اٹھارواں باب:
رموز بے خودی
اقبال کی کتاب اسرار خودی کے بعض نظریات کو سطحی فہم رکھنے والے نقادوں نے نظر تحسین سے نہ دیکھا۔ روایتی تصوف کے دل دادگان کو اس سے جابجا ٹھوکر لگی۔ ہمارے ادب میں تو خود ایک مذموم چیز تھی اور تصوف و اخلاق اس کو ابلیسانہ چیز سمجھتے تھے۔ فارسی اور اُردو ادب میں نفس انسانی کے ایزی جوہر کے متعلق تو بہت کچھ ملتا ہے لیکن ہر جگہ تلقین یہی ہے کہ انسان اپنی خودی کو سوخت کرکے ہی اس جوہر کو اجاگر کر سکتا ہے۔
خودی کی پرستش گناہ ہے اور خدا پرستی کے مخالف ہے:
تجھ کو خودی پسند ہے مجھ کو خدا پسند
تیری جدا پسند ہے میری جدا پسند
اس تصور میں یہ ’انا‘ یا ’میں‘ یا ’ہم‘ پندار کا ایک بت ہے اور تمام بتوں کا قلع قلمع کرنے کے بعد آخر میں یہی سنگ گراں معرفت میں سنگ راہ بن جاتا ہے۔
(جاری ہے)
گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور
وحدت وجود کا فلسفہ،جو اسلامی شاعری اور تصوف کا مرکز و محور بن گیا،زیادہ تر خودی سوز ہی ہے۔
کیونکہ اس کے اندر مخلوقات کی حیثیت محض ظلی ہے۔ اقبال نے روایتی تصوف کے خلاف جہاد اسرار خودی ہی سے کیا اور عمر کے آخری لمحوں تک یہ جہاد جاری رہا۔ مابہ النزاع خودی ہی کا مسئلہ تھا۔ اقبال خدا کو خودی میں جذب کرنے کی تلقین کرتا تھا اور تصوف خودی کو خدا میں گُم کرنے کی تعلیم دیتا تھا۔ اسرار خودی سے بہت سے قارئین نے دھوکا کھایا اور سمجھا کہ یہ قوت اور تکبر کی تعلیم ہے اور اس میں انسان کی خودی کو خدا بنا دیا گیا ہے۔
اسرار خودی میں خدا کہیں نمایاں معلوم نہیں ہوتا،انسانی خودی وہاں خلاق بن گئی ہے۔ ان نقادوں کو یہ علم نہ تھا کہ اقبال اس سے اچھی طرح آشنا تھا کہ بے خودی بھی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ اگرچہ بے خودی کا مفہوم بھی اس کے نزدیک روایتی مفہوم سے بہت مختلف تھا۔ اقبال کے حکیمانہ اور دینی تصورات کا فقط ایک پہلو اسرار خودی میں پیش ہوا تھا۔ اس کی تکیمل کیلئے دوسرے پہلو کو پیش کرنا لازمی تھا۔
رموز بے خودی،اسرار خودی کا تکملہ ہے۔ اقبال کے نظریات حیات میں بحیثیت مجموعی ایک توازن موجود ہے۔ اگرچہ کلام کے بعض حصوں کو الگ الگ کر دیکھیں تو بعض اوقات فقط ایک پہلو کسی قدر شدت اور مبالغے کے ساتھ نظر کے سامنے آتا ہے۔
رموز بے خودی کی تمہید میں ربط فرد و ملت کے متعلق اقبال اپنا زاویہ نگاہ پیش کرتا ہے۔ یہ مسئلہ نفسیات،اخلاقیات،سیاسیات اور معاشیات کا اہم ترین مسئلہ ہے۔
اس مسئلے کے متعلق اختلاف زندگی کے تمام شعبوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ فرد کو ایک ایٹم سمجھ کر جو نفسیات لکھی گئی وہ حقیقت حیات سے بہت دور ہو گئی۔ سادہ اخلاقی تصورات بھی اس کیلئے ناقابل فہم ہو گئے اور سجوک جیسے اخلاقیات پر ضخیم تصنیف کرنے والے فلسفی آخر میں یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ کیوں ایک فرد اپنی ذاتی مسرت کو دوسروں کیلئے قربان کرے۔
کانٹ کی اخلاقیات بھی آخر میں بے بنیاد ہو گئی اور اس نے اس عقیدے کا سہارا لیا کہ اگر تلافی کرنے والے خدا اور بعد الموت کا عقیدہ نہ ہو تو فرد کی فرض شناسی اور جماعت کے اغراض کیلئے اس کی ذاتی سعادت و مسرت کی قربانی کی کوئی عقلی تاسیس ممکن نہیں۔ جرمن فلسفی شٹیرنر اور نطشے کی طرح بعض حکماء نے فرد کو مطلق العنان کرنے کی تلقین کی تاکہ جماعت کے حدود و قیوم اور اومرو نواہی اس کی شخصیت کے بے روک ارتقا میں خلل انداز نہ ہوں۔
دوسری طرف ہیگل جیسے فلاسفہ نے جماعت اور مملکت کو معبود بنا دیا اور فرد کی انفرادیت وہاں ایک بے حقیقت سا مظہر رہ گئی۔ اس کا اثر معاشیات و سیاسیاست پر بہت گہرا پڑا۔ کارل مارکس نے اپنے فلسفے کا ڈھانچا ہیگل سے اخذ کیا اور اس کا عملی نتیجہ وہ اشتراکیت ہے جہاں فرد کی آزادی ضمیر اور آزادی عمل ایک گناہ کبیر ہے۔ مغرب میں حقوق طلبی کے جوش و خروش میں فرد نے جماعت کو اپنا حریف سمجھا،رفتہ رفتہ وہ مذہب سے بھی برگشتہ ہو گیا جو فرد کو جماعت کے ساتھ وابستہ رکھنا چاہتا تھا۔
یہ تمام کشا کش افراد و تفریط کا نتیجہ تھی۔
اسلام اعتدال اور توازن کا نام ہے۔ ادیان میں فرد و ملت کے ربط کا مسئلہ عمدہ طور پر اسلام نے حل کیا تھا۔ اسلام فرد کے نفسیات کے کسی پہلو کو جماعت کے مفاد سے الگ نہیں کرتا۔ اس کی تمام عبادات میں اجتماعی عنصر بہت نمایاں ہے۔ نماز ہو یاز روزہ،حج ہو یا زکوٰة،سب میں فرد جماعت کے ساتھ وابستہ ہے۔
اس کے باوجود اسلام نے بڑے زور و شور سے آزادی ضمیر کی تلقین کی اور کہا کہ دین،جس میں عقیدہ اور طریق زندگی شامل ہے،کسی جبر کو گوارا نہیں کرتا۔ جو چیز اختیار سے قبول نہیں کی گئی اس کی کچھ قدر و قیمت نہیں۔ رہبانی مذاہب میں اخلاق اور روحانیت انفرادی رہ گئے تھے۔ ایک طرف خدا اور دوسری طرف فرد جو غار میں یا صحرا میں جماعت سے بے نیاز ہو کر خدا کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔
اقبال کے ہاں ’ربط فرد و ملت‘ کا نظریہ اسی اسلامی زاویہ نگاہ سے اخذ کردہ ہے۔ جماعت کے ساتھ تمام نفسیاتی روابط کو ساقط کرکے نفس انسانی کی باقی ماندہ حقیقت کو دیکھیں تو وہ صفر رہ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اقبال نے بہت پہلے کہا تھا کہ ”وجود افراد کا مجازی“ ہے یعنی فرد کی،جماعت سے ربط کے بغیر کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن جماعت کا یہ ہمہ گیر رابطہ انسان کی انفرادی خودی کو سوخت نہیں کرتا،بلکہ اس کی پرورش کرتا ہے۔
ہر شاخ اور ہر پتے کی اپنی بھی ایک مخصوص حیثیت ہے،لیکن شجر سے منقطع ہو کر نہ شاخ میں روئیدگی رہ سکتی ہے اور نہ پتا سر سبز رہ سکتا ہے:
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
تمام نوع انسان کی وحدت کی تعلیم قرآن میں موجود تھی کہ سب انسان ایک نفس واحدہ سے سر زد ہوئے ہیں۔ گویا تمام نوع انسان ایک جسم ہے اور مختلف افراد اس کے اعضا ہیں۔
اسی قرآنی تصور کو ان اشعار میں ادا کیا گیا ہے:
بنی آدم اعضاے یک دیگر اند
کہ در آفرینش زیک جوہر اند
چو عضوے بدرد آورد روزگار
دگر عضوہا را نہ ماند قرار
اگر کسی عضو میں ایسی انانیت پیدا ہو جائے کہ وہ دوسرے اعضاے تعاون کو لاحاصل ایثار سمجھے تو خود وہ عضو معطل ہو جائے گا۔ یہ تمثیلی حکایت نہایت حکمت آموز ہے کہ انسانی جسم کے اعضا میں بے بصری سے ایک مرتبہ یہ خیال پیدا ہو گیا کہ ہم تو سب جدوجہد کرتے رہتے ہیں لیکن یہ پیٹ نکھٹو،ناکردہ کار ہماری محنت سے پیدا شدہ رزق کو اپنے اندر ڈال کر خود لطف اٹھاتا ہے۔
اس نکھٹو کا کامل مقاطعہ کرنا چاہئے۔ تمام اعضا نے رزق کی کوشش چھوڑ دی،پیٹ میں کچھ نہ گیا تو سب کی حالت زار و نزار ہو گئی۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ ہم بے جان کیوں ہو رہے ہیں۔ آخر دماغ نے ان بے وقوفوں کو سمجھایا کہ شکم سمیت تم سب ایک ہی جان کے مظاہر اور اس کے خدمت گزار ہو۔ ہر ایک کا کام اسے خود بھی نفع پہنچاتا ہے اور کل جسم کو بھی۔ جماعت کے ساتھ ہی ربط رکھنے سے عضو میں زندگی اور قوت ہے۔
فرد و جماعت کے ربط کی اس سے بہتر مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ علامہ اقبال بھی اسی تصور سے آغاز کرتے ہیں:
فرد را ربط جماعت رحمت است
جوہر او را کمال از ملت است
تا توانی با جماعت یار باش
رونق ہنگامہ احرار باش
اس کے بعد ایک حدیث نبوی کے حوالے سے کہا ہے کہ شیطان جماعت سے دور رہتا ہے۔ فرد و قوم ایک دوسرے کا آئینہ ہیں۔
فرد و ملت کا احترام و نظام ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے۔ فرد کا جماعت میں گم ہونا خودی کو سوخت کرنا نہیں بلکہ قطرے کا قلزم بننا ہے۔ زندگی کے اقدار کا سرمایہ ملت ہی کے گنجینے میں ہوتا ہے۔ نوع انسان جو کچھ قرون میں یہ دوران ارتقا پیدا کرتی رہی ہے،فرد اس تمام ثروت کا مالک بن جاتا ہے اور انسانیت کے مستقبل کی طرف بھی جماعت ہی قدم بڑھاتی ہے۔
ماضی اور مستقبل اس کی ذات میں ہم آغوش ہیں۔ افراد پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں لیکن جماعت باقی رہتی ہے۔ فرد کے اندر ترقی کی خواہش بھی جذبہ ملی سے پیدا ہوتی ہے اور خیر و شر کا معیار بھی حیات ملی کی پیداوار ہے۔ انسان کو حیوان ناطق کہتے ہیں لیکن فرد بے جماعت ناطق نہیں ہو سکتا۔ زبان جو ہزار ہا سال کے انسانی تجربات کی سرمایہ دار ہے،کسی ایک فرد کی پیدا کردہ چیز نہیں۔
یہ قیمتی ورثہ جماعت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ گرمی صحبت سے فرد میں ملت کی وسعت آ جاتی ہے۔ تمام کثرت وحدت میں منسلک ہو جاتی ہے۔ لفظ کے اندر معنی کی ثروت جملے یا مصرعے کے دوسرے الفاظ سے متحد ہو کر ظہور پذیر ہوتی ہے۔ تنہا فرد کے مقاصد خور و نوش کے علاوہ اور کیا ہو سکتے ہیں۔ فرد کے مضمرات و ممکنات اگر معرض شہود میں آتے ہیں تو محض ملت کے ربط سے۔
ضبط و نظم سے زندگی کو نشوونما حاصل ہوتا ہے۔ حقیقی آزادی جو معاون حیات و ارتقا ہے،وہ جماعتی پابندیوں ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ جس طرح کہ ندی کے اگر کنارے نہ ہوں،جو اس کی روانی کو حدود کے اندر رکھتے ہیں،تو وہ ندی ہی نہیں بن سکتی۔ علامہ فرماتے ہیں کہ تونے خودی اور بے خودی کے باہمی ربط کو نہیں پہچانا،اس لئے وہم و گمان میں مبتلا ہو گیا ہے اور ان کو باہم متضاد سمجھنے لگا ہے۔
تیری ذات کے اندر ایک جوہر نور ہے۔ اس نفس واحدہ میں دوئی نہیں۔ لیکن مظاہر حیات میں یہ وحدت من و تو کا امتیاز پیدا کر لیتی ہے۔ اس کی فطرت آزاد خود اپنی تکمیل کیلئے آئین کی زنجیریں بناتی ہے۔ اس جزو کے اندر ہمہ گیر قوت ہے۔ پیکار حیات اس شمشیر کیلئے سنگ فساں ہے:
غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا
اسی کو خودی کہتے ہیں اور اسی کا نام زندگی ہے۔
جماعت کے اندر گم ہو کر،یعنی بے خودی سے،یہ خودی اپنے آپ کو استوار کرتی ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئین کے جبر نے اختیار فرد کو سوخت کر دیا ہے،لیکن محبت اسی کا نام ہے کہ محب محبوب کی ذات سے ہم آہنگ ہو جائے۔ خود شکنی سے کس طرح خودی مضبوط ہوتی ہے؟ استدلال کیلئے یہ نکتہ آسانی سے قابل فہم نہیں،اس میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے:
نکتہ با چوں تیغ پولاد است تیز
گر می فہمی ز پیش ما گریز
اس تمہید کے بعد اقبال نے اس نکتے کی وضاحت کی ہے کہ انسان کی فطرت میں یکتانی کا جوہر بھی ہے لیکن اس کی حفاظت انجمن آرائی سے ہی ہوتی ہے۔
افراد خود اپنی تکمیل ذات کیلئے اپنے آپ کو ایک لڑی میں پرو لیتے ہیں۔ پیکار حیات میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت پیش آتی ہے۔ افلاک پر نظام انجم بھی جذب باہم سے قائم ہے۔ انسانی افراد بھی اسی آئین سے قیام و ثبات حاصل کرتے ہیں۔ ابتدائی حالت میں انسان جب دشت و جبل میں آوارہ تھے تو زندگی کی قوتیں خوابیدہ تھیں،آرزوئیں محدود تھیں:
گوشمال جستجو ناخوردہ زخمہ ہاے آرزو نا خوردہٴ