جہان کی اپنی حقیقت جو کچھ بھی ہو،وہ ہمارے احساس و ادراک میں جس طرح آتا ہے،ہمارے شعور کے سانچوں میں ڈھل کر آتا ہے۔ جسے رنگ و بو کہتے ہیں وہ ہمارے محسوسات ہیں۔ ہمارے حواس نہ ہوں تو یہ بھی نہ ہوں۔ انگریزی فلسفی لاک نے پہلے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ عالم مادی کا ایک مستقل وجود ہے جو ہمارے شعور کا رہین منت نہیں۔ لیکن رنگ و بو اور سردی گرمی وغیرہ اس اثر کا نتیجہ ہیں جو عالم مادی ہمارے حواس پر کرتا ہے۔
بعد میں المانوی فلسفی کانٹ نے اس سے بڑھ کر ایک قدم اٹھایا کہ عالم مادی کی اپنی جو ماہیت ہے وہ ہم پر کبھی منکشف نہیں ہو سکتی۔ وہ جو کچھ ہے پہلے ہمارے محسوسات کے سانچوں میں ڈھلتا ہے اور اس کے بعد علت و معلول کے معقولی سانچے میں،جو مظاہر کو آئین میں منسلک کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
گویا کائنات میں جو تنظیم دکھائی دیتی ہے وہ ہماری عقل کی آفریدہ ہے۔ نفس انسانی عالم مادی کے وجود مطلق کا تو خلاق نہیں لیکن اس کے مظاہر کا شیرازہ بند ہے۔
یہ آئیڈیلزم کا ایک نظریہ ہے جو قانون تعلیل اور زمان و مکان کو آفاقی نہیں بلکہ نفسی قرار دیتا ہے۔ نظریہ کائنات کے لحاظ سے اقبال بھی آئیڈیلسٹ ہے۔ اس جواب میں اسی نظریے کی ترجمانی ہے۔
جہان رنگ و بو گلدستہ ما
زما آزاد و ہم وابستہ ما
خودی او را بہ یک تار نگہ بست
زمین و آسمان و مہرو مہ بست
دل ما را بہ او پوشیدہ راہے ست
کہ ہر موجودہ ممنون نگاہے ست
اگر جہان کو کوئی دیکھنے والا نہ ہو تو اس کا اپنا وجود کچھ ہو گا تو سہی لیکن بے حقیقت ہو گا۔
اجرام فلکیہ ہوں یا گل و گلزار یا قلزم و کہسار،ان کی صورتیں ہمارے شعور اور حسی ادراک نے متعین کی ہیں۔ گویا ایک لحاظ سے انسان کا نفس ان کا آفرید کار ہے:
گر او را کس نہ بیند زار گرد
داگر بیند یم و کہسار گردد
یہ ناظر و منظور یا شاہد و مشہود کا قصہ ایک عجیب راز ہے،جہاں کا ہر ذرہ گویا زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ ہے کوئی دیکھنے والا جو مجھے مشہود و موجود کر دے۔
انسان کے فیض نظر کے بغیر ہستی نیستی کے برابر ہے۔ جسے جہان کہتے ہیں وہ نفس انسانی کی ایک تجلی ہے۔ انسان نہ ہو تو رنگ و بو اور نور و صدا معدوم ہو جائیں۔ اقبال کی اصطلاح میں خودی صیاد ہے اور کونین اس کے نخچیر ہیں:
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
عارف رومی جو ان نظریات میں اقبال کا معلم و مرشد ہے،اس کے نزدیک تو صرف خدائی نہیں بلکہ خدا بھی انسان کی لپیٹ میں آ سکتا ہے
بزیر کنگرہ کبریاش مردانند
فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر
اسی تصور کو اقبال نے اپنے اس شعر میں ڈھالا ہے:
در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
اس نظریہ علم و شہود کا لب لباب رومی کے اس شعر میں موجود ہے جس کا حوالہ پہلے آ چکا ہے:
قالب از ما ہست شد نے ما ازو
بادہ از ما مست شد نے ما ازو
تیسرا سوال یہ ہے:
وصال ممکن و واجب بہم چیست
حدیث قرب و بعد و بیش و کم چیست
امکان و وجود کا مسئلہ فلسفے اور علم الکلام کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
ہستی باری تعالیٰ کو ذات واجب الوجود کہتے ہیں،یعنی اس کا ہونا لازم ہے۔ اس کے ماننے کے بغیر عقل کو چارہ نہیں۔ وہ ہستی مطلق ہے جو واجب بھی ہے اور قدیم بھی۔ اس کے ماسوا جو کچھ ہے وہ حادث ہے،یا ممکن ہے۔ یعنی اس کا ہونا لازمی نہیں۔ اس کی ہستی اور نیستی دونوں کا امکان ہے۔ اس کا جو کچھ وجود ہے وہ ہستی واجب الوجود سے مستعار ہے لیکن اشکار یہاں پیدا ہوتا ہے کہ ماسوا یا حادث و ممکن کا ظہور بھی آخر ہستی مطلق اور واجب کی بدولت ہوتا ہے۔
خدا اپنی مخلوقات سے،جو ممکنات پر مشتمل ہے،بالکل بے تعلق تو نہیں ہو سکتا،لیکن یہ تعلق منطقی عقل کے ادراک میں نہیں آتا۔ ہستی واجب و قدیم،حادث و ممکن سے قریب بھی ہے اور بعید بھی،یہاں وصل بھی ہے اور فراق بھی۔ از روے منطق تو وصل اور فراق میں تضاد ہے،لیکن از روے حقیقت یہ دونوں کیفیتیں بیک وقت موجود ہیں۔ ”نحن اقرب الیہ من حبل الورید“ حقیقت مطلقہ یعنی خدا کو انسان کی شہ رگ سے زیادہ نفس انسانی سے قرب بھی ہے اور دوسری طرف خالق و مخلوق میں ناقابل عبور خلیج بھی ہے۔
اس وصل و فراق کے سمجھنے میں عقل عاجز معلوم ہوتی ہے۔ اسی لئے عارف رومی فرماتے ہیں:
اتصالے بے تکیف بے قیاس
ہست رب الناس را با جان ناس
کیفیت اور قیاس میں تو نہیں آیا لیکن یہ اتصال ایک حقیقت ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جس طرح جان یا نفس اور تن میں نہایت ہی قریبی رابطہ بھی ہے،حالانکہ نفس اور بدن کیفیت و صفات کے لحاظ سے نوعیت میں مختلف ہیں:
تن ز جان و جان زتن مسترو نیست
لیک کس را دید جاں دستور نیست
علامہ اقبال نے اپنے جواب میں اس اشکال کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔
جواب کے پہلے حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ ’جہاں چون و چند‘ سہ پہلو ہے۔ یہ تین پہلو کون سے ہیں،س کی تشریح اقبال نے نہیں کی۔ لیکن آگے چل کر جو استدلال ہے اس سے یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ایک پہلو مادہ ہے،دوسرا زمان،تیسرا مکان۔ علامہ فرماتے ہیں یہ ’کیف و کم‘ کا جہان ہے جسے فارسی میں چون و چند کہتے ہیں۔ خرد کا کام یہی ہے کہ وہ ایک طرف ریاضیات کی مدد سے طبیعی مظاہر کو ناپے اور تولے اور دوسری طرف کمیت یا مقدار کے علاوہ کیفیت کی بھی توجیہ کرے کہ کوئی چیز جیسی ہے،ویسی کیوں ہے؟ رنگ و بوکی کیفیات میں اختلاف کس وجہ سے ہے؟ علامہ کا ارشاد ہے کہ طوسی اور اقلیدس کی عقل اسی ریاضیاتی دائرے میں گھومتی رہتی ہے۔
یہ زمین فرسا عقل ہے جو خاک سے حاصل کردہ آئین کا اطلاق اجرام فلکیہ اور ان کی حرکات پر بھی کرتی ہے۔ اس عقل کے پاس زمان اور مکان کے پیمانے ہیں،لیکن زمان اور مکان کوئی مستقل وجود نہیں رکھتے۔ وہ محض اضافی اور اعتباری ہیں۔ زمان و مکان محض زمین فرسا نظر کی پیداوار نہ ہوتے تو معراج کے تجربہ نبوی میں دونوں کی نفی نہ ہو سکتی۔ اس تجربے میں لامتناہی دکھائی دینے والا مکان اور افلاک کی بے پایاں وسعتیں آنکھ جھپکنے کے لمحے میں کیسے طے ہو گئیں۔
جن تجربات کیلئے ایک طویل مدت درکار تھی وہ سمٹ کر ایک طرفتہ العین میں کیسے سما گئے۔ معلوم ہوا کہ زمان و مکان مطلق نہیں بلکہ اضافی ہیں۔ حقیقت مطلقہ میں مکان کی لامتناہی نہیں،اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ عالم خارجی بے کراں ہے۔ ہستی کی عینیت میں زیر و بالا نہیں اور ہمارے زمان مسلسل کا دیر و زود بھی نہیں۔ عارف رومی نے اس شعر میں معراج کی کیفیت بیان کی ہے:
عشق نے بالا نہ پستی رفتن است
عشق حق از جنس ہستی رستن است
ہاں جنسی ہست سے نجات پانے کے معنی زمان و مکان کے قیود سے ماوریٰ ہونا ہے۔
لامتناہی مکان کا نفس کے اندر ایک وجدانی لمحے میں سما جانا سرمد کے نزدیک بھی حقیقت معراج ہے:
آں را کہ سر حقیقتش باور شد
خودپہن تر از سپہر پہناور شد
ملا گوید کہ برشد احمد بہ فلک
سرمد گوید فلک بہ احمد درشد
اسی نظریے کو اقبال نے ان اشعار میں بیان کیا ہے:
حقیقت لازوال و لا مکان است
مگو دیگر کہ عالم بے کران است
کران او درون است و بروں نیست
درویش پست و بالا کم فزوں نیست
درونش خالی از بالا و زیراست
ولے بیرون او وسعت پذیر است