Episode 135 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 135 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

حفظ روایت کی سوزن سے ربط ایام کا پیرہن تیار ہوتا ہے جو ناموس ملت کا محافظ بھی ہوتا ہے اور اس کیلئے باعث تزئین بھی۔ نافہم لوگ تاریخ کو محض پرانی داستانیں سمجھتے ہیں اور ”ہذا اساطیر الاولین“ کہہ کر اس کی حقیقت سے غافل رہتے ہیں۔ تاریخ تو ایک ملت کا حافظہ ہے،فرد مید سے حافظہ غائب ہو جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ قوم بھی اگر اپنی تاریخ سے غافل ہو جائے تو اس کا بھی یہی حال ہوگا۔

تاریخ ایک ساز ہے جس کے تاروں میں تمام نغمہ ہاے رفتہ اسیر ہوتے ہیں۔ صدیوں کی پرانی شراب اس کے خم و مینا میں ہوتی ہے،اس کی کہنگی مستی میں اضافہ کرتی ہے:
بادہٴ صد سالہ در میناے او
مستی پارینہ ور صہباے او
زندہ قوموں کو دیکھو کہ کمال جدت پسندی کے ساتھ ساتھ اپنی روایات کے متعلق کس قدر قدامت پرست ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

دوش و امروز کا پیوند نفس ملت میں لذت اور قوت پیدیا کرتا ہے۔

ہر قوم کا حال اس کے ماضی کی پیداوار ہے اور اس کا مستقبل اس کے ماضی و حال کا نتیجہ ہوگا۔ یہ وسعت زمانی اور ہزار سالہ حوادث کی حافظے میں یکجائی حیات ملی کی کفیل ہوتی ہے:
سر زند از ماضی تو حال تو
خیزد از حال تو استقبال تو
مشکن ارخواہی حیات لازوال
رشتہ ماضی ز استقبال و حال
لیکن قومی روایات کی حفاظت اس انداز کی نہیں ہونی چاہئے کہ ملت ماضی پرست ہو کہ جامد ہو جائے اور زندگی کے ہر نئے اقدام کو یہ کہہ کر ٹھکرا دے کہ ہمارے قدیم عقائد و اعمال ہمارے لئے کافی ہیں۔
”ماوجد نا علیہ آبائنا“ ہر نبی کے مخالفوں نے یہی راگ الاپا۔ قرآن نے اس روایت پرستی کی شدید مذمت کی ہے اور تاریخ سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ اقبال جیسے جدت پسند اور انقلاب آفریں انسان کے ہاں حفظ روایات کا کوئی جامد مفہوم نہیں ہے۔ زندگی اپنے کسی انداز کو جوں کا توں نہیں دہراتی۔ ماضی سے صحت مندانہ ربط حیات آفرین ہوتا ہے لیکن ماضی کی مقلدانہ پرستش حیات ملی کو جامد کر دیتی ہے۔
غیر مسلم اور متعصب مخالفین اسلام نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ اسلام نے عورت کو بہت ادنیٰ مرتبہ دیا ہے۔ اس اعتراض کا نشانہ مسلمان اس لئے بنے کہ انہوں نے اپنی معاشرت میں اسلام سے بیگانہ ہوتے ہوئے عورتوں کو رسوم و رواج اور مردانہ خود غرضی کے پیدا کردہ غلط آئین کی بدولت بہت کچھ بے بس بنا دیا۔ اسلام نے جو حقوق عورتوں کو عطا کئے تھے۔
مسلمانوں نے رفتہ رفتہ ان کو سلب کر لیا اور ان نادانوں اور ہوس پرستوں کی وجہ سے اسلام بدنام ہو گیا۔ اسلام میں عورت اور ماں کا جو رتبہ ہے اس پر اقبال نے رموز بے خودی میں ایک بلیغ نظم لکھی ہے۔
خدا نے مرد و زن کو ایک دوسرے کا لباس بنایا،ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بغیر اقدار حیات کے لباس سے عریاں ہو جاتا ہے۔ عشق حق کا آغاز ماں کی محبت سے ہوتا ہے:
عشق حق پروردہ آغوش او
رسول کریم(ﷺ) نے خوشبو،نماز اور عورت کی مثلث مقدس کو اس دنیا کی پسندیدہ چیزیں قرار دیا ہے۔
یہ تینوں جسمانی اور روحانی لطافتوں کا جوہر ہیں۔ جس مسلمان نے عورت کو محض اپنا پرستار اور اپنے ادنیٰ اغراض کا تختہ مشق سمجھ لیا وہ قرآن کی حکمت سے بے بہرہ رہا:
مسلمے کو را پرستارے شمرد
بہرہ از حکمت قرآن نہ برد
اسلام نے جنت کا مقام ماں کے قدموں کے نیچے قرار دیا۔ امت اور امومت میں گہرا معنوی ربط ہے۔ نبی کی شفقت اپنی امت پر بھی مادرانہ شفقت ہوتی ہے۔
سیرت اقوام انبیا کی تعلیم اور مثال سے بنی ہے یا اچھی ماؤں کی شفقت اور تربیت سے:
شفقت او شفقت پیغمبر است
سیرت اقوام را صورتگر است
ہست اگر فرہنگ تو معنی رسے
حرف امت رازہا دارد بسے
انسانی روابط میں محبت کا رشتہ قائم کرنے کیلئے قرآن تکریم ارحام کی تعلیم دیتا ہے۔ انسانی زندگی میں امومت کا یہ مقام ہے کہ اگر کوئی بے علم ماں جو ظاہری حسن و جمال نہ رکھتی ہو،سادہ اور کم زبان ہو لیکن ایک غیور مسلمان حق پرست اس کے بطن سے پیدا ہو اور اس کی آغوش میں پرورش پائے تو بقا و احیاے ملت کیلئے ایک اتنا عظیم الشان کارنامہ ہے کہ بڑے بڑے تعمیری کام اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں جن پر مرد فخر کرتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں اگر کوئی نازک اندام،پری وش بعض مغربی عورتوں کی تقلید میں تہی آغوش رہے اور بار امومت کو اپنے لئے بار خاطر سمجھے تو اسے عورت نہیں کہنا چاہئے،ایسی عورت انسانیت کیلئے باعث شرم ہے۔ حیا نا آشنا آزادی ملت کشی کا سامان ہے۔ بے شمار ارواح جو وجود پذیر ہونے کیلئے مضطرب ہیں وہ امہات کی بدولت عالم ممکنات سے عالم وجود میں آتی ہیں۔
کسی قوم کا سرمایہٴ نقد و قماس وسیم و زر نہیں بلکہ اچھے انسان ہیں جو خیابان ریاض مادر سے گل و لالہ کی طرح چمن افروز ہستی ہوتے ہیں۔
جس قوم میں عورتوں کی زندگی احترام سے محروم ہے وہاں مردوں کو بھی حیات صالح نصیب نہیں ہو سکتی۔ ایک حکیم کا قول ہے کہ کسی قوم کی تہذیب کو جانچنے کا صحیح معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس میں عورت کا کیا مقام ہے،اگر عورت ذلیل ہے تو قوم بھی ذلیل اور تہذیب سے عاری ہے:
بردمد ایں لالہ زار ممکنات
از خیابان ریاض امہات
قوم را سرمایہ اے صاحب
نیست از نقد و قماش و سیم و زر
مال او فرزندہاے تندرست
تر دماغ و سخت کوش و چاق و چست
حافظ رمز اخوت مادراں
قوت قرآن و ملت مادراں
مسلمان عورتوں کیلئے اسوہ کاملہ سیدة النسا فاطمة الزہرا (رضی اللہ عنہا) ہیں۔
عیسوی دنیا مریم طاہرہ و صدیقہ کی پرستش کرتی ہے،مسلمانوں کے دلوں میں بھی حضرت مریم کا بڑا احترام ہے اور یہ فقط اس نبت سے ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ماں ہیں اور ان کی عفت کا خدا شاہد ہے۔ لیکن فاطمة الزہرا تین بلند پایہ نسبتوں کا مرکز ہیں،ایک عظیم المرتبت نبی (ﷺ) کی بیٹی،علی (رضی اللہ عنہ) جیسے جلیل القدر انسان کی بیوی اور امام الشہدا حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی ماں۔
تمام دنیا کی تاریخ کو ٹٹولئے اس قسم کی تین نسبتیں ایک عورت میں کبھی جمع نہ پاؤ گے۔ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی حریت آموز سیرت کا سرچشمہ اخلاق پدر بھی ہے اور اخلاق مادر بھی لیکن ماں کی سیرت فرزند میں زیادہ موثر ہوتی ہے اس لئے کہ بیداری شعور سے پہلے اس کے اثرات تحت الشعور میں مرتسم ہو جاتے ہیں:
سیرت فرزند ہا از امہات
جوہر صدق و صفا از امہات

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط