تاریخ اسلام میں ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ مسلمان ایک طرف کمزور اور بے بس ہوئے تو دوسری طرف ان کا غلبہ ہو گیا۔ اندلس میں ان کا دور دورہ ختم ہو گیا تو مشرقی فرنگ میں ترکوں نے اسلام کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ ادھر ترک مشرقی یورپ میں سے نکلے تو دور حاضر میں ایک طرف پاکستان جیسی عظیم الشان اسلامی مملکت قائم ہو گئی،دوسری طرف مشرق اقصیٰ میں انڈونیشیا میں ایک کثیر التعداد اسلامی ملت آزاد ہو گئی:
شعلہ ہائے انقلاب روز گار
چوں بباغ ما رسد گردد بہار
تاریخ عالم نے کئی عظیم القوت ملتوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹایا لیکن:
در جہاں بانگ اذاں بود است و ہست
ملت اسلامیاں بود است و ہست
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
(حافظ)
اس کے بعد یہ مضمون ہے کہ ملت کی صورت بندی آئین سے ہوتی ہے اور ملت اسلامیہ کے آئین کا مخزن قرآن حکیم ہے:
دہر میں عیش دوام آئین کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں
#
ملتے را رفت چوں آئین ز دست
مثل خاک اجزاے او از ہم شکست
قرآن نے اسلام کو دین فطرت قرار دے کر ”لا تبدیل لخلق اللہ“ کے اصول کے مطابق جو سرمدی حقائق حیات بیان کئے ہیں وہ زمانے کے تغیرات کی پیداور نہیں اور نہ مرور ایام سے ان میں کہنگی پیدا ہو سکتی ہے اسی آئین کو قرآن حکمت بھی کہتا ہے اور حکمت کے مفہوم میں کلیت اور زمان و مکان سے ماورائیت داخل ہے:
آں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت او لا یزال است و قدیم
اس کی تعلیم غلاموں کو احرار بنا دیتی ہے اور ضعیفوں کو قوت بخشتی ہے۔
(جاری ہے)
اس نے ارتقا کی راہیں کشادہ کر دی ہیں۔ اسی کی بدولت ان پڑھ صحرائیوں نے دنیا میں علوم و فنون کا چراغاں کر دیا۔ موحد بچوں کے سینے بھی اس امانت کے امین ہیں جسے دست و جبل نے زہرہ گداز سمجھ کر قبول نہ کیا تھا۔ تاریخ عالم میں صحرائی اور کوہستانی وحشیوں کے ٹڈی دل کئی مرتبہ متمدن دنیا پر نازل ہوئے۔ مگر پرانی تہذیبوں کے تاخت و تاراج کے بعد حیات انانی میں کوئی وسعت اور ثروت افکار و اقدار پیدا نہ کر سکے۔
لیکن ان صحرائیوں نے قرآن سے فیض اور قوت حاصل کرکے قیصر و کسریٰ کے تخت ہی نہیں الٹے بلکہ انسانوں کو غلامی کی زنجیروں اور توہمات کے طوق سے آزاد کیا۔ اس وقت جو ملت اسلامیہ میں ضعف نظر آتا ہے تو اس کی وجہ قرآن سے تغافل ہے۔ اب قرآن سے کسی کو وجد نہیں آتا لیکن جامی اور عراقی کی غزلیں قوالی میں چنگ و رباب کے ساتھ گائی جائیں تو ایک جھوٹا جوش اور مستی پیدا ہو جاتی ہے:
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بقرآن زیستن
صوفی پشمینہ پوش حال مست
از شراب نغمہ قوال مست
آتش از شعر عراقی اور دلش
در نمی سازد بقرآن محفلش
خطیب کا کام اب فروعات کی جنگ ہے۔
ضعیف و شاذ و مرسل حدیثوں کی بحث میں قرآن طاق نسیاں پر دھرا رہتا ہے۔ احادیث میں غلو نے یہاں تک نوبت پہنچائی ہے کہ بعض احادیث کو نصوص قرآنی کا ناسخ بنا دیا ہے نعوذ باللہ من ذالک:
از خطیب و دیلمی گفتار او
با ضعیف و شاذ و مرسل کار او
قرآن اب یا بے سمجھے طوطے کی طرح رٹا جاتا ہے یا کسی مسلمان کی وفات پر ملا حلوا مانڈا اجرت میں لے کر اس کے دو ایک سپارے بڑی سرعت سے پڑھ جاتا ہے یا پھر فال کیلئے استعمال ہوتا ہے یا تبرکاً بیمار کو اس کے اوراق کی ہوا دی جاتی ہے۔
”فاعتبر وا یا اولی الابصار“
اس کے بعد ایک مضمون ہے جو بظاہر اقبال کی عام تلقین کے منافی معلوم ہوتا ہے،لیکن درحقیقت اس میں کوئی تضاد نہیں۔ اقبال نے بالتکرار سینکڑوں اشعار میں تقلید کی مذمت کی ہے اور تحقیق کی رغبت دلائی ہے۔ اجتہاد کے متعلق اقبال کے تصورات خطبات اور اشعار میں ایسے ملتے ہیں جن کو پڑھ کر مقلدوں کو اس کی جرات پر حیرت ہوتی ہے۔
لیکن اقبال جب ملت اسلامیہ کی موجودہ حالت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے کوئی گروہ ایسا دکھائی نہیں دیتا جو اسلامی روح کے مطابق اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو اور جو لوگ اجتہاد کی جرات کرتے ہیں وہ آزاد خیالی میں یا تقلید فرنگ میں اسلام سے دور جا پڑتے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں ایسے خام مدعیان اجتہاد کی بجائے اسلاف کی تقلید بہتر ہے۔
بچوں کی عقل جب تک علم اور تجربے سے پختہ نہیں ہوتی تب تک ان کی تربیت کا مدار تقلید پر ہوتا ہے۔ اس انحطاط کے دور میں بھی اقوام عقل و حکمت کے بارے میں طفل نابالغ بن جاتی ہیں یا پیر فرتوت کی طرح جدت افکار و اعمال کے ناقابل ہو جاتی ہیں۔ جب قوم میں زندگی کے چشمے خشک ہو جائیں تو وہ روایت پرست اور مقلد ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ تقلید اور روایت پرستی میں کسی ہمت اور جرات کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مسلمانوں میں اس وقت ایک طبقہ جامد اور کورانہ تقلید اسلاف میں زندگی کی ارتقائی کوششوں کیلئے نا اہل ہو گیا ہے اور دوسرا طبقہ مغرب زدہ روشن خیالوں کا ہے،جن کیلئے تہذیب جدید کا ہر نظریہ اور ہر طرز عمل سند ہے۔ یہ آزاد خیالی کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ بھی مقلد ہی ہیں۔ جب تک قوم میں نئی زندگی ابھرنے کے سامان پیدا نہ ہوں تب تک ہر طرف مقلد ہی مقلد نظر آئیں گے۔
اگر تقلید ہی کو شیوہ بنانا ہے تو پھر اپنے اسلاف کی تقلید اغیار کی تقلید سے بہتر ہے۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ عہد حاضر کے فتنوں نے ہماری ملت کو اپنے جلوؤں سے چندھیا دیا ہے اور ہمارے باطن کی آگ ٹھنڈی ہو گئی ہے:
جلوہ اش ما را ز ما بیگانہ کرو
ساز ما را از نوابیگانہ کرد
ازل دل ما آتش دیرینہ برد
نور و نار لا الا از سینہ برد
مضمحل گردد چو تقویم حیات
ملت از تقدیر می گیرد ثبات
ماضی کی معتقدانہ تقلید سے جوے کم آب ہی ملے گی جو ہماری زندگی کو پوری طرح سیراب نہیں کر سکتی لیکن جب دریا ریگستان میں گم ہو گیا تو بچی کھچی چھوٹی سی نہر ہی کی حفاظت کریں:
بحر گم کردی زیاں اندیش باش
حافظ جوے کم آب خویش باش