زمان و مکان گویا ممکنات ہیں جنہیں حیات مطلقہ نے اپنے اظہار کے ایک پہلو کی خاطر پیدا کیا ہے۔ ذات واجب نے جو ممکنات اور حوادث کی کثرت پیدا کی ہے ریاضیاتی عقل اس کے شمار اور پیمائشوں میں الجھ جاتی ہے۔ حقیقت مطلقہ کا ادراک اس عقل کی رسائی سے باہر ہے۔ یہ عقل وحدت مطلقہ کو کثرت میں اور حرکت کو سکون میں تبدیل کرکے مظاہر کے باہمی روابط دریافت کرنا چاہتی ہے۔
ہستی کا باطن اس کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔
ابد را عقل ما ناسازگار است
’یکی‘ از گیر و دار او ہزار است
چو لنگ است او سکوں را دوست دارد
نہ بیند مغز و دل بر پوست دارد
خرد لامکانی حقیقت کو مکانی بنا کر سمجھتی ہے۔ اپنے ضمیر میں غوطہ زنی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں نہ مکانیت کے زیر و بالا اور چپ و راست ہیں اور نہ مکان آلودہ زمانیت کے دیر و زور،ماضی و حال و مستقبل۔
(جاری ہے)
اس نظریے کی فلسفیانہ تشریح علامہ اقبال کے انگریزی خطبات میں ملتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ قرآن نے بھی زمان کو اعتباری قراردیا ہے۔ محشر میں کروڑوں برس کے مرے ہوئے لوگوں کو دوبارہ زندہ کرکے جب پوچھا جائے گا کہ تم کو دنیا سے رخصت ہوئے کتنا عرصہ گزرا ہے ”کم لبثتم“ تو وہ اس کی مدت ایک آدھ دن ہی کی بتائیں گے۔ مکان کے اضافی ہونے کا ایک اور ثبوت بھی قرآن میں ملتا ہے،جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کا دن تمہارے ایک ہزار سال کا ہوتا ہے۔
یہ اشارہ توریت میں بھی موجود ہے۔
علامہ اقبال کے آگے چل کر فرماتے ہیں کہ واجب اور ممکن کا ربط عقل کو اس لئے لاینحل معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہی تن اور جان کو دو متضاد ہستیاں سمجھ لیتی ہے۔ ایسا سمجھنا گمراہ کن اور حرام ہے۔ تن،جان کے احوال میں سے ایک حالت کا نام ہے،اس کا کوئی الگ مستقل وجود نہیں ہو سکتا۔ ”قالب ازما ہست شد نے ما ازو“۔
تن و جاں را دو تا گفتن کلام است
تن و جان را دو تا دیدن حرام است
بجاں پوشیدہ رمز کائنات است
بدن حالے ز احوال حیات است
جسم یا جہان حقیقت مطلقہ کا خود اپنے چہرے پر ڈالا ہوا پردہ ہے۔ یہ پردہ ذوق حجاب نے نہیں بنایا بلکہ ذوق اظہار و انکشاف نے بنایا ہے:
حقیقت روے خود را پردہ باف است
کہ او را لذتے از انکشاف است
#
واقف نہیں ہے تو ہی نوا ہاے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
(غالب)
اقبال کے جواب کا لب لباب یہ ہوا کہ جسے ممکن کہتے ہیں وہ ذات مطلق یا ذات واجب الوجود کے اظہار کی ایک کیفیت ہے۔
واجب اور ممکن دو متضاد الاصل یا متضاد النوع وجود نہیں جن کا رابطہ قابل فہم نہ ہو سکے۔ ریاضیاتی عقل کیلئے تو وہ ایک ناقابل حل مسئلہ ہے لیکن وجدانی اور عرفانی بصیرت کیلئے یہ کوئی یاینحل عقدہ نہیں۔
زندگی کی ناقابل تقسیم وحدت میں نفس و بدن کی دوئی کا فلسفہ گزشتہ دو تین سو سال میں فرنگ میں زیادہ ترقی پذیر ہوا اور اسی دوئی نے وہاں مذہب اور سیاست میں خلیج حائل کر دی۔
مذہب نفس کیلئے رہ گیا اور سیاست مادی اغراض کیلئے وقف ہو گئی۔ تن بے جان ہو گیا اور جان بے تن ہو کر نیست ہو گئی۔ ترکوں کے جدید انقلابی مصلحین تقلید فرنگ میں اسلام کے نظریہ حیات کو کھو بیٹھے اور تقلید فرنگ میں یہ روش اختیار کر لی کہ ملکی اور دینی معاملات کے دائرے سے الگ الگ ہیں:
بدن را تا فرنگ از جان جدا دید
نگاہش ملک و ویں را ہم دوتا دید
خرد را با دل خود ہم سفر کن
یکے بر ملت ترکاں نظر کن
بہ تقلید فرنگ از خود رمیدند
میان ملک و دیں ربطے ندیدند
جسے تم کائنات سمجھتے ہو وہ ذات پاک کی سرگزشت کا ایک لمحہ اور ایک حال ہے۔
اس حال کو ایک مستقل کائنات سمجھ کر اس کا تجزیہ کرنا،مردے کا پوسٹ مارٹم کرنا ہے یا علوم طبیعی میں اس کے نقشے بنانا ہے۔ ایسی حکمت میں نہ موسیٰ کا ید بیضا ہے اور نہ عیسیٰ کا دم حیات بخش۔ میں اس حکمت سے اس لئے بیزار ہو گیا کہ اس میں مجھے کہیں حقیقت حیات کا نشان نہ ملا۔ میں نے اس فلسفے اور اس سائنس کو برطرف کرکے اس حکمت کو ڈھونڈا جس کا سرچشمہ وجدان ہے اور جو مادیت میں پابہ گل یا زمان و مکان میں پا بہ زنجیر نہیں:
حکیماں مردہ را صورت نگار اند
یہ موسیٰ دم عیسیٰ ندارند
دریں حکمت دلم چیزے ندید است
براے حکمت دیگر طپید است
مجھے تو جہان کے باطن میں ایک انقلاب انگیز اور احوال خیز حیات ہی حیات نظر آتی ہے۔
ایک مسلسل ارتقا اور مسلسل خلاقی ہے:
من ایں گویم جہاں در انقلاب است
درونش زندہ و در پیچ و تاب است
تم خرد کے دھوکے میں آکر اپنے نفس کو لامتناہی عالم زمانی و مکانی کی کلیت کا ایک جزو سمجھ لیا ہے،لیکن اپنے ضمیر میں غوطہ لگاؤ تو تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ جزو اس خارجی کل سے افزوں ہے:
در جہانی و از جہاں بیشی
ہمچو معنی کہ در بیاں باشد
(انوری)
#
در آں عالم کہ جزو از کل فزوں است
قیاس رازی و طوسی جنون است
لیکن یہ مظاہر پیما عقل بھی بالکل بے کار نہیں۔
زندگی نے اس کو بھی خاص ضرورتوں کیلئے پیدا کیا ہے۔ کچھ عرصہ اس سے بھی آشنائی پیدا کرنی چاہئے۔ رازی اور طوسی اور ارسطو اور بیکن کو تھوڑے عرصے کیلئے ہم سفر بنا لیا کرو۔ جس منزل تک وہ رک گئے ہیں انہیں وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جانے کی کوشش کرو اور اس حقیقت تک پہنچو جو لازمانی اور لامکانی ہے۔
چوتھا سوال یہ ہے:
قدیم و محدث از ہم چوں جدا شد
کہ ایں عالم شد، آں دیگر خدا شد
اگر معروف و عارف ذات پاک است
چہ سودا در سر ایں مشت خاک است
قدیم اور محدث کا سوال در حقیقت واجب و ممکن کے مابین ربط کے سوال کا ایک پہلو ہے،لیکن اس سوال کے جواب میں اقبال نے اپنا خودی کا فلسفہ پیش کر دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہستی قدیم اور ہستی حادث،یعنی خدا اور عالم،ایک دوسرے سے جدا کیوں ہوئے؟ خدا کو کیا ضرورت تھی کہ ماسوا کو بھی اپنے مقابل میں لاکھڑا کرے۔ بالفاظ دیگر وجہ تکوین عالم کیا ہے۔ اگر ناظر و منظور،عارف و معروف،شاہد و مشہود،ایک ہی ذات پاک ہے تو انسان کے سر میں یہ سودا کہاں سے پیدا ہو گیا ہے جو اس کو حیران اور مضطرب رکھتا ہے:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
(غالب)