تقلید کی یہ تلقین ایک مردہ قوم کیلئے ہے۔ اقبال ملت اسلامیہ کو دور حاضر میں مردہ ہی سمجھتا ہے،اگرچہ اس کے احیا سے نا امید نہیں۔ اب یہی بہتر ہے کہ اللہ اللہ کرو اور طرز فکر و عمل میں کسی گذشتہ امام کی تقلید ہی کر لو،لیکن یہ تقلید غذاے روح نہیں بلکہ مریض میں جو جان کی رمق باقی دکھائی دیتی ہے،اس کو سنبھالنے کیلئے ایک دوا ہے:
اے پریشان محفل دیرینہ ات
مرد شمع زندگی درسینہ ات
نقش بر دل معنی توحید کن
چارہ کار خود از تقلید کن
یہ نصیحت عوام کیلئے ہے جن میں ہمارے کم علم اور بے بصیرت علما کا ایک طبقہ بھی داخل ہے۔
الا ماشاء اللہ۔ اس نصیحت کو اقبال اپنے لئے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اس کا اپنا ذوق تو یہ ہے کہ اجتہاد اور جدت و قدرت میں اگر غلطی بھی سرزد ہو تو وہ اس کو مقلدانہ نیکی پر ترجیح دیتا ہے:
تراش از تیشہٴ خود جادہٴ خویش
براہ دیگراں رفتن عذاب است
گر از دست تو کار نادر آید
گنا ہے ہم اگر باشد ثواب است
#
چہ خوش بودے اگر مرد نکو پے
ز بند پاستان آزاد رفتے
اگر تقلید بودے شیوہ خوب
پیمبر ہم رہ اجداد رفتے
اتباع آئن کی تلقین پر ایک اور نظم ہے جس میں شریعت اسلام کی ماہیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
(جاری ہے)
شریعت اور عشق دونوں کی ماہیت سے ناواقف لوگوں نے ان کو باہم برسر پیکار سمجھ لیا:
در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق
یہ بحث اسلام سے زیادہ قدیم ہے۔ موسوی شریعت رفتہ رفتہ اس قدر پیچ در پیچ اور زندگی کیلئے جنجال بن گئی اس کی تفصیلی پابندیوں میں روح دین غائب ہو گئی۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اس ظاہر پرستی اور شعائر پرستی کی شدت کے خلاف احتجاج کیا۔
یہودی علما نے ان پر مخالف شرع ہونے کا الزام لگایا اور ان کو مصلوب کرانے کے در پے ہو گئے۔ ہر چند کہ حضرت مسیح کہتے رہے کہ میں شریعت کو منسوخ کرنے نہیں آیا بلکہ اس کی تکمیل کرنے آیا ہوں۔ میں تمہیں شریعت کے ظاہر کی نسبت اس کے باطن کی طرف متوجہ ہونے کی تعلیم دیتا ہوں۔ حضرت مسیح کے بعد پولوس نے شریعت موسوی سے تنگ آکر یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ مسیح کی آمد سے محبت نے شریعت کو منسوخ کر دیا ہے۔
عیسوی تاریخ میں اس کے اچھے نتائج نہ نکلے۔ کسی نہ کسی شریعت کی ضرورت تو زندگی کیلئے لابدی ہے۔ جب قسطنطین کے عیسائی ہونے سے مملکت غار نشیں راہبوں کے ہاتھ آ گئی تو ان کو آئین و قوانین وضع کرنے پڑے اور مسیح (علیہ السلام) کی بجائے کلیسا شریعت گر ہو گیا۔
اسلامی شریعت کی نسبت اقبال کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص اسلامی شریعت کے حقائق سے اچھی طرح آشنا ہو تو اس پر یہ حقیقت واضع ہو جائے گی کہ یہاں شریعت اور محبت میں کوئی تضاد نہیں اور شریعت کے ہر حکم کی تہ میں محبت ہی کا جذبہ ہے:
علم حق غیر از شریعت ہیچ نیست
اصل سنت جز محبت ہیچ نیست
اب ہمارے ہاں شریعت کے علم بردار اور مدعی ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ ان کے فروغی مناقشات میں محبت کا نام و نشان نہیں ہوتا۔
غیر مسلموں اور عام انسانوں سے محبت تو درکنار اپنوں میں تفرقہ اندازی حامیان شریعت کا شیوہ بن گیا ہے۔ لعن و طعن اور تشنیع کا بازار گرم رہتا ہے۔ شریعت اسلامی کی اساس حکمت بھی ہے اور محبت بھی اور اس کا مقصد انسانوں کی قوتوں میں اضافہ کرنا ہے:
قدرت اندر علم او پیداستے
ہم عصا و ہم ید بیضاستے
اگر مستحب کی ادائیگی میں کوئی شخص یا گروہ مزاحم ہو تو اس کو ادا کرنا لازم ہو جاتا ہے۔
دشمن اگر مطمئن اور جنگ کیلئے تیار نہ ہو تو اس کو بے خبر اور کمزور پا کر اس پر حملہ آور ہونا حرام ہے۔ چنانچہ سلطان صلاح الدین نے یروشلم پر حملہ کرنے سے پیشتر دشمن کو پیغام بھیجا کہ اگر تم جنگ چاہو تو میں تم کو اپنی قوتوں کو مستحکم اور منظم کرنے کیلئے ہر طرح کی آسانیاں مہیا کروں گا،لیکن میں صلح کو اپنے لئے اور تمہارے لئے جنگ کے مقابلے میں بہتر سمجھتا ہوں۔
کمزور جانوروں کے شکار سے شکاری خود سست اور پست ہمت ہو جاتا ہے۔ دشمن کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا اصول شجاعت کے خلاف ہے:
نیست میشے ناتوانے لاغرے
درخور سر پنجہ شیر نرے
باز چوں با صعوہ خوگر می شود
از شکار خود زبوں ترمی شود
اسلامی شریعت نے رہبانیت کو اس لئے مذموم قرار دیا کہ اسلام سراپا پیغام عمل ہے:
ہست دین مصطفی دین حیات
شرع او تفسیر آئین حیات
صیقلش آئینہ سازد سنگ را
از دل آہن رباید زنگ را
مسلمان جب عجم میں پہنچے تو ذوق قوت نزاکت اور لطافت میں منتقل ہو گیا۔
شیر افگن مسلمان نواے عندلیب سے بیتاب ہونے لگے،یا رگ گل سے بلبل کے پر باندھنے لگے:
آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
تو ہاے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
آنکہ کشتے شیر را چوں گوسفند
گشت از پامال مورے درد مند
آنکہ از تکبیر او سنگ آب گشت
از صفیر بلبلے بیتاب گشت
عجمی تصورات میں لطافت افکار بھی ہے اور پرواز تخیل بھی اور اس کے فن میں ذوق جمال بھی ہے،لیکن اسلام کی شریعت،بصیرت اور قوت سے اس کو لگاؤ معلوم نہیں ہوتا۔
بیچارے مرزا غالب نے صاف طور پر اقبال کیا کہ میں عجمی نہاد ہوں اس لئے دین عربی میرے دل و دماغ میں نہیں گھستا:
رموز دیں نشناسم عجب مدار ز من
کہ دین من عربی نہاد من عجمی است
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ احمد رفاعی (رحمتہ اللہ علیہ) نے اپنے ایک مرید کو نصیحت کی کہ عجمی افکار سے پرہیز کرنا:
با مریدے گفت اے جان پدر
از خیالات عجم باید حذر
زانکہ فکرش گرچہ از گردوں گذشت
از حد دین نبی بیروں گذشت
ایک نظم میں اپنے بچپن کے ایک واقعے کو نظم کیا ہے کہ میں نے ایک سائل کو تنگ آ کر زد و کوب کی۔
والد صاحب کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے عجیب موثر انداز میں مجھے تنبیہ کی کہ اسلام تو شفقت برخلق کا نام ہے اور اس کا نبی رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جب روز محشر میں سب کے سامنے مجھ سے پوچھا جائے گا کہ اپنے بیٹے کی تو نے یہی تربیت کی تھی کہ وہ ایک سائل بے نوا کو مارے پیٹے تو میں کس قدر شرمندہ ہوں گا۔ قرآن و سنت رحمت و شفقت کی تعلیم ہے:
فطرت مسلم سراپا شفقت است
در جہاں دست و زبانش رحمت است
اقبال نے شمع و شاعر میں ایک شعر کہا تھا:
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات
یہ کبھی شبنم کبھی گوہر کبھی آنسو ہوا