گیارہواں باب:
عشق کا تصور
۲۵۸/۱۲ سرمد شہید مرتبہ ابو الکلام آزاد مطبوعہ لاہور (ادبستان۔ ۱۹۷۳) ص ۹۱۔ ربانی کا دوسرا شعر یہ ہے:
عمرے باید کہ بار آید بگنار
این دولت سرمد ہمہ کس راندہند
۲۵۸/۲۲ کتاب مثنوی ص ۴۔ پہلے مصرع میں ”تفسیر و بیان“ کی بجائے ”تفسیر زبان“ ہے۔
۲۵۹/۱۰ حوالہ کسی گزشتہ حاشیے میں دیا گیا ہے۔
۲۵۹/ ۱۴ کتاب مثنوی ص ۲۔ پہلے مصرع میں ”اے دواے“ کی بجائے ”اے طبیب“ ہے اور اس مصرع سے پہلے یہ مصرع ہے:
شادباش ای عشق خوش سودای ما
۲۶۰/۲ دیوان حافظ ص ۱۳۲
۲۶۰/۶ کتاب مثنوی ص ۲۰۔ پہلے مصرع میں ”در حضور“ کی بجائے ”صحبت با“ ہے
۲۶۰/۸ کلیات اقبال فارسی ص ۳۹۴۔ پہلا مصرع ہے: وادی عشق بسے دور و دراز است ولے
۲۶۱/۱ البقرہ۔
(جاری ہے)
۱۶۵… (اور جو مومن ہیں) ان کو (صرف) اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہایت قوی محبت ہے
۲۶۱/۱۱ الانفعال۔ ۱۷… اور آپ نے وہ خاک ک مٹھی نہیں پھینکی لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ پھینکی
۲۶۲/۲۱ مثنوی شاہ بو علی قلندر ص۔ ”نور حق“ کی بجائے ”سر حق“ ہے
۲۶۳/۴ کلیات میرزا عبد القادر بیدل (مطبوعہ مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، لاہور) ص ۴۲۔ پہلے مصرع میں ”گر“ کی بجائے ”اگر“ ہے۔
کلیات میں پہلے مصرع میں سمن کی بجائے ”چمن“ جو کتابت کی غلطی ہے
۲۶۳/۶ یہ اقتباس بیدل ہی کی مذکورہ غزل کے اس شعر سے ماخوذ ہے:
ز سروش عالم کبریا ہمہ وقت می رسد این ندا
کہ بخلوت ادب و وفا ز در برون نشدن درآ
۲۶۳/۱۵ کلیات اقبال فارسی ص ۶۵۳
۲۶۵/۱۶ یہ شعر مغربی کا ہے۔ شعر العجم جلد پنجم (مطبوعہ کشمیری بازار لاہور ص ۱۰۰) میں لیکن کی بجائے ”اما“ ہے۔
۲۶۵/۱۸ دیوان غالب ص ۱۹۵
۲۶۶/۱ حوالہ پہلے گزر چکا ہے
۲۶۶/۲ کتاب مثنوی ص ۱
۲۶۶/۱۶ ایضاً ۳۰۰۔ آخری شعر میں ”پرآں“ کی بجائے ”قربان“ ہے۔
۲۶۶/آخر ایضاً
۲۶۷/۴ حوالہ پہلے گزر چکا ہے
۲۶۷/۵ ”اخوان الصفا و خلان الوفا“ چوتھی صدی ہجری/ دسویں صدی کے ایرانی فلاسفہ کا ایک گروہ،جنہوں نے یونانی فلسفہ اور دین اسلام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئے ٹھوس اقدام کئے۔
تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو تاریخ ادبیات در ایران جلد اول تالیف دکتر ذبیح اللہ صفا مطبوعہ تہران ص ۳۱۹ ببعد
۲۶۷/۱۱ کتاب مثنوی ص ۳۱۲،۳۱۳،بادئی تغیر
۲۶۷/۲۲ ایضاً ۵۲۹
۲۶۸/۱۵ آل عمران۔ ۱۹۱… (اہل عقل… آسمانوں اور زمین کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار آپ نے اس کو لایعنی پیدا نہیں کیا۔
۲۶۹/۴ الدھر۔ ۱۔
بے شک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آ چکا ہے جس میں وہ کوئی چیز قابل تذکرہ نہ تھا (یعنی انسان نہ تھا بلکہ نطفہ تھا)
۲۷۱/۲۳ کلیات اقبال فارسی ص ۹۳۸
۲۷۲/۸ ایضاً ص ۴۶۸
۲۷۲/۱۲ کلیات اقبال اُردو ص ۳۵۲
۲۷۲/۱۷ کتاب مثنوی ص ۵۶
۲۷۲/۲۲ کلیات اقبال اُردو ص ۳۲۶
۲۷۳/۳ کلیات اقبال فارسی ص ۲۷۳،۲۷۴
۲۷۳/۱۷ ایضاً ص ۶۱۰
۲۷۴/۱۰ ایضاً ص ۶۰۹
۲۷۴/۱۷ ایضاً ص ۶۵۷،۶۵۸
۲۷۴/۲۲ ایضاً ص ۲۲۵۔
اس میں پہلے شعر کا دوسرا مصرع دراصل پہلا مصرع ہے۔
۲۷۵/۱ مکمل شرح کلام غالب از عبد الباری آسی (صدیق بک ڈپو لکھنوٴ ص ۵۳)
۲۷۵/۳ کلیات دیوان شمس تبریزی (تہران) ص ۱۶۶۔ پہلا شعر غزل کا چودھواں شعر ہے جبکہ دوسرا غزل میں دسواں شعر ہے۔ دوسرے مصرع میں ”دام“ کی بجائے ”دیو“، تیسرے مصرع میں از کی بجائے ”زیں“، چوتھے میں ”یزدانم“ کی بجائے ”دستانم“ پانچویں میں ”گفتم“ کی بجائے ”گفتند“ اور ”گفتہ“ کی بجائے ”جستہ“ ہے
۲۷۵/۱۹ کلیات اقبال فارسی ص ۵۲۲
۲۷۶/۴ احزاب۔
۷۲… (تحقیق انسان) عالم ہے،جاہل ہے۔
۲۷۶/۹ کلیات اقبال فارسی ص ۶۵۳
۲۷۶/۱۱ ایضاً ص ۶۵۳،۶۵۴
۲۷۷/۱ کتاب مثنوی ص ۳۲۰۔ ”مستان“ کی بجائے ”ہستان“ ہے
۲۷۷/۳ ایضاً ص ۱۸۔ ”کاندراں“ کی بجائے کاندرو ہے۔
۲۷۷/۶ دیوان غالب ص ۶۲
۲۷۷/۱۲ ملاحظہ ہو حاشیہ ۹۸/۱۸۔ خلیفہ مرحوم نے یہاں صرف ”مرزا صاحب“ لکھا ہے اور چونکہ اس سے پہلے مرزا غالب کا ذکر اور شعر آ چکا ہے اس لئے یہ شعر غالب سے منسوب سمجھا جائیگا لیکن یہاں خلیفہ مرحوم کو سہو ہوا ہے۔
یہ شعر میرزا صائب سے منسوب ہے۔
۲۷۷/۱۸۔ کلیات غالب فارسی ص ۴۲۰۔ ”بجاماندم“ کی بجائے ”بوفامردم“ ہے
۲۷۸/۵ کلیات اقبال اُردو ص ۵۰
۲۷۸/۱۸ ایضاً ص ۵۱
۲۷۹/۱۰ ایضاً ص ۵۸
۲۷۹/۱۶ ایضاً
۲۷۹/۲۵ کتاب مثنوی ص ۴۶۵۔ دوسرا مصرع ہے: و آن دوا در نفع ہم گمرہ شود
۲۸۰/۱ کلیات اقبال اُردو ص ۱۵۶
۲۸۰/۵ کتاب مثنوی ص ۷
۲۸۰/۱۰ کلیات اقبال اُردو ص ۱۲۲
۲۸۰/۲۰ ایضاً ص ۱۲۳
۲۸۱/۸ دیوان غالب ص ۲۳۱۔
پہلا مصرع ہے: ہے چشم تر میں حسرت دیدار سے نہاں
۲۸۱/۱۱ یہ شعر تو کلیات اقبال فارسی میں کہیں نظر آتا ہے اور نہ سرود رفتہ ہی میں
۲۸۱/۱۵ کلیات اقبال اُردو ص ۵۸۹
۲۸۱/۱۸ ایضاً ص ۱۰۵
۲۸۱/۲۳ دیوان غالب ص ۱۰۸۔ ”کہتے ہیں“ کی بجائے ”باندھتے ہیں“ ہے
۲۸۲/۵ کلیات اقبال اُردو ص ۱۲۹
۲۸۲/۹ دیوان حافظ ص ۹۷
۲۸۲/۱۷ پہلا مصرع: بزیر کنگرہ کبریاش مردانند سوانح مولانا روم از علامہ شبلی مرتبہ سید عابد علی لاہور ص ۷۲ بقول شبلی مرزا غالب اس شعر پر سردھنا کرتے تھے نیز ملاحظہ ہو حکمت رومی از خلیفہ عبد الحکیم لاہور ص ۱۴۰،۲۴۱
۲۸۲/۱۸ کلیات اقبال اُردو ص ۱۳۰
۲۸۲/۲۱ ایضاً ص ۱۹۳
۲۸۲/۲۴ کلیات غالب فارسی ص ۲۶۳
۲۸۲/۷ کلیات اقبال اُردو ص ۱۳۰
۲۸۳/۱۰ ایضاً ص ۱۳۲
۲۸۴/۱ کلیات اقبال فارسی ص ۱۹۵
۲۸۴/۹ کلیات غالب فارسی ص ۴۹۹
۲۸۴/۱۲ دیوان غالب ص ۴۳
۲۸۴/۱۲ کلیات اقبال فارسی ص ۱۹۶
۲۸۵/۱۴ ایضاً
۲۸۵/۲۲ ایضاً ص ۱۹۷
۲۸۶/۴ دیوان غالب ص ۴۳
۲۸۶/۹ کلیات اقبال اُردو ص ۳۰۷۔
پہلا مصرع ہے،مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا اُردو کے مشہور شاعر حفیظ ہوشیار پوری مرحوم نے لیاقت علی مرحوم کے قتل کی تاریخ اسی مصرع ”صلہ شہید… الخ“ سے نکالی تھی
۲۸۶/۱۴ کلیات اقبال فارسی ص ۱۹۸
۲۸۶/۱۷ کلیات غالب فارسی ص ۴۵۳
۲۸۶/۲۰ کلیات اقبال فارسی ص ۳۲۵
۲۸۶/۲۲ حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔
۲۸۶/آخر کلیات اقبال فارسی ص ۱۹۸
۲۸۷/۹ ایضاً ص ۱۹۹
۲۸۷/۱۱ کلیات اقبال اُردو ص ۲۷۹
۲۸۷/۱۴ دیوان حافظ ص ۱۲۵ بادئی تغیر
۲۸۷/۲۱ صنمخانہ عشق (امیر مینائی) مطبع محمد تیغ بہادر لکھنوٴ ۱۳۴۶ھ ص ۲۲۷
۲۸۷/۱۴ کلیات اقبال فارسی ص ۱۹۹
۲۸۸/۱۷ ایضاً ص ۲۰۱
۲۸۸/۲۰ کلیات اقبال اُردو ص ۲۷۸
۲۸۸/۲۵ حدیث قدسی۔
میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا،میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤ سو میں نے مخلوق کو پیدا کیا
۲۸۹/۱ کلیات اقبال فارسی ص ۲۰۱
۲۸۹/۱۶ کتاب مثنوی (رومی) کے اولین شعر کا دوسرا مصرع ص ۱۔
پہلا مصرع ہے: بشنو ازنی چون حکایت می کنند۔ دوسرے مصرع میں ”از“ کی بجانے ”وز“ ہے
۲۸۹/۱۸ کلیات اقبال اُردو ص ۲۹۹
۲۹۰/۳ کلیات اقبال فارسی ص ۱۹۹
۲۹۰/۷ ایضاً ص ۲۱۹
۲۹۰/۱۱ ایضاً ص ۲۱۰
۲۹۰/۱۸ کلیات غالب فارسی ص ۴۹۹
۲۹۰/۷ کلیات اقبال فارسی ص ۲۱۱
۲۹۱/۷ النجم۔
۱۷ نگاہ نہ تو ہٹی اور نہ بڑھی
۲۹۱/۱۹ کلیات اقبال فارسی ص ۲۲۹۔ چوکی بجائے ”گر“ ہے
۲۹۱/۲۳ کتاب مثنوی ص ۷۶۔ پہلے مصرع میں ”گر“ کی بجائے ”ور“ اور دوسرے میں ”می تراود از“ کی بجائے ”آیداز گفت“
۲۹۲/۱ کلیات اقبال فارسی ص ۲۱۴
۲۹۲/۶ کلیات اقبال اُردو ص ۳۲۳۔ پہلا مصرع: من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
۲۹۲/۱۲ کلیات اقبال فارسی ص ۲۲۵
۲۹۲/۲۰ ایضاً ص ۶۵۲،پہلا مصرع غلط چھپا ہے۔
اصل یوں ہے: زانکہ حق درباطل اور مضمراست ملاحظہ ہو جاوید نامہ ۱۹۴۷ ص ۶۹
۲۹۲/آخر ایضاً ص ۲۱۹
۲۹۴/۱ دیوان غالب ص ۱۰
۲۹۲/۳ ایضاً ص ۲۱۲
۲۹۳/۱۳ کلیات اقبال فارسی ص ۲۲۵
۲۹۳/۱۸ ایضاً صد ۱۷۔ پہلا مصرع: ماز تخلیق مقاصد زندہ ایم
۲۹۳/۲۰ ایضاً ص ۲۳۳
۲۹۴/۱ غالب کے اس شعر سے ماخوذ ہے: (دیوان غالب ص ۱۱۸):
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
۲۹۴/۱۴ دیوان غالب ص ۸۰
۲۹۴/۱۶ ایضاً ص ۱۵۰، ”مجھے“ کی بجائے ”ہمیں“ ہے
۲۹۴/۱۹ کلیات اقبال اُردو ص ۱۳۲
۲۹۴/۲۲ دیوان غالب ص ۵۶
۲۹۴/۲۴ ایضاً ص ۲۱۵ مصرع میں ”اگر“ کی بجائے ”نہیں“ اور ”نہیں“ کی بجائے ”نہ ہو“ ہے
۲۹۵/۱۳ کلیات اقبال فارسی ص ۲۴۸
۲۹۵/۱۹ کتاب مثنوی ص ۴۔
”و بیان“ کی بجائے ”زبان“ ہے
۲۹۵/۲۴ مثنوی رومی سے ماخوذ ہے۔ دوسرا مصرع ہے:
گرد لیلت باید از وی رومتاب (کتاب مثنوی ص ۴)
۲۹۵/آخر کلیات اقبال فارسی ص ۲۴۹
۲۹۶/۵ ایضاً ص ۳۲۶
۲۹۶/۱۹ دیوان حافظ ص ۷
۲۹۶/۲۱ کلیات اقبال فارسی ص ۲۹۲
۲۹۸/۴ ایضاً ص ۳۰۳
۲۹۸/۱۶ ایضاً ص ۳۵۹،بال بلبل دگر و بازوے شاہین دگراست
۲۹۸/۱۹ ایضاً ۳، ۳۶۰
۲۹۸/۵ کلیات اقبال اُردو ص ۶۳۶
۲۹۹/۱۰ دیوان حالی ص ۷۲
۲۹۹/۱۳ ایضاً ص ۱۴۴۔
دوسرا مصرع یوں ہے: یا گھر ہے وہ خو… الخ۔ تیسرے مصرع میں ”پر“ کی بجائے ”پہ“ ہے
۲۹۹/ آخر کلیات اقبال فارسی ص ۳۶۰،۳۶۱
۳۰۰/۱۰ ایضاً ص ۳۶۲۔ پہلا مصرع: چشم بکشاے اگر چشم تو صاحب نظر است
۳۰۰/۱۴ ایضاً ص ۳۶۱،۳۶۲
۳۰۰/۱۴ ایضاً ۳۶۱، ۳۶۲
۳۰۱/۲ کلیات اقبال اُردو ص ۳۰۴۔ دوسرا مصرع: اب مناسب ہے تر فیض ہو عام اے ساقی
۳۰۱/۱۳ یہ شعر عمر خیام کی ربانی سے ماخوذ ہے جس کا صحیح متن یوں ہے
گرمی نخوری طعنہ مزن مستان را
بنیاد مکن تو حیلہ و دستان را
تو غزہ بدان مشوکہ می می نخوری صد لقمہ خوری کہ می غلام است آن را (رباعیات خیام با تصاویر رنگین تصحیح مرحوم محمد علی فروغی تہران ۱۳۳۳ شمسی ص ۳)
۳۰۱/۱۶ پہلا مصرع: فقیہ مدرسہ دی مست بود و فتویٰ داد (دیوان حافظ ص ۳۱)
۳۰۲/۱۹ خیام کی یہ ربانی مذکورہ ایرانی ایڈیشن میں نہیں ہے۔
البتہ نولکشوری ایڈیشن میں بادئی تغیر ملتی ہے مجموعہ رباعیات عمر خیام۔ نولکشور لکھنوٴ ص ۷۱)
قاضی“ کی بجائے ”مفتی“، تیسرے مصرع میں ”من“ کی بجائے ”ما“ اور چوتھے میں ”زانصاف بگو“ کی بجائے انصاف بدہ“ ہے
۳۰۴/۲۰ کلیات فارسی ص ۳۷۸
۳۰۵/۱۳ کلیات اقبال اُردو ص ۴۱۶
۳۰۶/۱۶ ایضاً ص ۴۸۲،۴۸۳