Episode 139 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 139 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

انیسواں باب:
اقبال پر تین اعتراضات کا جواب
علامہ اقبال کے کلام اور پیام کی ایک امتیازی خصوصیت ہے،جو اس سے قبل نہ شعرا میں ملتی ہے اور نہ صوفیہ میں باستثناے چند نظر آتی ہے۔ مسلمان فقہا کی مرتب کردہ فقہ میں بھی یہ پہلو نمایاں نہیں۔ اقبال کی سب سے پہلی شائع شدہ مثنوی اسرار خودی ہے جو بانگ درا کے مجموعے سے بھی پیشتر شائع ہوئی۔
ان کے فلسفیانہ تفکر کا آغاز بھی خودی ہے،وسط بھی خودی اور انجام بھی خودی۔ سوال یہ ہے کہ اقبال نے زندگی کے اس پہلو اور اس نظریے کو مرکزی مقام کیوں دیا اور اسے اپنی تبلیغ کا محور کیوں بنایا؟ اس کے کئی وجوہ تھے۔ ایک یہ کہ اقبال کو نفس انسان میں ایک زوال ناپذیر اور ابد کوش حقیقت محسوس ہوتی تھی۔ اکثر فلسفیوں اور مذہب نے تکریم آدم کی بجائے ابطال ہستی انسان کو عقائد کا محور مقصود بنا لیا تھا۔

(جاری ہے)

تکریم آدم کی تعلیم مخصوص اسلامی اور قرآنی تعلیم تھی۔ انسان کو قرآن ہی نے نائب الٰہی اور خلیفتہ اللہ،مسخر کائنات اور مسجود ملائکہ قرار دیا تھا۔ اس تعلیم میں انسانی ممکنات حیات کی لامتناہی مضمر تھی اور مقصود حیات ممکن کو موجود بنانا تھا۔ 
اسی میں لامحدود ارتقا کا راز پوشیدہ تھا۔ چونکہ انسان کبھی خدایا ہستی مطلق نہیں بن سکتا اس لئے اس کی ترقی کی رفتار رک نہیں سکتی،خواہ وہ کسی عالم میں ہو۔
اس تعلیم کو خود مسلمانوں نے بھی پست پشت ڈال دیا تھا اور زندگی کا مقصود رسمی عبادت کے ذریعے سے جنت کا حصول رہ گیا تھا جو ایک محدود زندگی کے اعمال کا اجر ہے۔ اس کے بعد نہ کوئی عمل ہے،نہ ترقی،نہ آرزو،نہ جسجو۔ اقبال اس سکونی اور عشرتی تصور کو ایک جامد تصور سمجھتا تھا۔ اس تصور سے اخلاقی زندگی پر بھی اچھا اثر نہیں پڑا کیونکہ اس نظریے میں اعمال کے نتائج ان کی ماہیت میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ثواب و عذاب اعمال پر خارج سے عائد ہوتے ہیں۔
نیکی آپ اپنا اجر اور بدی آپ اپنی سزا نہیں رہتی اور خیر و شر کیلئے کوئی داخلی معیار بھی قائم نہیں ہو سکتا۔
اقبال نے دیکھا کہ کچھ رہبانی نظریات کی بدولت جو مسلمانوں کی روحانی زندگی کا ایک جزو بن گئے تھے اور کچھ تکریم آدم کی تعلیم سے غافل ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی دینی،اخلاقی،معاشرتی اور سیاسی حالت میں شدید انحطاط پیدا ہو گیا ہے جہاں کہیں اخلاق کی تعلیم ہے وہاں ایجابی پہلو کی نسبت سلبی پہلو غالب ہے۔
تقدیر کا غلط مفہوم انسانوں کو جری ہونے کی بجائے اپاہج بنا دیتا ہے۔ جبر و اختیار کے مسئلے میں مسلمانوں کی تعلیم میں جبر کا عنصر غالب ہو گیا تھا اور انسانی اختیار محض دھوکا رہ گیا تھا۔ لیکن جبر اختیار اور خودی و بے خودی زندگی کے دو پہلو ہیں،ماہیت حیات کے اندر ان میں کوئی تضاد نہیں،یہ تضاد استدلالی منطق کی پیداوار ہے۔ اقبال نے دیکھا کہ دین اور بے دینی دونوں انسان کی خودی کو سوخت کرنے پر کمربستہ ہیں۔
مادیت کے فلسفے نے نفس انسانی کی مستقل حیثیت ہی سے انکار کر دیا اور اسے مادی مظاہر میں سے ایک بے ثبات مظہر قرار دیا۔ خدا کے طالبوں کی نظر سے بھی انسان کی حقیقت اوجھل ہو گئی۔ عارفوں نے عرفان نفس کو عرفان الٰہی کا وسیلہ بنایا تھا لیکن اکثر صوفیہ اپنے نفس کو بے حقیقت بنا کر خدا کو تلاش کرنے لگے۔ ہستی مطلق کے تصور اور اس کی تلاش میں انسان کی ہستی گم ہو گئی۔
اقبال نے دیکھا کہ خودی کی موت سے فرد اور ملت دونوں پر موت طاری ہوتی ہے۔ اس لئے اقبال نے خدا پر کم لکھا ہے اور خودی پر بہت زیادہ،کیوں کہ اس کے نزدیک خودی ہی کی استواری سے خدا کے ساتھ رابطہ مستحکم ہوتا ہے۔ خودی کا لفظ ہماری ادبیات میں ایک بدنام لفظ تھا۔ اب یک بیک اس کی ستائش گری سے اکثر مسلمانوں کے اذہان کو ٹھو کر لگی۔ خودی کے قدیم مذموم مفہوم کو دماغوں سے نکالنا آسان نہ تھا اس لئے بعض نقادوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال فرد اور ملت کیلئے ایک بے عنان آزادی اور جارحانہ زندگی کی تلقین کرتا ہے۔
قدیم تعلیم یہ تھی کہ تو خاک ہو کر اکسیر بن سکتا ہے:
نہ مارا آپ کو جو خاک ہو اکسیر بن جاتا
اگر پارے کو اے اکثیر گر مارا تو کیا مارا
(ذوق)
اس لئے عجز اختیار کر،تن بہ تقدیر ہو کر زندگی بسر کر،جو کچھ ہے جو ازل سے مقرر ہے۔ اقبال نے کہا کہ انسان آپ اپنی تقدیر کو بناتا یا بگاڑتا ہے۔ کافر ہو تو انسان تابع تقدیر ہوتا ہے اور مومن ہو تو وہ خود تقدیر الٰہی بن جاتا ہے۔
مشیت الٰہی یہی ہے کہ انسان بھی خلاق قدرت کی طرح دوسرے درجے پر خالق بننے کی کوشش کرے۔ اقبال نے کہا کہ ہر طرح سے خودی کو استوار کرنے کی کوشش کرو۔ کہیں جلال سے کہیں جمال سے،جدوجہد سے،تسخیر نفس سے،تسخیر فطرت سے۔ خیر و شر کا معیار یہی ہے،جو طرز نگاہ اور طریق عمل انسان کی ظاہری اور باطنی قوتوں میں اضافہ کرے وہ خیر ہے،جو ان کو کمزور کرے وہ شر ہے۔
اقبال کو عجمی شاعری،صوفیانہ شاعری اور مسلمانوں کی عام شاعری میں زیادہ تر انفعال ہی نظر آیا اور انفعال کی نسبت اقبال غالب کا ہم نوا تھا جو کہہ گیا تھا کہ انفعال سے زبونی ہمت پیدا ہوتی ہے اور زمانے سے عبرت حاصل کرکے زندگی کے متعلق قنوطی نظر پیدا کر لینا نفس کو کمزور کر دیتا ہے:
ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
(غالب)
اسلامی روحانیت کی حیات افزا تعلیم یہ تھی کہ آرزوں کو فنا نہ کرو بلکہ ان کا مقصود بدل دو،دنیا کو ترک نہ کرو بلکہ دنیا کو دین بناؤ۔
مگر رفتہ رفتہ روحانیت نفس کشی کا نام ہو گیا۔ اسلام نے محنت مزدوری سے رزق حاصل کرنے والے کو محض رسمی عبادت گزار سے افضل قرار دیا تھا اور ”الکاسب حبیب اللہ“ کہہ کر محنت کشوں کی ہمت افزائی کی تھی مگر اب اہل ظاہر کیلئے دین ظواہر کی پابندی اور اہل باطن کیلئے دین محض روحانی مشقوں اور اذکار کا نام رہ گیا تھا۔ اقبال نے جب اس نظریہ حیات کے خلاف جہاد کیا تو صوفی بھی اس کے خلاف ہو گئے اور ملا بھی اور دوسری طرف،مادہ پرستوں نے بھی اس کو رجعت پسند سمجھا۔
کسی صاحب کے ایک مضمون کا اقتباس مولانا عبد السلام ندوی نے اپنی کتاب ’اقبال کامل‘ میں ’نظام اخلاق‘ کے باب میں دیا ہے جو کسی کو تاہ فہم نقاد کی تنقید ہے جسے ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
”صوفی کہتے ہیں کہ چیونٹی بنو تاکہ لوگ تمہیں پاؤں کے نیچے روند کر زندان ہست و بود سے نجات دلوائیں۔ بھڑ نہ بنو کیوں کہ اگر بھڑ بنو گے تو خواہ مخواہ کسی کو ڈنک مارو گے اور وہ بے چارہ درد سے چیخنے چلانے لگے گا اور ممکن ہے کہ تم قہر الٰہی کا مستوجب بن جاؤ۔
بھیڑ بنو تاکہ تمہارے بالوں سے لوگ گرم کپڑے بنائیں اور تمہارے گوشت سے اپنا پیٹ بھریں۔ بھیڑیا نہ بنو کہ ناچار کئی جانوروں کو ہلاک کرو گے اور ان کی بد دعائیں لو گے۔ مچھلی بنو تاکہ لوگ تمہیں کھائیں،نہنگ نہ بنو جو مچھلیوں کی ہلاکت کے در پے ہوتا ہے۔
لیکن اس کے برعکس علامہ اقبال کہتے ہیں چیونٹی نہ بنو ورنہ لوگ تجھے روند ڈالیں گے۔
بھڑ بنو اور جو سامنے آئے اسے ڈنک مارو۔ بھیڑ نہ بنو بھیڑیا بنو۔ شبنم کا قطرہ نہ بنو،شیر یا چیتا بنو،سانپ بنو،اژدہا بنو،عقاب بنو،شہباز بنو،اگر جمادی زندگی پسند ہو تو پتھر بنو تاکہ کسی کا سر توڑ سکو۔ حیوانی جامے میں رہنا چاہو تو کسی قسم کا درندہ بنو۔ سست عناصر صوفیوں کی باتیں نہ سنو،وہ اپنی جان کے بھی دشمن ہیں اور تمہاری جان کے بھی۔
اس اقتباس کو پڑھ کر ”یھدی بہ کثیرا ویضل بہ کثیرا“ کی آیت یاد آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کی غلط فہمی کم نقادوں کے ذہن میں کیوں پیدا ہوئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قوت اندوزی کی تعلیم پر اقبال نے بہت زور دیا ہے۔ زندگی بقاے قوت اور ارتقاے قوت کا نام ہے۔ قوت کی بقا کیلئے مزاحم قوتوں پر غالب آنا لازمی ہے۔ زندگی ہر جگہ خیر و شیر کی پیکار ہے یا ادنیٰ حالت سے نکل کر اعلیٰ حالت میں جانے کی کوشش ہے۔
زندگی نہ فکر محض کا نام ہے اور نہ لطیف تاثرات سے لطف اندوزی مقصود حیات ہے اور نہ ہی خدا کے ساتھ لو لگا کہ گوشہ نشین ہونے سے نفس انسانی کا ارتقا ہو سکتا ہے۔
 مذہب،تہذیب،تمدن سب مسلسل پیکار کی بدولت پیدا ہوئے ہیں۔ اضداد کا تضاد رفع کرکے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش زندگی کی قوتوں میں نشوونما پیدا کرتی ہے۔ اقبال توسیع مملکت،نفع اندوزی یا غارت گری کے جذبے سے جنگ کرنے کا شدید مخالف ہے۔
وہ نوع انسان کی وحدت کا طالب ہے اور کہتا ہے یہ وحدت محبت کی جہانگیری اور اخوت کی وسعت سے پیدا ہوتی ہے۔ زمانہ حال کی اقتصادی جنگوں،جوع الارض کی جنگوں اور ضعیف قوام کو مغلوب کرنے کی جنگوں کے خلاف اقبال نے جا بجا نفرت کا اظہار کیا ہے۔ اسلام صلح جوئی کا نام ہے مگر صلح جوئی شدید مجاہدانہ جدوجہد کی طالب ہے۔
ایک خط کے جواب میں اقبال نے اپنا نظریہ جنگ بہت صفائی سے واضح کیا ہے (اقبال نامہ صفحہ ۲۰۳) اس کو پڑھنے کے بعد کوئی شخص اقبال کو مسولینی اور ہٹلر کا ہم نوا نہیں سمجھ سکتا۔
معترض کا یہ کہنا اقبال اس دور ترقی میں جنگ کا حامی ہے غلط ہے۔ ”میں جنگ کا حامی نہیں ہوں اور نہ کوئی مسلمان شریعت کے حدود معینہ کے ہوتے ہوئے جنگ کا حامی ہو سکتا ہے۔ قرآن کی تعلیم کی رو سے جنگ یا جہاد سیفی کی طرف دو صورتیں ہیں،محافظانہ اور مصلحانہ۔ پہلی صورت میں یعنی اِس صورت میں جب کہ مسلمانوں پر ظلم کیا جائے اور ان کو گھروں سے نکالا جائے،مسلمانوں کو تلوار اٹھانے کی اجازت ہے (نہ حکم) اور دوسری صورت جس میں قتال کا حکم ہے آیا ’۴۹:۹‘ میں بیان ہوئی ہے۔
ان آیات کو غور سے پڑھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ چیز جس کو سیموئل ہور جمعیت اقوام کے اجلاس میں اجتماعی سلامتی کہتا ہے قرآن نے اس کا اصول کس سادگی اور فصاحت سے بیان کیا ہے۔ جنگ کی مذکورہ بالا دو صورتوں کے سوا میں اور کسی جنگ کو نہیں جانتا (جسے اسلام نے جائزہ سمجھا ہو)۔ جوع الارض کی تسکین کیلئے جنگ کرنا دین اسلام میں حرام ہے۔ علیٰ ہذا القیاس دین کی اشاعت کیلئے تلوار اٹھانا بھی حرام ہے۔
جنگ ایک ناخوش آئند،زندگی کی مجبوری ہے۔ تشدد کے بغیر تو کوئی جنگ نہیں ہو سکتی،لیکن اسلام نے ایسی صورتوں میں بھی تاکید کی ہے کہ عدل اور رحم کو فراموش نہ کرو۔ جنگ اسلام کے نزدیک امراض اقوام کیلئے ایک عمل جراحی ہے،الم آفرینی اس کا مقصود نہیں۔ قرآن جہاد کی تعلیم کے ساتھ نرمی کی تلقین کرتا ہے۔ کسی قوم کے خلاف جنگ کرتے ہوئے بھی محاربین کے سوا اور کسی پر تلوار نہ اٹھاؤ،بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو کوئی ضرر نہ پہنچے،مذہبی پیشواؤں کو کچھ نہ کہو،دیگر مذاہب کے معبدوں کو محفوظ رکھو،دشمن کی فصلوں کو مت جلاؤ ایسا نہ ہو کہ صلح کے بعد خلق خدا بھوکی مرنے لگے۔

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط