اس کے مقابلے میں مسجد ”قوت الاسلام“ پر ضرب کلیم میں چند اشعار اور ”مسجد قرطبہ“ پر اقبال کی وہ لاجواب تاثر خیز اور حیرت انگیز نظم پڑھئے جس کے متعلق ایک صاحب نے،جو فنون لطیفہ کی تنقید میں کچھ درک رکھتے ہیں،لیکن خداے مسجود و سجود کے متعلق مائل بہ الحاد ہیں،ایک روز مجھ سے کہا کہ مسجد قرطبہ پر اقبال کی نظم فن شعر کا ایک شاہکار ہے۔ یہ صاحب فن کی بحیثیت فن داد دے رہے تھے۔
اقبال مسجد قوت الاسلام کو یا مسجد قرطبہ کو محض فن کی نظر سے نہیں دیکھ رہا بلکہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ یہ تعمیریں قوت حیات کے مظاہر ہیں اور اصلی فن وہی ہے جو زندگی کا مظہر ہو،زندگی کے انفعالی اور انقلابی یاس آفرین پہلوؤں کا نہیں،بلکہ اس کی فعال قوتوں کا،جو ارتقائی اور انقلابی ہیں۔
(جاری ہے)
مسجد قرطبہ نے اقبال کے دل میں یہ جو تاثرات اور افکار پیدا کئے لازم تھا کہ ان کے اظہار کیلئے اقبال اپنا نظریہ فن بھی اس ضمن میں بیان کر دے کیوں کہ مسجد قرطبہ فن تعمیر کا ایک عظیم الشان نمونہ ہے۔
فن لطیف کے متعلق حکماء کے جو بلند پایہ نظریات ہیں ان میں سے ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ فن لطیف آنی کو جادوانی بنا دیتا ہے اور دریچہٴ زمان سے جھانک کر انسان لازمانی حقائق سے روشناس ہوتا ہے۔ ایک اچھے شاعر میں بھی یہ بات ہوتی ہے:
مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم
وراے شاعری چیزے دگر ہست
یہ چیزے دگر انہیں حقائق کا ادراک ہے جو سرمدی ہیں۔
زمانی و مکانی نہیں بلکہ الوہیت مطلقہ کا پرتو ہیں۔ اہل دل کیلئے روحانی موسیقی میں بھی یہی صلاحیت ہوتی ہے کہ نفس کو ہستی کے باطن میں غوطہ دے کر اس حقیقت مطلقہ سے براہ راست ہم آغوش کرتی ہے جس کو اگر الفاظ میں بیان کیا جائے تو بعض کوتاہ بین گمراہ ہو جائیں اور عالم کے تمام لوگوں کا زاویہ نگاہ الٹ پلٹ ہو جائے:
سر پنہان است اندر زیر و بم
فاش اگر گویم جہاں برہم زنم
بعض تصویروں میں بھی یہ اثر ہوتا ہے کہ ان کو دیکھ کر صورت پرستی کی بجائے انسان کسی اور عالم میں گم ہو جاتا ہے اور تصویر حقیقت مطلقہ کی طرف محض ایک اشارے کا کام دیتی ہے۔
عالم رنگ و بو اور جہان آب و گل میں تصویر،مصور اور معمار سے زیادہ پائیدار ہوتی ہے لیکن کمال پائیداری کے باوجود آخر کار زمانہ اس کو فنا کر دیتا ہے۔ فن لطیف کی جاودانی اس کے مظاہر میں نہیں بلکہ اس تاثیر میں ہے جو انسان کو زمان و مکان اور حوادث کے عالم سے ماوریٰ لے جاتی ہے۔ اقبال پہلے یہ کہتا ہے کہ:
آنی و فانی تمام معجزہ ہاے ہنر
کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات
انسانی تاریخ میں بڑے بڑے عظیم الشان معجزہ ہاے ہنر مرور ایام سے ناپید ہو گئے۔
کہیں کھنڈر باقی ہیں اور کہیں نشان بھی نہیں ملتا،لیکن فلاسفہ فن لطیف نے فن کی خوبی اور کمال کو جانچنے کیلئے ایک یہ معیار بھی قائم کیا ہے کہ فن جس قدر حقیقی مظہر حیات ہوتا ہے اسی قدر اس کو ثبات حاصل ہوتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے ہزارہا تعمیر کے اعلیٰ نمونے پیدا کئے،اب ان میں سے خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں،لیکن سارا جہان تاج محل کو دیکھنے آتا ہے اور اسے معجزہ فن سمجھتا ہے۔
مادی اور زمانی حیثیت سے لازوال وہ بھی نہیں،لیکن مقابلتاً اس میں ثبات زیادہ ہے۔ دنیا میں ہزارہا شعراء پیدا ہوئے جن کا اب کوئی نام جانتا ہے اور نہ ان کے کلام کا نمونہ ملتا ہے لیکن ہومر،حافظ،سعدی،شیکسپیر، گوئٹے پر زمانے کی دستبرد کا کوئی اثر نہیں۔ اس ثبات میں مطلقیت اور ابدیت کا پرتو ہے۔ اقبال کے نزدیک اعجاز فن کے یہ نمونے ان مردان خدا کی خلاقی کا نتیجہ ہیں،جن کے باطن میں زندگی کا وہ برچشمہ تھا جسے اقبال عشق کہتا ہے۔
عشق کو موت نہیں اس لئے وہ اپنے زمانی و مکانی مظاہر کو بھی ثبات بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
عشق کی بدولت جو اعجاز حسن پیدا ہوتا ہے اس کی بقا میں فطرت کس قدر کوشاں ہے،اس کا ثبوت اس سے مل سکتا ہے کہ پھول جو پروردگار حسن و عشق کے رسول ہیں،چند روز اپنی بہار دکھا کر مرجھا کر خاک ہو جاتے ہیں،لیکن ان کے مصادر حیات تخم فنا نہیں ہوتے۔
”روے گل سیر نہ دیدیم و بہار آخرشد“ کا تسکین بخش جواب فطرت کے پاس یہ ہے کہ اگلی بہار میں ایک مرجھائے ہوئے پھول کے بیج اپنی قسم کے سو پھول پیدا کر دیتے ہیں۔ فطرت بھی اپنے فن لطیف کے مظاہر کو ثبات بخشتی ہے لیکن یہ انداز ثبات ایک خاص نوعیت کا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ معجزہ فن کی نمود زندگی کی باطنی بے تابیوں کا اظہار ہے۔ خون جگر سے نمود کے یہی معنی ہیں۔
مرزا غالب کا بھی یہی نظریہ تھا کہ اچھا شعر محض صناعی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ قلب و جگر کے سوز و گداز کا نتیجہ ہوتا ہے:
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی
غالب ایک ولولہ انگیز اور بصیرت افروز غزل کے مقطع میں آفرینش شعر کی نفسیات کو بیان کرتا ہے:
بینی ام از گداز دل در جگر آتشے چو سیل
غالب اگر دم سخن رہ بضمیر من بری
اگر ایسے اشعار کہتے ہوئے میرے باطن پر نگاہ ڈال سکو تو تمہیں نظر آئے کہ گداز دل سے آتش سیال جگر کی طرف بہ رہی ہے۔
عرفی نے بھی اسی کیفیت کو بیان کیا ہے:
بحفظ گریہ مشغولم اگر بینی درونم را
ز دل تا پردہٴ چشمم دو شاخ ارغوان بینی
اقبال نے کمال فن سے تمام فنون لطیفہ کی حقیقت کو دو شعروں میں سمیٹ لیا ہے:
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
قطرہٴ خون جگر سل کو بناتا ہے دل
خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود
مصوری،سنگ تراشی،تماثیل سازی،موسیقی،شاعری سب کو یہاں کس حسن اختصار سے جم کیا ہے:
”قطرہ خون جگر سل کو بناتا ہے دل“
ایسا بلیغ مصرع ہے جس کا کوئی جواب نہیں ہو سکتا۔
فطرت خارجی ہو یا فن لطیف اس میں یا جلال پایا جاتا ہے یا جمال بے پایاں سمندر اور فلک بوس سلسلہ کہسار میں جلال طبیعت کو متاثر کرتا ہے اور ایک نازک پھول جلال کا نہیں بلکہ جمال کا مظہر ہوتا ہے۔ بعض تعمیریں ایسی ہیں جن میں جلال کو جمال سے ہم آغوش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ تاج محل کی تعمیر میں بڑی وسعت اور رفعت ہے،لیکن فنکار کا کمال یہ تھا کہ اس نے جلال کو جمال میں چھپا دیا ہے اور پوری تعمیر ایک خوش نما،لطیف اور ہلکی پھلکی چیز معلوم ہوتی ہے کہ اس کو شیشے کے ایک فانوس کے اندر ہونا چاہئے۔
صفات الہیہ میں بھی ایک پہلو جمال کا ہے،دوسرا پہلو جلال کا۔ قہاری،جباری اور جبروت جلال کے مظاہر ہیں اور مخلوق سے محبت اور اس پر رحمت از روے قرآن تمام موجودات پر محیط ہے،جمال ایزدی کا اظہار ہیں۔ خدا کی ذات میں جلال و جمال کی صفات میں کوئی تضاد نہیں۔ اسی طرح فن کا کمال یہ ہے کہ اس میں بھی یہ دونوں پہلو اس طرح ایک دوسرے میں سموئے ہوں کہ ان کا ظاہری تضاد ایک وحدت میں رفع ہو جائے۔
مسجد قرطبہ میں اقبال کو یہی اعجاز فن نظر آیا:
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل
یہاں پر یہ بات کہنا بے جا نہ ہوگا کہ خود اقبال کے بہترین کلام میں یہ خوبی موجود ہے۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ اقبال کے کلام میں جلال جمال پر غالب ہے۔
یہ غلط خیال اس لئے پیدا ہوا کہ اقبال نے خود کہیں کہیں جوش بیان میں جلال کو جمال پر غالب کر دیا ہے اور جمال کی حیثیت وہاں ثانوی دکھائی دیتی ہے:
مرے لئے ہے فقط زور حیدری کافی
ترے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک
مری نظر میں یہی ہے جمال زیبائی
کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک
نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک
مجھے سزا کیلئے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تندو سرکش و بیباک
#
گفتند جہان ما آیا بتو می سازد
گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن
#
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن
#
خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر
تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر
#
باغباں زور کلام آزمود
مصرعے کارید و شمشیرے درود