Episode 136 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 136 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

فاطمة الزہرا ایک یہودی محتاج کی مدد کیلئے اپنی چادر فروخت کر ڈالتی ہیں،عرب کے بادشاہ کی بیٹی ہیں لیکن کوئی خدمت گار نہیں۔ قرآن کی آیات دہراتی ہوئی چکی پیستی رہتی ہیں:
آں ادب پردردہ صبر و رضا
آسیا گردان و لب قرآن سرا
رشتہ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جناب مصطفی ست
ورنہ گرد تربتش گردیدمے
سجدہ با بر خاک او پاشیدمے
اس کے بعد مسلمان عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے اقبال ان کو دور حاضر کے فتنوں سے آگاہ کرتا ہے جو عورت کی طینت پاک کی تخریب کے در پے ہیں۔
ایسا نہ ہو کہ تقلید فرنگ پر مسلمان عورت دین و اخلاق سے کنارہ کش ہو کر جھوٹی آزادی کے چسکے میں اپنی پاکیزہ فطرت کو خیر باد کہہ دے:
دور حاضر تر فروش و پ ر فن است
کاروانش نقد دیں را رہزن است
کور و یزداں ناشناس ادراک او
ناکساں زنجیری پیچاک او
ہوشیار از دستبرد روزگار
گیر فرزندان خود را در کنار
نسوانی فطرت میں خدا نے بلند جذبات رکھے ہیں،ان کی حفاظت فاطمة الزہرا کے نمونے پر زندگی بسر کرنے ہی سے ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

اگر اس فطرت کو پاک رکھا گیا تو حسین (رضی اللہ عنہ) من انسان آغوش مادر میں تربیت حاصل کر سکتے ہیں:
تا حسینے شاخ تو بار آورد
موسم پیشیں بگلزار آورد
سورہٴ اخلاق توحید کی تعلیم کا لب لباب ہے۔ قرآنی فصاحت کا کمال ہے کہ چار مختصر جملوں نے توحید کے قلزم زخار کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ تمام قرآن توحید ہی کی تشریح ہے اور تمام حکمت بھی توحید ہی کے اندر پنہاں ہے۔
دین کی اصل توحید ہے باقی جو کچھ ہے وہ اس کی فرع ہے اس لئے مثنوی رموز بیخودی کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال نے سورہٴ اخلاص ہی کی مختصر مگر بلیغ شرح لکھی ہے۔
فرماتے ہیں کہ مجھے خواب میں حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا دیدار نصیب ہوا،میں نے عرض کیا کہ آپ نے اسلام کی اساس کو پختہ کرنے میں غیر معمولی بصیرت و ہمت و ایثار سے کام لیا،اب اس ملت کی بنیادیں متزلزل ہو رہی ہیں،اس تعمیر کو سنبھالنے کیلئے کوئی علاج تجویز فرمایئے:
پختہ از دست اساس کار ما
چارہ فما پے آزار ما
اس کا جواب یہ ملا کہ مسلمان اس توحید سے بیگانہ ہو گئے جو وحدت آفرین تھی۔
اسلام نے نسلی اور قبائلی امتیازات کو مٹا کر ایک ملت بنائی تھی لیکن اب تمہارا یہ حال ہے کہ تم پھر قبائل پرستی پر اتر آئے ہو۔ گویا اسلام سے قبل کے زمانہ جاہلیت کی طرف عود کر آئے ہو جس میں سب سے زیادہ موثر جذبہ قبیلوی عصبیت تھا:
خویشتن را ترک و افغان خواندہٴ
واے بر تو آنچہ بودی ماندہ
با یکی ساز از دوئی بردار رخت
وحدت خود را مگرداں لخت لخت
زبان سے وحدت کا کلمہ پڑھتے ہو اور عمل سے ملتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہو۔
توحید اگر وحدت ملت میں مشہود نہ ہوئی تو وہ محض ایک لفظ بے معنی رہ گئی۔ جو ایمان عمل میں منعکس نہ ہو وہ ایمان ہی مردہ ہے:
صد ملل از ملتے انگیختی
بر حصار خود شبیخون ریختی
یک شو و توحید را مشہود کن
غائبش را از عمل موجود کن
لذت ایمان فزاید در عمل
مردہ آں ایمان کہ ناید در عمل
اللہ الصمد
صمد کے معنی ہیں وہ ہستی جو کسی غیر اور ماسوا کی محتاج نہ ہو مگر تمام مخلوقات و موجودات اپنے وجود کیلئے اس کے محتاج ہوں۔
”تخلقوا با خلاق اللہ“ کی تعلیم کے مطابق مسلمان کو بھی اپنے اندر بہ بے نیازی کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انسان کو حاجات کا شکار نہیں ہونا چاہئے،اختیاج انسان کے نفس کو کمزور کر دیتی ہے اور تمام قوت و محبت اور ایثار کو سلب کر لیتی ہے۔ بے نیازی مال و جاہ سے حاصل نہیں ہوتی۔ ”آنانکہ غنی تر اند محتاج تراند“ یہ طبیعت کا ایک انداز ہے جو نادار کو قارون پر فضیلت بخشا ہے۔
اسی بے بنیادی کی بدولت انسان راست باز ہوتا ہے،خود دار ہوتا ہے اور نشر ’لاو نعم‘ اس کے سینے میں نہیں چبھتا۔ دنیا عالم اسباب ہے لیکن انسان کو بندہ اسباب نہیں بننا چاہئے:
بندہ حق بندہٴ اسباب نیست
زندگانی گردش دولاب نیست
مسلم استی بے نیاز از غیر شو
اہل عالم را سراپا خیر شو
رزق کیلئے دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا خودی کو سوخت کر دیتا ہے۔
دانا مسافر کو جب دشوار گزار راستوں سے دور دراز کا سفر درپیش ہوتا ہے تو اشد ضروری چیزوں کے علاوہ فالتو سامان اپنے اوپر نہیں لادتا۔ سفر زندگی میں بھی فروانی سامان سے آسائش کی کوشش نہ کرو،یہ سامان تمہارے لئے گلے کا طوق اور زنجیر پا ہو جائے گا۔ فراوانی کی کوشش تم کو حقیر انسانوں کے سامنے نیاز مند بنا دے گی:
گرچہ باشی مور و ہم بے بال و پر
حاجتے پیش سلیمانے مبر
راہ دشوار است سامان کم بگیر
در جہاں آزاد زی آزاد میر
حکیم سقراط کا بھی ایک قول مشہور ہے کہ کم احتیاج انسان الوہیت کے صفات سے بہرہ اندوز ہوتا ہے کیونکہ خدا بھی بے احتیاج ہونے کی وجہ سے بے نیاز ہے۔
حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) بھی یہی نصیحت فرماتے تھے اور اس کا بہترین نمونہ خود تھے: ”اقلل من الدنیاتعش حرا“۔ دنیاوی حاتوں کو کم سے کم کرو،آزادی اور حریت کی زندگی اسی طرز عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ مرد حر کو فقط اتنے ہی مال کی ضرورت ہے جو اس کو سائل اور گداگر ہونے سے محفوظ رکھے۔ مال کا مصرف یا خدمت خلق ہے یا اپنی خود داری کی حفاظت مگر مال کی محبت کے بغیر منعم ہونا سائل ہونے سے بہتر ہے:
تا توانی کیمیا شو گل مشو
در جہاں منعم شو و سائل مشو
بے نیازوں کی جائز ضرورتیں پورا کرنے کا مشیت الٰہی میں ایک پنہاں قانون موجود ہے:
خود بخود گردد درمیخانہ باز
برتہی پیمانگان بے نیاز
رسول کریم  سے زیادہ مال سے بے نیاز شخص کون ہوگا لیکن خدا نے ان کی ہر ضرورت بڑی ہو یا چھوٹی،بے منت غیرے ہمیشہ پوری کی۔
جو شخص چاہے کاہلانہ بے پروائی نہیں بلکہ عارفانہ بے نیازی کو شیوہ بنا کر اس کو اپنی زندگی میں آزما کر دیکھ لے۔ یہاں بوعلی قلندر کا ایک شعر علامہ اقبال نے نقل کیا ہے:
پشت پا زن تخت کیکاؤس را
سربدہ از کف مدہ ناموس را
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط