Episode 130 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 130 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

تاریخ اسلام میں ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ مسلمان ایک طرف کمزور اور بے بس ہوئے تو دوسری طرف ان کا غلبہ ہو گیا۔ اندلس میں ان کا دور دورہ ختم ہو گیا تو مشرقی فرنگ میں ترکوں نے اسلام کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ ادھر ترک مشرقی یورپ میں سے نکلے تو دور حاضر میں ایک طرف پاکستان جیسی عظیم الشان اسلامی مملکت قائم ہو گئی،دوسری طرف مشرق اقصیٰ میں انڈونیشیا میں ایک کثیر التعداد اسلامی ملت آزاد ہو گئی:
شعلہ ہائے انقلاب روز گار
چوں بباغ ما رسد گردد بہار
تاریخ عالم نے کئی عظیم القوت ملتوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹایا لیکن:
در جہاں بانگ اذاں بود است و ہست
ملت اسلامیاں بود است و ہست
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
(حافظ)
اس کے بعد یہ مضمون ہے کہ ملت کی صورت بندی آئین سے ہوتی ہے اور ملت اسلامیہ کے آئین کا مخزن قرآن حکیم ہے:
دہر میں عیش دوام آئین کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں
#
ملتے را رفت چوں آئین ز دست
مثل خاک اجزاے او از ہم شکست
قرآن نے اسلام کو دین فطرت قرار دے کر ”لا تبدیل لخلق اللہ“ کے اصول کے مطابق جو سرمدی حقائق حیات بیان کئے ہیں وہ زمانے کے تغیرات کی پیداور نہیں اور نہ مرور ایام سے ان میں کہنگی پیدا ہو سکتی ہے اسی آئین کو قرآن حکمت بھی کہتا ہے اور حکمت کے مفہوم میں کلیت اور زمان و مکان سے ماورائیت داخل ہے:
آں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت او لا یزال است و قدیم
اس کی تعلیم غلاموں کو احرار بنا دیتی ہے اور ضعیفوں کو قوت بخشتی ہے۔

(جاری ہے)

اس نے ارتقا کی راہیں کشادہ کر دی ہیں۔ اسی کی بدولت ان پڑھ صحرائیوں نے دنیا میں علوم و فنون کا چراغاں کر دیا۔ موحد بچوں کے سینے بھی اس امانت کے امین ہیں جسے دست و جبل نے زہرہ گداز سمجھ کر قبول نہ کیا تھا۔ تاریخ عالم میں صحرائی اور کوہستانی وحشیوں کے ٹڈی دل کئی مرتبہ متمدن دنیا پر نازل ہوئے۔ مگر پرانی تہذیبوں کے تاخت و تاراج کے بعد حیات انانی میں کوئی وسعت اور ثروت افکار و اقدار پیدا نہ کر سکے۔
لیکن ان صحرائیوں نے قرآن سے فیض اور قوت حاصل کرکے قیصر و کسریٰ کے تخت ہی نہیں الٹے بلکہ انسانوں کو غلامی کی زنجیروں اور توہمات کے طوق سے آزاد کیا۔ اس وقت جو ملت اسلامیہ میں ضعف نظر آتا ہے تو اس کی وجہ قرآن سے تغافل ہے۔ اب قرآن سے کسی کو وجد نہیں آتا لیکن جامی اور عراقی کی غزلیں قوالی میں چنگ و رباب کے ساتھ گائی جائیں تو ایک جھوٹا جوش اور مستی پیدا ہو جاتی ہے:
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بقرآن زیستن
صوفی پشمینہ پوش حال مست
از شراب نغمہ قوال مست
آتش از شعر عراقی اور دلش
در نمی سازد بقرآن محفلش
خطیب کا کام اب فروعات کی جنگ ہے۔
ضعیف و شاذ و مرسل حدیثوں کی بحث میں قرآن طاق نسیاں پر دھرا رہتا ہے۔ احادیث میں غلو نے یہاں تک نوبت پہنچائی ہے کہ بعض احادیث کو نصوص قرآنی کا ناسخ بنا دیا ہے نعوذ باللہ من ذالک:
از خطیب و دیلمی گفتار او
با ضعیف و شاذ و مرسل کار او
قرآن اب یا بے سمجھے طوطے کی طرح رٹا جاتا ہے یا کسی مسلمان کی وفات پر ملا حلوا مانڈا اجرت میں لے کر اس کے دو ایک سپارے بڑی سرعت سے پڑھ جاتا ہے یا پھر فال کیلئے استعمال ہوتا ہے یا تبرکاً بیمار کو اس کے اوراق کی ہوا دی جاتی ہے۔
”فاعتبر وا یا اولی الابصار“
اس کے بعد ایک مضمون ہے جو بظاہر اقبال کی عام تلقین کے منافی معلوم ہوتا ہے،لیکن درحقیقت اس میں کوئی تضاد نہیں۔ اقبال نے بالتکرار سینکڑوں اشعار میں تقلید کی مذمت کی ہے اور تحقیق کی رغبت دلائی ہے۔ اجتہاد کے متعلق اقبال کے تصورات خطبات اور اشعار میں ایسے ملتے ہیں جن کو پڑھ کر مقلدوں کو اس کی جرات پر حیرت ہوتی ہے۔
لیکن اقبال جب ملت اسلامیہ کی موجودہ حالت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے کوئی گروہ ایسا دکھائی نہیں دیتا جو اسلامی روح کے مطابق اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو اور جو لوگ اجتہاد کی جرات کرتے ہیں وہ آزاد خیالی میں یا تقلید فرنگ میں اسلام سے دور جا پڑتے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں ایسے خام مدعیان اجتہاد کی بجائے اسلاف کی تقلید بہتر ہے۔
بچوں کی عقل جب تک علم اور تجربے سے پختہ نہیں ہوتی تب تک ان کی تربیت کا مدار تقلید پر ہوتا ہے۔ اس انحطاط کے دور میں بھی اقوام عقل و حکمت کے بارے میں طفل نابالغ بن جاتی ہیں یا پیر فرتوت کی طرح جدت افکار و اعمال کے ناقابل ہو جاتی ہیں۔ جب قوم میں زندگی کے چشمے خشک ہو جائیں تو وہ روایت پرست اور مقلد ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ تقلید اور روایت پرستی میں کسی ہمت اور جرات کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مسلمانوں میں اس وقت ایک طبقہ جامد اور کورانہ تقلید اسلاف میں زندگی کی ارتقائی کوششوں کیلئے نا اہل ہو گیا ہے اور دوسرا طبقہ مغرب زدہ روشن خیالوں کا ہے،جن کیلئے تہذیب جدید کا ہر نظریہ اور ہر طرز عمل سند ہے۔ یہ آزاد خیالی کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ بھی مقلد ہی ہیں۔ جب تک قوم میں نئی زندگی ابھرنے کے سامان پیدا نہ ہوں تب تک ہر طرف مقلد ہی مقلد نظر آئیں گے۔
اگر تقلید ہی کو شیوہ بنانا ہے تو پھر اپنے اسلاف کی تقلید اغیار کی تقلید سے بہتر ہے۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ عہد حاضر کے فتنوں نے ہماری ملت کو اپنے جلوؤں سے چندھیا دیا ہے اور ہمارے باطن کی آگ ٹھنڈی ہو گئی ہے:
جلوہ اش ما را ز ما بیگانہ کرو
ساز ما را از نوابیگانہ کرد
ازل دل ما آتش دیرینہ برد
نور و نار لا الا از سینہ برد
مضمحل گردد چو تقویم حیات
ملت از تقدیر می گیرد ثبات
ماضی کی معتقدانہ تقلید سے جوے کم آب ہی ملے گی جو ہماری زندگی کو پوری طرح سیراب نہیں کر سکتی لیکن جب دریا ریگستان میں گم ہو گیا تو بچی کھچی چھوٹی سی نہر ہی کی حفاظت کریں:
بحر گم کردی زیاں اندیش باش
حافظ جوے کم آب خویش باش

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط