Episode 16 - Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed

قسط نمبر 16 - غروبِ محبت - سمیرا حمید

”ہاں حوریہ! کہتے ہیں غیرت سے بڑھ کر کچھ نہیں،اتنے پریشان رہتے ہیں وہ آجکل… اتنی ناسمجھ ہو جائے گی قدسیہ… اس کے پاپا نے اس کی زبان درازی پر اسے تھپڑ بھی مارے… پیار سے سمجھایا بھی حوریہ… مناتے بھی رہے لیکن وہ نہیں مان رہی،وہ چاہتی ہے کہ ایک بار عفان سے مل لیا جائے… میں بھی یہی چاہتی ہوں،اس کے پاپا تو نام بھی نہیں سننا چاہتے لیکن مجھے اپنی بچی پر بہت ترس آتا ہے… تم ایک بار مجھے اس لڑکے سے ملوا دو…“
میں جو اٹھ کر جانے کی تیاری کر رہی تھی وہیں بت بن گئی۔
”اگر آپ ملنا چاہتی ہیں تو مل لیں… ابھی اس لڑکے کو معلوم نہیں ہے کہ قدسیہ کی شادی ہو رہی ہے،یہ معلوم ہو تو وہ کچھ کر گزرے… اس کی فیملی زمین دار ہے اور وہ ذات کے معاملے میں بہت سخت ہیں،کالج میں تو یہ افواہیں بھی گردش کرتی ہیں کہ اس نے ایک دو خفیہ نکاح کر رکھے ہیں،یہ بھی سنا ہے کہ یہاں لاہور میں وہ اپنی کسی خفیہ بیوی کے پاس ہی رہتا ہے… شاید وہ قدسیہ کو بھی ایسی ہی بیوی بنالے… ابھی وہ آپ کو جانتا نہیں ہے نا… ہو سکتا ہے آپ کو جان کر وہ براہ راست کوئی نقصان پہنچائے… اس سے کچھ بعید نہیں… بہت امیر ہے،وہ کچھ بھی کر سکتا ہے…
وہ بے چینی سے انگلیاں چٹخانے لگیں۔

(جاری ہے)

”کیا ہو گیا ہے قدسیہ کو“ اتنی بیوقوفی… ابھی حرا نے بھی ڈاکٹر بننا ہے… اگر قدسیہ نے یہ سب کیا تو باقی بہن بھائی کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ ہم بہت پریشان ہو گئے ہیں قدسیہ کیلئے،تم کالج میں کسی کو پتا نہ چلنے دینا کہ قدسیہ کی شادی ہو رہی ہے۔“
”ایسا ہی ہوگا… کیا آپ اس لڑکے سے ملیں گی؟“
وہ میری طرف دیکھ کر رہ گئیں ”مل لیتی اگر وہ اس لائق ہوتا تو“
###
”تم ملی؟“ عفان نے مجھے رات ہی فون کیا،اس کا انداز بتا رہا تھا کہ اسے اس کی واپسی کی کتنی بے چینی ہے۔
”ہاں! اس کی دادو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لئے وہ کالج نہیں آ رہی… موبائل اس کا پانی میں گر گیا تھا… خراب ہے ایک دو دن میں کالج آ جائے گی… میں نے کہہ دیا تھا کہ تمہیں فارغ ہو کر فون کر لے… اس نے کہا کہ وہ ایک دو دن میں کالج آ جائے گی۔
”اچھا! شاید وہ مجھے رات تک فون کر لے…“ مجھے بائے کہہ کر اس نے فون بند کر دیا… وہ کوئی اور بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا،اس کے اندر کی بے قراری اس کے لہجے سے چھلک رہی تھی،میں بلاشبہ بجلی کے ان تاروں پر کھڑی تھی جن سے مجھے کبھی بھی کسی بھی وقت شاک لگ سکتا تھا… کچھ بھی ہو سکتاتھا… میں درمیان کے راستے میں چھپی ہوئی تھی… لیکن اگر کوئی کڑی سے کڑی ملانے والا کام کر لیتا تو عفان اور قدسیہ مجھے سے بے تحاشا نفرت کرنے لگتے۔
دو دن بعد میں اپنی کار پارک کر رہی تھی کہ مجھے قدسیہ رکشے سے اترتی دکھائی دی۔
”قدسیہ! میں نے اسے آواز دی“
”حوریہ!“ وہ تقریباً بھاگتی ہوئی مجھ سے کسی سہمے ہوئے بچے کی طرح آکر لپٹ گئی اس نے دیر تک مجھے سینے سے لگائے رکھا۔
”میں نے تمہیں بہت یاد کیا“ اس نے میرے گالوں پر پیار کیا۔
ہم دونوں کینٹین میں آکر بیٹھ گئے… عفان اپنی کلاس لے رہا تھا ورنہ وہ بھی وہیں ہوتا۔
”تم عفان کو کال کرو اور اسے کہو کلاس چھوڑ کر آ جائے… میسج کر دو… میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے… اسے کہو قدسیہ آئی ہے جلد آ جائے۔“
”اوکے… میں کرتی ہوں“ میں نے فون نکال کر کال کرنی شروع کر دی۔
”قدسیہ کالج آئی ہے… ہاں… میرے سامنے ہی بیٹھی ہے۔“
”ٹھیک ہے…“ باقی کی تفصیل میں نے میسج میں لکھ کر شیراز کو سینڈ کر دی… کال بھی میں نے اسے ہی کی تھی۔
”عفان آ رہا ہے… تم آرام سے بیٹھو۔“
قدسیہ نے میرے دونوں ہاتھ پکڑ لئے ”مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے حوریہ!
میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔ آناً فاناً میرے گھر والوں کو کیا ہو گیا ہے،وہ عفان کا نام سننا بھی نہیں چاہتے،کہاں پاپا میری مرضی کے خلاف کچھ کرنا نہیں چاہتے تھے کہاں اب انہیں شیراز سے اچھا کوئی نظر نہیں آ رہا،ماما پاپا کوئی بھی میری بات ہی نہیں سن رہے… الٹا پاپا نے مجھے مارا… عفان کا تو نام بھی سننا نہیں چاہتے… ایک بار بھی ملنا نہیں چاہتے… میری شادی کر رہے ہیں شیراز کے ساتھ…“ قدسیہ رونے لگی۔
”میرا کالج ختم ہی سمجھو… موبائل چھین لیا ہے،گھر میں مجھ پر ایسے نظر رکھی جاتی ہے جیسے میں کوئی مجرم ہوں یا میں بہت بڑا جرم کرنے جا رہی ہوں… میری نگرانی کرتے ہیں سب… پاپا آج آفس گئے تو میں چھپ کر آ گئی،میں عفان کو لینے آئی ہوں… وہ ایک بار پاپا سے مل لے گا تو ان کی سب غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی… میں عفان کے علاوہ کسی سے بھی شادی نہیں کرونگی… زہر کھلا دونگی خود کو مگر…“
”قدسیہ!“ اس آواز نے قدسیہ کا سارا خون نچوڑ ڈالا جیسے وہ یکدم سے خوفزدہ ہو گئی… دلیری سے زہر کھانے کی باتیں کرنے والی اس آواز پر سہم کر بت سی بن گئی،چچی جان بہت پریشان تھیں… تم بتا کر نہیں آئی…“ شیراز اس کے سر پر کھڑا بول رہا تھا ”چلو گھر چلیں؟“
”میں خود آ جاؤنگی تم جاؤ یہاں سے“ قدسیہ تڑخ کر بولی۔
”قدسیہ! یہاں تماشا نہ بناؤ،گھر چل کر بات کرتے ہیں… چچی جان اور چچا جان آنے ہی والے ہونگے… چلو میرے ساتھ… یہ تمہارا کالج ہے اور چچا جان کے غصے کو تم جانتی ہی ہو…“
قدسیہ کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تیرنے لگے اور اس نے بے چارگی سے میری طرف اور پھر آس پاس دیکھا… میں نے اسے اشارہ کیا کہ وہ اٹھ جائے،اس نے سر ہلا دیا… ساتھ ہی ایک اور اشارہ دیا کہ میں عفان کو فوراً اس کے پیچھے اس کے گھر بھیجیو۔
”تم بھی عفان کے ساتھ آنا پلیز“ اس نے شیراز سے نظر بچا کر میرے کان میں سر گوشی کی۔
”ٹھیک ہے تم فکر نہ کرو“ میری تسلی کافی تھی اس کیلئے وہ شکست خوردگی سے قدم اٹھاتی ایک لٹے ہوئے کاروان کی امین لگ رہی تھی کاروان جو دلوں کا ہوتا ہے۔
مجھے پہلی بار اس پر ترس آیا… بہت آیا… میری آنکھوں میں نمی تیرنے لگی… ساتھ ہی مجھے خود پر بھی ترس آیا… قدسیہ سے زیادہ آیا… میں عفان سے محبت کے معاملے میں قدسیہ سے کہیںآ گے تھی… ایسا نہ ہوتا تو میں یہ سب نہ کرتی۔
ایک دو بار اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا کہ شاید پیچھے کہیں عفان آن کھڑا ہوا ہو… لیکن پیچھے صرف میں تھی… اس کا انجام… کالج کے گیٹ کے پاس اس کے پاپا عجلت میں اندر آتے دکھائی دیئے قدسیہ پر نظر پڑتے ہی وہ لپک کر اس کے پاس آئے اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا… قدسیہ کی آنکھوں سے سیلاب رواں تھا،یہ آخری بار تھا جب میں نے قدسیہ کو کالج دیکھا۔
عفان اپنی کلاسز لیتا رہا… اسے معلوم بھی نہیں ہو سکا کہ قدسیہ کالج آئی تھی۔
ٹھیک ایک دن بعد مجھے قدسیہ کی ماما کا فون آیا وہ مجھے گھر بلا رہی تھیں،کالج سے واپسی پر میں قدسیہ کے گھر چلی گئی… آنٹی بہت غم زدہ نظر آ رہی تھیں ان کو دیکھتے ہی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ کسی سانحے سے گزری ہیں۔

Chapters / Baab of Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed