مثنوی کے اختتام میں بحضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم مصنف کی عرض حال ہے۔
ویسے تو اقبال کا تمام کلام خلوص سے لبریز ہے اور اس کی دلدوز تاثیر اسی خلوص کی بدولت ہے۔ محض فن اور صناعی سے یہ دل رسی پیدا نہیں ہو سکتی لیکن اس عرض حال میں خلوص اور عشق رسول کا ایک ایسا ولولہ ہے کہ پڑھنے والے حساس انسان کی آنکھیں نمناک ہو جاتی ہے۔ اقبال کی صحبت سے فیض یاب احباب سب نے یہ دیکھا کہ شباب غفلت انگیز کے دور سے لے کر شیب عرفان اندوز تک اس عاشق رسول کی یہی کفیت رہی کہ رسول کا نام سنتے ہی طبیعت پر رقت طاری ہو گئی،خواہ اقبال اس وقت رندوں کی محفل ہی میں ان کا ہم مشرب بن کر بیٹھا ہوا۔
اس عرض نیاز میں پہلے لبریز عشق کچھ اشعار کہے ہیں،اس کے بعد اپنی داستان درد بیان کی ہے۔
(جاری ہے)
یہ وہ زمانہ ہے کہ اقبال کے معتقدین اس کو عارف باللہ اور مجدد عصر سمجھنے لگے تھے اور اس کی خامیوں کا ذکر اس کی توہین شمار ہوتا تھا لیکن لوگوں کی عقیدت سے ناجائز فائدہ اٹھانا کبھی اقبال کا شیوہ نہ تھا،دم واپسیں میں وہ اپنی تمام حالت کو طشت از بام کرتا ہے اور اپنی تمام عمر پر ایک نظر ڈالتا ہے۔
اپنا نامہ اعمال اس ہستی کے سامنے رکھتا ہے جو ناگفتہ بھی اس کے حال سے آشنا ہے۔ اپنی حالت کے ساتھ ساتھ ملت کی خستہ حال کو بھی پیش کرتا ہے۔ نہ اپنے متعلق کسی غلط تفاخر سے کام لیتا ہے ور نہ ملت اسلامیہ کو اس کی موجودہ حالت میں وہ اسلام پر عمل پیرا سمجھتا ہے۔ اقبال کے نزدیک ملت کا حال اس زمانے میں ایک جسد بے روح کی طرح ہے۔
شروع یہاں سے کرتا ہے کہ جب سے میری نظر کے سامنے رسول اللہ کی ہستی آئی تب سے میری یہی کیفیت ہے کہ رسول مجھے ماں باپ سے زیادہ محبوب ہو گئے:
عشق در من آتشے افروخت است
فرصتش بادا کہ جانم سوخت است
میری یہ کیفیت اس زمانے میں بھی تھی جب میں حسینوں سے عشق بازی کرتا تھا،ان کی صحبت میں شراب پیتا تھا:
مدتے با لالہ رویاں ساختم
عشق با مرغولہ مویاں باختم
بادہ ہا با ماہ سیمایاں زدم
بر چراغ عافیت داماں زدم
شباب کی ان ہوس رانیوں کے ساتھ ساتھ میرے تفکر اور عقائد کی یہ حالت تھی کہ عقل صنم تراش نے مجھے پجاری بنا لیا تھا۔
مگر خالی عقل و ظن انسان کو کسی یقین تک تو نہیں پہنچاتے،چنانچہ میں بھی یقین و ایمان سے خالی حقائق حیات کے بارے میں شک میں گرفتار تھا اور یہ تشکیک میرے تفکر کا جزو لاینفک بن گئی تھی۔ ظن و گمان کے سوا میرے پاس کچھ نہ تھا۔ ایک طرف حسینوں کا عشق ہوس پرور اور دوسری طرف عقل آزر پیشہ،ان دو بجلیوں نے میرا حاصل سوخت کر دیا تھا،میرا متاع خیال و دماغ ان دو ڈاکوؤں کی دست برد سے نہ بچا:
برق ہا رقصید گرد حاصلم
رہرتاں بردند کالاے دلم
عقل آزر پیشہ ام زنار بست
نقش او در کشور جانم نشست
سالہا بودم گرفتار شکے
از دماغ خشک من لاینفکے
حرفے از علم الیقین ناخواندہ
در گمان آباد حکمت ماندہ
ایک عرصے تک اس ظلمت عقل و ہوس میں گمراہ رہنے کے بعد مجھے توفیق الٰہی سے ایمان و یقین حاصل ہوا اور اسرار قرآن مجھ پر منکشف ہونے لگے۔
مجھے جو بصیرت حاصل ہوئی میں نے اسے آب حیات سمجھ کر اس مردہ قوم کے حق میں ٹپکایا،مبدء فیاض نے نواگری عطا کی تھی ،
میں نے شمع نوا سے محفل میں روشنی پیدا کی:
مردہ بود، از آب حیواں گفتمش
سرے از اسرار قراں گفتمش
محفل از شمع نوا افرو ختم
قوم را رمز حیات آمو ختم
لیکن افسوس کہ اس مردہ قوم کو زندہ نہ کر سکا،اب اس کی نعش کو میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے احیا کا کوئی سامان پیدا کریں۔
مجھے اسرار قرآنی پیش کرنے کا اس مردہ قوم سے یہ صلہ ملا کہ لوگ کہنے لگے کہ یہ شخص فرنگستان سے کچھ باتیں سیکھ آیا ہے،اپنی شاعری سے وہی جادو ہم پر کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ساز میں سے جو آواز نکلتی ہے وہ حکمت قرآنی نہیں بلکہ ساز فرنگ کی غوغا آرائی ہے:
گفت برما بندد افسون فرنگ
ہست غوغایش بہ قانون فرنگ
جس قوم کا یہ حال ہو اس کو میرے جیسا نواگر بے عمل کیا زندگی بخشے کا۔
مسلمان توحید و نبوت کے اسرار سے بیگانہ ہو گیا ہے۔ اس نے بیت الحرام کو بت خانہ بنا دیا ہے۔ آپ کو موجد اوربرہمن کو مشرک اور بت پرست کہتا ہے لیکن ہمارا شیخ،برہمن سے زیادہ کافر ہے۔ ایک پورا سومنات اس کے مغز کے اندر موجود ہے۔ کچھ عجمی تصورات کو اسلام سمجھ کر اپنے فکر و عمل کو انہیں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ اس کے اندر قلب زند نہیں رہا،وہ کافر کی طرح موت سے ترسان و لرزاں ہے۔
یہ کافر مسلم نما مجھ پر یہ الزام لگاتا ہے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ قرآن کی تعلیم کا ثمرہ نہیں ہے۔ اگر اس بارے میں میں نے اپنے آپ کو اور قوم کو دھوکا دیا ہے تو اے محبوب خدا اس کی سزا یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں سب کے سامنے رسوا کیا جاؤں:
گر دلم آئینہ بے جوہر است
در بجرفم غیر قرآں مضمر است
پردہ ناموس فکرم چاک کن
ایں خیاباں را ز خارم پاک کن
روز محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسہ پا کن مرا
ملت کی اس خستہ حالت کو بیان کرنے کے ساتھ ہی اپنی اس کوتاہی کو بھی حضور سرور کائنات میں پیش کیا ہے کہ میری زندگی میں میرا عمل اس عشق و عرفان کا مظہر نہیں جو مجھے عطا ہوا اور جس سے میں نے دوسروں کو بھی زندہ کرنے کی کوشش کی۔
میری یہ عرض خداے عزوجل کے سامنے پیش کر دیجئے کہ عشق اور علم کی دولت دی ہے تو عمل کی توفیق بھی عطا ہو:
عرض کن پیش خداے عزوجل
عشق من گردد ہم آغوش عمل
دولت جان حزیں بخشندہ ای
بہرہ از علم دیں بخشندہ ای
در عمل پایندہ تر گرداں مرا
آب نیسانم گہر گرداں مرا
ایک آرزو میرے دل میں ہمیشہ چٹکی لیتی رہی،لیکن میں شرم کے مارے اس کا اظہار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میرے اعمال میرے علم و عشق کے مقابلے میں نہایت پست تھے:
زندگی را از عمل ساماں نبود
پس مرا ایں آرزو شایاں نبود
شرم از اظہار او آید مرا
شفقت تو جرأت افزاید مرا
آرزو یہ تھی اور ہے کہ میری موت حجاز میں واقع ہو۔
تیرے دیار کے باہر تو مجھے دیر ہی نظر آتا ہے۔ بہت افسوس ہوگا کہ اگر میرے جسم کو بت خانے میں گاڑا جائے۔ اگر میں جوار روضیہ رسول میں مدفون ہوں اور قیامت کے روز میرا حشر وہیں سے ہو تو میں اسے کمال سعادت سمجھوں گا:
حیف چوں او را سر آید روزگار
پیکرش را دیر گیرد در کنار
از درت خیزد اگر اجزاے من
واے امروزم خوشافرداے من
کو کبم را دیدہٴ بیدار بخش
مرقدے در سایہ دیوار بخش
افسوس ہے کہ اقبال کی اس آرزو کا اس انداز میں پورا ہونا تقدیر الٰہی میں نہ تھا،لیکن اس ہیچمدان کے نزدیک اس کی آرزو پوری ہوئی۔
اقبال کی تعلیم یہ تھی کہ مومن کا پیوند کسی خاک سے نہیں ہوتا۔ مومن کے تمام روابط روحانی ہوتے ہیں۔ اقبال کو عالم گیر کی عظیم الشان شاہی مسجد کے سایہ دوار میں مرقد نصیب ہوا۔ ہر مسجد خدا اور رسول کا گھر ہے۔ یہ مسجد لاتعداد مسلمانوں کے درود و سجود کا محل ہے۔ روحانی لحاظ سے یہ بھی روضہ رسول کا قرب ہے۔
اقبال جو اپنی بے عملی کا مسلسل اعلان کرتے رہے راقم الحروف اس سے متفق نہیں۔
کیا انسانوں کی بصیرت افروزی،ملت کی ہمت افزائی،عشق کی فراوانی اور ارزانی،تفکر کی وسعت اور ثروت،اعمال صالحہ میں داخل نہیں؟ میرے نزدیک یہ عمل ہزار عالموں،عابدوں،زاہدوں اور صوفیہ کی ریاضتوں سے زیادہ باقیمت ہے۔ معلوم نہیں کہ علامہ اقبال اس کو کیوں عمل شمار نہ کرتے تھے۔ میرے نزدیک اقبال کے عارفانہ اور عاشقانہ کلام کا ہر شعر عبادت میں داخل ہے۔
اس سے زیادہ خدمت خلق اور کیا ہو سکتی ہے کہ رہتی دنیا تک لوگ اس کے کلام سے بلند ترین افکار اور تاثرات حاصل کرتے رہیں گے۔ یہ صدقہٴ جاریہ ہے۔ مومن کی زندگی کا نصب العین علامہ اقبال کے نزدیک اتنا بلند تھا کہ وہ اس عرش بوس بلندی کے مقابلے میں اپنے تئیں پستی میں محسوس کرتے تھے۔ مقصود کی بلندی کسی اعلیٰ درجے کے محسن انسان کو بھی اپنی زندگی سے مطمئن نہیں رہنے دیتی۔
خوب تر کے مقابلے میں خوب بھی ناخوب دکھائی دیتا ہے۔ اقبال کے کلام سے بعض افراد کی زندگی میں ایک انقلاب آفریں ہیجان پیدا ہوا۔ آئندہ بھی ملت اسلامیہ کے ہر انقلاب میں اقبال موجود ہوگا۔ جس شخص کا پیغام سراپا پیغام عمل ہو،کیا وہ سر چشمہ عمل خود عمل سے محروم ہے؟ لوگوں نے جس چیز کو عمل سمجھ رکھا ہے وہ اس حیات افزا پیغام و تلقین کے مقابلے میں اکثر پست ہی ہوتا ہے۔
اقبال کو اپنی بے عملی پر جو افسوس ہے وہ اس کی علو ہمت اور رفعت مقاصد کا نتیجہ ہے۔ جن لوگوں کے مقاصد پست ہوتے ہیں وہ ان مقاصد کے حصول میں سرگرم عمل رہتے ہیں اور جو کچھ حاصل ہو جائے اس سے مطمئن بھی ہو جاتے ہیں لیکن گناہوں سے پاک اور اگلی پچھلی خطائیں بخشا ہوا نبی اپنی روحانی ترقی میں کسی موجودہ حالت پر قانع نہیں ہوتا اور گنہگاروں سے زیادہ استغفار اس کا صبح و شام کا وظیفہ ہوتا ہے۔ عمل میں کوتاہی کا احسان ایمان کی قوت اور مقصد کی بلندی کا شاہد ہے۔ ادنیٰ درجے کے لوگ جن اعمال کو حسنات شمار کرتے ہیں،بلند مقصد اور بلند حوصلہ انسانوں کو ان میں سیئات کا رنگ جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔
###