پندرھواں باب:
گلشن راز جدید
۳۸۶/۳ صحیح لفظ شبستری ہے۔ ملاحظہ ہو گلشن راز جدید (مطبوعہ مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان۔ اسلام آباد موسسہٴ انتشارات اسلامی لاہور،۱۳۹۸/ ۱۹۷۸ نیز تاریخ ادبیات در ایران تالیف دکتر ذبیح اللہ صفا،تہران ۱۳۵۲ شمسی۔ جلد سوم ص ۷۶۳
۳۸۶/۳ گلشن راز ۷۱۷/ ۱۳۱۷ میں تحریر ہوئی۔ ۹۹۳ اشعار پر مشتعل ہے۔
شاعر کا نام شیخ بعد الدین محمود بن امین الدین عبد الحکیم… شبستری تبریزی ہے۔ آٹھویں صدی ہجری/ چودھری صدی عیسوی کے مشہور صوفیا اور درمیانے درجے کے شعرا میں سے ہے۔ ولادت ۶۸۷/ ۱۲۸۸ وفات بمعمر ۳۲ سال ۷۲۰/ ۱۳۲۰ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو گلشن راز جدید۔ مقدمہ،نیز تاریخ ادبیات در ایران جلد سوم ص ۷۶۳ ببعد
۳۸۶/۲۲ کلیات اقبال فارسی ص ۵۳۷
۳۸۷/۱۳ کلیات بیدل ص ۴۲ بادئی تغیر
۳۸۷/آخر کلیات اقبال فارسی ص ۵۳۸
۳۸۸/۱۰ ایضاً
۳۸۸/۱۹ ایضاً ص ۵۳۹
۳۸۹/۲ ایضاً
۳۸۹/۲۲ ایضاً۔
(جاری ہے)
نیز گلشن راز ص ۸
۳۹۰/۱۴ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۱
۳۹۰/۲۳ ایضاً ص ۵۴۲
۳۹۱/۲ ایضاً
۳۹۱/۱۷ ایضاً ص ۵۴۳،نیز گلشن راز ص ۳۳۔ باین تغیر: چہ بحر است آنکہ نطقش… الخ
۳۹۲/۱۰ کتاب مثنوی ص ۴۸۔ دوسرا مصرع پہلے ہے
۳۹۲/۱۶ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۴
۳۹۲/۴ ایضاً ۳۹۲/۲۰ کلیات اقبال اُردو ص ۳۷۵۔ اس رباعی کے پہلے تین مصرعے یہ ہیں:
خودی کو جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش…
۳۹۳/ آخر کلیات اقبال فارسی ص ۳۳۶
۳۹۴/۱ کتاب مثنوی ص ۴۸ نیز حاشیہ ۱۴ دیکھیں
۳۹۴/۴ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۶،نیز گلشن راز ص ۲۱
۳۹۴/۱۵ اور ہم انسان کے اس قدر قریب ہیں کہ اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ۔
۳۹۴/۱۹ کتاب مثنوی ص ۳۴۳
۳۹۴/۲۴ ایضاً ص ۱
۳۹۵/۲۰ یہ رباعی ”رباعیات سرمد (مرغوب ایجنسی لاہور) اور سرمد شہید۔ سوانح۔ رباعیات (ادبستان لاہور) میں نہیں ہے۔ البتہ ”کلمات الشعرا“ تالیف محمد افضل سر خوش مرتبہ ولاوری لاہور (ص ۵۱) میں بادئی تغیر ہے۔ پہلا مصرع ”آن را“ کی بجائے ”ہرگس“ ، دوسرا ”خود“ کی بجائے ”او“ اور تیسرا برشد احمد“ کی بجائے ”برفلک شہ احمد“ ہے۔
۳۹۶/۸ ایضاً ص ۵۴۶،۵۴۷
۳۹۶/۲۴ ایضاً ص ۵۴۷
۳۹۷/۲ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۷
۳۹۷/۴ دیوان غالب ص ۱۱۔ ”واقف“ کی بجائے ”محرم“ ہے۔
۳۹۷/۱۶ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۷،۵۴۸
۳۹۸/ ۱ ایضاً ص ۵۴۸
۳۹۸/ ۷ ایضاً
۳۹۸/۱۱ کلیات انوری مطبوعہ لکھنوٴ ۱۸۸۹ ص ۱۲۵
۳۹۸/۱۳ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۸
۳۹۸/۲۱ ایضاً ص ۵۴۹ نیز گلشن راز ص ۲۵
۳۹۹/۴ دیوان غالب ص ۱۶۵
۳۹۹/۱۳ مشہور ایرانی محقق و دانشور اور متخصص رومی بدیع الزمان فروز انفر نے رومی کے اس شعر کی معروف تشریح سے اختلاف کیا اور کہا ہے کہ ”نے“ سے مراد خود مولانا روم ہیں۔
تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو،خلاصہ مثنوی مطبوعہ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ لاہور ص ۶۹
۳۹۹/۲۵ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۹
۴۰۰/۷ ایضاً
۴۰۰/۱۵ ایضاً ص ۵۵۰
۴۰۰/۲۰ ایضاً
۴۰۰/۲۴ کلیات اقبال اُردو ص ۲۷۹
۴۰۰/آخر کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۰
۴۰۱/۶ دیوان غالب ص ۱۳۵
۴۰۱/۸ یہ مخمس کے ایک بند کے آخری دو مصرعے ہیں۔ دیوان میر درد مرتبہ عبد الباری آسی ص ۱۱۰ اور دیوان میر درد (شیخ مبارک علی لاہور) ص ۷۸ میں ”آہستہ سے چل“ کی بجائے ”آہستہ گزر“ ہے۔
میر تقی میر کہتے ہیں:
ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں
یہ کارگاہ ساری دکان شیشہ گر ہے
(کلیات میر ص ۱۷۶)
۴۰۱/۱۰ کتاب مثنوی ص ۲۳۔ ”خاک و با“ کی بجائے ”بادو خاک“ ہے۔
۴۰۱/۱۲ التغابن۔۱۔ سب چیزیں جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں ہیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں۔
۴۰۱/۱۸ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۰۔
دوسرا مصرع ہے: در و دیوار و شہر و کاخ و کو نیست
۴۰۱/۲۱ ایضاً
۴۰۱/۲۴ کلیات غالب فارسی ص ۴۹۸
۴۰۲/۳ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۰
۴۰۲/۱۰ یضاً ص ۵۵۱
۴۰۲/ آخر ایضاً ص ۵۵۱
۴۰۳/۱ کلیات میر ص ۷۳۔ پہلا مصرع یوں ہے: مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے۔
اسی موضع پر میر ہی کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
اس منزل دل کش کو منزل نہ سمجھئے گا
خاطر میں رہے یاں سے درپیش سفر بھی ہے
(کلیات میر ص ۳۶۳)
۴۰۳/۴ کلیات اقبال اُردو ص ۵۸۹
۴۰۳/۱۲ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۱
۴۰۳/۱۵ ایضاً ص ۵۵۲۔
نیز گلشن راز ص ۱۸ بادئی تغیر
۴۰۴/۱ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۳
۴۰۴/۸ دیوان ناسخ۔ مطبوعہ نولکشور لکھنوٴ ص ۳۔ پہلا مصرع: مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا
۴۰۴/۹ کلیات اقبال ص ۵۵۳
۴۰۴/۲۱ یہ شعر نہ تو کلیات شمس تبریزی (تہران) میں ہے اور نہ دیوان حضرت شمس تبریز مطبوعہ نولکشور ۱۹۴۴ میں۔
۴۰۴/۲۶ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۳۔
دوسرا مصرع ہے: ثریا را گرفتن از لب باب
۴۰۴/۲۷ ایضاً۔ دوسرا مصرع: تماشا بے شعا آفتا بے
۴۰۴/۲۸ ایضاً ص ۳۹۴۔ پہلا مصرع ہے: وادی عشق بسے دور و دراز است ولے
۴۰۵/۵ ایضاً ص ۵۵۳
۴۰۵/۵ ایضاً
۴۰۵/۱۱ دیوان حافظ ص ۱۲۵۔ ”فال“ کی بجائے ”کار“ ہے
۴۰۵/۱۳ کلیات غالب فارسی میں یہ شعر نہیں ہے اور نہ یادگار غالب مرتبہ حالی ہی میں کہیں نظر آیا ہے۔
سعدی اور میر تقی میر نے بھی اس موضوع پر طبع آزمائی کی ہے:
مرا گنا خودست ار ملامت تو برم
کہ عشق بار گران بود و من ظلوم و جہول
کلیات سعدی ص ۶۲۷
کی عرض جو متاع امانت ازل کے بیچ
جب اور لے سکے نہ، خریدار ہم ہوئے
کلیات میر ص ۴۴۲
۴۰۵/۱۵ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۴
۴۰۵/۲۶ ایضاً ص ۵۵۵ نیز گلشن راز ص ۲۸
۴۰۶/۴ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۵
۴۰۶/۱۷ انسان اس کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے۔
۴۰۶/۱۷ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۶
۴۰۷/۳ کلیات اقبال اُردو ص ۱۵۶
۴۰۷/۵ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۷
۴۰۷/۹ ایضاً
۴۰۷/۱۲ ایضاً ۵۵۷
۴۰۷/۱۵ ایضاً
۴۰۷/۱۸ ایضاً ص ۵۵۹۔ گلشن راز ص ۱۹
۴۰۷/۲۳ کلیات اقبال اُردو ص ۳۴۵
۴۰۸/۳ ایضاً ص ۳۲۱
۴۰۸/۶ ایضاً
۴۰۸/۱۶ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۸
۴۰۸/۲۳ ایضاً
۴۰۹/۱ ایضاً
۴۰۹/۷ ایضاً ص ۵۵۹
۴۰۹/۱۱ ایضاً
۴۰۹/۱۵ ایضاً
۴۰۹/۱۷ کتاب مثنوی ص ۳۸۔
حوالہ پہلے گزر چکا ہے
۴۰۹/۲۲ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۹
دیوان غالب ص ۱۱۔ ”واقف“ کی بجائے ”محرم“ ہے
۴۱۰/۴ ایضاً ۵۲۲
۴۱۰/۸ کلیات دیوان شمس ص ۱۶ ”گفتم“ کی بجائے ”گفتند“ ہے
۴۱۰/۱۱ کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۱۔ گلشن راز ص ۲۶۔ ”نکتہ“ کی بجائے ”نقطہ“ اور ”رمز مطلق“ کی بجائے ”مزّبق“ ہے
۴۱۰/۱۷ کتاب مثنوی ص ۱۴۰۔
”رسید“ کی بجائے ”بود“ ہے
۴۱۰/۲۰ گلشن راز ص ۲۷۔ ”انا الحق“ کی بجائے ”انا اللہ“ ہے
۴۱۱/۱ کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۱
۴۱۱/۱۱ دیوان غالب ص ۱۴۷
۴۱۱/۱۵ کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۱
۴۱۱/۱۷ ایضاً
۴۱۲/۱۰ کلیات غالب فارسی (نولکشور) میں یہ شعر نہیں ملا خلیفہ مرحوم نے حکمت رومی (ص ۱۳۴) میں بھی اس کا حوالہ دیا ہے
۴۱۳/۱۹ کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۲
۴۱۲/ آخر ایضاً ص ۵۶۲،۵۶۳
۴۱۳/آخر ایضاً ص ۵۶۳
۴۱۳/ ۱۶ کلیات اقبال اُردو میں ۵۸۰
۴۱۳/۲۱ کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۴،گلشن راز ص ۲۴
۴۱۳/ آخر کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۴
۴۱۴/۲ ایضاً ص ۵۶۵
۴۱۴/ ۵ ایضاً
۴۱۴/۹ ایضاً
۴۱۴/۱۶ ایضاً
۴۱۴/۱۸ الاعراف ۔
۱۷۲ ۔۔۔۔ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو سب(اولاد آدم) نے جواب دیا: کیوں نہیں
۴۱۴/۱۹ کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۶۔ دوسرا مصرع ہے: ہزاران پردہ یک آواز ما سوخت
۴۱۴/۲۱ ایضاً
۴۱۴/۲۴ ایضاً
۴۱۴/۲۶ ایضاً