خون میں گرمی نہیں تھی۔ دیو و پری کے اندیشے سے لرزاں تھے۔ عقل و فکر نے بھی ماحول پر غلبہ حاصل نہ کیا تھا۔ برق و رعد سے خائف تھے۔ خود رو چیزیں کھا کر گزارہ کر لیتے تھے۔ اپنی کوشش سے فطرت سے کچھ نہ حاصل کر سکتے تھے۔ ایک انفعالی کیفیت تھی۔ جو کچھ میسر آ گیا اس پر قناعت کر لی۔ اس حالت میں سے انسان اس وقت نکلا جب کسی جماعت میں ایک مرد صاحب دل پیدا ہوا۔
یہ قرآنی تصور ہے کہ آدمیت کا آغاز نبوت سے ہوا ہے۔ بعض حکما نے کہا ہے کہ ہر علم و فن کا آغاز بھی وحی ہی کی بدولت کی ہوا۔ ایسا شخص انسانوں کو انتشار سے نکال کر ان میں وحدت پیدا کرتا ہے۔ ”تا دوئی میردیکی پیدا شود“۔ ایسے مرد صاحب دل کا انداز نظر بالکل تازہ ہوتا ہے۔ وہ ہر شے کو ایک نئی بصیرت سے دیکھتا ہے اور اس سے نئے نتائج اخذ کرتا ہے۔
(جاری ہے)
اس کے اندر زندگی کی حرارت ہوتی ہے جس کی چنگاریاں بے شمار قلوب میں شعلے پیدا کرتی ہے۔ اس کی بدولت عقل کو بھی ایک نیا پیرایہ حاصل ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو کھوٹے اور کھرے میں تمیز کرنا سکھاتا ہے۔ وہ زندگی کے اقدار کی نئی تقدیر کرتا ہے۔ وہمی معبودوں کی پرستش سے انسان کو نجات دلاتا ہے۔ مادی فطرت کی قوتوں کا خوف دلوں سے زائل کرتا ہے اور انسان میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ تو خداے خلاق واحد کے سوا کسی کا بندہ نہیں۔
اس کے طفیل میں انسان ایک جماعت بن جاتے ہیں اور توحید الٰہی وحدت انسانی میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ تمام زندگی کیلئے ایک مقصود معین ہو جاتا ہے:
تا سوے یک مدعایش می کشد
حلقہ آئیں بپایش می کشد
نکتہ توحید باز آموزدش
رسم و آئین نیاز آموزدش
اس قسم کے توحید آموز اور وحدت آفریں تلمیذ الرحمان کو اسلامی اصطلاح میں نبی کہتے ہیں۔
از آدم تا ایں دم نوع انسان نے جو ترقی کی ہے ور انسان کی بصیرت اور قوت میں جو اضافے ہوئے ہیں،سب کا سرچشمہ نبوت ہی ہے۔
اس کے بعد ’ارکان اساسی ملیہ اسلامیہ‘ کے عنوان کے تحت رکن اول توحید کی شرح ہے۔ انسانی عقل ابتدائی کوششوں میں اپنے ماحول میں اشیا و حوادث کا فرداً فرداً ادراک کرکے ان کے ساتھ کوئی ہنگامی توافق پیدا کرتی رہی۔ ابھی تک ایسا شعور پیدا نہ ہوا تھا جو مظاہر کی گونا گونی اور کثرت کو کسی وحدت سے منسلک کر سکے۔
عقل کا پہلا ارتقائی قدم توحید کی بدولت اٹھا،ورنہ عقل کیلئے خود اپنا مقصود واضح نہ تھا۔ فطرت کی تسخیر فہم فطرت کے ساتھ وابستہ ہے اور اس فہم کا کام حوادث کی کثرت میں آئین کی وحدت تلاش کرنا ہے:
در جہان کیف و کم گردید عقل
بے بہ منزل برد از توحید عقل
ورنہ این بے چارہ را منزل کجاست
کشتی ادراک را ساحل کجاست
کم فہم لوگ دین اور دانش کو الگ الگ بلکہ متضاد چیزیں سمجھتے ہیں۔
اگر نکتہ توحید ان کی سمجھ میں آ جائے تو ان پر یہ حقیقت منکشف ہو کہ توحید کی پیدا کردہ وحدت کوشی ہی دین اور حکمت دونوں کا سرچشمہ ہے اور تمام قسم کی قوتیں اسی سے پیدا ہوتی ہیں:
دین ازو، حکمت ازو، آئیں ازو
زور ازو، قوت ازو، تمکیں ازو
عالموں کی حیرت اور عاشقوں کی قوت عمل اسی زاویہ نگاہ کا نتیجہ ہیں۔ یہی عقیدہ خاک کو اکسیر بناتا ہے۔
اس سے انسان کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے۔ انسان راہ حق میں گرم رو ہو جاتا ہے۔ شک اور خوف کی جگہ یقین محکم پیدا ہوتا ہے،چشم بصیرت پر ضمیر کائنات کا انکشاف ہوتا ہے۔
کلمہ توحید ہی ملت بیضا کے تن میں بطور جان ہے۔ یہی عقیدہ ملت کا شیرازہ بند ہے۔ اسی سے زندگی میں قوت کا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی سے تودہ گل دل بن جاتا ہے اور دل میں سے اگر یہ نکل جائے تو دل مٹی ہو جاتا ہے۔
مسلمان کی اصلی دولت یہی ہے۔ اسی توحید نے اسود و احمر کی تمیز مٹائی اور بلال حبشی (رضی اللہ عنہ) فاروق (رضی اللہ عنہ) اور ابو ذر (رضی اللہ عنہ) کا ہمسر ہو گیا۔ ملت نہ جغرافیائی چیز ہے اور نہ نسلی یا لسانی۔بقول شاعر ”نیم ولی از ہم زبان بہتر است“ ملت دلوں کی یک رنگی اور ہم آہنگی سے پیدا ہوتی ہے اور یہ بات توحید ہی کی برکت سے ظاہر ہوتی ہے:
ملت از یک رنگی دلہاستے
روشن از یک جلوہ سیناستے
قوم را اندیشہ با باید یکے
در ضمیرش مدعا باید یکے
ملت اسے کہتے ہیں جس میں خیر و شر اور خوب و زشت کا معیار یکساں ہو۔
یہ اتحاد خدائے واحد ہی کی بخشی ہوئی بصیرت کا نتیجہ ہو سکتا ہے،ورنہ ہر شخص خود اپنے لئے معیار بن جائے اور انسانی وحدت کا شیرازہ بکھر جائے۔ بعض ملتوں نے اپنی تقدیر کو وطن کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔ بعض نے اتحاد ملت کی تعمیر نسل و نسب کی بنیادوں پر قائم کی ہے۔ لیکن وطن پرستی خدا پرستی نہیں،وہ ایک خطہ ارض کی پرستش ہے،اسی طرح نسب کا مدار جسمانی توارث پر ہے،لیکن انسان کی ماہیت جسم نہیں بلکہ روح ہے۔
ملت اسلامیہ کی اساس نفسی ہے۔ یہ ایک غیر مرئی رشتہ ہے،جس طرح تجاذب انجم کے تار کسی کو نظر نہیں آتے مگر وہی نظام انجم کے قوام ہیں۔ اس قسم کی وحدت نفسی توحید پرستوں کے سوا کہیں اور نظر نہیں آتی۔
قرآن نے جہاں نفس مطمئنہ اور نجات یافتہ،خدا رس انسان کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے دو ہی صفات بالتکرار بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ ایسا انسان یاس و حزن و غم سے پاک ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ کسی قسم کا خوف اس کے دل میں نہیں رہتا۔
اسی صفت کا نام حریت ہے اور یہ توحید ہی کا ثمر ہے۔ مرد موحد کبھی نا امید نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کے نزدیک نا امیدی کفر ہے۔ امید سے زندگی کی قوتیں پیدا اور استوار ہوتی ہیں اور یاس سم قاتل کا کام کرتی ہے۔ قطع امید سے انسان خود کشی پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ مایوس انسان کے عناصر سست ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے چشمے خشک ہو جاتے ہیں۔ غم انسان کی جان کو کھا جاتا ہے مسلمانوں کو خدا اور رسولﷺ نے ’لاتحزن‘ کی تعلیم دی ہے اور نصب العین ”لاخوف علیھم ولا ہم یحزنون‘ قرار دیا ہے:
گر خدا داری ز غم آزاد شو
از خیال بیش و کم آزاد شو
اسی قوت سے موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے مقابل میں کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کو غرقاب کرتا ہے۔
غیر اللہ کا خوف عمل کا دشمن ہے لیکن خدا پر یقین ہمت عالی کا منبع ہے۔ خوف سے فکر و عمل کی تمام قوتیں بے کار ہو جاتی ہیں اور انسان خود مسخر و مغلوب ہو جاتا ہے۔ جس شخص کو سست عمل دیکھو سمجھو لو کہ اس کے دل میں خوف نے جگہ کر لی ہے۔
جدید نفسیات نے کوئی پچاس قسم کے ’فوبیا‘ یعنی خوف کی قسمیں دریافت کی ہیں جو انسان کے تحت الشعور میں داخل ہو کر اس کے نفس میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔
’نفسیات تحلیلی‘ ان چوروں کو قلب کے تہ خانوں سے نکالنے کی تجویزیں کرتی رہتی ہیں،لیکن خود ایک بڑا ماہر نفسیات جدید،ینگ اس کا اقرار کرتا ہے کہ خدا پر راسخ عقیدہ رکھنے والے ان خوفوں اور نفسی پیچیدگیوں سے بری ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا علاج عقیدہ توحید ہے:
ہر شے پنہاں کہ اندر قلب تست
اصل او بیم است اگر بینی درست
لابہ و مکاری و کین و دروغ
ایں ہمہ از خوف می گیرد فروغ
موحد کے دل بے ہراس کے متعلق ایک تمثیل پیش کی ہے کہ حزن و خوف سے بری انسان میں ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ حوادث کے تیر اس پر بے اثر ہو جاتے ہیں۔
تیر شمشیر سے کہتا ہے کہ میں کسی کے سینے میں داخل ہونے سے پہلے یہ دیکھتا ہوں کہ اس کے اندر دل یاس و بیم میں مبتلا ہے یا نہیں۔ جہاں میں نے دیکھا کہ یہ شخص مایوس اور ڈرپوک معلوم ہوتا ہے،وہاں میں دھڑلے سے اس کی خوں ریزی کرتا ہوں،لیکن اگر سینے کے اندر قلب مومن نظر آئے تو میں اس کی حرارت سے پگھل کر پانی ہو جاتا ہوں:
در صفاے او ز قلب مومن است
ظاہرش روشن ز نور باطن است
از تف او آب گردد جان من
ہمچو شبنم می چکد پیکان من