Episode 112 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 112 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اکثر علماء اسلام کی فنون لطیفہ سے گریز کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کی نظر طلوع اسلام کے دور پر تھی۔ اس دور تک عربوں کا یہ حال تھا کہ فنون لطیفہ میں سے ان کے ہاں نہ منصوری تھی اور نہ حسین و جمیل صنم تراشی۔ لات و عزیٰ،ہبل اور دیگر دیوتاؤں کے بت یونانیوں کے بتوں کی طرح جمیل نہ تھے۔ نہایت بھدے قسم کی سنگ تراشی تھی اور یہ تمام فن جو ابھی لطیف ہونے کی بجائے زیادہ تر کثیف ہی تھا،ان کے مشرکانہ عقائد کا مظاہر تھا۔
وہاں مصوری یا صنم تراشی نے مشرکانہ مذہب سے الگ ہو کر کوئی مستقل حیثیت اختیار نہ کی تھی۔ مصوری اور بت تراشی کا مشرکانہ مذہب سے ایسا گہرا رابطہ تھا کہ ان دونوں کا الگ کرنا محال تھا۔ اسی وجہ سے توحید کی تلقین کرنے والے انبیاء بنی اسرائیل نے جانداروں کی صورتیں بنانا حرام کر دیا تھا،کیوں کہ بنی اسرائیل کے گردا گرد بڑے زور کی صنم تراشی اور دیوتا پرستی تھی۔

(جاری ہے)

اس کا قلع قمع اسی طرح ہو سکتا تھا کہ صورت گری کو ختم کیا جائے۔ حضرت سلیمان، کو شاید اپنے زمانے میں یہ خطرہ اس شدت کے ساتھ محسوس نہ ہوا اس لئے انہوں نے تماثیل بنوانے سے پرہیز نہ کیا،جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔
 دور حاضر میں جب کہ فنون لطیفہ بہت حد تک مشرکانہ عقائد سے آزاد ہو گئے ہیں انسانی فطرت اور اس کی آرزوؤں کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں،فنون لطیفہ کے متعلق مہذب قوموں کا زاویہ نگاہ بدل گیا ہے۔
لیکن آرٹ کے اندر غیر معمولی قوت اظہار کے ساتھ ساتھ ایک یہ آفت لگی رہتی ہے کہ ایک خطرے سے اس کو نجات ہوتی ہے تو کوئی دوسری قسم کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے،مگر یہ کیفیت مذہب کی بھی ہے کہ وقتاً فوقتاً انبیا اور صلحا و مجددین اس کو آلائشوں سے پاک کرکے خالص بناتے ہیں،لیکن کچھ زیادہ عرصہ گزرنے نہیں پاتا کہ مذہب کے اندر مخرب حیات عناصر دین کا روپ دہار کر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔
جس طرح ادیان کی اس مسلسل تخریب سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان مذہب کو یکسر ترک کر دے،کیوں کہ حقیقی زنگی کے تمام سرچشمے بھی صحیح دینی عقائد ہی کے اندر ہیں،اسی طرح فنون لطیفہ سے بھی انسانیت قطع تعلق نہیں کر سکتی۔ کیوں کہ فنون لطیفہ حسن و عشق کے بہترین مظاہر اور اخلاق عالیہ کے موثر عوامل بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ہر زمانے کا مصلح اعظم،خواہ وہ سقراط و افلاطون کی طرح حکیم ہو یا انبیا کی طرح گہرے روحانی وجدان سے بہرہ اندوز،اپنے زمانے کے فنون لطیفہ پر نظر ڈال کر دیکھتا ہے کہ آیا فن لطیف روح کی پرورش کر رہا ہے یا قلب و نظر کیلئے سامان موت ہے۔
یونانی علوم عقلیہ کے علاوہ فنون لطیفہ کے بھی بڑے ماہر تھے۔ لیکن سقراط کے زمانے میں ان کے فنون لطیفہ میں بھی ایسی باتیں پیدا ہو گئی تھیں کہ سقراط و افلاطون نے ”جمہوریہ“ میں جو ایک نصب العینی مملکت اور معاشرت کا خاکا تجویز کیا اس میں سے شعراء کو خارج کر دینے کا فیصلہ کیا،کیوں کہ ان کے نزدیک شعراء کی شاعری حکمت کش ہو گئی تھی۔ ہومر کی شاعری یونانیوں کے ہاں فن لطیف کا ایک شاہکار تھی،لیکن اس کے اندر بھی ضمیات سموئی ہوئی تھی۔
اس میں جن دیوتاؤں کا ذکر تھا ان میں سے بعض معمولی انسانی شریفانہ اخلاق سے بھی عاری تھے۔ بعض دیوتا چور اور رہزن تھے اور بعض بے پناہ قسم کے زانی۔ لیکن ہومر کے ہاں اچھی باتیں بھی ملتی تھیں،اس لئے سقراط و افلاطون نے یہ تجویز کیا کہ ہومر کے فقط منتخب حصے بچوں کو پڑھائے جائیں اور بداخلاق دیوتاؤں سے ان کو آشنا نہ کیا جائے۔ حالی کے زمانے تک مسلمانوں کی شاعری کا جو حال تھا اس کے متعلق مسدس میں ان کے اشعار سقراط و افلاطون سے بھی زیادہ غصے سے لبریز ہیں:
یہ شعر و قصائد کا ناپاک دفتر
عفونت میں سنڈاس سے ہے جو بدتر
#
عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے
گنہگار واں چھوٹ جائیں گے سارے
جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے
دیکھئے حالی خود شاعر ہے اور شعر ہی میں شاعروں کی مذمت کر رہا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ شعر کی اصلاح چاہتا ہے۔ اسے مطلقاً حرام کرنا نہیں چاہتا۔ اسی غرض سے اس نے شعر و شاعری پر ایک بلیغ اور محققانہ مقدمہ لکھا اور خود سید احمد خاں علیہ الرحمة کے زیر اثر اپنی شاعری کا رخ بدل دیا۔ اچھی شاعری دین و اخلاق کی بھی خدمت گزار ہو سکتی ہے کہ سید صاحب نے مسدس حالی کی نسبت فرمایا کہ یہ میری تحریک سے لکھی گئی ہے اور یہ ایسا نادر کارنامہ ہے کہ خدا نے روز قیامت میں اگر مجھ سے پوچھا کہ دنیا سے تو عمل صالح کا کیا تحفہ ہمارے لئے لایا تو یہ عرض کروں گا کہ میرا سب سے بڑھ کر قابل انعام و اجر عمل یہ ہے کہ میں نے حالی سے مسدس لکھوایا۔
حالی حیات انگیز شاعری میں اقبال کا پیش رو ہے اور اس کا بھی امکان ہے کہ اگر حالی نے شاعری کا رخ نہ بدل دیا ہوتا تو شاید اقبال کا بھی ظہور نہ ہوتا۔ اقبال میں حالی کا درد ملت موجود ہے،مگر اس کی حکیمانہ نظر حالی سے بہت زیادہ وسیع اور گہری ہے۔ غالب کی حکمت پسندی اور پرواز تخیل بھی اقبال کے اندر ترقی یافتہ صورت میں موجود ہے۔ غالب نے فیضان الٰہی کا اپنے کلام میں ہر جگہ استعمال نہیں کیا وہ بہت کچھ قدیم انحطاطی روایات کا شکار رہا۔
لیکن اقبال کے ہاں تفکر و تاثر غلط روایات کے خس و خاشاک سے پاک ہو گئے۔
اقبال بھی ایک مصلح و مبلغ شاعر ہے اور چونکہ فن لطیف کی ماہیت،اس کے حسن و قبح،اس کے صحیح اور غلط استعمال سے خوب واقف ہے اس لئے فنون لطفیہ پر اس کی تنقید بہت حکمت آموز اور اصلاح کوش ہے۔ اقبال کا زاویہ نگاہ دینی ہے،اس لئے وہ ضروری سمجھتا ہے کہ وہ دین اور فنون لطیفہ کے باہمی ربط کو واضح کرے۔
ضرب کلیم میں چار اشعار کی ایک نظم کا عنوان دین و ہنر ہے:
سرود و شعر و سیاست کتاب و دین و ہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ
ضمیر بندہ خاکی سے ہے نمود ان کی
بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فنون و افسانہ
ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی
خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ
اقبال کے پاس زندگی کے ہر شعبے اور ہر شغل کو جانچنے کا ایک ہی معیار ہے۔
اس کے پاس نفس انسانی کی ماہیت اور اس کے ممکنات کا ایک تصور ہے جس کی وضاحت کیلئے اس نے کم و بیش ہزار اشعار کہے ہیں۔ انسان کی خودی ایک لطیفہ ازلی ہے،وہ صفات الٰہیہ سے بہرہ اندوز ہو سکتی ہے ”تخلقوا با خلاق اللہ“ کی تعلیم اسی خودی کی بیداری اور استواری کی تلقین ہے۔ انسان کی خودی میں تسخیر النفس و آفاق کی لامتناہی قوتیں مضمر ہیں اور مقصود حیات ان مضمرات کو معرض وجود میں لانا ہے۔
اس کے ارتقا کی کوئی انتہا نہیں۔ یہی مقصود حیات خیر و شر کا بھی پیمانہ ہے۔ انسان نے اپنے ارتقا میں جو کچھ پیدا کیا ہے اس کا اصلی مقصد خودی کی ترقی ہی تھی۔ ادیان کا ظہور بھی اسی سے ہوا۔ تمام علوم و فنون اسی سے پیدا ہوئے۔ سیاست اور معاشرت کے تمام ادارے اسی سے ظہور میں آئے۔ انسان کبھی بھٹکا بھی تو اسی کوشش میں غلط روی سے بھٹکا،لیکن ہمیشہ گر کر سنبھلتا رہا۔
کبھی کبھی خودی کو غلط روی اس کو خود کشی کی طرف بھی لے آتی ہے اگرچہ وہ اس خود کشی کو بھی اپنی خودی ہی کا مظہر سمجھ لیتا ہے۔ انساں کے تمام مشاغل،تمام تصورات اور تمام اداروں کی تہ میں خودی کا لعل بے بہا پوشیدہ ہے۔ اسی گوہر کے متعلق اقبال کا ایک شعر ہے:
گوہر کو مشت خاک میں رہنا پسند ہے
بندش اگرچہ سست ہے مضموں بلند ہے
مندرجہ صدر چار اشعار میں اقبال نے فنون لطیفہ کے ساتھ انسان کے تمام دیگر مشاغل کو بھی شامل کرکے سب کے متعلق ایک ہی مختصر فتویٰ دیا ہے کہ اگر ان سے انسان کے نفس کی تمام قوتوں میں اضافہ ہو تو یہ سب عین حیات ہیں اور ادب،دین و سیاست اگر انسان کو تخریب اور پستی کی طرف لائیں تو سب ڈھکوسلا رہ جاتے ہیں اور امتیں اس سے ذلیل و خوار ہو جاتی ہیں۔
اسی نظم کے ساتھ ایک دوسری نظم ”تخلیق“ پر ہے جس کا موضوع بھی یہی ہے کہ افکار تازہ سے جہان نو پیدا ہوتا ہے اور جب فن و ادب میں تازہ آفرینی نہ رہے اور لوگ اُگلے ہوئے نوالوں ہی کو بار بار نگلنا اور چبانا شروع کریں تو سمجھ لیجئے کہ خودی پر موت وارد ہو گئی۔ مشرق کے دین اور فن دونوں میں اقبال کو زندگی کے آثار نظر نہیں آتے:
خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں
ہوا نہ کوئی خدائی کا رازداں پیدا
آگے چل کر ہم اقبال کے کئی اشعار اس موضوع پر مشتمل پیش کریں گے کہ فن براے فن ایک بے ہودہ نظریہ ہے۔
علامہ نہ علم براے علم کے قائل تھے اور نہ فن براے فن کے۔ کوئی مسجد بھی اگر نفاق کی خاطر بنائی جائے تو وہ بتقلید اسوہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قابل انہدام ہے۔ فرانسیسیوں نے پیرس میں ایک مسجد بنائی جس کیلئے کچھ رقم شمالی افریقہ کی مسلمان رعایا سے حاصل کی گئی تھی اور کچھ رقم کا اضافہ حکومت نے کیا ہوگا۔ راقم الحروف کو اس مسجد کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔
فرانسیسیوں کا جو سلوک مسلمانوں سے ہے وہ دنیا کو معلوم ہے۔ یہ آزادی و برادری کے علم برادر مسلمانوں کو مغلوب اور مفتوح بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ریا کاری سے اپنی ملوکیت کی استواری کیلئے انہوں نے یہ مسجد بنائی تاکہ مسلمان انہیں اپنا ہمدرد سمجھیں۔ اس مسجد کی بنا نفاق اورریا تھی،اس لئے اس کی صناعی کے باوجود اس کا احساس مسلمان کو روح فرسا محسوس ہوتا ہے۔
خاکسار کی طبیعت پر بھی یہی اثر ہوا۔ اقبال کی روح کو بھی اس سے ٹھیس لگی۔ اس اثر کو بیان کرتے ہوئے وہ ہنر کے متعلق ایک بصیرت افروز بات بھی کہہ گئے ہیں کہ محض کمال ہنر کوئی چیز نہیں جب تک کہ وہ خلوص کی پیداوار نہ ہو:
مری نگاہ کمال ہنر کو کیا دیکھے
کہ حق سے یہ حرم مغربی ہے بیگانہ
حرم نہیں ہے، فرنگی کرشمہ بازوں نے
تن حرم میں چھپا دی ہے روح بت خانہ
یہ بت کدہ انہیں غارت گروں کی ہے تعمیر
دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط