Episode 108 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 108 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

خدا کی خودی میں گم یا فنا ہو جانے سے عشق کا خاتمہ ہو جائے گا۔ نہ خدا کی محبت کا کوئی محبوب رہے گا اور نہ محبت خدا کیلئے کوئی آرزو باقی رہے گی۔ فنا کے اس روایتی مفہوم سے خدا اور انسان دونوں کی خودی سوخت ہو جاتی ہے۔ خدا کیلئے بھی مشہود و معروف و محبوب مخلوق کی ہستی ضروری ہے اور انسان کیلئے بھی۔ حیات جاودائی کے حصول کا طریقہ یہی ہے کہ خودی کے ارتقا اور عشق الٰہی میں ہزاروں عالم پیدا کرتا ہوا چلا جانے اور فطرت کی یہ خلاقی کہیں ختم نہ ہو۔
خدا میں گم ہو جانے سے تو انسان فنا ہو جائے گا،لیکن خدا کو اپنے اندر مسلسل جذب کرتے رہنے سے انسان ہمیشہ باقی رہے گا۔ انسان کا مقصود حیات یہ ہے کہ زندگی کی ہر پہلی صورت کو فنا کرتا ہوا ارتقا یافتہ صورتوں کی آفرینش کرتا چلا جائے:
ہزاراں عالم افتد در رہ ما
بپایاں کے رسد جولانگہ ما
مسافر! جاوداں زی جاوداں میر
جہانے را کہ پیش آید فراگیر
بہ بحرش گم شدن انجان م نیست
اگر او را تو درگیری فنا نیست
زندگی دو گھڑی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
(میر تقی)
#
بڑھے جا زندگی
ذوق سفر ہے
ہر لحظ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہٴ شوق نہ ہو طے
(اقبال)
اقبال کے تصوف اور اکثر صوفیہ کے تصوف میں یہ ایک بنیادی فرق ہے کہ اقبال کے نزدیک خدا کی بھی خودی ہے اور انسان کی بھی اور انسان کی خودی کا ارتقا مسلسل صفات الہیہ پیدا کرنے سے ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

اس کا انجام یہ نہیں کہ انسان کی خودی خدا کی خودی میں اس طرح گم ہو جائے جس طرح بارش کا قطرہ سمندر میں اپنی انفرادیت کو فنا کر دیتا ہے۔ اس کے نزدیک خودی کی ماہیت ہی یہی ہے کہ وہ اپنی عینیت کو قائم و دائم رکھنے کی کوشش کرے۔ لہٰذا نہ خدا انسان میں گم ہو سکتا ہے اور نہ انسان خدا کی ذات میں:
خودی اندر خودی گنجد محال است
خودی را عین خود بودن کمال است
پانچواں سوال یہ ہے:
کہ من باشم مرا از، من، خبر کن
چہ معنی دارد اندر خود سفر کن
یہ سوال خودی کی مزید توضیح کیلئے کہا گیا ہے کہ ”میں“ ”من“ یا ”انا“ کیا ہے اور خود اپنی ذات کے اندر سفر کرنے کے کیا معنی ہیں؟
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ”خودی“ حفظ و بقاے کائنات کی ضامن ہے۔
یہ نہیں کہ حیات میں ارتقا کے ایک خاص درجے میں خودی پیدا ہوئی ہے بلکہ ازلی حقیقت خودی ہے ور حیات اس کا پر تو ذات ہے۔ خودی کی وحدت جب مظاہر کی کثرت پیدا کرتی ہے تو اس سے زندگی بیدار ہو جاتی ہے۔ ذوق نمود کے بغیر مظاہر حیات پیدا نہ ہوتے اور نہ کشود حیات کے بغیر خودی کی نمود ہو سکتی تھی۔ زندگی سے اشیاء کی نہیں بلکہ افراد یا خودی کے مالک نفوس کی نمود ہوتی ہے۔
کثرت افزائی،انجمن آرائی،جلوت پسندی،غیر آفرینی اور غیر بینی کے باوجود خودی اپنی ماہیت میں خلوت نشیں ہی رہتی ہے۔ جلوت میں ظہور سے اس کی خلوت مستور میں فرق نہیں آتا۔ ضمیر فطرت جستو اور آرزوے رنگ و بود کے باوجود پوشیدہ رہتا ہے:
ز خود نا رفتہ بیروں غیر ہیں است
میان انجمن خلوت نشیں است
نہاں از دیدہا در ہائے و ہوئے
دما دم جستجوے رنگ و بوئے
اس کا باطنی پیچ و تاب پیکار حیات میں ظاہر ہوتا ہے۔
اسی پیکار سے ارتقا اور بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ گف خاک کو اسی ستیز اور جست و خیز نے آئینہ حقیقت بنا دیا ہے۔ پیکر خاکی خودی کا حجاب بن جاتا ہے،لیکن اسی کے اندر سے آفتاب طلوع ہوتا ہے:
(ناسخ)
طلوع صبح محشر چاک ہے میر گریباں کا
خودی راپیکر خاکی حجاب است
طلوع اور مثال آفتاب است
درون سینہٴ ما خاور او
فروغ خاک ما از جوہر او
اے سائل تو پوچھتا ہے یہ ”من“ کیا ہے اور ”اندر خود سفر کردن“ کے کیا معنی ہیں۔
اس کا جواب تو میں ایک انداز سے پہلے بھی دے چکا ہوں کہ ربط جان و تن کس قسم کا ہے۔ تو اپنے ضمیر میں ڈوب کر دیکھ لے کہ یہ من کیا ہے۔ اس ”سفر خویش“ میں جس خودی کا انکشاف ہوتا ہے وہ والدین کے اجتماع سے پیدا نہیں ہوئی،اس کی حقیقت ازلی ہے۔ کسی صوفی کا شعر ہے:
ما پرتو نور پادشاہ ازلیم
فرزند نہ ایم آدمء و حوا را
اسی ”من“ کے متعلق رومی کہتا ہے:
من آں روز بودم کہ اسما نہ بود
نشان از وجود مسمیٰ نہ بود
اور کسی صوفی نے ایک شوخ انداز میں کہا ہے:
می گفت در بیاباں رندے دہن دریدہ
صوفی خدا نہ دارد اور نیست آفریدہ
اقبال کہتا ہے ”سفر در خویش؟ زادن بے اب و مام“۔
یہاں تکوین فی الزمان کا سوال نہیں بلکہ ”ابد بودن بیک دم اضطرابے“۔
”یا ”طے شود جادہ صد سالہ بہ آہے گاہے“ کا مضمون ہے۔
خودی جب لازمانی اور لامکانی حالت سے شہود کی طرف واپس آتی ہے تو عالم مکانی اس کی مٹھی میں ہوتا ہے:
چناں باز آمدن از لا مکانش
درون سینہ او در کف جہانش
یہ مسئلہ دانش کا نہیں بلکہ بینش کا ہے۔
دیدن آئینہ کمال ہے اور اس حال کے مقابلے میں قال محض جام سفال ہے:
ولے ایں راز را گفتن محال است
کہ دین شیشہ و گفتن سفال است
اس کی حقیقت فہم قرآنی رکھنے والے انسان پر کسی قدر بے نقاب ہو جاتی ہے۔ وہ امانت کیا تھی جس کی بھاری ذمہ داری اور اضطراب آفرینی کو دیکھ کر موجودات خاک و افلاک نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
”انا عرضنا“ کی معرفت آفرین آیت میں اسی خودی کی ماہیت کی طرف اشارہ ہے:
آسماں بار امانت تنوانست کشید
قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند
(حافظ)
بردہ آدم از امانت ہر چہ گردوں برنتافت
ریخت مے برخاک چوں در جام گنجیدن نہ داشت
(غالب)
چہ گویم از من و از توش و تابش
کند ”انا عرضنا“ بے نقابش
فلک را لرزہ بر تن از فر او
زمان و ہم مکان اندر براو

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط