Episode 142 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 142 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

بیسواں باب:
خلاصہ افکار
اقبال کے افکار میں اتنا تنوع اور اتنی ثروت ہے کہ اگر اس کے تفکر و تاثر کے ہر پہلو کی توضیح و تشریح اختصار سے بھی کی جائے تو ہزار ہا صفحات بھی اس کیلئے کافی نہیں۔ وہ مشرق و مغرب کے کم از کم سہ ہزار سالہ ارتقاے فکر کا وارث ہے۔
اقبال سے کئی صدیاں پیشتر،مسلمان حکما،صوفیا،شعرا اور مفکرین نے انسان کے ماضی کی تمام دولت علم و ہنر کو سمیٹ کر اس کو کیمیاے اسلام سے اکسیر حیات بنا دیا تھا۔
اسلام ادیان عالیہ کی آخری ارتقائی شکل تھی۔ اسلام کے بعد مذاہب تو ابھرتے رہتے ہیں اور ابھرتے رہیں گے لیکن اسلام کے بعد کوئی دین اپنی وسعت زمانی اور مکانی میں عالم گیر نہیں ہو سکا۔ تاریخ ادیان خود ختم نبوت کی سب سے قوی شہادت ہے۔ شانتی نکیتن میں ٹیگور کے کتب خانہ دار نے راقم الحروف سے کہا کہ اسلام کی توحید اور اخلاقیات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ختم نبوت کا عقیدہ سمجھ میں نہیں آتا۔

(جاری ہے)

نبوت کی ضرورت جیسے پہلے تھی ویسے اب بھی ہے اور ہمیشہ انسانوں کو خدا سے ہدایت یافتہ انسانوں کی ہدایت کی ضرورت رہے گی۔ اس فیضان الٰہی کے کسی ایک انسان پر ایک زمانے میں ختم ہو جانے کے کیا معنی؟ میں نے اسے اپنے فہم کے مطابق کچھ سمجھانے کی کوشش کی،معلوم نہیں میرے دلائل اس کے دل نشین ہوئے یا نہیں لیکن وہ خود ہی بول اٹھا کہ تاریخ نے اس عقیدے کو سچ ہی کر دکھایا ہے کیوں کہ محمد (ﷺ) کے بعد نوع انسان پر اتنا اثر انداز نبی تو کہیں پیدا نہیں ہوا۔
اسلام نے جامع حقائق ہونے کے باوجود مسلمانوں کو تلقین کی کہ مسلسل مشاہدہ فطرت کرتے رہو تاکہ تم پر انفس و آفاق کے لامتناہی حقائق بتدریج منکشف ہوتے رہیں۔ کلمات الٰہی جو اعیان مظاہر ہستی ہیں،از روے قرآن لامتناہی ہیں،ان کو لکھتے لکھتے تمام سمندروں کی روشنائی ختم ہو جائے پیشتر اس کے کہ ان کا شمار انجام کو پہنچے۔
مسلمانوں نے ترقی کے دور میں ”اطلب العلم و لوکان بالصین“ پر عمل کرتے ہوئے اور ہر قسم کے علم کو اپنا گم شدہ مال سمجھتے ہوئے،قوم کے علوم و فنون کو سمیٹ لیا اور پھر اس ورثے میں گراں بہا اضافہ کیا لیکن تیرہویں صدی عیسوی کے قریب ان قوموں میں انحطاط آ گیا اور اس کے بعد وہ یا ساکن و جامد ہو گئیں اور یا گرتی چلی گئی کیوں کہ زندگی کا عالم گیر قانون یہی ہے کہ اگر آگے نہ بڑھو تو ضرور پیچھے ہٹو گے،رفعت کی طرف نہ اٹھو گے تو پستی میں گرو گے۔
یہ کہنا دشوار ہے کہ یہ زوال پذیری کا دور ابھی ختم ہوا یا نہیں،بہرحال بیداری کے کچھ آثار نمایاں ہیں۔
جب مسلمان بیدار تھے تو مغربی اقوام خفتہ تھیں،جب مسلمانوں پر خفتگی طاری ہوئی تو مغربی اقوام صدیوں کی نیند سے چونکیں اور تب سے اب تک مسلسل ترقی کی راہوں پر تیزی سے گامزن ہیں۔ بیداری کے آغاز میں بہت سا فیض ان اقوام نے مسلمانوں کے سرمایہ افکار سے حاصل کیا لیکن اس کے بعد اس میں مسلسل اضافہ کرتی چلی گئیں،بقول اکبر الہ آبادی:
رہی رات ایشیا غفلت میں سوتی
نظر یورپ کی کام اپنا کیا کی
دور انحطاط میں مسلمانوں کی تعلیم کا یہ حال ہو گیا کہ پرانے قیمتی سرمائے میں سے بھی فقط جامد چیزوں کا الٹ پھیر کرتے رہے۔
تفکر میں اجتہاد ختم ہو گیا اور فقہا نے کہنا شروع کر دیا کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے:
دروازہ میکدے کا نہ کر بند محتسب
ظالم خدا سے ڈر کہ در توبہ باز ہے
(ذوق)
در توبہ تو باز رہا لیکن در اجتہاد بند ہو گیا۔ فکر و عمل سے تسخیر کائنات عبادت کا جزو نہ رہی۔ طبیعی علوم،فلسفہ،دینیات،سب ایک مقام پر پہنچ کر رک گئے۔ علم کلام کی فرسودہ اور دور از کار موشگافیاں درسیات کا جزو بن گئیں۔
اقبال نے مسلمانوں کے علمی اور روحانی ورثے کا گہری نظر سے جائزہ لیا اور اس میں سے حیات افزا عناصر کو حیات کش عناصر سے الگ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مغربی علوم کا بھی ماہر تھا جس سے نہ ہمارے فقہا آشنا تھے اور نہ ہمارے شعرا کو ان کی ہوا لگی تھی۔ مغربی علوم اور تہذیب و تمدن کو بھی اس نے حکیمانہ اور مجددانہ نظر سے دیکھا،اس کی خوبیوں کا اعتراف کیا اور مسلمانوں کو ان کے حصول کی تلقین کی لیکن اس تعمیر میں جو خرابی کی صورت مضمر تھی وہ بھی اس کی چشم بصیرت سے اوجھل نہ رہی۔
حکمت فرنگ میں جو مادہ پرستی اور محسوسات پرستی پیدا ہو گئی تھی،اس نے انسانی ترقی کو یک طرفہ کرکے انسانیت کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا تھا۔ اقبال نے ان میلانات کا تجزیہ کیا اور اس کے مسموم عناصر سے گریز و پرہیز کا مشورہ دیا۔
تمام ملت اسلامیہ میں دور حاضر میں کوئی مفکر ایسا نہیں گزرا جو ماضی و حال اور شرق و غرب کے افکار کا جامع ہو۔
اس جامعیت کے ساتھ وہ ایک تلمیذ الرحمن شاعر بھی تھا۔ اس تمام دولت کو اس نے اپنی شاعری میں بھر دیا۔ وہ خالی مرد حکیم ہوتا تو ملت کے نفوس میں اثر انداز نہ ہو سکتا۔ ایک باکمال شاعر ہونے کی وجہ سے اس نے حکمت میں سوز دل کو سمو دیا اور عقل و عشق کی آمیزش نے اس کو عارف رومی کا مرید اور جانشین بنا دیا۔ کیوں کہ جلال الدین رومی میں بھی یہی کمالات اور محاسن جمع ہو گئے تھے۔
مگر تفکر اور تاثر کی جو وسعت اور گہرائی اقبال کے کلام میں نظر آتی ہے،وہ اس سے قبل کہیں نہیں ملتی:
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز ازل دل گرفت
بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردہ محمل گرفت
معارف کے بیان میں اقبال جا بجا اپنے مرشد سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ یہ ایک پڑھنے والے کا تاثر ہے اگرچہ اقبال خود اپنے تئیں رومی سے فیض یافتہ اور مرشد سے کسی قدر کم ہی سمجھتا تھا۔
اقبال جہاں آگے نکل گیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ زمانہ بھی رومی کے بعد چھ سو برس آگے بڑھ چکا تھا۔ اس دوران میں زندگی نے نئے اطوار اور نئے مسائل پیدا کئے اور انسان اپنے فکر و عمل سے ان کے نئے نئے حل تلاش کرتا گیا۔ اقبال اگر کہیں رومی سے اونچا دکھائی دے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ رومی اس سے پہلے عقل و عشق کی بہت سی گتھیاں سلجھا چکا تھا۔ برناڈشا نے ایک مرتبہ کسی قدر تعلی سے کہا کہ میں اپنے تئیں شیکسپیئر سے اونچا سمجھتا ہوں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس کے کندھوں پر سوار ہوں۔
 اقبال نہ صرف رومی کے کندھوں پر سوار ہے بلکہ شرق و غرب کے تمام حکما و صوفیہ کے افکار پر قدم رکھ کر ان سے اونچا ہو گیا ہے۔ ایران کے ملک الشعرا بہار نے فراخ دلی سے اقبال کے کمال کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہماری ہزار سالہ اسلامی فکر و نظر کا ثمر ہے۔ لیکن مغربی حکماء کے بھی بہترین افکار سے اقبال نے فائدہ اٹھایا ہے۔ کہیں ان کا نام لیا ہے اور کہیں ان کے انداز تفکر کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا ہے۔
مگر وہ کسی کا مقلد اور خوشہ چین نہیں،اس نے جس کو بھی دیکھا اپنی محققانہ نظر سے دیکھا،جو کچھ پسند آیا لے لیا اور جو کچھ جادہ حقیقت سے ہٹا ہوا دکھائی دیا اس کی تردید کر دی۔ کتاب کو ختم کرتے ہوئے اس مختصر تلخیص میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ دیکھیں کہ یہ محقق و مفکر اور اہل دل مبصر آخر میں کس یقین و ایمان اور کس زاویہ نظر کو پہنچا اور سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی کا ثمرہ اس کو کیا ملا جس میں اس نے بقول خود زندگی کی راتیں بسر کیں۔
آیئے اقبال کے افکار و تاثرات کے بحر بے پایاں کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کریں۔
اقبال کے نظریہ حیات کا لب لباب ہمارے نزدیک مفصلہ ذیل ہے:
(۱) تمام حیات و کائنات توحید کا مظہر ہے۔ اس کی ماہیت نہ مادی اور نہ نفسی۔ اس کی کنہ حیات ابدی ہے جو خلاق اور ارتقا کوش ہے۔ مادہ اور نفس حیات کے مظاہر ہیں۔
(۲) حقیقت مطالقہ خدا ہے جو حی و قیوم اور ازلی اور ابدی طور پر خلاق ہے۔
اس کی خلقت اور تجلی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ اضافہ نقص سے کمال کی طرف نہیں ہے بلکہ لامتناہی اور مسلسل خلاقی کمال ہی کمال ہے۔ تجلی میں تکرار نہیں اور خدا اپنی آفرینش میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔
(۳) مادی عالم خود حیات سرمدی کی پیداوار ہے۔ مادی عالم کی اپنی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ وہ فقط ان معنوں میں حقیقی ہے کہ وہ زندگی کو ایک مظہر ہے۔
وہ باطل نہیں بلکہ حق کا ایک پہلو ہے۔
(۴) زبان و مکان کی بھی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔یہ خاص مراحل میں زندگی کے اپنے پیدا کردہ زاویہ نگاہ ہیں اور اس عالم میں ادراک ان سانچوں میں ڈھل جاتا ہے۔
(۵) خدا فرد مطلق ہے اسے ایک مقصد کوش نفس تصور کر سکتے ہیں۔ اگرچہ فرد مطلق اور نفس مطلق کی ماہیت ادراک میں نہیں آ سکتی۔
خدا انائے مطلق ہے۔
(۶) تمام مخلوقات خدا کی ہستی مطلق میں سے سرزد ہوئی ہے لیکن خدا چونکہ خود ایک ’انا‘ ہے اس لئے وہ اناؤں ہی کا خالق ہے۔ تمام کائنات نفوس ہی پر مشتمل ہے جو مختلف مدارج ارتقا میں ہیں۔
(۷) نفوس کے عالم میں انسانی نفس درجہ ارتقا میں سب سے افضل ہیں۔ سب سے زیادہ انسان کی خودی خدا سے ہم آغوش ہے۔
(۸) قرآن میں آدم کا تصور اس حقیقت کا انکشاف ہے کہ حیات ابدی کے تمام ممکنات انسان میں مضمر ہیں۔ انسانی زندگی کا مقصد ان ممکنات کو مسلسل معرض وجود میں لانا ہے۔
(۹) تمام ارتقا کا مدار آرزو اور جستجو پر ہے۔ آرزو کی شدت کا نام عشق ہے۔
(۱۰) خدا کی ذات اور انسان کی خودی نت نئے عوالم پیدا کرتی ہے۔
انسان اسی لحاظ سے خدا کا نائب یا خلیفہ ہے کہ اس کا وظیفہ حیات بھی عوالم کو پیدا کرنا اور ان کو مسخر کرنا ہے۔
(۱۱) تکمیل و ارتقاے حیات کیلئے عقل ایک اعلیٰ درجے کا وسیلہ ہے۔ عقل کا مقصود کلیت حیات کا احاطہ کرنا ہے مگر استدلالی عقل جزوی حقائق میں الجھ جاتی ہے اور جزو کو کل سمجھنے لگتی ہے۔ عقل جزوی محسوس پرست اور ہوس پرست ہو جاتی ہے لیکن عقل اگر اپنی پوری قوت و وسعت سے کام لے تو وہ بھی حقیقت رس ہو سکتی ہے۔
عقل اجزاے حیات کا تجزیہ کرکے ان کے روابط تلاش کرتی رہتی ہے اور جزئیات کو استقراء اور استخراج سے کلیات کے تحت لانے میں کوشاں رہتی ہے۔
(۱۲) عقل کے مقابلے میں انسان کے اندر براہ راست بھی ماہیت حیات کا وجدان ہے،جس میں نہ زمان و مکان کو دخل ہے اور نہ منطقی استدلال کو۔ اسی وجدان سے عشق پیدا ہوتا ہے جو عقل سے زیادہ منکشف ماہیت حیات ہے۔
زمان و مکان کی لامتناہی اس میں غرق ہے۔ اس کی وحدت اجزا سے مرکب نہیں۔ ایک دوسرے سے خارج اجسام و اجزا مکانیت کے تصور کی پیداوار ہیں۔
(۱۳) عشق اور وجدان اگرچہ باطن حیات کے چشمے ہیں لیکن عقل کو برطرف کرکے وہ بھی تکمیل حیات کا باعث نہیں بن سکتے۔ زندگی کا تقاضا عقل او رعشق کی ہم آغوشی ہے۔
(۱۴) جسم اور نفس کی کوئی الگ الگ مستقل حیثیت نہیں۔
روح جسم کے اندر اس طرح نہیں جس طرح کہ کوئی طائر قفس عنصری میں بند ہو۔ جسم اور نفس دونوں حیات کے توام مظاہر ہیں۔ خودی کا مقام ان دونوں سے عمیق تر ہے۔ حیات ابدی کی ماہیت خودی کے اندر ہے۔
(۱۵) خدا کے سامنے ازل سے ابد تک کی حیات و کائنات کا کوئی تفصیلی نقشہ نہیں۔ حقیقت ہی نہیں ہے کہ سرمدیت میں تمام حوادث لوح محفوظ پر ثبت ہیں اور وہ مرور ایام میں یکے بعد دیگرے معرض شہود میں آتے ہیں۔
خدا کی خلاقی آزاد ہے۔ وہ ”فعال لما یرید“ ہے۔ وہ پہلے سے بنے بنائے خاکوں کے مطابق عمل نہیں کرتا،اگر ایسا ہوتا تو خدا آزاد نہ ہوتا بلکہ پابند ہوتا۔
(۱۶) مسلمانوں نے عام طور پر تقدیر کا مفہوم غلط سمجھا۔ خدا صاحب اختیار ہستی ہے۔ انسان جو حیات الٰہی کا بہترین مظہر ہے وہ بھی اختیار سے بہرہ اندوز ہے۔ اختیار کے بغیر زندگی ایک میکانکی چیز ہے۔
جبر کا تصور مادیت کی پیداوار ہے۔ انسان کے ممکنات کے آئندہ مظاہر انسان کی خودی کے ارتقا میں سرزد ہوں گے،جب تک وہ وجود میں نہ آ جائیں تب تک نہ وہ انسان کے علم میں آ سکتے ہیں اور نہ خدا کے علم میں۔
(۱۷) حیات ابدی خود اپنے ارتقا کیلئے مزاحم قوتیں پیدا کرتی ہے کیوں کہ رکاوٹوں پر غالب آنے اور عمل تسخیر ہی سے زندگی ترقی کر سکتی ہے۔
اس لحاظ سے ابلیس جو نفی و افکار کا ایک تمثیلی تصور ہے،تکمیل حیات کیلئے ایک لابدی حقیقت ہے۔ ترقی کا ہر قدم نفی سے اثبات کی طرف اٹھتا ہے اور پھر آگے بڑھنے کیلئے اس بات کی نفی کرنا لازم ہوتا ہے۔ مسلسل فنا کے بغیر زندگی بقا کوش نہیں ہو سکتی۔ مقصود و منزل سے فراق ہی زندگی کا تازیانہ ہے قوت نفی کا ابلیس جسے اقبال خواجہ اہل فراق کہتا ہے،ارتقاے حیات کیلئے معاون ہے۔
لیکن اگر نفی و انکار کا پہلو غائب ہو جائے تو زندگی جامد ہو کر رہ جائے۔
(۱۸) سکونی جنت جس میں عشرت دوام ہو اور جس میں تمام جستجو و آرزو ختم ہو جائے،مقصود حیات نہیں ہو سکتی۔ عروج کوش زندگی کو بادہ و جام اور حور و خیام سے گزر جانا چاہئے:
مزی اند جہان کو ذوقے
کہ یزداں دارد و شیطان ندارد
#
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہٴ شوق نہ ہو طے
اس مرحلہ شوق میں جستجو اور آرزو اور نفی و افکار کے بغیر کوئی تگ و دو نہیں ہو سکتی۔
فقط دنیا ہی دارالعمل نہیں،بلکہ آخرت بھی دارالعمل ہے۔ زندگی اور عمل ایک ہی چیز ہیں۔ زندگی کا مقصود ہر درجہ حیات سے آگے گزرتے رہتا ہے۔
(۱۹) فرد کی خودی کے علاوہ ملت کی بھی ایک خودی ہے۔ فرد کی خودی رہبانی تنہائی میں محض خدائے واحد کی طرف رجوع کرکے ترقی نہیں کر سکتی،اس لئے اسلام نے رہبانیت کو ممنوع قرار دیا۔
(۲۰) خدا اسلام کی تلقین سے ایک نصب العینی ملت کو وجود میں لانا چاہتا ہے جو مذکورہ صدر حقائق حیات سے آشنا ہو کر تمام نوع انسان کیلئے نمونہ بن سکے۔
(۲۱) اس ملت کی امتیازی خصوصیت یہ ہو گی کہ وہ رموز توحید کی عارف ہو کر زندگی کی کثرت کو وحدت میں منسلک کرے گی۔
(۲۲) تمام نوع انسان از روے قرآن ایک نفس واحدہ کے شجر کی شاخوں پر مشتمل ہے۔
انسانوں نے جغرافیائی،نسلی،لسانی اور قبائلی قومیتوں کو معبود بنا کر نوع انسان کی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے،اس کی وجہ سے اخوت و محبت عالم گیر نہیں بن سکی۔ اس وحدت آفرینی کی واضح تعلیم اسلام میں ملتی ہے جس کو معرض وجود میں لانے کی ایک جھلک طلوع اسلام کے زمانے میں ملتی ہے۔ رفتہ رفتہ مسلمان خود اس حقیقت سے غافل ہو گئے،قوموں اور فرقوں میں بٹ گئے اور فرنگ کی تقلید میں نسلی اور لسانی قومیتوں کے شعائر اختیار کرنے لگے۔
(۲۳) مومنوں کی جو ملت خدا کا مقصود تھی وہ اس وقت نظر نہیں آتی لیکن اگر اسلام کی تعلیم صفحہٴ ہستی سے مٹ نہ جائے تو اسی تعلیم کی بدولت ایک نصب العینی ملت وجود میں آ سکتی ہے۔ خدا خود اسلام کا کفیل و محافظ ہے اس لئے اس گری ہوئی ملت اسلامیہ پر موجودہ مفسرین کا رخ اس وقت انہیں حقائق کی طرف پھر رہا ہے جو تعلیم اسلامی کا اہم جزو تھے۔
(۲۴) اس وقت مسلمانوں کو خالص قرآنی اسلام اور سنت نبوی کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی تہذیب و تمدن کی کورانہ تقلید اور کسی انداز فکر و عمل کی نقل سے وہ دوبارہ زندگی حاصل نہیں کر سکتے۔ روحانیت کے لحاظ سے مشرق بھی مردہ ہے اور مغرب بھی مردہ۔ اس وقت امت وسطیٰ اور ملت بیضا نہ شرق کی جامد زندگی کی تقلید سے پیدا ہو سکتی ہے اور نہ فرنگ کی نقالی سے:
بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو کہ نیرزد بجوے ابن ہمہ دیرینہ و نو
(۲۵) اقبال اسلامی شریعت کی اساسی چیزوں کو لازوال حقائق سمجھتا ہے جو ہر دور میں تمام انسانوں کیلئے سرچشمہ حیات بن سکتی ہیں۔
لیکن اس کے نزدیک فقہ کا تمام دفتر نظر ثانی کا محتاج ہے،زندگی کے سانچے بہت بدل گئے ہیں،فقہی مسائل میں سے بعض مسائل اب بھی دیگر اقوام کی شریعتوں اور قوانین سے افضل ہیں،لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جسے کچھ بدلتی ہوئی زندگی نے منسوخ کر دیا ہے۔ تشکیل فقہ جدید کا کام بہت ضروری ہے لیکن اس کیلئے ایسے مجتہدوں کی ضرورت ہے جو اسلامی شریعت کی روح سے بخوبی آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ تہذیب و تمدن،سیاست و معاشرت سے بھی اچھی طرح واقف ہوں۔
افسوس ہے کہ اس کام کے اہل لوگ کہیں نظر نہیں آتے۔
(۲۶) فقہ کے علاوہ اسلام کے بنیادی عقائد اور نظریات حیات کو بھی قدیم فلسفے اور علم الکلام کے انداز میں پیش کرنا کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔ زمانے کا عقلی مزاج بدل گیا ہے۔ فرنگ کے طبیعی علوم اور فلسفے نے مسائل کا رخ بدل دیا ہے۔ خود اہل مغرب میں بعض مفکرین میں گہری بصیرت پیدا ہو گئی ہے۔
جس سے مسلمان بھی استدلال میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مغرب کی ہر چیز سے گریز کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ خود اس کی نشاة ثانیہ میں اسلامی افکار کے محرکات وجود تھے۔ تجربی سائنس کی ابتدا مسلمانوں نے کی اور جس عادلانہ معیشت کیلئے مغرب میں جمہور جدوجہد کر رہے ہیں اس کے بہت سے عناصر اسلامی ہیں۔ کورانہ تقلید فرنگ تو یقینا نفع سے زیادہ نقصان رساں ہو گی لیکن علم کے معاملے میں مسلمان کا رویہ ”خذما صفا و دع ماکدر“ ہونا چاہئے۔
خود فرنگ کی زندگی میں اسلامی محرکات بھی موجود ہیں۔
(۲۷) محض نقالی سے فرد اور ملت دونوں کی زندگی بے روح ہو جاتی ہے۔ اسلام کا ایک مخصوص اور جامع نظریہ حیات ہے۔ وہی مومن کی خودی اور خوداری کو استوار کر سکتا ہے،آج تک کوئی بلند پایہ ملت محض نقالی کی بدولت پیدا نہیں ہوئی۔ ملت اسلامی کا احیا اسی سے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی خودی میں غوطہ زن ہو اور زندگی کو دوسروں کی نگاہ سے نہ پرکھے۔ اس وقت اسلامی ملتیں نقل فرنگ پر آمادہ معلوم ہوتی ہے اور اسی کو ترقی سمجھتی ہیں لیکن:
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
###

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط