Episode 121 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 121 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

شیطان کے آتش نژاد ہونے کے بھی یہی معنی ہیں کہ موجودات کا وجود حرارت سے ہے۔ اس سلسلے میں ابن عربی نے ایک نہایت حکیمانہ اور عارفانہ بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جنت کے پھل دوزخ کی حرارت سے پکتے ہیں۔ بات ایسی گہری ہے کہ ایک طویل مضمون اس کی شرح کیلئے درکار ہے۔ اس سے جنت اور دوزخ کی ماہیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ فرشتوں کو نوری کہتے ہیں اور شیاطین و جنات کو ناری۔
شیطان کہتا ہے کہ ناری کو نوری پر ترجیح ہے،کیونکہ نار میں حیات آفرینی اور نور،نار ہی کا ایک مظہر ہے۔ نور بحیثیت نور کوئی حرکت پیدا نہیں کر سکتا:
نوری ناداں نیم سجدہ بہ آدم برم
او بہ نہاد است خاک من بہ نژاد آذرم
می تپد از سوز من، خون رگ کائنات
من بہ دو صرصرم، من بہ غو تندرم
رابطہٴ سالمات، ضابطہ امہات
سوزم و سازے دہم آتش مینا گرم
ساختہ خویش را در شکنم ریز ریز
تا ز غبار کہن پیکر نو آورم
پیکر انجم ز تو، گردش انجم ز من
جاں بہ جہاں اندرم زندگی مضمرم
تو بہ بدن جاں دہی شور بہ جاں من دہم
تو بہ سکوں رہ زنی، من بہ تپش رہبرم
آدم خاکی نہاد دوں نظر و کم سواد
زاد در آغوش تو، پیر شود در برم
خدا کے سامنے اپنی مدح سرائی کرنے کے بعد وہ آدم کو بہکاتا ہے کہ تیری اس جنت میں کیا مزہ ہے۔

(جاری ہے)

ایک مسلسل سکون و نشاط و سرود کی یک آہنگی۔ نہ ضرورت عمل،نہ نشاط کار،نہ مقصد کوشی،ایسی جنت میں تیرا ساز بے سوز ہے۔ بقول مرزا اغالب:
دراں پاک مے خانہٴ بے خروش
چے گنجائی شورش نا و نوش
سیہ مستی ابر و باراں کجا
خزاں چوں نباشد بہاراں کجا
شیطن آدم کو کہتا ہے کہ تو یہاں کیا فاختہ بن کر شاخ طوبیٰ پر بیٹھا ہے۔ انجیل میں ہے کہ روح القدس حضرت مسیح کو فاختہ کی صورت میں نازل ہوتی دکھائی دی۔
ابلیس کہتا ہے کہ اس عالم قدس میں روحیں فاختہ بن جاتی ہیں۔ نہایت معصوم،بے ضرر،لیکن مزہ شاہین بننے میں ہے۔ اس کیلئے شکار کا شوق اور جذبہ چاہئے۔ جنت میں جھپٹنے کی کیا گنجائش ہے۔ سجود و نیاز میں عجز کے سوا کیا رکھا ہے۔ کوثر و تسنیم کے کنارے شراب طہور پیتے رہنا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ جنت اگر تمام آرزوؤں کے حصول کا نام ہے تو ایسی زندگی موت کے برابر ہے۔
وصل کے بعد شوق مر جاتا ہے،حیات دوام تو فراق و وصل کی کشمکش ہی سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اٹھ یہاں سے نکل۔ تجھے ایک ایسے عالم کی سیر کراتا ہوں جہاں زندگی سوختن ناتمام ہے۔ زندگی کا تیر جگر میں نیم کش ہی رہے تو خلش کی لذت باقی رہ سکتی ہے:
کوئی میرے سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی ہے جو جگر کے پار ہوتا
سکونی جنت میں تو جمادی اور نباتی کیفیت ہے۔
چل تجھے آرزو اور جستجو کے عالم میں سرگرم عمل کرتا ہوں:
زندگی سوز و ساز بہ ز سکون دوام
فاختہ شاہین شود از تپش زیر دام
ہیچ نیامد ز تو غیر سجود نیاز
خیز چوں سرو بلند اے بعمل نرم گام
کوثر و تسنیم برد از تو نشاط عمل
گیر ز میناے تاک بادہ آئینہ فام
خیز کہ بنایمت مملکت تازہ
چشم جہاں بیں کشا بہر تماشا خرام
تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیروز وصل
چیست حیات دوام سوختن نا تمام
قرآن نے بھی آیات میں آدم کو نوع انسان کے مترادف قرار دیا ہے۔
”فتلقٰی آدم من رب کلمت فتاب علیہ… قلنا اھبطوا منہا جمیعا فاما یاتینکم من ھدی“ آدم نے اپنے رب کے چند کلمے اخذ کئے اور اس نے اس کی توبہ قبول کر لی… ہم نے کہا تم یہاں سے کھسک جاؤ۔ اس کے بعد تمہارے پاس اگر میری طرف سے ہدایت آ جائے… یہاں آدم کے ذکر کے بعد ہی پوری نوع بشر سے یہ صیغہ جمع خطاب کیا گیا ہے۔ اقبال کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ قرآن نے آدم کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ کسی ایک فرد کا ذکر نہیں بلکہ نوع انسان کی نفسیات اور اس کے ممکنات کا بیان ہے۔
علامہ اقبال نظریہ ارتقا کے قائل تھے۔ لیکن یہ نظری ڈاروینی نہیں تھا بلکہ عارف رومی اور حکیم برگستان کے نظریات کے مماثل تھا۔ ان کا خیال تھا کہ نوع انسان ایک درجہ ارتقا میں حیات کی ایک خاص منزل میں تھی جس سے اس کا نکلنا مزید ترقی کیلئے لازمی تھا اور متقیوں کیلئے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ اس جنت کی طرف عود نہیں ہے جسے نوع انسان بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے۔
آئندہ زندگی کی پیکار اور تسخیر سے جو جنت حاصل ہو گی وہ پہلی جنت سے افضل ہو گی اور اسی طرح آگے جو جنتیں آئیں گی ان میں کہیں ایک حالت پر قیام نہ ہوگا۔ ”تخلقوا با اخلاق اللہ“ کی سعی مسلسل ہر مرحلے میں جاری رہے گی۔ ہر جنت ایک نئے انداز کا دار العمل ہو گی۔ عمل اور زندگی ایک ہی چیز ہے۔ از روے قرآن بھی تکریم آدم پہلی جنت سے نکلنے کے بعد ہی ظہور میں آئی۔
آدم پہلی جنت سے نکلنے کے بعد ہی خلیفة اللہ فی الارض بنا۔ قرآن نے ہبوط آدم کے تصور کو عروج آدم کا نظریہ بنا دیا۔ آدم کے متعلق عیسوی اور اسلامی نظریے میں یہ ایک بنیادی فرق ہے۔ عیسائیت کے مطابق آدم کی نافرمانی کا گناہ اس کی فطرت میں پیوست ہو گیا۔ خدا نے اسے معاف نہ کیا بلکہ سزا کیلئے پہلے دنیا میں بھیج دیا اور قیامت تک اس کی تمام ذریت ناکردہ گناہ میں ملوث ہی پیدا ہوتی رہے گی اور ملوث ہی مرتی رہے گی۔
یہ سزا کا لامتناہی سلسلہ حضرت مسیح کے کفارے پر ختم ہوا جس نے تمام نوع انسان کے گناہ اپنی گردن پر لے لئے اور لعنت کی موت قبول کی۔ اب بھی فقط ان انسانوں کی نجات ہو سکتی ہے جو اس کفارے کے قائل ہوں،ورنہ ناکردہ گناہ پیدائش،آدم کی عصیانی وراثت کی وجہ سے جاری رہے گی۔ قرآن نے آدم کی ایک سرسری لغزش کو معاف کرکے اسے انعام و اکرام کا مستحق بنا دیا۔ جس کے بعد آدم کی اولاد میں سے ہر ایک معصوم پیدا ہوتا ہے اور زندگی اور اس کے بعد اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ کسی ایک فرد کا گناہ دوسرے کے ذمے نہیں لگ سکتا۔ ”لاتزر وازرة وزرا اخری“

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط