Episode 132 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 132 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اب اقبال یہ کہتا ہے کہ شبنم اور آنسو بننے سے بہتر ہے کہ قطرہ گوہر بن جائے،لیکن قطرہ آغوش تلاطم میں گوہر بنتا تھا،اس لئے شریعت اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ مزاحمتوں اور خطروں پر غالب آکر انسان اپنے نفس کو قوی بنائے:
قطرہ نیساں کہ مہجور از یم ست
ذر خاشاکے مثال شبنم است
طینت پاک مسلماں گوہر است
آب و تابش از یم پیغمبر است
اس کے بعد ایک نظم میں اس خیال کی توضیح کی ہے کہ حیات ملیہ کیلئے کوئی مرکز محسوس بھی ہونا چاہئے۔
مسلمان کعبے کے سنگ و خشت کی پرستش نہیں کرتا،لیکن یہ مرکز محسوس شرق و غرب اور شمال و جنوب کے لاتعداد مسلمانوں کیلئے ایک نقطہ جاذب ہے جو حیات ملت میں ہم آہنگی اور وحدت کو ترقی دیتا ہے۔
پہلے زندگی کی ماہیت کے متعلق نہایت حکیمانہ اشعار کہے ہیں کہ حیات رم پیہم ہے،مادہ ہو یا نفس اس میں مسلسل روانی اور تغیر احوال ہے۔

(جاری ہے)

زندگی سراپا پرواز ہے،لیکن نشیمن بھی خود ہی بناتی ہے۔

عارضی طور پر سکون و جمود کی آفرینش کا مقصد بھی یہی ہے کہ ذوق خرام میں افزائش ہو:
پا بگل کر گردد حیات تیز گام
تا دو بالا گرددش ذوق خرام
#
زندگی دو گھڑی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر
(میر)
زندگی خود اپنے رشتے میں گرہیں ڈالتی ہے تاکہ گرہ کشائی کی لذت حاصل ہو:
دمبدم مشکل گر و آسان گزار
دمبدم نو آفرین و تازہ کار
جس طرح حیات رواں کچھ عرصے کیلئے بدن میں اپنے آپ کو محدود کرتی ہے اسی طرح روح ملت کیلئے بھی ایک بدن کی ضرورت ہے۔
بیت الحرام اسی روح کا ایک مادی مرکز و مسکن ہے۔ مختلف قومیں اپنے جھنڈوں کو اقتدار و وقار کا مرئی مرکز بنا لیتی ہے اور جنگ و صلح میں جھنڈے کے وقار کو قومی وقار کی علامت سمجھتی ہیں،حالانکہ مادی حیثیت میں جھنڈا محض ایک لکڑی کا ٹکڑا اور دو چار گز کپڑا ہوتا ہے۔ بیت الحرام اپنی روایات کے لحاظ سے ان جھنڈوں سے بہتر مرکز عقیدت ہے:
قوم را ربط و نظام از مرکزے
روزگارش را دوام از مرکزے
رازدار و راز ما بیت الحرام
سوز ما ہم ساز ما بیت الحرام
امتیں جمعیت ہی سے قائم و استوار رہتی ہیں۔
بیت الحرام جمعیت میں ایک قومی معاون ہے۔ امت موسوی کی جمعیت اس لئے پریشان ہوئی کہ اس کا مرکز اس کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ اس کا معبد منہدم ہو گیا جس کی باقی ماندہ ایک دیوار پر اس تمام دنیا کے زائر یہودی سر ٹکرا کر گریہ و زاری کرتے ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ سے ملت مسلمہ کو عبرت حاصل کرنی چاہئے۔ اپنی جان سے زیادہ اس مرکز کی حفاظت کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔
ایک روز علامہ مجھ سے فرمانے لگے کہ صلوٰة کا لفظ نماز کے علاوہ معب کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور قرآن جو صلوٰة وسطیٰ کی خاص حفاظت پر زور دیتا ہے میرے نزدیک اس کے معنی بیت الحرام کی حفاظت ہیں۔ معلوم نہیں کہ دیگر مفسرین کہاں تک علامہ کی اس تاویل سے متفق الرائے ہوں گے۔
لیکن کعبہ مسلمانوں کی نظر گاہ نہیں۔ مسلمانوں کا حقیقی نصب العین حفظ و نشر توحید ہے۔
تمام دین توحید کی تشریح ہے اور تمام عبادات و شعائر اسی کو قائم رکھنے کے ذرائع ہیں۔ توحید ہی ملت اسلامیہ کا امتیازی جوہر ہے اور توحید ہی اس کی جمعیت کی شیرازہ بند ہو سکتی ہے۔
زندگی کی حقیقت مقصد کوشی ہے۔ توحید و وحدت آفرینی سے زیادہ بلند اور کوئی مقصود نہیں ہوسکتا۔ تمام مقاصد اسی کے زیر نگیں ہونے چاہیں۔ ادنیٰ مقاصد ادنیٰ وحدتیں پیدا کرتے ہیں،اعلیٰ ترین مقصد وسیع ترین وحدت حیات پیدا کر سکتا ہے:
چوں حیات از مقصدے محرم شود
ضابط اسباب ایں عالم شود
راہ پیمائی کسی منزل ہی کی طرف ہو سکتی ہے۔
اگر منزل معین نہ ہو تو دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان جامد و ساکن ہو کر رہ جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ہر زہ گرد ہو جائے۔ ”بسکہ دراز او فتد جادہ ز گمراہیم“ (غالب)۔ قیس صحرا میں آوارہ دکھائی دیتا ہے لیکن وہ محمل لیلیٰ کی تلاش میں گرم رو ہے۔ جسم انسانی کے اندر بھی بے انتہا اور گونا گوں اعمال و وظائف بقاے حیات کے واحد مقصود سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں:
گردش خونے کہ در رگ ہاے ماست
تیز از سعی حصول مدعا ست
جس قدر کسی کا مقصد بلند ہوتا ہے،اسی قدر اس کی ہمت اور قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔
بقول شاعر:
ہمت بلند دار کہ نزد خدا و خلق
باشد بقدر ہمت تو اعتبار تو
جب کسی قوم میں شدید جدوجہد دکھائی دیتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی شاہد مقصود کی طرف دیوانہ وار بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مقصود کو ہر دم پیش رکھنا چاہئے۔ ایک قدیم صوفیانہ محاورہ ہے کہ جو دم غافل سو دم کافر۔ پاؤں کا کانٹا نکالنے کیلئے ایک مسافر کارواں سے ذرا الگ ہوا اتنے میں محمل نظر سے اوجھل ہو گیا اور وہ سو سال تک صحرا میں اس کی تلاش میں حیران و سرگرداں رہا:
رفتم کہ خار از پا کشم محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد
زندگی مقصد کی جستجو اور تگ و دو میں قرنہا سے تجربے کرتی چلی آ رہی ہے۔
کئی معبودان باطل بنائے اور پھر ان کو توڑ ڈالا،آخر کار اس پیکار حیات نے ارتقا کی آخری منزل میں انسان کو توحید سے آشنا کیا جو منتہاے حیات ہے ”والیٰ ربک المنتہیٰ“:
مدتے پیکار با احرار داشت
با خداوندان باطل کار داشت
تخم ایماں آخر اندر گل نشاند
با زبانت کلمہ توحید خواند
توحید کے عرفان ہی سے زندگی میں تمام جمال و جلال پیدا ہوتا ہے۔ اس سرچشمہ حیات کی حفاظت مقصود حیات ہے۔ جب تک تمام عالم پر یہ راز افشا نہ ہو تب تک مسلمان کو دم نہ لینا چاہئے:
زانکہ در تکبیر راز بود تست
حفظ و نشر لاالہ مقصود تست
تا نہ خیزد بانگ حق از عالمے
گر مسلمانی نیاسائی دمے

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط