اسی ظاہری فضا میں کئی عالم پوشیدہ ہیں۔ ہر ذرے کے اندر ایک خورشید کی قوت پنہاں ہے۔ اسرار موجودات کی گرہ کشائی سے بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے اور قوت بھی۔ باد و باراں اور برق و رعد مطیع و فرماں بردار ہوتے ہیں۔ سیلابوں میں بجلیاں ظہور کیلئے بیتاب ہیں۔ اقوام کہن ستاروں کی پرستش کرتی تھیں لیکن حکمت کی ترقی نے انسان کے ادراک کو ان پر محیط کر دیا:
جستجو را محکم از تدبیر کن
انفس و آفاق را تسخیر کن
عرفان حکمت اشیا کی بدولت ناتواں قومیں غیر معمولی قوت حاصل کرکے بڑی بڑی جابر قوموں کی گردن مروڑ دیتی ہیں۔
شجاعت بے حکمت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور اقوام حکیم کی باج گزار ہو جاتی ہیں:
تا نصیب از حکمت اشیا برد
ناتواں باج از توانایاں خورد
خدا نے مجھے بار بار تاکید کی کہ فطرت کو غور سے دیکھ۔
(جاری ہے)
نباتات،حیوانات،جمادات سب میں آئین الٰہی تلاش کر۔ تو فقط ”انظر“ والی آیات ہی دہراتا رہا۔ دیکھا دکھایا کچھ نہیں۔ قرآن حکیم فقط تلاوت کیلئے تو نہ تھا،اس کا اصل مقصود صحیفہ فطرت کے مطالعے سے حقائق الہیہ کا اخذ کرنا تھا۔
تو نے مشاہدہ کائنات کو کوئی عبادت ہی نہ سمجھا اور اسے دنیاے دوں کا ایک شغل قرار دیا ہے۔ اب اس کی سزا بھگت رہا ہے:
تو کہ مقصود خطاب ”انظری“
پس چرا ایں راہ چوں کوران بری
سید احمد خان اور مرزا غالب،جن کے انداز فکر،طرز زندگی اور مقصود حیات میں بے حد تفاوت نظر آتا ہے،ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط کو محض ایک عسکری کامیابی کا نتیجہ نہ سمجھتے تھے۔
ان دونوں کی بالغ نظری پر یہ منکشف ہو گیا تھا کہ یہ نئی حکمران قوم محض تاجر اور کشور کشا نہیں بلکہ طبعی سائنس کی بدولت فطرت کی قوتوں کو مسخر کرکے بے بصر اقوام پر غالب آ گئی ہے۔ اب مشرقیوں کو ان سے کچھ سیکھنا ہے۔
سید احمد خان کو لوگ قابل اعتراض حد تک مداح و مقلد فرنگ سمجھتے تھے لیکن مرزا غالب کی ترقی پسندی کی یہ کیفیت تھی کہ جب سید صاحب نے آئین اکبری کو تصحیح اور حواشی کے ساتھ پسندیدہ انداز میں شائع کیا اور مرزا غالب کو تقریظ کیلئے یہ کتاب بھیجی تو مرزا صاحب اس قدر برہم ہوئے کہ سید صاحب سے قدیم دوستی بھی مخالفانہ تنقید پر غالب نہ آ سکی۔
تعریف کی بجائے اس تقریظ میں،جو غالب کے کلیات فارسی میں شامل ہے،وہ سید صاحب کے اس کارنامے پر افسوس کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’مردہ پروری‘ تو عقلمندوں کا کام نہیں۔ یہ پرانے آئین اب فرسودہ ہو چکے ہیں۔ ’زمانہ دگر گونہ آئین نہاد‘ اب اس حکمت اور اس قانون پر غور کرو جو حکمت پسند ملت فرنگ اپنے ساتھ لائی ہے۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ اس قوم نے فہم فطرت سے تسخیر فطرت کا کام کیا ہے۔
الفاظ ہوا میں اڑا کر دور دراز مقامات تک پیغام پہنچا دیتے ہیں۔ اس قوم نے حروف کو پیامبر کبوتر بنا دیا ہے اور ان کے ساز دیکھو کہ بے زخمہ مضراب بجتے ہیں تسخیر فطرت کے مضمون میں علامہ اقبال نے مرزا غالب کے حوالے سے دو چار اشعار لکھے ہیں۔ غالب کے اشعار میں ایک یہ شعر تھا:
حرف چوں طائر بہ پرواز آورند
نغمہ را بے زخمہ از ساز آورند
علامہ فرماتے ہیں:
آنکہ بر اشیا کمند انداخت است
مرکب از برق و حرارت ساخت است
حرف چوں طائر بہ پرواز آورد
نغمہ را بے زخمہ از ساز آورد
سید صاحب جب اپنے دو بیٹوں حامد و محمود کو لے کر انگلستان گئے تو وہاں ہر طبقے میں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔
انسٹی ٹیوٹ آف انجینئر نے بھی ان کے اعزاز میں ایک ڈنر دیا جس میں زیادہ تر ماہر انجینئرز ہی مدعو تھے۔ سید صاحب کو وہاں کچھ تقریر کرنا پڑی اس تقریر میں سید صاحب نے کہا کہ تمہاری قوم کو اپلائڈ سائنس اور انجینئرنگ کی بدولت عروج اور غلبہ حاصل ہوا ہے۔ برق اور بھاپ سے کام لینے والے اور ریلیں،تلغراف اور پل بنانے والوں نے تمہاری سلطنت کو قوت بخشی ہے۔
اپنے وطن میں سید صاحب کی کوششوں کا محور بھی یہی تصور تھا کہ اسلام بھی مسلمانوں سے یہی تقاضا کرتا تھا لیکن افسوس ہے کہ وہ اس سے غافل ہو کر ضعیف اور مغلوب ہو گئے۔ عقائد و اخلاق کو مغرب سے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں،اس کا قیمتی سرمایہ ہمارے پاس موجود ہے،لیکن تسخیر فطرت سے روگردانی کی وجہ سے یہ کیفیت ہو گئی ہے کہ زندگی کی دوڑ میں ہم لنگڑے بن گئے ہیں۔
حکمت آشنا سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے ہم اس آدم کے وارث نہیں رہے جس کی نسبت قرآن نے ”علم آدم الاسما“ کہا تھا۔ یہ اسما محض نام اور الفاظ نہ تھے بلکہ صفات اشیا و حوادث کا عل تھے۔ جن اقوام نے اس حقیقت کو پا لیا وہ ہم سے آگے نکل گئیں اور ہم پسماندہ قوم رہ گئے:
اے خرت لنگ از رہ دشوار زیست
غافل از ہنگامہٴ پیکار زیست
ہمر ہانت پے بہ منزل بردہ اند
لیلیٰ معنی ز محمل بردہ اند
تو بصحرا مثل قیس آوارہ
خستہ واماندہ بیچارہ
علم اسما اعتبار آدم است
حکمت اشیا حصار آدم است
اقبال فرنگ کی سائنس اور اس سے پیدا شدہ تسخیر فطرت کا مخالف نہیں،وہ جس حکمت فرنگ کے خلاف احتجاج کرتا ہے وہ مادیت کا نظریہ حیات ہے جو خارجی فطرت کے ایک غلط تصور سے پیدا ہوا۔
خود فرنگ کے اکابر حکماء اور سائنس دان اس فلسفے پر ویسی ہی تقلید کرتے ہیں جو اقبال کے کلام میں ملتی ہے اور اپنے انگریزی خطبات میں اقبال نے زیادہ تر انہیں حکماے فرنگ کی بالغ نظر کے نمونے پیش کئے ہیں۔
اس کے بعد رموز بے خودی میں یہ مضمون ملتا ہے کہ جس طرح تکمیل ذات کیلئے فرد کو احساس خودی پیداکرنے کی ضرورت ہے اسی طرح ملت کی بھی ایک خودی ہے جو افراد کی خودی سے وسیع تر اور قوی تر ہے۔
اس کی تکمیل بھی لازمی ہے اور یہ تکمیل تسخیر فطرت کے علاوہ ضبط روایات ملیہ ہی سے ہو سکتی ہے۔ پہلے کچھ اشعار میں یہ بتایا ہے کہ فرد کی خودی کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ بچہ اپنی حقیقت سے کچھ واقف نہیں ہوتا،اس کا کام کھانا سونا اور بات کرنا سیکھنے کے بعد ہر چیز کے متعلق سوالات کرنا ہے،یہ کیا ہے؟ یہ کیوں ہے؟ اور یہ کیسے ہے؟ ان سوالات کی کثرت سے ماں باپ زچ آ جاتے ہیں۔
زندگی کا یہی آئین ہے۔ پہلے تمام توجہ خود پر مبذول ہوتی ہے اور اپنے ’من‘ کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ کسی قدر فہم ماسوا کے بعد بچے میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ میں ’میں‘ ہوں،تمام دیگر نفوس اور اشیا سے الگ ایک ہستی رکھتا ہوں،ماضی حال اور مستقبل سب اس ’میں‘ کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔ مسلسل جسمانی تغیرات اور بدنی نشوونما کے باوجود وہ اپنی خودی کو ایک غیر متغیر اور مستقل چیز سمجھتا ہے:
یاد او با خود شناسایش کند
حفظ ربط دوش و فردایش کند
گرچہ ہر دم کاہد افزاید گلش
’من ہما نستم کہ بودم‘ در دلش
ایں ’من‘ نوازادہ آغاز حیات
نغمہ بیداری ساز حیات
ملت نوزائیدہ بھی کمسن بچے کی طرح ہوتی ہے،اس کا نہ کوئی ماضی ہوتا ہے اور نہ اسے مستقبل کا کوئی واضح احساس ہوتا ہے۔
دیروز و امروز و فردا کا شیرازہ بند ’انا‘ ابھی اس میں نہیں ہوتا، ’بستہ با امروز او فرداش نیست‘ ، اس کی ہستی جسمانی آنکھ کے مماثل ہوتی ہے جو ہر شے کو دیکھتی ہے لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی:
چشم ہستی را مثال مردم است
غیر را بینندہ و او خود گم است
جب کوئی ملت حوادث و افکار کی پیکار میں کچھ عرصہ بسر کر چکتی ہے تو اس کے اندر ایک ’ملی انا‘ کا شعور ترقی کرتا ہے۔ قوم اپنی سرگزشت سے افکار و تاثرات کی ثروت حاصل کرتی ہے۔ اگر کوئی قوم اپنے ماضی کو فراموش کر دے یا کوتاہ بینی سے عملاً اپنا رشتہ اس سے منقطع کر لے تو وہ نابود ہو جاتی ہے:
سر گزشت او گر از یادش رود
باز اندر نیستی گم می شود