انیسواں باب:
اقبال پر تین اعتراضات کا جواب
علامہ اقبال کے کلام اور پیام کی ایک امتیازی خصوصیت ہے،جو اس سے قبل نہ شعرا میں ملتی ہے اور نہ صوفیہ میں باستثناے چند نظر آتی ہے۔ مسلمان فقہا کی مرتب کردہ فقہ میں بھی یہ پہلو نمایاں نہیں۔ اقبال کی سب سے پہلی شائع شدہ مثنوی اسرار خودی ہے جو بانگ درا کے مجموعے سے بھی پیشتر شائع ہوئی۔
ان کے فلسفیانہ تفکر کا آغاز بھی خودی ہے،وسط بھی خودی اور انجام بھی خودی۔ سوال یہ ہے کہ اقبال نے زندگی کے اس پہلو اور اس نظریے کو مرکزی مقام کیوں دیا اور اسے اپنی تبلیغ کا محور کیوں بنایا؟ اس کے کئی وجوہ تھے۔ ایک یہ کہ اقبال کو نفس انسان میں ایک زوال ناپذیر اور ابد کوش حقیقت محسوس ہوتی تھی۔ اکثر فلسفیوں اور مذہب نے تکریم آدم کی بجائے ابطال ہستی انسان کو عقائد کا محور مقصود بنا لیا تھا۔
(جاری ہے)
تکریم آدم کی تعلیم مخصوص اسلامی اور قرآنی تعلیم تھی۔ انسان کو قرآن ہی نے نائب الٰہی اور خلیفتہ اللہ،مسخر کائنات اور مسجود ملائکہ قرار دیا تھا۔ اس تعلیم میں انسانی ممکنات حیات کی لامتناہی مضمر تھی اور مقصود حیات ممکن کو موجود بنانا تھا۔
اسی میں لامحدود ارتقا کا راز پوشیدہ تھا۔ چونکہ انسان کبھی خدایا ہستی مطلق نہیں بن سکتا اس لئے اس کی ترقی کی رفتار رک نہیں سکتی،خواہ وہ کسی عالم میں ہو۔
اس تعلیم کو خود مسلمانوں نے بھی پست پشت ڈال دیا تھا اور زندگی کا مقصود رسمی عبادت کے ذریعے سے جنت کا حصول رہ گیا تھا جو ایک محدود زندگی کے اعمال کا اجر ہے۔ اس کے بعد نہ کوئی عمل ہے،نہ ترقی،نہ آرزو،نہ جسجو۔ اقبال اس سکونی اور عشرتی تصور کو ایک جامد تصور سمجھتا تھا۔ اس تصور سے اخلاقی زندگی پر بھی اچھا اثر نہیں پڑا کیونکہ اس نظریے میں اعمال کے نتائج ان کی ماہیت میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ثواب و عذاب اعمال پر خارج سے عائد ہوتے ہیں۔
نیکی آپ اپنا اجر اور بدی آپ اپنی سزا نہیں رہتی اور خیر و شر کیلئے کوئی داخلی معیار بھی قائم نہیں ہو سکتا۔
اقبال نے دیکھا کہ کچھ رہبانی نظریات کی بدولت جو مسلمانوں کی روحانی زندگی کا ایک جزو بن گئے تھے اور کچھ تکریم آدم کی تعلیم سے غافل ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی دینی،اخلاقی،معاشرتی اور سیاسی حالت میں شدید انحطاط پیدا ہو گیا ہے جہاں کہیں اخلاق کی تعلیم ہے وہاں ایجابی پہلو کی نسبت سلبی پہلو غالب ہے۔
تقدیر کا غلط مفہوم انسانوں کو جری ہونے کی بجائے اپاہج بنا دیتا ہے۔ جبر و اختیار کے مسئلے میں مسلمانوں کی تعلیم میں جبر کا عنصر غالب ہو گیا تھا اور انسانی اختیار محض دھوکا رہ گیا تھا۔ لیکن جبر اختیار اور خودی و بے خودی زندگی کے دو پہلو ہیں،ماہیت حیات کے اندر ان میں کوئی تضاد نہیں،یہ تضاد استدلالی منطق کی پیداوار ہے۔ اقبال نے دیکھا کہ دین اور بے دینی دونوں انسان کی خودی کو سوخت کرنے پر کمربستہ ہیں۔
مادیت کے فلسفے نے نفس انسانی کی مستقل حیثیت ہی سے انکار کر دیا اور اسے مادی مظاہر میں سے ایک بے ثبات مظہر قرار دیا۔ خدا کے طالبوں کی نظر سے بھی انسان کی حقیقت اوجھل ہو گئی۔ عارفوں نے عرفان نفس کو عرفان الٰہی کا وسیلہ بنایا تھا لیکن اکثر صوفیہ اپنے نفس کو بے حقیقت بنا کر خدا کو تلاش کرنے لگے۔ ہستی مطلق کے تصور اور اس کی تلاش میں انسان کی ہستی گم ہو گئی۔
اقبال نے دیکھا کہ خودی کی موت سے فرد اور ملت دونوں پر موت طاری ہوتی ہے۔ اس لئے اقبال نے خدا پر کم لکھا ہے اور خودی پر بہت زیادہ،کیوں کہ اس کے نزدیک خودی ہی کی استواری سے خدا کے ساتھ رابطہ مستحکم ہوتا ہے۔ خودی کا لفظ ہماری ادبیات میں ایک بدنام لفظ تھا۔ اب یک بیک اس کی ستائش گری سے اکثر مسلمانوں کے اذہان کو ٹھو کر لگی۔ خودی کے قدیم مذموم مفہوم کو دماغوں سے نکالنا آسان نہ تھا اس لئے بعض نقادوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال فرد اور ملت کیلئے ایک بے عنان آزادی اور جارحانہ زندگی کی تلقین کرتا ہے۔
قدیم تعلیم یہ تھی کہ تو خاک ہو کر اکسیر بن سکتا ہے:
نہ مارا آپ کو جو خاک ہو اکسیر بن جاتا
اگر پارے کو اے اکثیر گر مارا تو کیا مارا
(ذوق)
اس لئے عجز اختیار کر،تن بہ تقدیر ہو کر زندگی بسر کر،جو کچھ ہے جو ازل سے مقرر ہے۔ اقبال نے کہا کہ انسان آپ اپنی تقدیر کو بناتا یا بگاڑتا ہے۔ کافر ہو تو انسان تابع تقدیر ہوتا ہے اور مومن ہو تو وہ خود تقدیر الٰہی بن جاتا ہے۔
مشیت الٰہی یہی ہے کہ انسان بھی خلاق قدرت کی طرح دوسرے درجے پر خالق بننے کی کوشش کرے۔ اقبال نے کہا کہ ہر طرح سے خودی کو استوار کرنے کی کوشش کرو۔ کہیں جلال سے کہیں جمال سے،جدوجہد سے،تسخیر نفس سے،تسخیر فطرت سے۔ خیر و شر کا معیار یہی ہے،جو طرز نگاہ اور طریق عمل انسان کی ظاہری اور باطنی قوتوں میں اضافہ کرے وہ خیر ہے،جو ان کو کمزور کرے وہ شر ہے۔
اقبال کو عجمی شاعری،صوفیانہ شاعری اور مسلمانوں کی عام شاعری میں زیادہ تر انفعال ہی نظر آیا اور انفعال کی نسبت اقبال غالب کا ہم نوا تھا جو کہہ گیا تھا کہ انفعال سے زبونی ہمت پیدا ہوتی ہے اور زمانے سے عبرت حاصل کرکے زندگی کے متعلق قنوطی نظر پیدا کر لینا نفس کو کمزور کر دیتا ہے:
ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
(غالب)
اسلامی روحانیت کی حیات افزا تعلیم یہ تھی کہ آرزوں کو فنا نہ کرو بلکہ ان کا مقصود بدل دو،دنیا کو ترک نہ کرو بلکہ دنیا کو دین بناؤ۔
مگر رفتہ رفتہ روحانیت نفس کشی کا نام ہو گیا۔ اسلام نے محنت مزدوری سے رزق حاصل کرنے والے کو محض رسمی عبادت گزار سے افضل قرار دیا تھا اور ”الکاسب حبیب اللہ“ کہہ کر محنت کشوں کی ہمت افزائی کی تھی مگر اب اہل ظاہر کیلئے دین ظواہر کی پابندی اور اہل باطن کیلئے دین محض روحانی مشقوں اور اذکار کا نام رہ گیا تھا۔ اقبال نے جب اس نظریہ حیات کے خلاف جہاد کیا تو صوفی بھی اس کے خلاف ہو گئے اور ملا بھی اور دوسری طرف،مادہ پرستوں نے بھی اس کو رجعت پسند سمجھا۔
کسی صاحب کے ایک مضمون کا اقتباس مولانا عبد السلام ندوی نے اپنی کتاب ’اقبال کامل‘ میں ’نظام اخلاق‘ کے باب میں دیا ہے جو کسی کو تاہ فہم نقاد کی تنقید ہے جسے ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
”صوفی کہتے ہیں کہ چیونٹی بنو تاکہ لوگ تمہیں پاؤں کے نیچے روند کر زندان ہست و بود سے نجات دلوائیں۔ بھڑ نہ بنو کیوں کہ اگر بھڑ بنو گے تو خواہ مخواہ کسی کو ڈنک مارو گے اور وہ بے چارہ درد سے چیخنے چلانے لگے گا اور ممکن ہے کہ تم قہر الٰہی کا مستوجب بن جاؤ۔
بھیڑ بنو تاکہ تمہارے بالوں سے لوگ گرم کپڑے بنائیں اور تمہارے گوشت سے اپنا پیٹ بھریں۔ بھیڑیا نہ بنو کہ ناچار کئی جانوروں کو ہلاک کرو گے اور ان کی بد دعائیں لو گے۔ مچھلی بنو تاکہ لوگ تمہیں کھائیں،نہنگ نہ بنو جو مچھلیوں کی ہلاکت کے در پے ہوتا ہے۔
لیکن اس کے برعکس علامہ اقبال کہتے ہیں چیونٹی نہ بنو ورنہ لوگ تجھے روند ڈالیں گے۔
بھڑ بنو اور جو سامنے آئے اسے ڈنک مارو۔ بھیڑ نہ بنو بھیڑیا بنو۔ شبنم کا قطرہ نہ بنو،شیر یا چیتا بنو،سانپ بنو،اژدہا بنو،عقاب بنو،شہباز بنو،اگر جمادی زندگی پسند ہو تو پتھر بنو تاکہ کسی کا سر توڑ سکو۔ حیوانی جامے میں رہنا چاہو تو کسی قسم کا درندہ بنو۔ سست عناصر صوفیوں کی باتیں نہ سنو،وہ اپنی جان کے بھی دشمن ہیں اور تمہاری جان کے بھی۔
“
اس اقتباس کو پڑھ کر ”یھدی بہ کثیرا ویضل بہ کثیرا“ کی آیت یاد آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کی غلط فہمی کم نقادوں کے ذہن میں کیوں پیدا ہوئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قوت اندوزی کی تعلیم پر اقبال نے بہت زور دیا ہے۔ زندگی بقاے قوت اور ارتقاے قوت کا نام ہے۔ قوت کی بقا کیلئے مزاحم قوتوں پر غالب آنا لازمی ہے۔ زندگی ہر جگہ خیر و شیر کی پیکار ہے یا ادنیٰ حالت سے نکل کر اعلیٰ حالت میں جانے کی کوشش ہے۔
زندگی نہ فکر محض کا نام ہے اور نہ لطیف تاثرات سے لطف اندوزی مقصود حیات ہے اور نہ ہی خدا کے ساتھ لو لگا کہ گوشہ نشین ہونے سے نفس انسانی کا ارتقا ہو سکتا ہے۔
مذہب،تہذیب،تمدن سب مسلسل پیکار کی بدولت پیدا ہوئے ہیں۔ اضداد کا تضاد رفع کرکے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش زندگی کی قوتوں میں نشوونما پیدا کرتی ہے۔ اقبال توسیع مملکت،نفع اندوزی یا غارت گری کے جذبے سے جنگ کرنے کا شدید مخالف ہے۔
وہ نوع انسان کی وحدت کا طالب ہے اور کہتا ہے یہ وحدت محبت کی جہانگیری اور اخوت کی وسعت سے پیدا ہوتی ہے۔ زمانہ حال کی اقتصادی جنگوں،جوع الارض کی جنگوں اور ضعیف قوام کو مغلوب کرنے کی جنگوں کے خلاف اقبال نے جا بجا نفرت کا اظہار کیا ہے۔ اسلام صلح جوئی کا نام ہے مگر صلح جوئی شدید مجاہدانہ جدوجہد کی طالب ہے۔
ایک خط کے جواب میں اقبال نے اپنا نظریہ جنگ بہت صفائی سے واضح کیا ہے (اقبال نامہ صفحہ ۲۰۳) اس کو پڑھنے کے بعد کوئی شخص اقبال کو مسولینی اور ہٹلر کا ہم نوا نہیں سمجھ سکتا۔
معترض کا یہ کہنا اقبال اس دور ترقی میں جنگ کا حامی ہے غلط ہے۔ ”میں جنگ کا حامی نہیں ہوں اور نہ کوئی مسلمان شریعت کے حدود معینہ کے ہوتے ہوئے جنگ کا حامی ہو سکتا ہے۔ قرآن کی تعلیم کی رو سے جنگ یا جہاد سیفی کی طرف دو صورتیں ہیں،محافظانہ اور مصلحانہ۔ پہلی صورت میں یعنی اِس صورت میں جب کہ مسلمانوں پر ظلم کیا جائے اور ان کو گھروں سے نکالا جائے،مسلمانوں کو تلوار اٹھانے کی اجازت ہے (نہ حکم) اور دوسری صورت جس میں قتال کا حکم ہے آیا ’۴۹:۹‘ میں بیان ہوئی ہے۔
ان آیات کو غور سے پڑھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ چیز جس کو سیموئل ہور جمعیت اقوام کے اجلاس میں اجتماعی سلامتی کہتا ہے قرآن نے اس کا اصول کس سادگی اور فصاحت سے بیان کیا ہے۔ جنگ کی مذکورہ بالا دو صورتوں کے سوا میں اور کسی جنگ کو نہیں جانتا (جسے اسلام نے جائزہ سمجھا ہو)۔ جوع الارض کی تسکین کیلئے جنگ کرنا دین اسلام میں حرام ہے۔ علیٰ ہذا القیاس دین کی اشاعت کیلئے تلوار اٹھانا بھی حرام ہے۔
جنگ ایک ناخوش آئند،زندگی کی مجبوری ہے۔ تشدد کے بغیر تو کوئی جنگ نہیں ہو سکتی،لیکن اسلام نے ایسی صورتوں میں بھی تاکید کی ہے کہ عدل اور رحم کو فراموش نہ کرو۔ جنگ اسلام کے نزدیک امراض اقوام کیلئے ایک عمل جراحی ہے،الم آفرینی اس کا مقصود نہیں۔ قرآن جہاد کی تعلیم کے ساتھ نرمی کی تلقین کرتا ہے۔ کسی قوم کے خلاف جنگ کرتے ہوئے بھی محاربین کے سوا اور کسی پر تلوار نہ اٹھاؤ،بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو کوئی ضرر نہ پہنچے،مذہبی پیشواؤں کو کچھ نہ کہو،دیگر مذاہب کے معبدوں کو محفوظ رکھو،دشمن کی فصلوں کو مت جلاؤ ایسا نہ ہو کہ صلح کے بعد خلق خدا بھوکی مرنے لگے۔