سترہواں باب:
ابلیس
ابلیس یا شیطان کی ماہیت کیا ہے؟ یہ بھی اسرار حیات میں سے ایک سربستہ راز ہے۔ صوفیہ،حکماء اور مفکر شعرا نے طرح طرح سے اس کی گرہ کشائی کی کوشش کی ہے۔ کیا ابلیس زندگی کے کسی مظہر کا نام ہے یا وہ کوئی آمادہ بہ شر شخصیت ہے؟ کیا وہ کوئی زوال یافتہ باغی فرشتہ ہے یا اس جناتی مخلوق کا امام ہے جسے قرآن نے ناری قرار دیا ہے؟ لیکن خود نار کیا ایک استعارہ ہے یا دنیا کی آگ کی طرح جلانے اور بھسم کرنے کا ایک عنصر ہے۔
اسی طرح ملائکہ کی ماہیت کے متعلق بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ پروں والی،مابین السماء و الارض پرواز کرنے والی اور احکام الٰہی بجا لانے والی مخلوق ہے یا وہ بھی حیات و کائنات میں مخصوص قسم کی قوتوں کا نام ہے؟ ملائکہ اشخاص ہیں یا قوائے حیات،جو فطرت کو خیر کی طرف مائل کرتے ہیں؟ یہ سب باتیں متشابہات میں سے ہیں،جن کا علم اللہ ہی کو ہے۔
(جاری ہے)
’راسخون فی العلم‘ ان حقائق پر ایمان رکھتے ہیں۔
لیکن ان کی تاویل خلاق فطرت ہی کو معلوم ہے۔
متصوفانہ ادب میں ابلیس کے متعلق طرح طرح کے تصورات ملتے ہیں۔ کسی نے اس کو ملعون ہونے کی بجائے سے بڑا موحد قرار دیا ہے،جس نے حکم الٰہی کے باوجود غیر خدا کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ کسی نے اس کو مادیت کا امام گردانا ہے کہ آدم کا خاکی عنصر تو اس کو نظر آیا اور اس کے عرفان اور روحانی ممکنات اس کو نظر نہ آ سکے۔
آج بھی فلسفیانہ مادیت انسان کے متعلق وہی زاویہ نگاہ رکھتی ہے جسے قرآن نے ابلیس کی طرف منسوب کیا ہے۔ بعض فرنگی محققین کی یہ رائے ہے کہ شیطان کا تصور وہی ایرانی تنویت میں اہرمن کا تصور ہے اور بنی اسرائیل نے جلاوطنی کے زمانے میں جو ایرانی تصورات قبول کرکے ان کو مذہب میں داخل کر لیا،شیطان کا تصور بھی انہیں تصورات میں سے ہے،کیونکہ بنی اسرائیل کے قدیم انبیاء میں یہ عقیدہ کہیں نہیں ملتا۔
قرآن و حدیث میں شیطان کے متعلق جو تصورات ملتے ہیں ان کا مطالعہ دلچسپ بھی ہے اور حکمت آموز بھی۔ ابلیس کی اگر کوئی ایک شخصیت ہو تو وہ ایک وقت میں ایک جگہ عمل کرتی ہوئی نظر آئے،لیکن حدیث شریف میں ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اس کا شیطان لگا ہوا ہے۔
اس پر ایک صحابی نے ذرا جرأت سے پوچھا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی؟ فرمایا کہ ہاں،میرے ساتھ بھی ہے مگر میں نے اسے مومن بنا رکھا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شیطان تو مومن ہو گیا لیکن کفار کے ساتھ لگا ہوا شیطان کافر ہی رہا اور پھر شیطان ایک تو نہ ہوا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ شیطان انسان کی رگ و پے میں اور اس کی روح کی گہرائیوں میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔ اس بیان میں شیطان کوئی شخصیت معلوم نہیں ہوتا بلکہ زندگی میں ایک تخریب انگیز میلان کا نام ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا جو خیر مطلق ہے اس نے ایسی ہستی کو پیدا ہی کیوں کیا اور انسانوں کو ورغلانے کیلئے اس کو ایسی کھلی اجازت کیوں دی؟ از روئے قرآن حیات و کائنات کی کوئی قوت خدا کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتی۔
سب جگہ آئین الٰہی کار فرما ہیں اور مخلوقات میں سے ہر شے خدا کی مطیع ہے۔ یہ اطاعت طوعاً ہو یا کرہاً،اختیار سے ہو یا جبر سے۔ عارف رومی کے نزدیک شیطان اس زیرکی کا نام ہے جو عشق سے معرا ہو کر ادٰنیٰ مقاصد کے حصول میں حیلہ گری کرتی ہے:
می شناسد ہر کہ از سر محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
قرآن کریم نے استکبار کی وجہ سے انکار کو اس کی امتیازی صفت قرار دیا ہے۔
دراصل ابلیس کی ماہیت کا مسئلہ خیر و شر کا مسئلہ ہے۔ حیات و کائنات میں شر کے وجود سے کون انکار کر سکتا ہے۔ حکماء نے شر کے دو بڑے اقسام قرار دیئے ہیں۔ ایک شر طبیعی ہے جیسے آندھیاں،طوفان،زلزلے اور ہزاروں قسم کی بیماریاں جن سے انسانوں کو ضرور پہنچتا ہے لیکن وہ انسانی ارادوں کی پیداوار نہیں۔ دوسری قسم نفسی یا اخلاقی شر ہے،جو انسان کے اختیار کے غلط استعمال سے پیدا ہوتا ہے۔
المانی حکیم لائبنیز کے نزدیک شر کی ایک قسم مابعد الطبیعی بھی ہے۔ اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ خدا ہی ہستی لامحدود ہے جو خیر مطلق ہے۔ خدا کے سوا ہر مخلوق میں کچھ نہ کچھ کمی ہونا لازمی ہے۔ یہ کمی یا نقص خیر کا ایک گونہ فقدان ہے۔ چونکہ کوئی مخلوق،خدا نہیں بن سکتی اس لئے ہر ہستی میں کم و بیش نقص کا ہونا لازمی ہے اور ہر نقص ایک قسم کا شر ہے۔
قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ خیر و شر سب خدا کی طرف سے ہے،لیکن بایں ہمہ سب کچھ خدا کے دست خیر سے صادر ہوتا ہے۔
انسان کیلئے شر کی ماہیت کا سمجھنا اور ہستی میں اس کا مقام متعین کرنا ایسا ضروری ہے جیسا کہ خیر کی ماہیت کو سمجھنا۔ کیونکہ خیر و شر باہمی تقابل ہی سے سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ شرق و غرب میں بعض اکابر صوفیہ،حکماء اور شعرا نے ابلیس کو المیہ (ٹریجڈی) کا ایک زبردست کردار بنا دیا۔
ملٹن کے فردوس گمشدہ،کی دینی نظم میں شیطان ایک زبردست کریکٹر ہے اور اس کی تشکیل میں ملٹن نے اپنی قوت تخیل کو پورے زوروں پر استعمال کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے بعض نقادوں کے رائے ہے کہ ملٹن کا شیطان اس کے خدا کے مقابلے میں زیادہ قوی اور لبریز حیات معلوم ہوتا ہے۔ گوئٹے کے حکیمانہ ڈرامے ’فوسٹ‘ میں زندگی کے گہرے اسرار اور اس کی باطنی قوتوں کی گرہ کشائی کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس ڈرامے کا ہمپایہ اور روحانی بصیرت والا مفکر شاعر ہے،اس نے بھی ابلیس کی حقیقت کو کئی جگہ بیان کرکے اس تصور کو ایک نئے رنگ میں پیش کیا ہے۔
اقبال کے ہاں ابلیس کا تصور اس کے فلسفہ خودی کا ایک جزو لاینفک ہے۔ خودی کی ماہیت میں ذات الٰہی سے فراق اور سعی قرب و وصال دونوں داخل ہیں۔ اقبال کے فلسفہ خودی کی جان اِس کا نظریہ عشق ہے۔ عشق کی ماہیت آرزو،جستجو اور اضطراب ہے۔ اگر زندگی میں موانع موجود نہ ہوں تو وہ خیر کوشی بھی ختم ہو جائے جس کی بدولت خودی میں بیداری اور استواری پیدا ہوتی ہے۔
اگر انسان کے اندر باطنی کشا کش نہ ہو تو زندگی جامد ہو کر رہ جائے۔
اقبال نے شیطان کی خودی کو بھی زور و شور سے پیش کیا ہے اور کئی اشعار میں تو شیطان کی تذلیل کی بجائے اس کی تکریم کا پہلو نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال جدوجہد کا مبلغ ہے اور جدوجہد باطنی اور خارجی مزاحمتوں کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ خودی اپنے ارتقا کیلئے خود اپنا غیر پیدا کرتی ہے۔
تاکہ اس کو جذب کرنے اور اس پر غالب آنے سے انسان روحانی ترقی کر سکے۔ زندگی کی مزاحمتوں کے اندر تو کوئی روح محبت نہیں،لیکن روح محبت ان کی بدولت قوت حاصل کرتی ہے۔ قرآنی ابلیس انکار مجسم ہے جسے نفی حیات سمجھنا چاہئے،لیکن زندگی ہر قدم پر اپنی نفی کرکے بہتر اثبات کی طرف قدم اٹھاتی ہے۔ اثبات کیلئے نفی مقدم ہے:
لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا
شیطان زندگی کے مراحل میں اس وقت غالب معلوم ہوتا ہے جب انسانی نفی کی منزل میں رک جائے اور آگے اثبات کی طرف اس کے قدم نہ اٹھ سکیں۔
اگر نفی کا عنصر بھی انسان کیلئے اثبات سے کم اہمیت نہیں رکھتا تو اس سے گریز ناممکن بلکہ ناواجب ہے۔ جذبات اگر عقل و عشق سے کنارہ کش ہو کر عنان گسیختہ مصروف عمل ہوں تو ان میں وہی انداز پیدا ہوتا ہے جسے قران نفس امارہ کہتا ہے،لیکن زندگی میں کوئی اچھا کام بھی جذبات کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ افلاطون نے نفس انسانی کو ایک رتھ سے تشبیہ دی ہے جس میں جذبات کے گھوڑے لگے ہوتے ہیں۔
ان کی عنان نفس عاقلہ کے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔ اگر عقل کی گرفت ڈھیلی ہو جائے تو یہ گھوڑے رتھ کو ٹکرا کر تباہی پیدا کر دیں۔ لیکن اگر گھوڑے نہ ہوں تو رتھ اپنی جگہ سے جنبش ہی نہ کر سکے۔ غرضیکہ مقصود حیات جذبات کشی نہیں بلکہ ان جذبات کو عقل و عشق و ایمان کے زیر عنان رکھنا ہے۔
مندرجہ صدر حدیث کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اسوہ نبوت یہ ہے کہ شیطان کی گردن مارنے کی بجائے اس کو مومن بنا کر اس سے مومنوں والے کام لئے جائیں۔
خارجی اور باطنی زندگی کی قوتیں اور کائنات میں کام کرنے والی طاقتیں جیسے برق و طوفان،تخریب و تعمیر دونوں میں کام آ سکتی ہے۔ ان قوتوں کی تخریب کو دیکھ کر انہیں خیر مطلق کا منافی سمجھنا بے بصری کا نتیجہ ہے۔ انہیں قوتوں کی تسخیر انسان کا مقصود حیات ہے۔ لیکن تسخیر کیلئے زبردست مزاحم قوتوں کا وجود لازم ہے۔ اگر یہ مزاہم قوتیں نہ ہوتیں تو ارتقاے حیات ناممکن تھا۔
اس تصور کے مطابق شیطان کائنات میں بھی کارفرما ہے اور ہر شعبہ حیات میں بھی وہی انسان کے جسم میں بھی ہے،اس کے شعور میں بھی اور اس کے تحت الشعور میں بھی۔ وہ حرکت اور تخلیق کا مصدر ہے،لیکن اگر عقل و عشق کی قوتیں اس پر قابو نہ پا سکیں تو زندگی میں کوئی نظم و ضبط پیدا نہ ہو سکے۔
اقبال کی نظم ’تسخیر فطرت“ میں ابلیس سجدہ آدم سے انکار کی وجہ بڑے زور شور سے بیان کرتا ہے۔
وہ اپنے آپ کو حرکت کا سر چشمہ بناتا ہے۔ زندگی میں جو برکت ہے وہ حرکت کی وجہ سے ہے،اس لئے وہ زندگی کی برکتوں کو بھی اپنی طرف منسوب کر لیتا ہے۔ وہ ذات باری کو کہتا ہے کہ سب ہنگامہ حیات اور زندگی کی تمام ہماہمی اور گہما گہمی میری وجہ سے ہے۔ میں نہ ہوتا تو نہ کائنات میں جنبش نظر آتی اور نہ زندگی میں سوز و ساز ہوتا۔ وہ تخریبی حرکات کے ساتھ ترکیبی عناصر اور مظاہر کو بھی اپنا رہین منت سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے خواہ مخواہ بدنام کرتے ہو کہ میں نفی و تخریب ہی کے درپے رہتا ہوں۔
لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہر نئی تعمیر پہلی تعمیر کو ڈھانے کے بعد ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ تخریب کو مجھ سے منسوب کرتے ہو تو تعمیر کو بھی میری طرف منسوب کرو،جو تخریب کے بغیر نہ ہو سکتی تھی:
ہربناے کہنہ کاباداں کنند
اول آں تعمیر را ویراں کنند