Episode 113 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 113 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اس کے مقابلے میں مسجد ”قوت الاسلام“ پر ضرب کلیم میں چند اشعار اور ”مسجد قرطبہ“ پر اقبال کی وہ لاجواب تاثر خیز اور حیرت انگیز نظم پڑھئے جس کے متعلق ایک صاحب نے،جو فنون لطیفہ کی تنقید میں کچھ درک رکھتے ہیں،لیکن خداے مسجود و سجود کے متعلق مائل بہ الحاد ہیں،ایک روز مجھ سے کہا کہ مسجد قرطبہ پر اقبال کی نظم فن شعر کا ایک شاہکار ہے۔ یہ صاحب فن کی بحیثیت فن داد دے رہے تھے۔

اقبال مسجد قوت الاسلام کو یا مسجد قرطبہ کو محض فن کی نظر سے نہیں دیکھ رہا بلکہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ یہ تعمیریں قوت حیات کے مظاہر ہیں اور اصلی فن وہی ہے جو زندگی کا مظہر ہو،زندگی کے انفعالی اور انقلابی یاس آفرین پہلوؤں کا نہیں،بلکہ اس کی فعال قوتوں کا،جو ارتقائی اور انقلابی ہیں۔

(جاری ہے)

مسجد قرطبہ نے اقبال کے دل میں یہ جو تاثرات اور افکار پیدا کئے لازم تھا کہ ان کے اظہار کیلئے اقبال اپنا نظریہ فن بھی اس ضمن میں بیان کر دے کیوں کہ مسجد قرطبہ فن تعمیر کا ایک عظیم الشان نمونہ ہے۔

فن لطیف کے متعلق حکماء کے جو بلند پایہ نظریات ہیں ان میں سے ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ فن لطیف آنی کو جادوانی بنا دیتا ہے اور دریچہٴ زمان سے جھانک کر انسان لازمانی حقائق سے روشناس ہوتا ہے۔ ایک اچھے شاعر میں بھی یہ بات ہوتی ہے:
مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم
وراے شاعری چیزے دگر ہست
یہ چیزے دگر انہیں حقائق کا ادراک ہے جو سرمدی ہیں۔
زمانی و مکانی نہیں بلکہ الوہیت مطلقہ کا پرتو ہیں۔ اہل دل کیلئے روحانی موسیقی میں بھی یہی صلاحیت ہوتی ہے کہ نفس کو ہستی کے باطن میں غوطہ دے کر اس حقیقت مطلقہ سے براہ راست ہم آغوش کرتی ہے جس کو اگر الفاظ میں بیان کیا جائے تو بعض کوتاہ بین گمراہ ہو جائیں اور عالم کے تمام لوگوں کا زاویہ نگاہ الٹ پلٹ ہو جائے:
سر پنہان است اندر زیر و بم
فاش اگر گویم جہاں برہم زنم
بعض تصویروں میں بھی یہ اثر ہوتا ہے کہ ان کو دیکھ کر صورت پرستی کی بجائے انسان کسی اور عالم میں گم ہو جاتا ہے اور تصویر حقیقت مطلقہ کی طرف محض ایک اشارے کا کام دیتی ہے۔
عالم رنگ و بو اور جہان آب و گل میں تصویر،مصور اور معمار سے زیادہ پائیدار ہوتی ہے لیکن کمال پائیداری کے باوجود آخر کار زمانہ اس کو فنا کر دیتا ہے۔ فن لطیف کی جاودانی اس کے مظاہر میں نہیں بلکہ اس تاثیر میں ہے جو انسان کو زمان و مکان اور حوادث کے عالم سے ماوریٰ لے جاتی ہے۔ اقبال پہلے یہ کہتا ہے کہ:
آنی و فانی تمام معجزہ ہاے ہنر
کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات
انسانی تاریخ میں بڑے بڑے عظیم الشان معجزہ ہاے ہنر مرور ایام سے ناپید ہو گئے۔
کہیں کھنڈر باقی ہیں اور کہیں نشان بھی نہیں ملتا،لیکن فلاسفہ فن لطیف نے فن کی خوبی اور کمال کو جانچنے کیلئے ایک یہ معیار بھی قائم کیا ہے کہ فن جس قدر حقیقی مظہر حیات ہوتا ہے اسی قدر اس کو ثبات حاصل ہوتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے ہزارہا تعمیر کے اعلیٰ نمونے پیدا کئے،اب ان میں سے خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں،لیکن سارا جہان تاج محل کو دیکھنے آتا ہے اور اسے معجزہ فن سمجھتا ہے۔
مادی اور زمانی حیثیت سے لازوال وہ بھی نہیں،لیکن مقابلتاً اس میں ثبات زیادہ ہے۔ دنیا میں ہزارہا شعراء پیدا ہوئے جن کا اب کوئی نام جانتا ہے اور نہ ان کے کلام کا نمونہ ملتا ہے لیکن ہومر،حافظ،سعدی،شیکسپیر، گوئٹے پر زمانے کی دستبرد کا کوئی اثر نہیں۔ اس ثبات میں مطلقیت اور ابدیت کا پرتو ہے۔ اقبال کے نزدیک اعجاز فن کے یہ نمونے ان مردان خدا کی خلاقی کا نتیجہ ہیں،جن کے باطن میں زندگی کا وہ برچشمہ تھا جسے اقبال عشق کہتا ہے۔
عشق کو موت نہیں اس لئے وہ اپنے زمانی و مکانی مظاہر کو بھی ثبات بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
عشق کی بدولت جو اعجاز حسن پیدا ہوتا ہے اس کی بقا میں فطرت کس قدر کوشاں ہے،اس کا ثبوت اس سے مل سکتا ہے کہ پھول جو پروردگار حسن و عشق کے رسول ہیں،چند روز اپنی بہار دکھا کر مرجھا کر خاک ہو جاتے ہیں،لیکن ان کے مصادر حیات تخم فنا نہیں ہوتے۔
”روے گل سیر نہ دیدیم و بہار آخرشد“ کا تسکین بخش جواب فطرت کے پاس یہ ہے کہ اگلی بہار میں ایک مرجھائے ہوئے پھول کے بیج اپنی قسم کے سو پھول پیدا کر دیتے ہیں۔ فطرت بھی اپنے فن لطیف کے مظاہر کو ثبات بخشتی ہے لیکن یہ انداز ثبات ایک خاص نوعیت کا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ معجزہ فن کی نمود زندگی کی باطنی بے تابیوں کا اظہار ہے۔ خون جگر سے نمود کے یہی معنی ہیں۔
مرزا غالب کا بھی یہی نظریہ تھا کہ اچھا شعر محض صناعی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ قلب و جگر کے سوز و گداز کا نتیجہ ہوتا ہے:
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی
غالب ایک ولولہ انگیز اور بصیرت افروز غزل کے مقطع میں آفرینش شعر کی نفسیات کو بیان کرتا ہے:
بینی ام از گداز دل در جگر آتشے چو سیل
غالب اگر دم سخن رہ بضمیر من بری
اگر ایسے اشعار کہتے ہوئے میرے باطن پر نگاہ ڈال سکو تو تمہیں نظر آئے کہ گداز دل سے آتش سیال جگر کی طرف بہ رہی ہے۔
عرفی نے بھی اسی کیفیت کو بیان کیا ہے:
بحفظ گریہ مشغولم اگر بینی درونم را
ز دل تا پردہٴ چشمم دو شاخ ارغوان بینی
اقبال نے کمال فن سے تمام فنون لطیفہ کی حقیقت کو دو شعروں میں سمیٹ لیا ہے:
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
قطرہٴ خون جگر سل کو بناتا ہے دل
خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود
مصوری،سنگ تراشی،تماثیل سازی،موسیقی،شاعری سب کو یہاں کس حسن اختصار سے جم کیا ہے:
”قطرہ خون جگر سل کو بناتا ہے دل“
ایسا بلیغ مصرع ہے جس کا کوئی جواب نہیں ہو سکتا۔
فطرت خارجی ہو یا فن لطیف اس میں یا جلال پایا جاتا ہے یا جمال بے پایاں سمندر اور فلک بوس سلسلہ کہسار میں جلال طبیعت کو متاثر کرتا ہے اور ایک نازک پھول جلال کا نہیں بلکہ جمال کا مظہر ہوتا ہے۔ بعض تعمیریں ایسی ہیں جن میں جلال کو جمال سے ہم آغوش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ تاج محل کی تعمیر میں بڑی وسعت اور رفعت ہے،لیکن فنکار کا کمال یہ تھا کہ اس نے جلال کو جمال میں چھپا دیا ہے اور پوری تعمیر ایک خوش نما،لطیف اور ہلکی پھلکی چیز معلوم ہوتی ہے کہ اس کو شیشے کے ایک فانوس کے اندر ہونا چاہئے۔
صفات الہیہ میں بھی ایک پہلو جمال کا ہے،دوسرا پہلو جلال کا۔ قہاری،جباری اور جبروت جلال کے مظاہر ہیں اور مخلوق سے محبت اور اس پر رحمت از روے قرآن تمام موجودات پر محیط ہے،جمال ایزدی کا اظہار ہیں۔ خدا کی ذات میں جلال و جمال کی صفات میں کوئی تضاد نہیں۔ اسی طرح فن کا کمال یہ ہے کہ اس میں بھی یہ دونوں پہلو اس طرح ایک دوسرے میں سموئے ہوں کہ ان کا ظاہری تضاد ایک وحدت میں رفع ہو جائے۔
مسجد قرطبہ میں اقبال کو یہی اعجاز فن نظر آیا:
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل
یہاں پر یہ بات کہنا بے جا نہ ہوگا کہ خود اقبال کے بہترین کلام میں یہ خوبی موجود ہے۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ اقبال کے کلام میں جلال جمال پر غالب ہے۔
یہ غلط خیال اس لئے پیدا ہوا کہ اقبال نے خود کہیں کہیں جوش بیان میں جلال کو جمال پر غالب کر دیا ہے اور جمال کی حیثیت وہاں ثانوی دکھائی دیتی ہے:
مرے لئے ہے فقط زور حیدری کافی
ترے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک
مری نظر میں یہی ہے جمال زیبائی
کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک
نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک
مجھے سزا کیلئے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تندو سرکش و بیباک
#
گفتند جہان ما آیا بتو می سازد
گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن
#
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن
#
خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر
تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر
#
باغباں زور کلام آزمود
مصرعے کارید و شمشیرے درود

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط