Episode 137 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 137 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

خلیفہ ہارون الرشید کے سوانح حیات میں لکھا ہے کہ اس نے امام مالک سے درخواست کی کہ دار الخلافت بغداد میں اگر اپنی مسند بچھایئے،یہاں بڑی رونق اور زندگی کی گہما گہمی ہے۔ یہاں ہر قسم کی قدردانی ہو گی۔ اس مرد خود دار اور عاشق رسول نے میدنے سے ہلنا گوارا نہ کیا۔ فرمایا کہ میں یہاں بندہٴ آزاد ہوں اور میرا سر آستانہ رسول  پر ہے۔ عشق خدا و رسول مجھے کہتا ہے کہ تو بادشاہوں کو اپنا خدمت گزار بھی نہ بنا،چہ جائیکہ میں بادشاہوں کا ملازم ہو جاؤں۔
اگر علم دین کا شوق ہے تو یہیں مدینے میں تشریف لایئے،پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے،کنواں پیاسے کے پاس نہیں جاتا:
تو ہمی خواہی مرا آقا شوی
بندہ آزاد رامولا شوی
بہر تعلیم تو آیم بر درت
خادم ملت نگردد چا کرت
بہرہ خواہی اگر از علم دیں
درمیان حلقہ درسم نشیں
#
بے نیازی رنگ حق پوشیدن استت
رنگ غیر ازپیرہن شوئیدن است
اے مسلمان تیری ذلت کا سبب یہی ہے کہ تجھ میں خود داری کا فقدان ہے۔

(جاری ہے)

اغیار کے علوم پڑھتے ہو اور مقلدانہ فطرت کی جہ سے ہر خیال کو بے چون و چرا قبول کر لیتے ہو۔ اغیار کے شعار سے ارجمند ہونا چاہتے ہو۔ تمہاری عقل افکار غیر سے پابزنجیر ہے تمہاری زبان پر جو باتیں ہیں وہ تمہارے اپنے دل و دماغ کی پیداوار نہیں،تمہاری آرزوئیں بھی دوسروں سے مستعار لی ہوئی ہیں۔
بر زبانت گفتگوہا مستعار
در دل تو آرزو با مستعار
اے مسلمان تو اپنے نبی  کا فرمان بھول گیا ہے جو شخص دوسری اقوام سے مشابہت پیدا کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہو جاتا ہے اور ملت اسلامیہ کا فرد نہیں رہتا۔
لست معنی گویدت مولاے ما
واے ما اے واے ما اے واے ما
تو نے اپنی حقیقت سے غافل ہو کر کیمیا کے بدلے مٹی خریدی ہے:
بر دل خود نقش غیر انداختی
خاک بردی کیمیا درباختی
فرد فرد آمد کہ خود را وا شناخت
قوم قوم آمد کہ جز با خود نساخت
لم یلد ولم یولد
خدا کے ہاں صلبی پیدائش کا کوئی سوال نہیں،علامہ فرماتے ہیں کہ مرد موحد خدا کی اس صفت سے بھی ایک سبق حاصل کر سکتا ہے۔
جسمانی لحاظ سے تو ہر انسان کسی کا بیٹا اور کسی کا باپ ہے لیکن یہ جسمانی ولدیت بہت ثانوی چیز ہے۔ حضرت سلمان فارسی سے لوگوں نے ان کا شجرہ نسب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا ”سلمان ابن اسلام“۔ مسلمان کی اصل نسبت اسلام سے ہے،اب و ام سے نہیں۔ توحید پر ایمان لانے سے ایمان کی کیفیت شہید کی سی ہو جاتی ہے جس میں ہزاروں پھولوں کا رس اس طرح آمیختہ ہے کہ کوئی قطرہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری اصل لالہ ہے یا گلاب یا نرگس۔
لم یلد ولم یولد کا پر تو اگر مومن کی زندگی پر پڑے تو اس کے احساس ملی میں نسب کو کوئی مقام نہ ہو:
قوم تو از رنگ و خوں بالا تر است
قیمت یک اسودش صد احمر است
قطرہ آب وضوے قنبرے
در بہا بر تر ز خون قیصرے
گر نسب را جزو ملت کردہ
رخنہ درکار اخوت کردہ
مسلمان کا نہ کوئی وطن ہے اور نہ کوئی رشتہ نسب اس کیلئے کوئی خاص اہمیت رکھتا ہے۔
اس کا وطن بھی اسلام اور اس کا نسب بھی اسلام۔ عشق محمد اس تمام ملت کا شیرازہ بند ہے جو اطراف و اکناف عالم میں پھیلی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں عقائد اور فقہ میں بہت سے اختلاف پائے جاتے ہیں اور ہر فرقہ وجہ اختلاف کو اس قدر اساس تصور کر لیتا ہے کہ اس کو کفر و اسلام کا معیار بنا لیتا ہے۔ خدا کی ذات و صفات کے متعلق بھی تصورات میں بے حد تفاوت پایا جاتا ہے۔
لیکن شاید ہی کوئی شخص اسلام دنیا میں ایسا مل سکے جو مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا ہو اور محبت رسولﷺ سے اس کا دل بالکل خالی ہو۔ راقم الحروف کو ایسے مسلمانوں سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا ہے جو جدید الحادی تعلیم کی بدولت دین کے بنیادی عقائد سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے لیکن ناموس رسولﷺ پر جان قربان کرنے کو تیار تھے۔ ان میں سے ایک صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ نفسیاتا اِس بارے میں کیا کہتی ہے کہ بے دین ہونے کے باوجود ذکر رسولﷺ سے میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
عقائد سے معرا ہونے کے باوجود یہ شخص ملت اسلامیہ کے مفاد کیلئے سراپا ایثار تھا۔ مسلمان کی اسی نفسیات کو،جسے الحاد بھی بدل نہ سکا،اقبال نے ان اشعار میں پیش کیا ہے:
دل بہ محبوب حجازی بستہ ایم
زین ہت بایک دگر پیوستہ ایم
عشق او سرمایہٴ جمعیت است
ہمچو خون اندر عروق ملت است
ترک فرنگ آلودہ ہو جائے یا چینی اشتراکیت کی لپیٹ میں آ جائے لیکن جب کبھی نسل و نسب میں مختلف کسی مسلمان سے ملتا ہے تو اس کے سینے میں اخوت کے جذبے کی ایک لہر پیدا ہوتی ہے۔
یہ سب اس رشتے کی بدولت ہے جو عشق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا:
باشیر اندرون شد و با جاں بدر شود
(حافظ)
عشق در جان و نسب در پیکر است
رشتہ عشق از نسبت محکم تر است
عشق ورزی از نسب باید گذشت
ہم ز ایران و عرب باید گذشت
ہر کہ پا در بند اقلیم و جد است
بے خبر از لم یلد لم یولد است
ولم یکن لہ کفواً احد
تمام موجودات میں خدا کا کوئی ہمسر نہیں۔
یہ صفت بھی مرد مومن میں پیدا ہو جاتی ہے۔ لالہ سر کوہسار کی طرح وہ کسی گلچیں کے دامن میں نہیں پڑتا۔ وہ جہاں کے اندر ہے لیکن جہاں سے الگ اور بالاتر ہے۔ مومنوں کی ملت اسی طرح بے ہمتا ہو سکتی ہے کہ اس انداز کی کوئی اور ملت نہ ہو:
رشتہ با ’لم یکن‘ باید قوی
تا تو در اقوام بے ہمتا شوی
آنکہ ذاتش واحد است ولاشریک
بندہ اش ہم در نسازد با شریک
مومنوں کے متعلق جو ”انتم الاعلون“ کی بشارت دی گئی ہے،اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ نہ صرف دوسری ملتوں بلکہ فطرت کی تمام قوتوں سے بالاتر ہے۔
جس مومن اور جس ملت کے یہ صفات بیان کئے گئے ہیں وہ اس وقت تو پردہٴ عالم پر کہیں نظر نہیں آ رہی۔ مرد مومن کی پرواز تو ایسی فلک رس ہونی چاہئے کہ اس کا طائر روح ستاروں میں دانہ چینی کرے بلکہ اپنی بلند پروازی میں افلاک کو پیچھے چھوڑ جائے۔ لیکن اس وقت مسلمان کا یہ حال ہے جیسے مٹی کے اندر بسنے والا کیڑا ہو جو فضاے ارضی سے بھی نا آشنا ہے۔ اپنے آپ کو پسماندہ اور ذلیل پار کر گردش ایام کا شکوہ کرتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ قرآن کو ترک کرنے کی وجہ سے اس کی یہ گت بنی ہے۔
مرد مومن کی پرواز کا تویہ حال ہے کہ:
طائرش منقار بر اختر زند
آنسوے ایں کہنہ چنبر پر زند
تو بہ پروازے پرے نکشودہٴ
کرمک استی زیر خاک آسودہ
خوار از مہجوری قرآں شدی
شکوہ سنج گردش دوراں شدی

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط