Episode 123 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 123 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

ترک جمال لایزال کمال درجے کے ایثار اور نفس کشی کا طالب تھا۔ ابلیس نے اس کٹھن مرحلے کو طے کرنے کیلئے سوچا کہ حکم سجود آدم کو ماننے سے انکار کر دوں،خدا اس سے ایسا ناراض ہو گا کہ ہمیشہ کیلئے اطاعت و محبت کے راستے مسدود ہو جائیں گے۔ اس کے اس ثبات کی داد دیجئے کہ اس ارادے میں آج تک متزلزل نہیں ہوا۔ اس نے اس انکار سے تمام کائنات میں خیر و شر کی پیکار شروع کر دی۔
اس جنگ میں یکہ و تنہا چومکھیا لڑ رہا ہے۔ مجروح ہوتا ہے لیکن ہمت نہیں ہارتا۔ سینکڑوں پیغمبروں کو دیکھ چکا ہے لیکن ابھی تک کافر کا کافر ہے۔ کہتے ہیں کہ شاہ جہاں کے دربار میں ایک برہمن نے فخر سے یہ شعر پڑھا:
مرا دلیست بہ کفر آشنا کہ چندیں بار
بہ کعبہ بردم و بازش برہمن آوردم
شاہ جہاں کی رگ حمیت جوش میں آئی اور سردربار کہا ”کسے ہست کہ جوابش دہد“ ایک درباری نے کہا کہ اس کا جواب بہت پہلے سے ایک شاعر دے چکا ہے:
خر عیسیٰ اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خرد باشد
شیطان کی بھی یہی حالت ہے:
غرق اندر رزم خیر و شر ہنوز
صد پیمبر دیدہ و کافر ہنوز
اقبال کے دل میں اس کافر ثابت قدم اور شائق سوز و فراق سے بہت ہمدردی ہے،کیونکہ اقبال خود بھی سوز و گداز کا دلدادہ ہے اور عمل کا مبلغ ہے۔

(جاری ہے)

یہ دونوں باتیں ابلیس میں بھی موجود ہیں،اگرچہ ان کا مصدرو مقصود جداگانہ ہے:
جانم اندر تن ز سوز اور تپید
برلبش آہے غم آلودے رسید
گفت و چشم نیم وا بر من کشود
در عمل جز ما کہ برخوردار بود
مومنوں کو ہفتے میں ایک دن جمعے کے روز تو کچھ فراغت اور فرصت حاصل ہوتی ہے،ابلیس کہتا ہے کہ مجھے آج تک کبھی چھٹی نہ ملی:
آن چناں بر کارہا پچیدہ ام
فرصت آدینہ را کم دیدہ ام
خدا کے پاس کاروبار کائنات میں مدد کیلئے فرشتے ہیں اور بعض انسانوں کے پاس بھی نوکر چاکر ہیں۔
پیغمبروں کو وحی سے ہدایت مل جاتی ہے،لیکن یہ خاکسار بے یار و مددگار تنہا سب کچھ کرتا ہے۔ حدیث و کتاب تو میرے پاس کوئی نہیں ہوتی لیکن میری کار گزاری کا کمال دیکھئے کہ حدیث و کتاب والے فقیہوں کے اندر سے روح دین کو سلب کر لیتا ہوں۔ فقیہ یا ملا جو پیراہن دین بننے کیلئے سوت کاتتے ہیں،ان کو تار عنکبوت سے زیادہ بودا کر دیتا ہوں اور کعبے کے اندر بھی فرقوں کے مختلف مصلے بچھوا دیتا ہوں:
رشتہ دیں چو فقیہاں کس نرشت
کعبہ را کردند آخر خشت خشت
میرے مذہب میں فراق سازی اور تفرقہ بازی نہیں (الفکر ملتہ واحدہ) انسانیت میں تفرقہ پیدا کرنے والے جہاں بھی ہیں اور جس رنگ میں بھی ہیں وہ سب میرے مرید ہیں۔
اس کے بعد اپنے جواز میں ابلیس کچھ اس انداز کی باتیں کہنے لگتا ہے جو اقبال کے فلسفہ خودی اور نظریہ ارتقا کے اندر بھی پائی جاتی ہیں۔ کہتا ہے کہ میں وجود حق کا منکر تو نہیں۔ دیکھے ہوئے خدا کا انکار میں کیسے کر سکتا ہوں۔ اس لئے اور کافروں کی طرح کوئی مجھے منکر خدا تو نہیں کہہ سکتا۔ میرے انکار میں اقرار کا پہلو پوشیدہ ہے۔ اس کے بعد اقبال ہی کا نظریہ ارتقاے آدم ابلیس کی زبان سے بیان ہوا ہے۔
کہتا ہے کہ میں نے آدم کو بہکا اور بھڑکا کر مجبوری سے مختاری تک پہنچا دیا۔ جس جنت میں وہ پہلے تھا اور جہاں سے میں نے اسے نکلوایا،اس میں سکون اور راحت تو تھی لیکن اختیار ناپید تھا۔ میں نے اختیار برت کر انکار کیا اور آدم نے بھی میری تلقین سے نافرمانی کا ایک قدم اٹھایا۔ اس کو لغزش مت کہو۔ اسی نافرمانی نے اس کے اختیار کا ثبوت مہیا کیا۔
ملائکہ کی قسم کی بے چون و چرا اطاعت اور جبر میں کیا فرق ہے۔ وہاں اختیار کا نام و نشان نہیں۔ اختیار تو لغزش آدم سے پیدا ہوا جو اس کے طویل ارتقا کیلئے ایک لازمہ تھا:
شعلہ ہا از کشت زار من دمید
او ز مجبوری بہ مختاری رسید
زشتی خود را نمودم آشکار
با تو دادم ذوق ترک و اختیار
اب آدم سے کہتا ہے کہ میں نے تیرے لئے اتنا عظیم الشان کام کیا اور اتنی قربانی کی،اب تو میری خلاصی کر۔
جب تک تو ایسا بے وقوف رہے گا اور اندھا دھند میرے دام عصیاں میں گرفتار ہونے پر ہر دم آمادہ رہے گا،مجھے بھی خواہ مخواہ تیرا شکاری بننا پڑے گا۔ میرے لئے بھی یہ ایک مصیبت ہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تو از راہ کرم میری غیر گساری اور یاری کو ترک کر دے۔ تو خواہ مخواہ اپنے اعمال کے ساتھ میرا نامہ اعمال بھی اور زیادہ تاریک کرتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ میں انسانوں کا شکاری ہوں،لیکن جب تک نخچیر شکار ہونے پر خود آمادہ رہیں گے،صیادی بھی باقی ہے گی اور مجھے تجھ پر تیر افگنی کرنی پڑے گی۔
اگر تو زیرک ہو جائے اور تجھ میں پرواز کی قوت ترقی کر جائے تو نہ توصید رہے اور نہ میں صیاد رہوں۔ تیری بھی خلاصی ہو اور میری بھی خلاصی:
در جہاں صیاد با نخچیر ہاست
تاتو نخچیری بکیشم تیر ہاست
صاحب پرواز را افتاد نیست
صید اگر زیرک شود صیاد نیست
اقبال اس سے کہتا ہے کہ چھوڑ اس مسلک فراق کو جو پیچ و تاب اور اضطراب پیدا کرتا ہے۔
اب یہاں پھر لطیفہ یہی ہے کہ ابلیس کا جواب بھی وہی ہے جو خود اقبال کا فلسفہ ہے اور جسے اس نے سینکڑوں اشعار میں دہرایا ہے کہ فراق ہی سے آرزو اور جستجو اور سوز گداز ہے۔ خود حیات الٰہی بھی مبتلاے فراق نفوس کے ساتھ وابستہ ہے۔ خالق اور مخلوق میں وصل کامل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نہ یہ رہے نہ وہ۔ من و تو کا فرق ہی تو زندگی کی اساس ہے:
گفت، ساز زندگی سوز فراق
اے خوشا سرمستی روز فراق
بر لبم از وصل می ناید سخن
وصل اگر خواہم نہ او ماند نہ من
حرف وصل او را ز خود بیگانہ کرد
تازہ شد اندر دل او سوز و درد
اندکے غلطید اندر دود خویش
باز گم گردید اندر دود خویش
نالہٴ زاں دود پیچاں شد بلند
اے خنک جانے کہ گردد درد مند

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط