فن لطیف کے متعلق ایک نظریہ یہ ہے کہ اس کو فطرت خارجی اور فطرت انسانی کا آئینہ ہونا چاہئے۔ آئینے کا کام تنقید نہیں،آئینہ سب کچھ دیکھ کر خاموش رہتا ہے۔ وہ مبلغ نہیں ہوتا۔ مدح و ذم سے اس کو واسطہ نہیں۔ اقبال کا کمال دیکھئے کہ شیکسپیئر پر جو اشعار اس نے کہے ہیں ان کی ردیف ہی آئینہ ہے۔ شیکسپیئر کا کمال فن یہ ہے کہ زندگی کا جو پہلو اس کے سامنے آتا ہے اور کسی کردار کے جو خدوخال ہیں ان کو بعینہ آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔
اسی لئے کسی کو آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ شیکسپیئر کا مذہب کیا تھا۔ وہ مومن کو بحیثیت مومن اور کافر کو بحیثیت کافر پیش کرتا ہے،فتویٰ اور تنقید پڑھنے والے کیلئے چھوڑ دیتا ہے۔ شیکسپیئر کے پچاس ڈرامے پڑھ کر انسان خود ایک قسم کا آئینہ بن جاتا ہے،کسی خاص نصب العین کیلئے جدوجہد کرنے کا میلان پیدا نہیں ہوتا۔
(جاری ہے)
یہ سچ ہے کہ شیکسپیئر کے کلام میں بھی حقیقت کا اظہار ہے لیکن اقبال کا نظریہ حیات حقائق حاضرہ میں انقلاب چاہتا ہے۔
انسان کی اصل حقیقت وہ نہیں جواب ہے،بلکہ وہ ہے جو اسے ہونا چاہئے اور یہ ”چاہئے‘ آئینے کی عکاسی میں نہیں آتا،مگر شیکسپیئر کی امتیازی خصوصیت کو کس عمدگی سے بیان کیا ہے:
شفق صبح کو دریا کا خرام آئینہ
نغمہ شام کو خاموشی شام آئینہ
برگ گل آئینہ عارض زیباے بہار
شاہد مے کیلئے حجلہٴ جام آئینہ
حسن آئینہ حق اور دل آئینہ حسن
دل انساں کو ترا حسن کلام آئینہ
اس کے بعد اقبال کی ”شعر عجم‘ پر تنقید کے آخری شعر کا مطلب اچھی طرح واضح ہو جائے گا:
اقبال یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ
از ہرچہ بآئینہ نمایند بپرہیز
عجمی شاعری میں عاشق فقط اپنے سینے پر تیشہ چلاتا رہتا ہے ”چھاتی پہ رات ہجر کی کالا پہاڑ ہے“ اور اسی پہاڑ پر کوہ کنی میں مبتلا رہتا ہے۔
کاو کاو سخت جانی ہاے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوے شیر کا غالب
(غالب)
#
ہمچو فرہاد بود کوہ کنی پیشہما
کوہ ما سینہ ما ناخن ما تیشہ ما
بہر یک جرعہٴ مے منت ساقی نہ کشیم
اشک ما بادہ مادیدہ ما شیشہ ما
اقبال فن لطیف کو جس خارہ تراشی کا آلہ اور وسیلہ بنانا چاہتا ہے وہ ایک الگ قسم کی ہے:
زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز
چوں پختہ شدی خود را بر سلطنت جم زن
#
گفتد جہان ما آیا بتو می سازد
گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن
اقبال کو اپنے وطن کے معاصرانہ فن لطیف میں کہیں خارہ تراشی نظر نہیں آتی۔
زیادہ تر غزلیں کسی اصلی یا تخیل کی پیداوار عورت کے متعلق اظہار ہوس ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ بھی غنیمت ہے کہ ایرانی امرد پرستی رفتہ رفتہ یہاں اُردو کی شاعری میں ناپید تو نہیں لیکن کمیاب ہو گئی۔ اُردو میں شاعری نے فعل میں جمع کا صیغہ استعمال کرنا شروع کر دیا تاکہ یہ بات گول ہی رہے کہ معشوق مرد ہے عورت:
نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے
پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے
زمانہ حال میں عشقیہ شاعری میں کھلم کھلا تانیث کا صیغہ استعمال ہونے لگا ہے۔
فرائڈ کہتا ہے کہ انسانی نفسیات میں ایک عمل تلطیف ہے جس کی بدولت جنسی عشق کی قوتیں غیر جنسی مقاصد حالیہ کا روپ اختیار کر لیتی ہیں،لیکن ہمارے غزل نویسوں کا عشق جنسی میلان سے آگے قدم ہی نہیں رکھتا۔ ان کا دل زلف پیچاں کے پیچاک سے نکلتا ہی نہیں،کیوں کہ نکلنا چاہتا ہی نہیں:
زلف پر پیچ میں دل ایسا گرفتار ہوا،چھٹنا دشوار ہوا
کچھ افسانے اخلاقی اور معاشرتی بھی ملتے ہیں،لیکن زیادہ تر افسانوں میں عورت کا عشق ہی محور داستان ہوتا ہے اور یہی افسانے زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔
جنسی عشق کی تخریبی کارروائیاں،بہت کچھ جدید نفسیات تحت الشعور سے اخذ کردہ اکثر افسانہ نویسوں کا کل سرمایہ ہیں۔ جس قدر عریاں نویسی ہو اسی قدر افسانہ نویس،صاحب کمال شمار ہوتا ہے اور اسی قدر اس کو قوم سے داد ملتی ہے۔ اگر شراب نوشی کا شکار ہو کر جوانا مرگ ہو جائے تو سارے ادیب اور پڑھنے والے اس کا ایسا ماتم کرتے ہیں کہ گولی حالی یا شبلی یا سر سید یا اقبال ثانی جہان فانی سے گزر گیا۔
مصوروں کی تصویروں میں بھی زیادہ تر عورتیں ہی نظر آئیں گی۔ برہنگی کو تو فرنگ کی مصوری اور سنگ تراشی نے فن کا لازمہ بنا دیا ہے۔ مصوروں اور بت تراشوں کے سامنے متناسب اعضا اور حسین چہروں والی عورتیں برہنہ ہو کر بطور ماڈل کئی روز تک مادر زاد برہنگی میں فنکار کے بتائے ہوئے انداز میں روبرو موجود رہتی ہیں اور اس اجرت وصول کرتی ہیں۔ پاکستان میں نیوڈ آرٹ کا زیادہ رواج نہیں ہوا کیوں کہ مشرق میں نسوانی شرم و حیا ابھی بہت کچھ باقی ہے لیکن اکثر باکمال ہندی اور پاکستانی مصوروں کی تصویروں میں بھی متنوع لباس میں ملبوس عورتیں ہی نظر آتی ہیں۔
اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ ان کو عورتیں سمجھ کر دیکھنے والے نقاد ذوق فن سے محروم ہیں۔ یہ عورتیں نہیں بلکہ اعلیٰ تصورات کی آیات یا علامات ہیں۔ ایسی تصویروں میں عورت عورت نہیں بلکہ ایک رمز ہے اور یہ رمز شناس یا خود مصور ہے یا معدودے چند نقادان فن۔ راقم الحروف نے ایک نقاد فن کے شبستان میں ایک برہنہ عورت کی تصویر آویزاں دیکھی اور اس سے کہا کہ میں فن مصوری کے رمز کو سمجھنا چاہتا ہوں،مجھے اس تصویر میں جن تصورات کا اشارہ ہے ذرا سمجھا دیجئے۔
آخر میں ذوق جمال سے ایسا محروم نہیں ہوں اور نفسیات سے بھی اتنا بے بہرہ نہیں ہوں کہ آپ کے سمجھانے سے بھی کچھ نہ سمجھ سکوں۔ اس نقاد کی قوت بیان بھی غیر معمولی تھی،لیکن اس کے باوجود اس نے کہا کہ میں کیا سمجھاؤں تم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ میں اس کے سوا اور کیا نتیجہ نکالتا کہ یہ تصویر جذبہ جنسی نے شبستان میں آویزاں کر رکھی ہے۔ اس کے سوا کچھ معنی ہوتے ہیں تو سمجھانے کی کچھ تو کوشش کی جاتی ہے۔
ایسے ہی ہنروروں کے متعلق اقبال نے کہا ہے:
عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
ان کے اندیشہٴ تاریک میں قوموں کے مزار
چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
لیکن اب کچھ اشتراکی صاحبان فن ایسے بھی پیدا ہو گئے ہیں کہ ان کے اعصاب پر مزدور و کسان سوار ہو گئے ہیں اور یہ بوجھ اس پہلے بوجھ کے مقابلے میں زیادہ وزنی اور زیادہ کثیف ہے۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ کسی کامل الفن فنکار میں فن لطیف وہبی ہوتا ہے یا کسبی۔ انگریزی میں ایک مثل ہے کہ بننے سے کوئی شاعر نہیں بن سکتا،شاعر بطن مادر ہی سے شاعر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تلمیذ الرحمان ہونے کا بھی یہی مفہوم ہے اور شاعر کے جزو پیغمبری ہونے کے بھی یہی معنی ہیں۔ اس کا جواب اقبال نے مختصراً تین اشعار میں دیا ہے کہ ایجاد معانی کی غیر معمولی صلاحیت خدا داد ہوتی ہے لیکن فن کا کمال بے حساب محنت طلب بھی ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ قیمتی پتھر تو کانوں میں فطرت ہی پیدا کرتی ہے لیکن کوئی ہیرا تراشنے کے بغیر پوری طرح حسین اور نوا افشاں نہیں بنتا:
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جی عقیق کٹا تب نگیں ہوا
نابغہ یا جینیس کے متعلق کسی انگریز مفکر کا قول ہے کہ جینیس کے کمال میں ایک قلیل اساس فطری ہوتی ہے،جو مقصدر الہام ہوتی ہے لیکن اس گنجینہ سینہ سے زیادہ محنت کا پسینہ کمال پیدا کرتا ہے۔
بعض لوگوں نے نبوت کے متعلق بھی اس قسم کی بحث کی ہے کہ وہ وہبی ہوتی ہے یا کسبی۔ خدا جس کو چاہے بغیر کسی استحقاق کے نبی بنا دیتا ہے یا کسی شخص کی روحانی ترقی اس کو اس درجے تک پہنچا دیتی ہے؟ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اس کی اساس وہبی ہے لیکن نبی کو اپنا وظیفہ نبوت ادا کرنے کیلئے دوسرے انسانوں سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے یہ جدوجہد نبوت سے قبل بھی ہوتی ہے اور بعشت کے بعد بھی مسلسل جاری رہتی ہے۔ حافظ نے اپنی استعداد کے وہبی ہونے کے متعلق کہا ہے:
چہ رشک می بری اسے نست نظم بر حافظ
قبول خاطر و لطف سخن خدا داد است