اس سے قبل ثبات ہنر کا تذکرہ ہو چکا ہے اور بعض صوفیہ و حکماء کا یہ نظریہ بھی بحث میں آ چکا ہے کہ ہنر مند انسان اپنی فطرت کو زمانی و مکانی حدود و قیود سے آزاد کرنا چاہتا ہے۔ فن لیطف کے متعلق ایک ادنیٰ قسم کا نظریہ یہ ہے کہ فن لطیف فطرت کی نقالی کا نام ہے۔ یہ خیال ارسطوں میں بھی ملتا ہے جو اپنی خشک حکمت کی وجہ سے ذوق جمال سے محروم تھا۔ اسی لئے وہ فن لطیف کا اصلی مقصود نہ پا سکا۔
اس کے ہاں ابدیت اور حقیقت مطلقہ کا پرتو فقط منطقی تصورات میں پایا جاتا ہے۔ اقبال فن لطیف کی ماہیت سے خوب واقف ہے۔ انسان اپنے فنون میں ہمیشہ فطرت کی نقالی نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا فن ادنیٰ درجے کا ہوتا ہے۔ فن لطیف کا اصل کام فطرت کی کثافتوں میں لطافت پیدا کرنا ہے اور بقول ورڈز ورتھ اس نور کی جھلک دکھانا ہے جو خشکی اور تری میں نظر نہیں آتا مگر روح انسانی کو روشن کرتا ہے۔
(جاری ہے)
انسان کا وظیفہ حیات فطرت کی ترمیم و تزئین ہے: ”تو شب آفریدی چراغ آفریدم“ اسی عقیدے کا اظہار ہے۔ اہرام مصر پر اقبال نے جو اشعار کہے ہیں ان میں بھی اسی خیال کو واضح کیا ہے کہ دیکھو فطرت نے توریت کے ٹیلے بنائے جوصحرا کی طوفانی ہواؤں سے ہر روز اپنا مقام بدلتے رہتے ہیں،اسی ریگ رواں کے صحرا میں فراعنہ نے وہ اہرام کھڑے کر دیئے جو دس ہزار سال سے حوادث فطرت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس زمانی مکانی عالم میں ابدیت کیلئے کوشاں ہیں۔
یہ فطرت کا مقابلہ ہے،اس کی نقالی نہیں:
اس دشت جگر تاب کی خاموش فضا میں
فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کئے تعمیر
اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک
کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر؟
فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو
صیاد ہیں مردان ہنر مند کہ نخچیر؟
اچھے اہل ہنر ایسا فردوس نظر تعمیر کرتے ہیں جو نہاں خانہ ذات کو چشم تماشا پر فاش کر دیتا ہے۔
ہنر کا کام نو آفرینی ہے۔ پرانے بتوں کو مندروں یا عجائب خانوں میں رکھ کر ان کی پرستش کرنا اور زندگی کا نئی ہنر مندی میں اظہار نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہنر کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اس ہنر کے جنازے سے اورنگزیب کے سوانح کا ایک مشہور واقعہ یاد آ گیا۔ عالمگیر کے زمانے میں سیاست،معاشرت اور ہنر سب زوال پذیر تھے۔ اس کی مسلسل کوشش بھی زوال کو نہ روک سکی۔
موسیقی عیاشی کا آلہ بن گئی تھی۔ اس نے ارباب نشاط اور مطربوں پر کچھ قدغن لگائی۔ احتجاج میں انہوں نے مرحوم موسیقی کا ایک جنازہ نکالا اور قلعے کے سامنے سے ماتمی جلوس کو گزارا تاکہ بادشاہ کو بھی اطلاع ہو جائے۔ عالمگیر نے دیکھا تو کہا کہ ان سے کہہ دو کہ اس کی قبر ذرا گہری کھودیں تاکہ آسانی سے اس کا حشر نہ ہو سکے۔
ضرب کلیم میں ایک نظم کا عنوان فنون لطیفہ ہے۔
ان اشعار میں تصورات اور نظریات زیادہ تر وہی ہے جنہیں اقبال نے بالتکرار مگر انداز بیان کی بو قلمونی کے ساتھ بے شمار اشعار میں بیان کیا ہے:
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
فن لطیف کے متعلق یہ نظریہ بعض بڑے بڑے حکماے فرنگ کے جمالیاتی نظریات کے خلاف ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ فن لطیف کا کام دلکش نفسیاتی دھوکا پیدا کرنا ہے۔
شاعری ہو یا مصوری،ڈرامہ نویسی ہو یا ناول نگاری،ان سب کا مقصود زندگی کے تلخ حقائق سے گریز ہے۔ فرائڈ کے نزدیک حقیقت آشنائی صرف طبیعی اور فرائڈ کی پیدا کردہ نفسیاتی سائنس میں پائی جاتی ہے۔ فقط انہیں میں حوادث حیات و کائنات کا کماھی مشاہدہ ہوتا ہے۔ سائنس کا کام جذبات اور تمناؤں کی فریب آفرینی سے بچنا ہے،مگر اس کے نزدیک دین اور فن لطیف دونوں فرار کے راستے ہیں۔
خدا کے تصور کے غیر حقیقی اور سیمیائی ہونے پر اس نے ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ وہ کہتا ہے دین انسان کی عاجزی اور بیکسی کی پیداوار ہے۔
جب حقیقی دنیا میں کوئی سہارا اور جائے پناہ نظر نہیں آتی اور یہاں کوئی ہستی تمام آرزوؤں کو پورا کرنے کی کفیل نہیں ہوتی تو انسان ایک ایسے عالم کا تصور قائم کر لیتا ہے جو مصائب سے پاک ہے اور جہاں اس دنیا کی تمام نا انصافیوں اور تلخیوں کی تلافی کی توقع ہے۔
جہلا کیلئے تو یہ سارا کچھ مفید ہی معلوم ہوتا ہے لیکن کسی حقیقت پسند کیلئے اس دھوکے میں زندگی بسر کرنا حکمت کے شایان شان نہیں۔ مذہب کے مقابلے میں وہ فنون لطیفہ کی مخالفت نہیں کرتا۔ ان کے دلکش دھوکوں کو وہ بے ضرر تفریح خیال کرتا ہے۔ فن لطیف کا کام دلاویز مگر موموم چیزوں کو ہنگامی طور پر موجود بنا دینا ہے۔ اس کے مقابلے میں رسن یا ورڈز ورتھ جیسے مفکر اور شاعر فن لطیف کی بابت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ زندگی کے بہت سے حقائق تلخ ہیں۔
لیکن ان کا علاج دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ ہمت اور صبر اور روحانی زاویہ نگاہ سے ان تلخیوں کے نیش کو نوش سے بدلا جائے۔ بروننگ کا نظریہ حیات زیادہ تر یہی ہے،لیکن ورڈز ورتھ صوفی مزاج شاعر ہے وہ اس حقیقت کو محسوس کرتا ہے کہ زمانی و مکانی عالم سے گریز انسان کو ایک موہوم دنیا میں نہیں لے جاتا۔ فن لطیف دھوکوں سے مسرت آفریں نہیں ہوتا بلکہ نفس انسانی کو ضمیر فطرت سے آشنا کرتا ہے۔
کسی بالغ نظر شاعر کی شاعری میں ”وراے شاعری چیزے دگر“ جو کچھ ہے وہ حقیقت حیات کا اظہار ہے جو خالی طبیعی سائنس کے بس کی چیز نہیں۔ اعلیٰ درجے کی شاعری ہویا روح پرور نغمہ میں اس میں روحانی گروہ کیلئے وہی کچھ ہے جس کے متعلق رومی کہتا ہے:
سر پنہان است اندر زیر و بم
فن لطیف کا مسرت آفرینی نہیں۔ اگرچہ روح کو اس سے ایک گہری تسکین حاصل ہوتی ہے۔
فن لطیف میں لت و الم کا تضاد مٹ جاتا ہے۔ سوز ساز بن جاتا ہے اور درد آفرین نغمے مسرت انگیز ترانوں کے مقابلے میں روح کے تاروں کو زیادہ مرتعش کرتے ہیں۔ یہ محض غم غلط کرنے کا سامان نہیں:
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں
(غالب)
اگر فن لطیفہ کا وظیفہ مسرت آفرینی نہیں تو الم آفرینی بھی اس کا مقصود نہیں۔
زندگی میں افسردگی اور یاس پیدا کرنے والا ہنر اپنے مقصد میں ناکام ہے۔ جو سوز حیات مقصود ہنر ہے وہ زندگی کے مصائب پر نالہ و فغاں کا نام نہیں۔ سوز حیات زندگی کی ماہیت میں داخل ہے،مگر یہ وہ سوز نہیں جو حوادث سے مغلوب ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ محض طبیعی حکمت مظاہر کے سطحی روابط سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور وجدان حیات کی زبان طبیعیات کی قانونی زبان نہیں۔
استدلالی فلسفہ بھی اگرچہ بعض اوقات سائنس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے،لیکن وہ بھی طبیعیات میں الجھا رہتا ہے:
رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست
ایک گتھی کو سلجھاؤ تو دو پیچاک اور پیدا ہو جاتے ہیں۔ وجدان حیات کی زبان فن لطیف ہے،جو محض فن نہیں بلکہ حقیقت رس نظر اور عرفانی تاثر کا اظہار ہے۔ یہ محض ذوق نظر سے پیدا نہیں ہوتا اس کا ماخذ وہ کیفیت ہے جسے اقبال خون جگر کہتا ہے۔
انسان کے نفس کی گہرائیوں میں سے نکلی ہوئی بات کبھی شعر بن جاتی ہے،کبھی نغمہ اور کبھی اس کا اظہار رنگ و سنگ کے واسطے سے ہوتا ہے،مگر وہ ضمیر حیات کا انکشاف ہوتا ہے۔ ضمیر حیات میں امید ہی امید ہے یاس نہیں۔ یاس انسان کیلئے بھی کفر ہے اور عام فطرت کیلئے بھی۔ مشرقی شاعری،ہندی بھاشا کے دوہے ہوں یا اُردو اور فارسی شاعری کی یاس انگیز غزلیں،اس قسم کا سب ہنر زندگی کے فقدان سے پیدا ہوتا ہے۔
ہر شاعر کی غزل گویا اس کی اپنی زندگی کا مرثیہ ہوتی ہے۔ کربلا کے عظیم الشان مجاہدانہ حوادث کو بھی مسلمانوں نے ماتم میں تبدیل کر دیا۔ حالانکہ قوم میں اگر زندگی ہوتی تو انہیں واقعات سے انقلاب انگیز اور ہمت خیز شاعری پیدا ہو سکتی تھی۔ حالی اور اقبال سے پہلے اُردو شاعری کا کمال انیس و دبیر کے مرثیوں میں ظاہر ہوا،لیکن یہ زوال کا کمال تھا۔
یہ قول میرا نہیں بلکہ علامہ اقبال کا ہے۔
اقبال کے کلام پر آپ نظر ڈال کر دیکھئے اس میں کہیں مرثیہ نظر نہ آئے گا۔ والدہ مرحومہ کی یاد میں جو ایک طویل اور حکمت و تاثیر سے لبریز نظم کہی ہے اس میں بھی آہ و زاری کہیں نہیں۔ دنیا میں ہر چیز کی بے ثباتی کا ذکر کرکے فوراً اس حقیقت حیات کی طرف اپنا رخ بدلتا ہے جس میں زندگی موت پر غالب آتی رہتی ہے۔
ہمارے غزل گووٴں میں میر تقی بڑا استاد گزرا ہے اور اکثر بڑے بڑے شعرا نے اسے داد دی ہے:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
ریختے کے تمہیں استاد نہی ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
میر کے نشتر بہتّر ہوں یا ہزار،سب میں ایک شکست خوردہ اور انفعالی کیفیت ہے:
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
#
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
غالب کے ظلمت گدے میں بھی شب غم ہی کا جوش ہے۔
شمع جو دلیل سحر ہے وہ بھی خاموش ہے۔ اس ظلمت کی وجہ سے دن اور رات یکساں ہو گئے ہیں:
چوں صبح من زسیاہی بہ شام مانند است
چہ گویمت کہ ز شب چند رفت و تاچند است