Episode 110 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 110 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

خودی کسی مکان کے اندر نہیں کہ اس کا کوئی مقام متعین کر سکیں۔ زمانی و مکانی عالم کے لحاظ سے اگر کوئی پوچھے کہ ہم کہاں ہیں تو اس کا جواب محال ہے۔ چشم مہ و اختر جو ہمارے ظاہر کو دیکھتی ہے اسے ہماری حقیقت کا کچھ علم نہیں:
کسے ایں جا نداند ما کجائیم
کہ در چشم مہ و اختر نیائیم
اس سفر کی کوئی انتہائی منزل نہیں،کیونکہ اگر کوئی آخری منزل آ جائے تو ہماری جان ہی فنا ہو جائے۔
جان تو جسجو اور آرزو کا نام ہے،اگر کوئی انجام آ گیا تو آرزو ناپید اور اس کے ساتھ زندگی بھی ختم ہو جائے گی:
مجو پایاں کہ پایانے نداری
بپایاں تا رسی جانے نداری
خودی اپنی ترقی میں یقین اور بصیرت میں اضافہ کرتی رہتی ہے اور اس کے ساتھ تب و تاب محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

نہ محبت کو فنا ہے اور نہ یقین و دید کی کوئی انتہا ہے۔

کمال زندگی دیدار ذات ہے،لیکن اگر حسن ذات بے پایاں ہے،تو عشق ذات کی بھی انتہا کہیں نہیں ہے۔ خدا کو دیکھتے ہوئے بھی شوق دیدار کا سفر جاری رہتا ہے۔
چناں با ذات حق خلوت گزینی
ترا او بیند و او را تو بینی
لیکن خدا کے اندر گم ہو جانا مقصود نہیں۔ اگر ہم گم ہو گئے تو محب و محبوب کا امتیازی ہی مٹ جائے گا۔ اس لئے اگر تو خدا کے حضور میں بھی گزر رہا ہو تو خودی کو استوار کرتے ہوئے گزر۔
قطرے کی طرح سمندر میں ناپید نہ ہو جا:
بخود محکم گزر اندر حضورش
مشو ناپید اندر بحر نورش
جس شخص میں ’دید‘ پیدا ہو جائے،یعنی اپنی اور خدا کی ذات کا بیک وقت دیدار اور یہ دیدار اس کی خودی کو سوخت نہ کر دے تو اسی شخص کو دنیا کا امام سمجھو۔ مرد کامل کا معیار یہی ہے:
کسے کو ’دید‘ عالم را امام است
من و تو نا تمامیم او تمام است
#
آدمی دید است و باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
(رومی)
اگر ایسا شخص دکھائی نہ دے تو اس کی طلب کو جاری رکھ اور اگر خوش قسمتی سے مل جائے تو پھر اس کا دامن نہ چھوڑنا۔
یہ مرد کامل تجھے فقیہ و شیخ و ملا کے طبقوں میں نہ ملے گا۔ یہ لوگ انسانوں کے شکاری ہیں ان سے غافل نہ رہنا۔
فقیہ و شیخ و ملا راہ مدہ دست
مرد مانند ماہی غافل از شست
مرد کامل تو ملک اور دین دونوں میں اچھا راہنما ہوتا ہے، کیوں کہ وہ مرد راہ ہے۔ فرنگ سے بھی خبردار رہنا۔ وہاں جو جمہوریت انسانی اخوت ومساوات کی مدعی بن گئی ہے، یہ سب اہلہ فریبی ہے۔
ہوس پرست عوام کا ہجوم کہاں انسانیت کی ترقی اور بصیرت افزائی کا موجب بن سکتا ہے۔ ایک لاکھ جمہوریت کے ہنگامے بھی ایک مرد راہ کے برابر بصیرت نہیں رکھتے۔ اس جمہوریت میں امام عالم کہاں سے آئیں گے۔ مشرق اپنی جھوٹی روحانیت اور مذہبیت کے دعوے باطل میں مردان راہ سے خالی ہے اور مغرب مادہ پرستی میں اسیر کمند ہوا ہے۔ اب شرق و غرب میں کس کو کہوں کہ وہ ”مرد تمام“ ہے:
بگذر از خاور و افسوانی افرنگ شو
کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو
کیا یہ مرد راہ کہیں نہیں؟ کیا یہ محض انسانیت کاملہ کا ایک نصب العین ہے؟ ایک عرصے تک تو یہ عارف رومی کو بھی کہیں دکھائی نہ دیا:
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
آٹھواں سوال یہ ہے:
کدامی نکتہ را نطق است اناالحق
چہ گوئی ہرزہ بود آں رمز مطلق
ایقان ”انا الحق“ تمام تصور کا محور ہے۔
اس کے متعلق آج تک بحث چلی آتی ہے کہ منصور نے جو انا الحق کہا وہ کفر کا کلمہ تھا یا راز حیات کا افشا تھا۔ علماے ظاہر نے اس جرم پر اس کو سولی پر چڑھا دیا،لیکن اکثر صوفی اس کو عارف باللہ اور امام سمجھتے ہیں اور تنگ نظر فقہا کو ایک معصوم کے قتل کا مجرم قرار دیتے ہیں۔
چوں قلم در دست غدارے بود
لا جرم منصور بر دارے بود
(رومی)
محمود شابستری نے بھی ”گلشن راز“ میں بڑے زور شور سے منصور کی حمایت کی ہے:
روا باشد اناالحق از درختے
چرا نبود روا از نیک بختے
انا احق کا عقیدہ ہندو تصوف کا بھی لب لباب ہے:
اہم برہم آسمی۔
توم آسی
اقبال نے جو نظریہ خودی پیش کیا اس میں بھی جابجا خودی اور خدا میں امتیاز کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ خودی کے کثرت سے اشعار ایسے ہیں کہ بادی النظر میں دھوکا ہو سکتا ہے کہ یہ اشعار خدا کی ذات و صفات کے متعلق ہیں۔ اقبال مذکورہ صدر سوال میں انا الحق کے متعلق اپنے موقف کی تشریح کرتے ہیں،چونکہ یہ عقیدہ ہند اور ایران دونوں جگہ عام اور مسلم ہو گیا تھا اسی لئے پہلے شعر میں فرماتے ہیں:
من از رمز اناالحق باز گویم
دگر با ہند و ایراں راز گویم
پہلے یہ بیان کیا ہے کہ ایک ایرانی یہ کہہ گیا ہے کہ زندگی دھوکا کھا کر یہ ”من“ کا تصور پیدا کر دیتی ہے مگر حقیقت میں تمام عالم،انسانی نفوس سمیت،ایک سوتے ہوئے خدا کا خواب ہے۔
وہ شعر اقبال نے یہاں درج نہیں کیا لیکن اس قسم کی بحث کے دوران میں انہوں مجھے سنایا تھا۔ وہ شعر یہ ہے:
تا تو ہستی خداے در خواب است
تو نمانی چو او شود بیدار
مرزا غالب بھی عقلی طور پر وحدت وجود کے قائل تھے،اس لئے اس قسم کے تصورات غالب کے اُردو اور فارسی کلام میں کثرت سے ملتے ہیں:
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد
عالم تمام حلقہٴ دام خیال ہے
اس فارسی شعر کے تصور کو اقبال نے اپنے جواب میں ذرا پھیلا کر لکھا ہے،کیوں کہ اس کی تردید مقصود ہے:
خدا خفت و وجود ما ز خوابش
وجود ما نمود ما ز خوابش
#
مقام تحت و فوق و چار سو خواب
سکون و سیر و شوق و جستجو خواب
دل بیدار و عقل نکتہ ہیں،گمان و فکر،تصدیق و یقیں سب خواب ہی خواب ہے اور یہ خواب خدا دیکھ رہا ہے۔
انسان سمجھتا ہے کہ اس زندگی کو اپنی چشم بیدار سے دیکھ رہا ہوں لیکن یہ بیداری بھی سپنا ہے اور ہمارے گفتار و کردار ہندو ویدانت کی اصطلاح میں مایا یا فریب ادراک ہیں۔ یہاں ایک ویدانتی گرو کے متعلق ایک لطیفہ یاد آ گیا جو ہم نے اپنے ہندو استاد فلسفہ سے سنا تھا۔ یہ گرو جنگل میں اپنے چیلوں کو حیات و کائنات کے مایا ہونے کی تعلیم دیا کرتا تھا۔
ایک روز ایک مست ہاتھی گرو اور چیلوں کی طرف لپکتا دکھائی دیا۔ چیلے جان بچا کر ادھر ادھر تتر بتر ہو گئے اور گرو جی بھی ایک درخت پر چڑھ گئے۔ ایک چیلے نے جرأت کرکے گروجی سے پوچھا کہ اگر یہ ہاتھی اور اس سے جان کا خطرہ مایا تھا تو آپ اس طرح دم دبا کر کیوں بھاگے؟ گرو جی اپنی منطق میں طاق تھے۔ انہوں نے جواب دیا عجب احمق ہو کہ وہ میرا بھاگنا اور درخت پر چڑھ جانا بھی تو مایا ہی تھا۔
جیسے ہاتھی کی کچھ حقیقت نہ تھی اسی طرح ہمارے فرار کی بھی کچھ اصلیت نہیں۔ وہ بھی دھوکا یہ بھی دھوکا۔
اقبال کے نظریہ حیات میں خدا بھی حق ہے اور انسانی خودی،جو خدا کی حیات ابدی سے سرزد ہوئی ہے،وہ بھی حق ہے۔ وحدت وجود کا روایتی فلسفہ خدا کو حق قرار دیتا ہے۔ وہی حقیقت مطلقہ ہے،لیکن انسانی نفس یا خواب ہے یا فریب ادراک یا خدا کے لامتناہی قلزم ہستی کی ایک لہر۔
لہریں پیدا اور ناپید ہوتی رہتی ہیں،لیکن قلزم ہستی مطلق اپنے تلاطم میں ان سے مستغنی رہتا ہے۔ وحدت وجود کے اکثر قائلوں نے انسانی نفس کو ایک وہمی ہستی قرار دیا ہے:
صورت وہمی بہ ہستی متہم داریم ما
چوں حباب آئینہ بر طاق عدم داریم ما
(غالب)
اقبال کہتا ہے کہ تمام عالم کے وجود حقیقی ہونے پر شک ہو سکتا ہے لیکن شک کرنے والا نفس موہوم نہیں ہو سکتا۔
یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری دانش قیاسی ہے اور قیاس کا مدار حواس پر ہے،حواس مختلف ہوں تو عالم بھی اور کا اور ہو جائے۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہان رنگ و بو محض اعتبار ہے،خواب ہے یا حقیقت کا حجاب ہے،لیکن اپنے نفس کے وجود کا انکار ناممکن ہے۔ (یہ بعینہ وہی بات ہے جہاں سے فرنگ کا فلسفہ جدید شروع ہوتا ہے۔ ڈیکارٹ کہتا ہے کہ میرا سوچنا یا تمام موجودات کے وجود پر شک کرنا ہی اس امر کی محکم دلیل ہے کہ اور کچھ ہو نہ ہو صاحب فکر نفس تو موجود ہے):
تواں گفتن ہمہ نیرنگ ہوش است
فریب پردہ ہاے چشم و گوش است
خودی از کائنات رنگ و بو نیست
حواس ما میان ما و او نیست
خودی کے حرم اور خلوت گاہ میں حواس و محسوسات کو بار حاصل نہیں ہے۔
سب احساس و ادراک بالواسطہ ہوتا ہے،لیکن انسان کو اپنے نفس کا موجود ہونا براہ راست محسوس ہوتا ہے۔ ظن اور شک کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ نفس کو اپنے ”حق“ ہونے کا احساس ہے۔ حقیقت مطلقہ تو خدا کی ذات حق ہے،لیکن نفس کے حقیقی ہونے پر بھی کوئی شک نہیں:
خودی پنہاں ز حجت بے نیاز است
یکے اندیش و در یاب ایں چہ راز است
خودی را حق بداں باطل مپندار
خودی را کشت بے حاصل مپندار
خدا کی خودی اور انسان کی خودی میں یہ فرق ہے کہ خدا کا سرمدی دوام کوئی جزاے کار نہیں،بلکہ اس کی ماہیت میں داخل ہے۔
لیکن انسانی خودی کو لازوال کرنے کیلئے عمل اور عشق سے پائیدار کرنا پڑتا ہے۔
اقبال کہتا ہے کہ شنکر اچاریہ اور منصور حلاج دونوں نے اپنے اپنے رنگ میں انا الحق کہا۔ تم ان کے نظریات کو برطرف کرکے عرفان خودی سے خدا کا عرفان کرنے کی کوشش کرو۔ اناالحق کہتے ہوئے اپنی خودی کے راستے سے خدا کی مطلق خودی تک پہنچو۔ ”من عرف نفسہ،فقہ عرف ربہ“:
دگر از شنکر و منصور کم گوے
خدا را ہم براہ خویشتن جوے
بخود گم بہر تحقیق خودی شو
اناالحق گو و صدیق خودی شو
یہاں اقبال کے اُردو اشعار کا درج کرنا بھی لازمی معلوم ہوتا ہے:
فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آش
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش
نواں سوال یہ ہے:
کہ شد بر سر وحدت واقف آخر
شناساے چہ آمد عارف آخر
راز وحدت سے کون واقف ہوا اور عارف کو کس حقیقت کا عرفان حاصل ہوا،اس کے جواب میں پہلے دنیا کے ہر مظہر کی بے ثباتی پر کچھ اشعار کہتے ہیں۔
شجر و حجر،سنگ و شرر،شبنم و گہر،رنگ و نواے چنگ،کسی کو ثبات حاصل نہیں۔ انسان کا دم بھی آنی جانی چیز ہے:
مپرس از من از عالم گیری مرگ
من و تو از نفس زنجیری مرگ
عرفان میں پہلا انکشاف ہر شے کی فنا پذیری ہے:
فنا را بادہٴ ہر جام کردند
چہ بیدردانہ او را عام کردند
لیکن خودی کا چراغ صر صر فنا سے نہیں بجھتا:
خودی در سینہ چاکے نگہ دار
ازیں کوکب چراغ شام کردند
جہاں کا کوئی حصہ فنا کی دستبرد سے باہر نہیں۔
ہر صورت فانی اور آفل ہے۔ لیکن خودی آرزو اور جستجو سے قائم و دائم ہو جاتی ہے۔ فنا کا قانون اس پر عائد نہیں ہوتا:
نگہ دارند ایں جا آرزو را
سرور ذوق و شوق جستجو را
خودی را لازوالے می تواں کرد
فراقے را وصالے می تواں کرد
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا کو لاتعداد نفوس کی خودی کو برقرار رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خداے زندہ دوسرے نفس سے رابطہ رکھنے کا ذوق رکھتا ہے،اسے خود تنہائی پسند نہیں:
خداے زندہ بے ذوق سخن نیست
تجلی ہاے او بے انجمن نیست
”الست بربکم قالو ابلے“ خود خدا کے ذوق سے سرزد ہوا۔
اسی نے نفوس میں عشق کی چنگاری رکھ دی۔ ”چہ آتش عشق در خاکے برا فروخت“ خدا کی گرمی محفل تو ہمیں سے ہے۔ ہمیں فنا کر دے گا تو وہ تنہا رہ جائے گا:
اگر مائیم گرداں جام ساقی است
بیزمش گرمی ہنگامہ باقی است
ہمیں بھی اپنی خودی کو اس لئے لازوال بنانا چاہئے کہ خدا کی بزم آرائی باقی رہے:
مرا دل سوخت بر تنہائی او
کنم سامان بزم آرائی او
#
مثال دانہ می کارم خودی را
براے او نگہ دارم خودی را
###

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط