Episode 8 - Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed

قسط نمبر 8 - غروبِ محبت - سمیرا حمید

میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کیلئے میں نے اپنا ایک قیمتی سال ضائع کیا تھا میں اسے ضائع ہی کہونگی کیونکہ میڈیکل کیلئے میرا میرٹ نہیں بنا تھا اور مجھے دوبارہ پیپرز دے کر میڈیکل کیلئے میرٹ بنانا تھا،میرٹ پر آنے کیلئے میں نے دن رات محنت کی اتنی پڑھائی کہ مجھے یقین تھا کہ اب میڈیکل کالج کے سٹاف کو مجھے اعزاز کے ساتھ کالج میں سیٹ دینی ہی ہوگی اور وہ فخر سے کہتے پھریں گے کہ حوریہ ندیم ان کے کالج کی طالبہ ہے… حوریہ ندیم ان کے کالج کی طالبہ بن گئی اور اعزاز اُسے خاندان بھر سے ملا… میڈیکل کالج کی طالبہ بننے پر…
جہاں سب آرٹ،ڈیزائن اور میڈیا سڈیز کر رہے تھے ایک میں ہی ہونہار تھی خاندان بھر میں جو ڈاکٹر بننے جا رہی تھی… مجھ سے متاثر ہونے والوں میں سب سے آگے میرے ڈیڈ تھے انہوں نے مجھے کالج آنے جانے کیلئے نئی زیرو میٹر کار گفٹ کی،وہ کار جو مجھ سے بڑی نمرہ آپی کے پاس بھی نہیں تھی… ہونہار بچوں کو کچھ تو زیادہ فائدہ ملنا چاہئے اور ان کے ذرا سے زیادہ نخرے بھی اٹھائے جانے چاہئے… تو میرے اٹھائے گئے۔

(جاری ہے)

اس ایک سال کے چکر میں،میں قدسیہ سے پورے دو سال پیچھے رہ گئی وہ دو سال مجھ سینئر ہو گئی،وہ ویسے بھی مجھ سے ایک سال سینئر ہی تھی سکول میں،ہماری دوستی سکول بس سے شروع ہوئی تھی اور دیکھنے والوں کیلئے وہ کافی پختہ دوستی تھی… جس پر رشک کیا جاتا… ناز کیا جاتا اور دعا کی جاتی کہ کاش ہمارا بھی کوئی ایسا دوست ہو… یہ کاش والا دوست قدسیہ میری تھی… مجھے لے کر قدسیہ بھی یہی دعویٰ کرتی کہ وہ میرے معاملے میں خوش قسمت ہے۔
قدسیہ کو جنون تھا ڈاکٹر بننے کا… ہماری دوستی کا آغاز بھی اسی لئے ہوا کہ ہم اکثر میڈیکل لائف کو ڈسکس کرتے تھے،اپنے پلانز ایک دوسرے کو بتاتے تھے… میں اور وہ سکول لائف سے ہی ڈاکٹر میگزین پڑھنے کے عادی تھے،میں اپنی خالہ سے آسٹریلیا سے منگواتی تھی جبکہ قدسیہ ایک سٹور سے ڈھونڈ کر پڑھتی تھی… 
میرے میگزینز اس کے میگزینز کے مقابلے میں بہت معلوماتی ہوتے تھے،میرے پاس مختلف میڈیکل رپورٹس پر مشتمل بکس بھی تھیں،آرٹیکلز بھی… تو قدسیہ بہت ممنون ہوتی تھی میری… میری ہی وجہ سے وہ اتنا کچھ پڑھ پائی تھی… اور میں بس اس کی اتنی ہی ممنون ہوتی تھی کہ وہ مختلف آرٹیکلز کو میرے ساتھ ڈسکس کر لیتی ہے جو کہ کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔
دوستی کے معاملے میں،میں ذرا مختلف انسان تھی،دوستوں کے مخصوص ہنگامے،لڑنا جھگڑنا،شور شرابا مجھے متاثر نہیں کرتے تھے،اگر قدسیہ بھی میری دوست نہ ہوتی تو شاید کوئی بھی نہ ہوتی،قدسیہ سے دوستی بھی بہت سست روی سے آگے بڑھی تھی،ایک سال تک تو میں نے اسے اپنا نمبر ہی نہیں دیا تھا اس نے دو تین بار مانگا مگر میں نے نظر انداز کر دیا… مجھے کوئی خاص ضرورت نہیں تھی کہ میں اس سے سکول سے آنے کے بعد بھی فون پر بات کروں… قدسیہ بہت بولتی تھی اور اس کا کہنا تھا کہ اسے اکثر میری یاد آتی ہے… چھٹی کے بعد فوراً گھر جاتے ہی اسے میری یاد آنے لگتی تھی… پھر رات تک وہ مجھے ایک دو بار فون کر لیتی۔
تعلیم کے علاوہ میری اپنی مصروفیات تھیں اور مجھے عادت نہیں تھی کہ میں ادھر ادھر کے لوگوں کو بھی اپنی مصروفیات میں شامل کروں نہ ہی قدسیہ میرے لئے وہ دوست تھی جس کے کان میں گھس کر میں اسے اپنی ہر بات،ہر خیال اور ہر خواب سنایا کرتی،میں خود اپنی دوست تھی… میرے گھر میں میرا مذاق اڑایا جاتا کہ میں وہ واحد انسان ہوں جس کیلئے کبھی نہیں کہا گیا 
”حوریہ ہے گھر میں،میں اس کی دوست ہوں“ مجھے اس طرح اپنا مذاق اڑائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا… بہت بچپن میں ایک بار ڈیڈ نے مجھ سے کہا تھا۔
”کسی دوست کا نہ ہونا ایک بڑی خامی ہے۔“
مجھ میں یہ خامی تھی… قدسیہ کے ہوتے بھی تھی… میں نے کبھی اس کا تذکرہ اپنے گھر نہیں کیا تھا… میں غیر ضروری باتیں کرنے کی عادی نہیں تھی… ڈیڈ کہتے انہیں میرے حد سے زیادہ پریکٹیکل مزاج سے ڈر گتا ہے۔
”ڈر کیوں؟“ میں چڑ گئی۔
”تمہارے اپنے پیمانے ہیں اور ان پیمانوں میں گنجائش بھی نہیں… لچکدار رہو اپنے اندر گنجائش پیدا کرو۔
مجھے بات ہی سمجھ میں نہیں آئی تو عمل کیا کرتی۔
یہ سب سکول لائف کی باتیں تھیں،کالج آنے میں قدسیہ کی سب سے اچھی دوست بن چکی تھی… میرے ایک دن کالج نہ جانے پر وہ خاصا ہنگامہ کرتی تھی،میرے بیمار ہو جانے پر وہ بہت بار فون کرتی تھی،اب بھی میرا مذاق اڑایا جاتا تھا کہ میں نے خالص ماؤں کی طرح خیال رکھنے والی دوست کہاں سے ڈھونڈی ہے… مجھ سے زیادہ اسے فکر ہوتی تھی کہ میرے بال رف ہو رہے ہیں،ناخنوں کی چمک ماند پڑ چکی ہے اور گالوں پر سے دانوں کے نشانات آخر کیوں نہیں جا رہے۔
قدسیہ جانتی تھی کہ اسے کب بولنا ہے اور کب خاموش رہنا ہے،میں قدسیہ کے ساتھ بہت مطمئن تھی کالج میں ہم ایسی بیسٹ فرینڈز مشہور تھیں جو ایک دوسرے کے علاوہ کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ میرے کالج جانے سے پہلے قدسیہ کی کافی ہائے ہیلو تھی کالج میں مجھے بہت کوفت ہوتی تھی جب آتے جاتے،اٹھتے بیٹھتے لڑکیاں پانچ پانچ،دس،دس منٹ کیلئے قدسیہ سے گپ شپ کرتی تھیں،میں نے قدسیہ سے کچھ کہا تو نہیں لیکن قدسیہ کافی سمجھ دار تھی،آہستہ آہستہ قدسیہ نے اپنا حلقہ محدود کر لیا،سب ہی اسے پسند کرتے تھے وہ ہر لڑکی کو اس کے نام سے اخلاص سے جانتی تھی اور اچھے نظریے سے جانتی تھی،اس کے منہ سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں نکلتی تھی جو کہ سننے والے کو بری لگے۔

Chapters / Baab of Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed