکے کچھ اشعار لکھ دیئے کہ خدا اگر اپنی خدائی کی زکوٰة نکالتے ہوئے مجھے شکوہ پرویز بھی عطا کرے تو میں اس کو ہرگز نہ قبول کروں:
غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اس نے، یہ ہے میری خدائی کی زکوٰة
اقبال رفتہ رفتہ رہین عشق اور مست خودی ہو کر ہر اس چیز سے بے نیاز ہو گیا جس کا ماخذ یا مظہر عشق نہ ہو۔
اس کیفیت کے متعلق اس نے جو کچھ کہا اور وعدہ کیا ہے،اس میں قطعاً کوئی تعلی یا تصنع نہیں ہے۔ جو اقبال کے خلوص سے پوری طرح آشنا نہ ہو وہ اسے شاعرانہ تعلی سمجھے گا:
جہاں از عشق و عشق از سینہ تست
سرورش از مے دیرینہ تست
جز ایں چیزے نمیدانم ز جبریل
کہ او یک جوہر از آئینہ تست
#
مرا ایں سوز از فیض دم تست
بتاکم موج مے از زمزم تست
خجل ملک جم از درویشی من
کہ دل در سینہ من محرم تست