Episode 117 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 117 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

سرود حلال اور سرود حرام کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی اقبال کے پاس معیار وہی خودی کی بیداری اور استواری ہے۔ سرود بھی علم اور فطرت کی دیگر قوتوں کی طرح ایک بے طرف اور غیر جانبدار چیز ہے۔ مختلف قسم کی موسیقی مختلف تاثرات پیدا کرتی ہے اس لئے علی الاطلاق موسیقی کو نہ حلال کہہ سکتے ہیں اور نہ حرام۔ سرود حلال وہ ہے جس سے دل میں محض کوئی عارضی تموج ہی پیدا نہ ہو بلکہ وہ ایک پائیدار اثر چھوڑ جائے،جس سے زندگی کا رنگ بدل جائے۔
عارضی طور پر تو ایک جرعہ شراب سے بھی انسان غم و خوف سے پاک ہو جاتا ہے،لیکن ”لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون“ جو اولیاء کی ایک مستقل کیفیت ہے،وہ ایمان ہی کی پختگی سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے ایمان کو کئی راستوں سے تقویت پہنچتی ہے۔ اس کا ایک راستہ سرود حلال ہے:
جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک
بعض صوفیائے کرام نے اسی انداز کے سماع کو حلال قرار دیا ہے:
برسماع راست ہر کس چیز نیست
طعمہ ہر مرغکے انجیر نیست
(رومی)
اقبال اس کا منتظر ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایسے نے نواز پیدا ہوں جن کے نغموں سے دل میں ایسی کشود ہو جو زندہ و پائندہ رہے:
جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہان خودی
منتظر ہے کسی مطرب کا بھی تک وہ سرود
جو نغمہ زندگی کی قوتوں کو لوریاں دے کر سلا دے یا حسرت و حرماں سے لبریز ہو وہ سرود حرام میں داخل ہے۔

(جاری ہے)

ارباب نشاط کی ہوس انگیز موسیقی بھی مخرب خودی ہی ہے:
اگر نوا ہے پوشیدہ موت کا پیغام
حرام میری نگاہوں میں ناے و چنگ و رباب
اقبال نے فکر و تاثر اور فن شعر کے بہت سے سانچے فارسی شاعری سے حاصل کئے اور جابجا اس نے فراخدلی سے اس کا اقرار بھی کیا ہے۔ فارسی شاعری نے اپنے ہزار سالہ ارتقا میں انداز بیان میں بڑی لطافتیں اور نزاکتیں پیدا کیں۔
نظریات حیات اور افکار کی ثروت کے لحاظ سے بھی یہ سارا دفتر ایسا نہیں جس کے متعلق کوئی منصف مزاج شخص یہ کہہ سکے کہ ”ایں دفتر بے معنی غرق مے ناب اولیٰ۔“ تصوف کی شاعری جتنی لطیف اور بلند فارسی میں ملتی ہے اتنی دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں،لیکن خاص حالات اور روایات کی وجہ سے اور کچھ عجمی طبیعت کی بدولت اس کے اندر کچھ ایسے تصورات اور تاثرات بھی ظہور پذیر ہوئے جنہوں نے انسان کی فعلی قوتوں کو سلا دیا۔
فارسی شاعری پر کہیں لذتیت طاری ہو گئی اور کہیں سکون طلبی اور کہیں زندگی کے متعلق قنوط پیدا ہو گیا۔ اقبال نے جو اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن میں اپنی قوم کو حافظ کے تغزل سے پرہیز کی تلقین کی اس کی وجہ یہی تھی کہ حافظ میں کہیں جبر کی تعلیم ہے اور کہیں کھلم کھلا ابیقوری قسم کی لت پرستی۔ وہ کہیں ہمت سے زندگی کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا۔
وہ تمام مصائب کا علاج آب طرب ناک سے کرنا چاہتا ہے۔ حافظ کے کلام میں مجاز کا پہلو حقیقت پر غالب دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اگر اس کے سب مجاز کو استعارہ سمجھ لیا جائے تو الگ بات ہے۔ چنانچہ اکثر مسلمان شارحین نے ایسا ہی کیا ہے اور کہا ہے کہ حافظ کی شراب شراب معرفت ہے،لیکن کھینچ تان کر بھی ایسے اشعار کو کوئی کیسے تصوف بنائے گا:
مے دو سالہ و معشوق چار دہ سالہ
ہمین بس است مرا صحبت صغیر و کبیر
#
آن تلخوش کہ ساقی ام الخبائثش خواند
اشھیٰ لنا واحلیٰ من قبلتہ العذارا
یہاں وہ کھل کر کہتا ہے کہ میں اسی شراب کا ذکر کر رہا ہوں جسے اسلام نے ام الخبائث کہا ہے۔
مجھے تو وہ بوسہ معشوق سے زیادہ شیریں معلوم ہوتی ہے۔ حافظ کے متعلق مولانا شبلی کا بھی یہی خیال ہے کہ اس کے ہاں خیام والی لذت پرستی ہے۔ زندگی کے معمے سمجھ میں نہیں آتے تو انہیں جام شراب میں غرق کر دو۔ تنگ دستی ہو تو اس کو کوشش سے رفع کرنے کی بجائے مستی سے اس کا علاج کرو۔ مفلس بھی ہوں گے تو اپنے تئیں قارون سمجھو گے:
ایام تنگ دستی در عیش کوش و مستی
کایں کیمیاے ہستی قاروں کند گدا را
#
حدیث از مطرب و مے گو و راز دہر کمتر ہو
کہ کش نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را
سکون طلبی ”لاادریت‘ کے ساتھ وابستہ ہے کہ زندگی کے اسرار کوئی نہ سمجھا لہٰذا جہاں تک ہو سکے اس چپقلش میں مت پڑو۔
اگر زندگی کے متعلق اس قسم کے تصورات اور اطمینان قلب کی تلاش کے ساتھ ساتھ حوادث حیات پر غلبہ پانے کی مجاہدانہ تلقین بھی ہو تو زندگی میں ایک اعتدال اور توازن پیدا ہو سکتا ہے:
اسرار ازل را نہ تو دانی و نہ من
ایں حرف معما نہ تو خوانی و نہ من
یہاں تک تو انبیا اور اولیا بھی عجز ادراک میں شریک ہو سکتے ہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ خیر و شر کی ماہیت بھی واضح نہیں لہٰذا جدوجہد کا ہے کو کی جائے،زندگی کو مفلوک کر دیتا ہے۔
فن لطیف میں طرب ناکی اور دل آویزی بھی ہوتی ہے اور اس عنصر کو کون خارج کر سکتا ہے،لیکن زندگی فقط لطف اندوزی کا نام نہیں۔ یہ کوئی نہ کہہ سکے گا کہ اقبال خود عجمی شاعری سے لطف اندوز نہ ہوتا تھا۔ عجم کا حسن طبیعت اس کی فارسی غزلوں میں جھلکتا ہے۔ بہت سی غزلیں اور متفرق اشعار ایسے ہیں کہ انہیں دیوان حافظ میں رکھ دو تو کسی صاحب ذوق سلیم کو بھی مزاج حافظ سے اجنبیت کا احساس نہ ہو،لیکن فرق یہ ہے کہ اقبال نے انہیں الفاظ کو اور معنی پہنا دیئے ہیں اور حافظ شیراز کے ساتھ خالد جانباز کا رنگ بھی بعض اوقات ایک ہی غزل میں جھلکتا ہے۔
’گورستان شاہی‘ کی نظم میں اقبال نے یہ کہا تھا کہ قوم کی شان جلالی کا ظہور تاریخ اسلام میں ہو چکا ہے،اب شان جمالی کے ظہور کا زمانہ ہے:
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
لیکن فکر و تاثر میں ترقی کرتے ہوئے اور تقدیر امم کا جائزہ لیتے ہوئے بعد میں اس کا زاویہ نگاہ بدل گیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جمال کو جلال سے الگ نہیں کر سکتے۔
جلال موجود نہ ہو تو نبوت بھی بے اثر ہو جائے:
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ طلب طرب کا نتیجہ ہمیشہ مایوس کن ہوتا ہے۔ لذت پرستی خود اپنے محدود مقصود میں بھی کامیاب نہیں ہوتی۔ دنیا میں خودکشی کرنے والے انسانوں کی نفسیات کو اگر ٹٹولا جائے تو اس کی تہہ میں یہی حقیقت ملے گی کہ ایک شخص زندگی سے لذت و راحت کا طالب تھا اور جب زندگی اس کو کانٹوں کا بستر محسوس ہونے لگی تو اس نے ناقابل علاج سمجھ کر اس کا خاتمہ کر دیا۔
عجمی شاعری میں اور اس کی تقلید میں اُردو شاعری میں،آپ کو دونوں چیزیں بہم ملیں گی۔ ہوس پرستی اور لذت طلبی میں انہماک کے ساتھ ساتھ زندگی کی مرثیہ خوانی بھی ہے۔ لذتیت کے دوش بدوش افسردگی بھی ہے۔ زندگی کی لطافتوں اور خوش باشی کا کا انجام دیکھ کر انشا جیسے ہنسوڑے لذت پرست اور بذلہ سنج نے جو اپنی آخری کیفیت بیان کی ہے اسے پڑھ کر دل پر کس قدر افسردگی طاری ہوتی ہے:
نہ چھیڑاے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
بسان نقش پاے رہرواں کوے تمنا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں
یہ شاعر کسی بلند نصب العین کے فقدان کی وجہ سے زندگی کے حوادث کا حریف نہ بن سکا۔
اقبال کی اصطلاح میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی خودی استوار نہ تھی۔
ہمارا تغزل ہوس پرستی کے ساتھ ساتھ افسردگی اور یاس سے لبریز ہے۔ جب فن لطیف میں یہ بات پیدا ہو جائے تو اس کی سرسری طرب ناکی اور دل آویزی سے بھی پرہیز لازم ہو جاتا ہے۔ اقبال کا نصب العین یہ تھا کہ عجم کے حسن طبیعت میں عرب یعنی اسلام کا سوز وروں داخل کرکے زندگی کیلئے اکسیر سعادت تیار کی جائے۔
اس مقصد کے حصول میں اقبال کی شاعری ایک کامیاب تجربہ ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اقبال کے اشعار طرب ناک اور دل آویز نہیں ہیں۔ یہ دل آویزی اس کو عجم سے حاصل ہوئی ہے۔ مگر اقبال کے ہاں یہ دل آویزی شمشیر خودی کو کند نہیں کرتی۔ اس کے ہاں نیام مرصع اور خوبصورت ہے لیکن اس کے اندر تلوار بھی تیغ دو دم ہے ”مصرعے کارید و شمشیرے درود“:
ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک و دل آویز
اس شعرسے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز
افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستان
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط