Episode 17 - Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed

قسط نمبر 17 - غروبِ محبت - سمیرا حمید

”قدسیہ کا نکاح ہو چکا ہے حوریہ…“ اس کے نکاح کی خبر انہوں نے اتنی دل گرفتی سے سنائی جیسے اس کے موت کے دن کے بارے میں خبر دے رہی ہوں۔ میں خاموش بیٹھی رہی وہ بھی خاموش رہیں،بار بار اپنے آنسو صاف کرتی رہیں۔
”قدسیہ چھپ کر کالج گئی اس بات نے اس کے پاپا کو آگ بگولا کر دیا،قدسیہ نے ان کے مان کا خون کر دیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ یہ لڑکی اب کچھ بھی کر سکتی ہے… وہ اس کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتے… انہوں نے قدسیہ کو ایسے دھتکارا جیسے کتے بلیوں کو دھتکارا جاتا ہے…“ وہ آنسو بہائے جا رہی تھیں ہتھیلیوں سے آنسو صاف کئے جا رہی تھیں۔
”اتنا شدید ڈپریشن ہو گیا تھا انہیں… بارہ گھنٹے ایمرجنسی میں رہے۔ اگر انہیں کچھ ہو جاتا میں تاعمر قدسیہ کی شکل نہ دیکھتی“
”اب کہاں ہیں انکل؟“
”اپنے بیڈ روم میں… قدسیہ دبئی جا رہی ہے شیراز کے ساتھ… ہم سب نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اسے یہاں سے دور بھیج دیا جائے،کتنا شوق تھا اس کے پاپا کو اسے ڈاکٹر بنانے کا… کتنے ارمان تھے اس کی شادی کیلئے میرے دل میں… قدسیہ نے سب خاک کر دیا… خاندان والے الگ باتیں کر رہے ہیں اتنی جلدی اور ایسے نکاح کرنے پر… اگر شیراز نہ ہوتا توہم کیا کرتے؟تم سے ملنا چاہتی ہے… آج کل میں اس کے پاپا رخصت کر دیں گے اسے…“ مجھے ساتھ لے کر وہ قدسیہ کے کمرے میں آ گئیں۔

(جاری ہے)

ماحول تو سارے گھر کا ہی سوگوار اور وحشت زدہ سا تھا لیکن سب سے زیادہ وحشت قدسیہ کے کمرے سے جھلک رہی تھی،قدسیہ بیڈ پر ٹانگوں کو پیٹ کے ساتھ لگائے گٹھڑی بنی لیٹی تھی،مجھے دیکھ کر بھی اس نے جنبش نہیں کی اور ایسے دیکھنے لگی جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔
”قدسیہ!“ میں اس کے قریب جا کر بیٹھ گئی،بہت دیر کی اس نے اٹھنے اور اٹھ کر مجھے سے لپٹنے میں اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی دیر تک ایسے ہی روتی رہی۔
”دیکھو تو حوریہ! میرے گھر والے کتنے ظالم نکلے… انہوں نے میری ایک نہیں سنی… التجائیں… ضد… غصہ کیا نہیں کیا میں نے لیکن کوئی نہیں مانا… جو پاپا میرے سر پر ہاتھ رکھا کرتے تھے انہوں نے مجھے تھپڑ مارے… سب اتنے ظالم ہو گئے،پاپا کہتے ہیں وہ میری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتے،آخر میں نے ایسا کیا کر دیا صرف شیراز سے شادی سے انکار ہی کیا تھا،عفان سے ملے بغیر ہی وہ اسے اتنا سخت ناپسند کرنے لگے… انہیں صرف شیراز ہی عزیز ہے… ہمیشہ اسے سر پر بٹھائے رکھا،اسی لئے نفرت کرتی تھیں میں شیراز سے… میرا سب کچھ چھین لیتا ہے وہ،ہمیشہ کامیاب ہو جاتا ہے… کاش کہ وہ مر جاتا یا میں…“
”تمہارا نکاح ہو چکا ہے؟“
”ہاں“ وہ رونے لگی… ”موت کی سزا سنائی گی ہے مجھے۔
بہت دیر ہم دونوں کے درمیان خاموشی رہی۔
”تمہارا شوہر ہے شیراز اب…“ میں نے اسے نرمی سے سمجھانا چاہا۔
”شوہر… ہونہہ… اس نے پاپا کے بل پر مجھ سے نکاح کیا ہے… پاپا نے کہا وہ مر جائیں گے… میری شکل نہیں دیکھیں گے… اگر یہ نکاح نہ ہوا تو… پاپا مر ہی رہے تھے حوریہ۔ نکاح کیلئے ہاں کہہ کر میں نے انہیں بچا لیا… اور خود کو ہمیشہ کیلئے مار ڈالا۔
”وہ تم سے محبت کرتا ہے،تمہیں بہت خوش رکھے گا۔“
”اس کی حمایت مت کرو“ قدسیہ چلائی،پاگلوں کی طرح چلائی” وہ ذلیل انسان،وہ کہا کرتا تھا مجھے حاصل کر ہی لے گا۔“
”قدسیہ ایسے مت سوچو۔“
”کیسے سوچوں پھر؟ بتاؤ؟ کیا سوچوں؟ میرا دل اُجڑ گیا“ اس کی ہچکیاں بندھ گئی اور وہ دیر تک روتی رہی۔” اس کے بعد میں اور کیا سوچوں؟“
”نئی زندگی… میں ہکلا گئی۔
”نئی زندگی؟“ وہ ہسڑیائی چلائی،”لاش کو نئی زندگی نہیں نئی قبر ملتی ہے اور میری قبر شیراز ہے“ وہ رونے لگی اور اتنی اونچی آواز سے رونے لگی کہ آوازیں اس کے کمرے سے باہر جانے لگیں،اس کی ماما کمرے میں آکر اسے دیکھ کر چلی گئیں،یقینا وہ کمرے کے باہر ہی کھڑی ہونگی اب وہ اس کی ہچکیوں کو سننے کیلئے کمرے کے باہر ہی پہرا دیتی ہونگی وہ کئی کئی بار اسے دیکھ کر جاتی ہونگی۔
”حوریہ!“ جب میں اٹھ کر واپس جانے لگی تو وہ سپاٹ آواز میں بولی۔
”عفان سے کہنا میری شادی ہو گئی ہے اور میں بہت خوش ہوں،عفان کو ایک بہت بڑا ہارٹ سرجن بننا ہے اور میں نہیں چاہتی کہ اس ہارٹ سرجن کے اپنے دل میں نقص ہو،دُکھ دلوں کا روگ بن جاتے ہیں اور محبت سے بڑا کوئی روگ نہیں۔“
”تم اس سے فون پر بات کر لو“ میں نے اپنے آنسو چھپا کر کہا۔
”اگر اس کی آواز سنی تو زہر کھا لونگی…“ وہ پہلے سے زیادہ شدت سے رونے لگی۔ 
”اس کے بغیر کیسے رہونگی… کیا کروں؟“ ان آخری الفاظ نے مجھے بکھیر کر رکھ دیا،میں وہیں اس کے کمرے میں بت بنی اسے دیکھتی رہی وہ اٹھ کر باتھ روم کی طرف گئی اور اندر ابلتے کڑوے پانی کو منہ کے راستے نکالنے لگی۔ یہ اس سے میری آخری ملاقات تھی جو آخری نظر میری اس کی نظروں پر پڑی تھی وہ خون کے آنسو رونے والی آنکھوں پر پڑی تھیں وہ اجاڑ اور برباد آنکھیں تھیں۔
اس ساری رات میں سو نہیں سکی،اس کی ہچکیاں مجھے بار بار سنائی دے رہی تھیں ایک ایک آنسو چلا چلا کر کہہ رہا تھا کہ وہ اور عفان ایک تھے وہ دونوں ایک دوسرے کیلئے تھے اس نے اپنے دل کو عفان کیلئے آباد کیا تھا اور اسی آباد دل کو اجاڑ کر وہ کسی اور کی بیوی بن چکی تھی۔
قدسیہ شیراز کی ہو چکی تھی۔
حوریہ کو عفان کا ہونا تھا۔
###

Chapters / Baab of Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed