Episode 126 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 126 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

خون میں گرمی نہیں تھی۔ دیو و پری کے اندیشے سے لرزاں تھے۔ عقل و فکر نے بھی ماحول پر غلبہ حاصل نہ کیا تھا۔ برق و رعد سے خائف تھے۔ خود رو چیزیں کھا کر گزارہ کر لیتے تھے۔ اپنی کوشش سے فطرت سے کچھ نہ حاصل کر سکتے تھے۔ ایک انفعالی کیفیت تھی۔ جو کچھ میسر آ گیا اس پر قناعت کر لی۔ اس حالت میں سے انسان اس وقت نکلا جب کسی جماعت میں ایک مرد صاحب دل پیدا ہوا۔

یہ قرآنی تصور ہے کہ آدمیت کا آغاز نبوت سے ہوا ہے۔ بعض حکما نے کہا ہے کہ ہر علم و فن کا آغاز بھی وحی ہی کی بدولت کی ہوا۔ ایسا شخص انسانوں کو انتشار سے نکال کر ان میں وحدت پیدا کرتا ہے۔ ”تا دوئی میردیکی پیدا شود“۔ ایسے مرد صاحب دل کا انداز نظر بالکل تازہ ہوتا ہے۔ وہ ہر شے کو ایک نئی بصیرت سے دیکھتا ہے اور اس سے نئے نتائج اخذ کرتا ہے۔

(جاری ہے)

اس کے اندر زندگی کی حرارت ہوتی ہے جس کی چنگاریاں بے شمار قلوب میں شعلے پیدا کرتی ہے۔ اس کی بدولت عقل کو بھی ایک نیا پیرایہ حاصل ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو کھوٹے اور کھرے میں تمیز کرنا سکھاتا ہے۔ وہ زندگی کے اقدار کی نئی تقدیر کرتا ہے۔ وہمی معبودوں کی پرستش سے انسان کو نجات دلاتا ہے۔ مادی فطرت کی قوتوں کا خوف دلوں سے زائل کرتا ہے اور انسان میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ تو خداے خلاق واحد کے سوا کسی کا بندہ نہیں۔
اس کے طفیل میں انسان ایک جماعت بن جاتے ہیں اور توحید الٰہی وحدت انسانی میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ تمام زندگی کیلئے ایک مقصود معین ہو جاتا ہے:
تا سوے یک مدعایش می کشد
حلقہ آئیں بپایش می کشد
نکتہ توحید باز آموزدش
رسم و آئین نیاز آموزدش
اس قسم کے توحید آموز اور وحدت آفریں تلمیذ الرحمان کو اسلامی اصطلاح میں نبی کہتے ہیں۔
از آدم تا ایں دم نوع انسان نے جو ترقی کی ہے ور انسان کی بصیرت اور قوت میں جو اضافے ہوئے ہیں،سب کا سرچشمہ نبوت ہی ہے۔
اس کے بعد ’ارکان اساسی ملیہ اسلامیہ‘ کے عنوان کے تحت رکن اول توحید کی شرح ہے۔ انسانی عقل ابتدائی کوششوں میں اپنے ماحول میں اشیا و حوادث کا فرداً فرداً ادراک کرکے ان کے ساتھ کوئی ہنگامی توافق پیدا کرتی رہی۔ ابھی تک ایسا شعور پیدا نہ ہوا تھا جو مظاہر کی گونا گونی اور کثرت کو کسی وحدت سے منسلک کر سکے۔
عقل کا پہلا ارتقائی قدم توحید کی بدولت اٹھا،ورنہ عقل کیلئے خود اپنا مقصود واضح نہ تھا۔ فطرت کی تسخیر فہم فطرت کے ساتھ وابستہ ہے اور اس فہم کا کام حوادث کی کثرت میں آئین کی وحدت تلاش کرنا ہے:
در جہان کیف و کم گردید عقل
بے بہ منزل برد از توحید عقل
ورنہ این بے چارہ را منزل کجاست
کشتی ادراک را ساحل کجاست
کم فہم لوگ دین اور دانش کو الگ الگ بلکہ متضاد چیزیں سمجھتے ہیں۔
اگر نکتہ توحید ان کی سمجھ میں آ جائے تو ان پر یہ حقیقت منکشف ہو کہ توحید کی پیدا کردہ وحدت کوشی ہی دین اور حکمت دونوں کا سرچشمہ ہے اور تمام قسم کی قوتیں اسی سے پیدا ہوتی ہیں:
دین ازو، حکمت ازو، آئیں ازو
زور ازو، قوت ازو، تمکیں ازو
عالموں کی حیرت اور عاشقوں کی قوت عمل اسی زاویہ نگاہ کا نتیجہ ہیں۔ یہی عقیدہ خاک کو اکسیر بناتا ہے۔
اس سے انسان کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے۔ انسان راہ حق میں گرم رو ہو جاتا ہے۔ شک اور خوف کی جگہ یقین محکم پیدا ہوتا ہے،چشم بصیرت پر ضمیر کائنات کا انکشاف ہوتا ہے۔
کلمہ توحید ہی ملت بیضا کے تن میں بطور جان ہے۔ یہی عقیدہ ملت کا شیرازہ بند ہے۔ اسی سے زندگی میں قوت کا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی سے تودہ گل دل بن جاتا ہے اور دل میں سے اگر یہ نکل جائے تو دل مٹی ہو جاتا ہے۔
مسلمان کی اصلی دولت یہی ہے۔ اسی توحید نے اسود و احمر کی تمیز مٹائی اور بلال حبشی (رضی اللہ عنہ) فاروق (رضی اللہ عنہ) اور ابو ذر (رضی اللہ عنہ) کا ہمسر ہو گیا۔ ملت نہ جغرافیائی چیز ہے اور نہ نسلی یا لسانی۔بقول شاعر ”نیم ولی از ہم زبان بہتر است“ ملت دلوں کی یک رنگی اور ہم آہنگی سے پیدا ہوتی ہے اور یہ بات توحید ہی کی برکت سے ظاہر ہوتی ہے:
ملت از یک رنگی دلہاستے
روشن از یک جلوہ سیناستے
قوم را اندیشہ با باید یکے
در ضمیرش مدعا باید یکے
ملت اسے کہتے ہیں جس میں خیر و شر اور خوب و زشت کا معیار یکساں ہو۔
یہ اتحاد خدائے واحد ہی کی بخشی ہوئی بصیرت کا نتیجہ ہو سکتا ہے،ورنہ ہر شخص خود اپنے لئے معیار بن جائے اور انسانی وحدت کا شیرازہ بکھر جائے۔ بعض ملتوں نے اپنی تقدیر کو وطن کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔ بعض نے اتحاد ملت کی تعمیر نسل و نسب کی بنیادوں پر قائم کی ہے۔ لیکن وطن پرستی خدا پرستی نہیں،وہ ایک خطہ ارض کی پرستش ہے،اسی طرح نسب کا مدار جسمانی توارث پر ہے،لیکن انسان کی ماہیت جسم نہیں بلکہ روح ہے۔
ملت اسلامیہ کی اساس نفسی ہے۔ یہ ایک غیر مرئی رشتہ ہے،جس طرح تجاذب انجم کے تار کسی کو نظر نہیں آتے مگر وہی نظام انجم کے قوام ہیں۔ اس قسم کی وحدت نفسی توحید پرستوں کے سوا کہیں اور نظر نہیں آتی۔
قرآن نے جہاں نفس مطمئنہ اور نجات یافتہ،خدا رس انسان کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے دو ہی صفات بالتکرار بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ ایسا انسان یاس و حزن و غم سے پاک ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ کسی قسم کا خوف اس کے دل میں نہیں رہتا۔
اسی صفت کا نام حریت ہے اور یہ توحید ہی کا ثمر ہے۔ مرد موحد کبھی نا امید نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کے نزدیک نا امیدی کفر ہے۔ امید سے زندگی کی قوتیں پیدا اور استوار ہوتی ہیں اور یاس سم قاتل کا کام کرتی ہے۔ قطع امید سے انسان خود کشی پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ مایوس انسان کے عناصر سست ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے چشمے خشک ہو جاتے ہیں۔ غم انسان کی جان کو کھا جاتا ہے مسلمانوں کو خدا اور رسولﷺ نے ’لاتحزن‘ کی تعلیم دی ہے اور نصب العین ”لاخوف علیھم ولا ہم یحزنون‘ قرار دیا ہے:
گر خدا داری ز غم آزاد شو
از خیال بیش و کم آزاد شو
اسی قوت سے موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے مقابل میں کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کو غرقاب کرتا ہے۔
غیر اللہ کا خوف عمل کا دشمن ہے لیکن خدا پر یقین ہمت عالی کا منبع ہے۔ خوف سے فکر و عمل کی تمام قوتیں بے کار ہو جاتی ہیں اور انسان خود مسخر و مغلوب ہو جاتا ہے۔ جس شخص کو سست عمل دیکھو سمجھو لو کہ اس کے دل میں خوف نے جگہ کر لی ہے۔
جدید نفسیات نے کوئی پچاس قسم کے ’فوبیا‘ یعنی خوف کی قسمیں دریافت کی ہیں جو انسان کے تحت الشعور میں داخل ہو کر اس کے نفس میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔
’نفسیات تحلیلی‘ ان چوروں کو قلب کے تہ خانوں سے نکالنے کی تجویزیں کرتی رہتی ہیں،لیکن خود ایک بڑا ماہر نفسیات جدید،ینگ اس کا اقرار کرتا ہے کہ خدا پر راسخ عقیدہ رکھنے والے ان خوفوں اور نفسی پیچیدگیوں سے بری ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا علاج عقیدہ توحید ہے:
ہر شے پنہاں کہ اندر قلب تست
اصل او بیم است اگر بینی درست
لابہ و مکاری و کین و دروغ
ایں ہمہ از خوف می گیرد فروغ
موحد کے دل بے ہراس کے متعلق ایک تمثیل پیش کی ہے کہ حزن و خوف سے بری انسان میں ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ حوادث کے تیر اس پر بے اثر ہو جاتے ہیں۔
تیر شمشیر سے کہتا ہے کہ میں کسی کے سینے میں داخل ہونے سے پہلے یہ دیکھتا ہوں کہ اس کے اندر دل یاس و بیم میں مبتلا ہے یا نہیں۔ جہاں میں نے دیکھا کہ یہ شخص مایوس اور ڈرپوک معلوم ہوتا ہے،وہاں میں دھڑلے سے اس کی خوں ریزی کرتا ہوں،لیکن اگر سینے کے اندر قلب مومن نظر آئے تو میں اس کی حرارت سے پگھل کر پانی ہو جاتا ہوں:
در صفاے او ز قلب مومن است
ظاہرش روشن ز نور باطن است
از تف او آب گردد جان من
ہمچو شبنم می چکد پیکان من

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط