Episode 107 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 107 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اقبال نے انگریزی خطبات میں استدلال سے اس کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خدا کی ہستی ایک بے مقصود سیلان و میلان حیات نہیں،بلکہ ایک نفس مطلقہ ہے اور نفس کیلئے مقصد آفرینی اور مقصد کوشی لازمی ہے۔ ایک خودی انسان کی ہے اور ایک خودی وہ ہے جو ذات الٰہی کی ماہیت ہے۔ خودی کو اپنے اظہار اور ارتقا کیلئے اپنا غیر پیدا کرنا پڑتا ہے۔ بعض صوفیہ کا خیال ہے کہ انسان کی خودی خدا ہی کی خودی میں سے الگ ہو کر معرض شہود میں آئی ہے۔
ارواح کی یہ کثرت خدا کی ازلی وحدت سے کیوں جدا ہوئی؟ اس کی کوئی تشفی بخش توجیہ صوفیانہ فلسفے میں نہیں ملتی۔ عارف رومی،جس کا نظریہ حیات وہی ہے جس کا اقبال بھی قائل ہے،اپنی مثنوی کو اس بیان سے شروع کرتا ہے کہ ارواح ذات الٰہی سے فراق محسوس کر رہی ہیں اور وصال کیلئے کوشاں ہیں۔

(جاری ہے)

کیوں کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف عود کرنے کا میلان رکھتی ہے۔

درد فراق اور ذوق وصال نہ صرف روح انسانی بلکہ کائنات کے ہر ذرے میں عشق اور اضطراب پیدا کر رہے ہیں۔ حیات و کائنات کے تمام مظاہر کی توجیہ مولانا روم اسی نظریے سے کرتے ہیں،لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ فراق پیدا ہی کیوں ہوا اور کیسے ہوا۔ علامہ اقبال ایک وجہ تکوین بناتے ہیں اور آفرینش کو خودی کی ماہیت میں سے اخذ کرتے ہیں۔ خدا خیر مطلق اور خلاق ہے۔
نفس الٰہی کو نفس انسانی پر قیاس کرنے کے بغیر چارہ نہیں۔ نفس انسانی کیلئے اگر اس کا غیر موجود و مشہود نہ ہو تو انسان کی خودی نہ بیدار ہو سکتی ہے اور نہ استوار۔ اسی طرح ذات الٰہی بھی اپنا غیر خود پیدا کرتی ہے۔ انسان کیلئے اس کا غیر خود آفریدہ نہیں،لیکن خدا کیلئے ماسوا خود آفریدہ ہے۔ انسان اور خدا کی خودی میں یہی ایک بین فرق ہے۔ اس پر استدلال بھی انگریزی خطبات میں ملتا ہے۔
خدا کی ذات میں سے عالم خیز آفرینی کیلئے الگ ہوتا ہے۔ خدا سراپا حیات ہے اور یہ ماہیت حیات میں داخل ہے کہ وہ اپنا غیر بھی پیدا کرے:
خودی را زندگی ایجاد غیر است
فراق عارف و معروف خیر است
اگر انسان کی خودی خدا سے الگ ہو کر فراق زدہ نہ ہوتی تو اس میں کوئی زندگی نہ ہوتی۔ کیوں کہ زندگی جستجو اور آرزو کا نام ہے اور آرزو کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں مقصود ایک لحاظ سے موجود ہوتا ہے اور دوسری حیثیت سے مطلوب ہوتا ہے۔
اگر انسان خدا کا عاشق ہو سکتا ہے تو فراق ہی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ لیکن خدا کی ذات بھی تو عشق سے معرا نہیں،عشق اس کی ماہیت میں بھی داخل ہے۔ اس لئے حقیقت یہ ہے کہ ہم خدا کیلئے بے تاب ہیں اور خدا ہمارے لئے بیتاب ہے۔ اگر ہم اس سے الگ نہ ہوئے ہوتے تو وہ ہمارے لئے بے تاب کیسے ہوتا۔ فراق عشق کی فطرت میں داخل ہے اور یہی وجہ آفرینش ہے۔ ”خدا ہم در تلاش آدمے ہست“۔
خدا اور انسان کی محبت دو طرفہ ہے:
ازو خود را بریدن فطرت ماست
تپیدن نا رسیدن فطرت ماست
نہ ما را در فراق او عیارے
نہ او را بے وصال ما قرارے
نہ او بے ما نہ ما بے او! چہ حال است
فراق ما فراق اندر وصال است
خدا کا مقصود مخلوق میں عشق پیدا کرنا ہے اور اس عشق کا مقصود خود خدا ہے۔ اس لئے عشق کی بدولت انسان میں بصیرت اور معرفت پیدا ہوتی ہے۔
جدائی خاک را بخشد نگاہے
دہد سرمایہ کوہے بہ کاہے
خدا اور انسان کا یہ رشتہ ہی بقاے ذات انسانی کا ضامن ہے۔ نہ اس عشق کی انتہا ہو سکتی ہے اور نہ زندگی ختم ہو سکتی ہے۔ اگر خدا اور انسان کے درمیان عشق کا رابطہ نہ ہوتا تو انسانی نفس بھی مادی مظاہر کی طرح ایک آنی جانی چیز ہوتا:
من و او چیست؟ اسرار الٰہی است
من و او بر دوام ما گواہی است
زندگی خواہ خدا کی ہو اور خواہ انسان کی،اس کو خلوت و جلوت دونوں کی ضرورت ہے۔
ذوق جلوت نے ذات الٰہی کو انجمن آفرین اور انجمن آرا کر دیا:
پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر
چشم مہر و مہ و انجم کو تماشائی کہ
#
محبت دیدہ ور بے انجمن نیست
محبت خود نگر بے انجمن نیست
انگریزی خطبات میں اقبال نے اپنے اس خیال کو بیان کیا ہے کہ خدا نے جامد و بے جان اشیاء پیدا نہیں کیں۔ وہ خود ایک نفس ہے،اس لئے اس سے نفوس ہی صادر ہوئے ہی۔
جنہیں ہم ذرات کہتے ہیں،وہ بھی دل ہی ہیں یا دلوں کے اجتماعات ہیں۔ یہ نظریہ بھی اسلامی مفکرین اور صوفیہ کے ہاں قدیم سے چلا آتا ہے۔ یہ نظریہ جلال الدین رومی کے ہاں بھی ملتا ہے اور بعض اور صوفی یا متصوف شعرا کے کلام میں بھی:
از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کوشش جہت سے مقابل ہے آئینہ
(غالب)
آہستہ سے چل میان کہسار
ہر سنگ دکان شیشہ گر ہے
(میر درد)
خاک و باد و آب و آتش بندہ اند
بامن و تو مردہ با حق زندہ اند
(رومی)
قرآن بھی جب ”یسبح اللہ ما فی السماوات و ما فی الارض“ کہتا ہے تو تسبیح نفوس ہی کا فعل ہو سکی ہے۔
خواہ ہم کائنات میں دیگر نفوس کے انداز حیات اور ان کی تسبیح کو نہ سمجھ سکیں۔ قرآن نے بھی یہ کہا ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔ بعض کم فہم حکما اور مفسرین نے اس کو جامد کائنات کی زبان حال کی تسبیح قرار دیا ہے۔ جیسے کوئی کھنڈر زبان سے یہ کہہ رہا ہو کہ میں بھی ایک شاندر عمارت تھا۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ توجیہ درست نہیں معلوم ہوتی۔
اقبال کہتا ہے کہ اس عالم میں اور کسی چیز کا وجود نہیں۔ یا نفوس ہیں یا خدا کا نفس کلی:
کہ ایں جا ہیچ کس جز و ما و او نیست
خدا اور ہمارے درمیان فراق و وصل کی حالتیں یکے بعد دیگرے آتی رہتی ہیں۔ موجیں ساحل سے ٹکراتی بھی ہیں اور پھر اس سے دور بھی ہو جاتی ہیں:
گہے خود را ز ما بیگانہ سازد
گہے ما را چو سازے می نوازو
”چو سازے می نوازد“ سے غالب کا ایک لطیف شعر یاد آ گیا:
شوریست نوا ریزی تار نفسم را
پیدا نہٴ اے جنبش مضراب کجائی
خدا ہی کی تلاش اور اس کے عشق میں انسان اپنے تصور سے پتھروں میں اس کی تصویریں بنا کر ان کی پرستش کرتا رہا ہے اور کبھی بن دیکھے بھی سجدہ پاشی کرتا ہے۔
کبھی پردہ فطرت کو چاک کرکے جمال یار کی بیساکانہ دید کی ایک جھلک بھی اس کو دکھائی دیتی ہے۔ سوال یہ تھا کہ اس مشت خاک میں یہ سودا کیا ہے۔ اس کا جواب اقبال کے ہاں یہ ہے کہ یہ سودا نہیں،بلکہ سر چشمہ حیات ہے۔ اسی عش سے انسان کو بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے اور نشوونما بھی:
یہ سودا در سر ایں مشت خاک است
ازیں سودا درونش تابناک است
چہ خوش سودا کہ نالہ از فراقش
و لیکن ہم بالد از فراقش
فراق او چناں صاحب نظر کرد
کہ شام خویش را بر خود سحر کرد
خدا کی محبت نے عالم اور زندگی کو پیدا کیا اور پھر اس محبت کو مخلوقات کیلئے ذریعہ ارتقا بنایا:
محبت؟ درگرہ بستن مقامات
محبت؟ در گزشتن از نہایات
عالم کے مظاہر محبت ہی سے پیدا ہوتے اور محبت ہی سے ترقی پاتے ہیں۔
محبت باعث تکوین بھی ہے اور مقصود حیات بھی:
عشق ہم راہست و ہم خود منزل است

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط