Episode 128 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 128 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اس عقیدے کی نسبت یہ اعتراض پیدا ہو سکتا ہے کہ مسلمان تمام نوع انسان تو نہیں۔ مسلمانوں کی باہمی اخوت رنگ و نسل و وطن سے بالاتر سہی،لیکن دنیا کی کثیر آبادی تو ان سے باہر ہے،اس لئے اسلام کی اخوت عالم گیر اخوت تو نہ ہوئی۔ یہی اعتراض اسرار خودی کے انگریز مترجم پروفیسر نکلسن نے کیا تھا۔ اس کا جواب اقبال نے نہایت مدلل اور مسکت دیا تھا کہ اسلام کا مقصود عالم گیر محبت و اخوت ہے لیکن جب تک ایک ملت اس کی مثال قائم نہ کرے اور دوسروں کیلئے نمونہ نہ بنے،تب تک اخوت کی حدیں وسیع نہیں ہو سکتیں۔
اقبال نے اس جواب میں اپنا پختہ یقیں بیان کیا کہ میرے نزدیک امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص مشن یہی ہے کہ وہ عالم گیر اخوت کے اصول کو عملی جامہ پہنائے۔
 چنانچہ رموز بے خودی میں اس مضمون کیلئے ایک خاص عنوان قائم کیا ہے ’در معنی ایں کہ مقصود رسالت محمدیہ تشکیل و تاسیس حریت و مساوات و اخوت بنی نوع آدم است‘۔

(جاری ہے)

اس عنوان کے تحت یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اسلام کا پیغام تمام نوع انسان کیلئے آزادی،برابری اور برادری کا پیغام ہے۔

اسلام نے جو کچھ تلقین کی اور اپنی خالص حالت میں جو معاشرت،معیشت اور سیاست پیدا کی اس نے تمام انسانوں کی گردنوں میں سے طوق اور دست و پا سے غلامی اور استبداد کی زنجیریں توڑ دیں۔ انسان انسانوں کی پوجا کرتے تھے۔ ارباب من دون اللہ معبود بنے ہوئے تھے۔ لا قیصر و لاکسریٰ کا اعلان اسلام نے کیا۔ کاہن و پایا و سلطان و امیر سب مل کر انسانوں کا شکار کرتے۔
کلیسا جنت کے پروانے ابلہان فریب خوردہ کے ہاتھ بیچتا تھا۔ برہمن نجات کے کمیشن ایجنٹ بنے ہوئے تھے۔ مذہب استحصال جاہ و مال کا آلہ بن گیا تھا۔ فطرت انسانوں کو آزاد پیدا کرتی تھی،لیکن وہ مہد سے لحد تک طرح طرح کے توہمات اور استبداد کی زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے۔ خدا نے جو امانت آدم کے سپرد کی تھی وہ اس سے چھن چکی تھی۔ جب زبونی حال اس درجے کو پہنچی تو رحمت حق جوش میں آئی اور حق بحق دار سپردن کا دور شروع ہو۔
یہ اسی نبیﷺ کی بدولت ہوا جس کو اس کے ہم وطن لوگ نبوت سے قبل بھی امین کہتے تھے:
تا امینے حق بہ حق داراں سپرد
بندگان را مسند خاقان سپرد
اب مکرم و معظم ہونے کا ایک ہی معیار رہ گیا ’ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم‘ جو سیرت میں افضل ہے وہی سردار ہے،خواہ وہ ایک نادار حبشی ہی ہو۔ انسانیت کیلئے یہ کام اور کس نے کیا؟ فقط حریت و اخوت و مساوات کے نعرے لگاتے رہے تاکہ اس دھوکے سے عوام کا شکار کرتے رہیں۔
محنت کش کسان اور مزدور کیلئے ’الکاسب حبیب اللہ‘ کس نے کہا؟ یہ تمام اصنام کہن اسلام نے توڑے۔ یہ کسی ایک ملت پر احسان نہ تھا بلکہ تمام انسانیت میں ایک تازہ جان آفرینی تھی:
تازہ جان اندر تن آدم دمید
بندہ را باز از خداونداں خرید
اسلام صحیح معنوں میں انقلاب تھا،وہ دنیاے کہن کی موت اور عالم جدید کی تکوین تھی۔ دین اور ضمیر کے معاملے میں ہر قسم کا جبر ممنوع ہو گیا۔
حریت و مساوات کی تحریکیں عصر نو میں بھی پیدا ہوئی ہیں،لیکن تاریخ انسانی میں یہ تمام تقاضے اسلام کے منشور میں داخل ہو کر پہلے پہل منصہ شہود پر آئے:
حریت زاد از ضمیر پاک او
ایں م نوشیں چکید از تاک او
عصر نو کایں صد چراغ آوردہ است
چشم در آغوش او وا کردہ است
جس اسلام نے ”کل مومن اخوة‘ کہا،اسی نے تمام نوع انسان کی وحدت کی حقیقت کا بھی انکشاف کیا کہ تمام انسان،مرد و زن گورے کالے،امیر و غریب ایک نفس واحد کے اعضا ہیں۔
اخوت اور مساوات اسلام کی نہاد میں ہیں۔ جو کوئی جس حد تک اخوت،مساوات اور حریت کو لائحہ عمل بناتا ہے اسی قدر وہ مسلم و مومن ہے۔
اس کے بعد تاریخ اسلام سے مساوات ورزی کی کچھ مثالیں بیان کی ہیں۔ ایرانیوں کے خلاف جنگ میں ان کا سپہ سالار جابان گرفتار ہو گیا۔ اس نے یہ نہ بتایا کہ میں کون ہوں اور ایک معمولی سپاہی سے امان طلبی کی۔ اس نے اسے امان دی اور وعدہ کیا کہ تمہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔
جنگ کے ختم ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ اول نمبر کا جنگی مجرم ہے۔ سب نے ابو عبیدہ سپہ سالار سے کہا کہ اس کو قتل کرنا لازمی ہے۔ ابو عبیدہ سپہ سالار عسکر اسلامی نے کہا کہ اے مسلمانو! ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ ایک کا وعدہ سب کا وعدہ ہے۔ امان دینے والا معمولی سپاہی سہی لیکن ہماری ملت کا فرد ہے۔ ہمیں اس کا پاس ہونا چاہئے۔ ملت کی یک آہنگی بڑے سے بڑے جبار قاتل کے قتل کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے:
نعرہٴ حیدر نواے بو ذراست
گرچہ از حلق بلال و قنبر است
ہر یکے از ما امین ملت است
صلح و کینش صلح و کین ملت است
اس کے بعد سلطان مراد اور معمار کا قصہ بیان کیا ہے۔
ایک معمار کی تعمیر سلطان کو پسند نہ آئی اور خشم گین ہو کر اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس نے قاضی کے ہاں نالش کی۔ قاضی نے سلطان کو عدالت میں طلب کیا۔ ایک طرف معمار دست بریدہ و ستم رسیدہ فریادی ہے اور دوسری طرف ایک وسیع مملکت کا شہنشاہ شرمندہ کھڑا ہے۔ سلطان نے جرم کا اقبال کیا۔ قاضی نے کہا کہ از روے قرآن قصاص واجب ہے۔ شریعت سلطان اور معمولی انسان کے حقوق و فرائض میں فرق روا نہیں رکھتی:
عہد مسلم کمتر از احرار نیست
خون شہ رنگیں تر از معما نیست
سلطان نے اپنا ہاتھ پیش کیا کہ قصاص میں اس کو کاٹ دیا جائے مدعی نے کہا کہ خدا نے قصاص کا حکم بھی دیا ہے لیکن عدل و احسان کو افضل قرار دیا ہے:
گفت از بہر خدا بخشیدمش
از براے مصطفی بخشیدمش
یافت مورے بر سلیمانے ظفر
سطوت آئین پیغمبر نگر
پیش قرآن بندہ و مولا یکے ست
بوریا و مسند دیبا یکے ست
حریت کی مثال میں اقبال نے امام الشہدا حضرت امام حسین کی شہادت کے جگر گداز واقعے کو نظم کیا ہے۔
اسلام نے شہنشاہی اور سلطانی کا خاتمہ کرکے انسان کی حریت کو محفوظ کیا تھا،کیوں کہ مطلق العنان سلطانی جو عادل و ظالم،عاقل و احمق کو ورثے میں ملتی رہے ہر قسم کے استبداد کا مسموم سرچشمہ ہوتی ہے۔ خلافت راشدہ تک حریت کا یہ عالم تھا کہ معمولی فرد بھی خلیفہ پر نالش کرکے اس کو عدالت میں پیش ہونے پر مجبور کر سکتا تھا اور عورتیں مجمع عام میں امیر المومنین سے معمولی باتوں میں بھی باز پرس کرتی تھیں اور اس کے کسی غیر قرآنی فتوی کے خلاف احتجاج کرتی تھیں۔
حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) جیسے بارعب خلیفہ سے بھی کوئی مرعوب نہ ہوتا تھا بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھے۔ مساوات و حریت کا یہ نمونہ چشم آفتاب نے اس دنیا کی سطح پر پھر کبھی نہ دیکھا۔ اس نظام حریت پر سب سے کاری ضرب امیر معاویہ نے لگائی اور یہ ضرب ایسی تھی کہ آج تک مسلمانوں کی سیاست اس سے مجروح ہے۔ امیر معاویہ اپنے یزید کو،جس کے عاقل و عادل یا متقی ہونے کی ملت قائل نہ تھی اور جسے اکابر ملت کبھی اس کی سیرت کی وجہ سے امیر المومنین منتخب نہ کرتے،ولی عہد مقرر کر دیا اور جبر و زجر سے اس کی جانشینی کو تسلیم کرایا۔
خلافت سلطنت میں تبدیل ہو گئی اور تھوڑے ہی عرصے میں وہی قیصریت واپس آ گئی جس کی بیخ کنی اسلام کا فرض اولین تھا۔ ایک مرد مجاہد و حق پرست،رسول اللہ (ﷺ) و بتول کا پروردہ آغوش اور حیدر کرار کا فرزند ارجمند،اس حریت کشی اور اسلام سوزی کو برداشت نہ کر سکا۔ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے استبدادی سیاست کے خلاف حق کا علم بلند کیا اور حریت کی حفاظت میں اپنی اور اہل و عیال کی جانیں قربان کر دیں۔ مسلمانوں کا ایک گروہ آج تک اس پر ماتم کرتا ہے۔ لیکن اس امام احرار کی حریت پروری اور استبداد کشی کو کسی نے اپنا مسلک نہ بنایا۔ حریت کی حفاظت کیلئے سینہ زنی نہیں بلکہ سینہ سپر ہونے کی ضرورت ہے۔

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط