Episode 106 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 106 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

زمان و مکان گویا ممکنات ہیں جنہیں حیات مطلقہ نے اپنے اظہار کے ایک پہلو کی خاطر پیدا کیا ہے۔ ذات واجب نے جو ممکنات اور حوادث کی کثرت پیدا کی ہے ریاضیاتی عقل اس کے شمار اور پیمائشوں میں الجھ جاتی ہے۔ حقیقت مطلقہ کا ادراک اس عقل کی رسائی سے باہر ہے۔ یہ عقل وحدت مطلقہ کو کثرت میں اور حرکت کو سکون میں تبدیل کرکے مظاہر کے باہمی روابط دریافت کرنا چاہتی ہے۔
ہستی کا باطن اس کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔
ابد را عقل ما ناسازگار است
’یکی‘ از گیر و دار او ہزار است
چو لنگ است او سکوں را دوست دارد
نہ بیند مغز و دل بر پوست دارد
خرد لامکانی حقیقت کو مکانی بنا کر سمجھتی ہے۔ اپنے ضمیر میں غوطہ زنی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں نہ مکانیت کے زیر و بالا اور چپ و راست ہیں اور نہ مکان آلودہ زمانیت کے دیر و زور،ماضی و حال و مستقبل۔

(جاری ہے)

اس نظریے کی فلسفیانہ تشریح علامہ اقبال کے انگریزی خطبات میں ملتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ قرآن نے بھی زمان کو اعتباری قراردیا ہے۔ محشر میں کروڑوں برس کے مرے ہوئے لوگوں کو دوبارہ زندہ کرکے جب پوچھا جائے گا کہ تم کو دنیا سے رخصت ہوئے کتنا عرصہ گزرا ہے ”کم لبثتم“ تو وہ اس کی مدت ایک آدھ دن ہی کی بتائیں گے۔ مکان کے اضافی ہونے کا ایک اور ثبوت بھی قرآن میں ملتا ہے،جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کا دن تمہارے ایک ہزار سال کا ہوتا ہے۔
یہ اشارہ توریت میں بھی موجود ہے۔
علامہ اقبال کے آگے چل کر فرماتے ہیں کہ واجب اور ممکن کا ربط عقل کو اس لئے لاینحل معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہی تن اور جان کو دو متضاد ہستیاں سمجھ لیتی ہے۔ ایسا سمجھنا گمراہ کن اور حرام ہے۔ تن،جان کے احوال میں سے ایک حالت کا نام ہے،اس کا کوئی الگ مستقل وجود نہیں ہو سکتا۔ ”قالب ازما ہست شد نے ما ازو“۔
تن و جاں را دو تا گفتن کلام است
تن و جان را دو تا دیدن حرام است
بجاں پوشیدہ رمز کائنات است
بدن حالے ز احوال حیات است
جسم یا جہان حقیقت مطلقہ کا خود اپنے چہرے پر ڈالا ہوا پردہ ہے۔ یہ پردہ ذوق حجاب نے نہیں بنایا بلکہ ذوق اظہار و انکشاف نے بنایا ہے:
حقیقت روے خود را پردہ باف است
کہ او را لذتے از انکشاف است
#
واقف نہیں ہے تو ہی نوا ہاے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
(غالب)
اقبال کے جواب کا لب لباب یہ ہوا کہ جسے ممکن کہتے ہیں وہ ذات مطلق یا ذات واجب الوجود کے اظہار کی ایک کیفیت ہے۔
واجب اور ممکن دو متضاد الاصل یا متضاد النوع وجود نہیں جن کا رابطہ قابل فہم نہ ہو سکے۔ ریاضیاتی عقل کیلئے تو وہ ایک ناقابل حل مسئلہ ہے لیکن وجدانی اور عرفانی بصیرت کیلئے یہ کوئی یاینحل عقدہ نہیں۔
زندگی کی ناقابل تقسیم وحدت میں نفس و بدن کی دوئی کا فلسفہ گزشتہ دو تین سو سال میں فرنگ میں زیادہ ترقی پذیر ہوا اور اسی دوئی نے وہاں مذہب اور سیاست میں خلیج حائل کر دی۔
مذہب نفس کیلئے رہ گیا اور سیاست مادی اغراض کیلئے وقف ہو گئی۔ تن بے جان ہو گیا اور جان بے تن ہو کر نیست ہو گئی۔ ترکوں کے جدید انقلابی مصلحین تقلید فرنگ میں اسلام کے نظریہ حیات کو کھو بیٹھے اور تقلید فرنگ میں یہ روش اختیار کر لی کہ ملکی اور دینی معاملات کے دائرے سے الگ الگ ہیں:
بدن را تا فرنگ از جان جدا دید
نگاہش ملک و ویں را ہم دوتا دید
خرد را با دل خود ہم سفر کن
یکے بر ملت ترکاں نظر کن
بہ تقلید فرنگ از خود رمیدند
میان ملک و دیں ربطے ندیدند
جسے تم کائنات سمجھتے ہو وہ ذات پاک کی سرگزشت کا ایک لمحہ اور ایک حال ہے۔
اس حال کو ایک مستقل کائنات سمجھ کر اس کا تجزیہ کرنا،مردے کا پوسٹ مارٹم کرنا ہے یا علوم طبیعی میں اس کے نقشے بنانا ہے۔ ایسی حکمت میں نہ موسیٰ کا ید بیضا ہے اور نہ عیسیٰ کا دم حیات بخش۔ میں اس حکمت سے اس لئے بیزار ہو گیا کہ اس میں مجھے کہیں حقیقت حیات کا نشان نہ ملا۔ میں نے اس فلسفے اور اس سائنس کو برطرف کرکے اس حکمت کو ڈھونڈا جس کا سرچشمہ وجدان ہے اور جو مادیت میں پابہ گل یا زمان و مکان میں پا بہ زنجیر نہیں:
حکیماں مردہ را صورت نگار اند
یہ موسیٰ دم عیسیٰ ندارند
دریں حکمت دلم چیزے ندید است
براے حکمت دیگر طپید است
مجھے تو جہان کے باطن میں ایک انقلاب انگیز اور احوال خیز حیات ہی حیات نظر آتی ہے۔
ایک مسلسل ارتقا اور مسلسل خلاقی ہے:
من ایں گویم جہاں در انقلاب است
درونش زندہ و در پیچ و تاب است
تم خرد کے دھوکے میں آکر اپنے نفس کو لامتناہی عالم زمانی و مکانی کی کلیت کا ایک جزو سمجھ لیا ہے،لیکن اپنے ضمیر میں غوطہ لگاؤ تو تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ جزو اس خارجی کل سے افزوں ہے:
در جہانی و از جہاں بیشی
ہمچو معنی کہ در بیاں باشد
(انوری)
#
در آں عالم کہ جزو از کل فزوں است
قیاس رازی و طوسی جنون است
لیکن یہ مظاہر پیما عقل بھی بالکل بے کار نہیں۔
زندگی نے اس کو بھی خاص ضرورتوں کیلئے پیدا کیا ہے۔ کچھ عرصہ اس سے بھی آشنائی پیدا کرنی چاہئے۔ رازی اور طوسی اور ارسطو اور بیکن کو تھوڑے عرصے کیلئے ہم سفر بنا لیا کرو۔ جس منزل تک وہ رک گئے ہیں انہیں وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جانے کی کوشش کرو اور اس حقیقت تک پہنچو جو لازمانی اور لامکانی ہے۔
چوتھا سوال یہ ہے:
قدیم و محدث از ہم چوں جدا شد
کہ ایں عالم شد، آں دیگر خدا شد
اگر معروف و عارف ذات پاک است
چہ سودا در سر ایں مشت خاک است
قدیم اور محدث کا سوال در حقیقت واجب و ممکن کے مابین ربط کے سوال کا ایک پہلو ہے،لیکن اس سوال کے جواب میں اقبال نے اپنا خودی کا فلسفہ پیش کر دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہستی قدیم اور ہستی حادث،یعنی خدا اور عالم،ایک دوسرے سے جدا کیوں ہوئے؟ خدا کو کیا ضرورت تھی کہ ماسوا کو بھی اپنے مقابل میں لاکھڑا کرے۔ بالفاظ دیگر وجہ تکوین عالم کیا ہے۔ اگر ناظر و منظور،عارف و معروف،شاہد و مشہود،ایک ہی ذات پاک ہے تو انسان کے سر میں یہ سودا کہاں سے پیدا ہو گیا ہے جو اس کو حیران اور مضطرب رکھتا ہے:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
(غالب)

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط