Episode 20 - Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed

قسط نمبر 20 - غروبِ محبت - سمیرا حمید

اس نے اپنا ہاتھ نرمی سے میرے ہاتھ سے الگ کیا،میں نے بے چارگی سے اس کی طرف دیکھا،میری بھوری آنکھیں پانی سے بھر گئیں مجھے ایسے ہی کسی ردعمل کی توقع تھی لیکن پھر بھی بہت تکلیف ہوئی تھی،میرے آنسو باہر آنے لگے،کچھ دیر میری طرف دیکھتے رہنے کے بعد وہ چلا گیا،مجھے دکھ ہوا اس کے اس طرح چلے جانے پر لیکن میں مایوس نہیں ہوئی،کئی ہفتے وہ نظریں چرائے میرے اُداس چہرے کو دیکھتا رہا،وہ مجھ سے کترا رہا تھا لیکن وہ مجھے ناپسند نہیں کرتا تھا،وقت کے ساتھ ساتھ وہ تلخ ہو چکا تھا،وہ جذبات کچلنا سیکھ چکا تھا،مجھے ڈر تھا کہ وہ میری محبت بھی کچل دے گا۔

”تم نے ایسا سوچا بھی کیوں حوریہ!“ میں ایک بار پھر سے افسردہ صورت لئے اس کے سامنے موجود تھی۔
”ایسا سوچا کب جاتا ہے عفان… سوچا ہی تو نہیں جاتا…“
اس نے ایسے دیکھا جیسے مانتا ہے کہ میں سچ کہہ رہی ہوں
”میں بے بس ہوں حوریہ“
”میں بھی عفان“
”تمہارے لئے بہت راستے ہیں… میری طرف مت آؤ۔

(جاری ہے)

”سبھی راستے تم ہو عفان… میرے لئے سوچنے میں کیا حرج ہے… ہم ساتھ ہنس سکتے ہیں،ساتھ رو سکتے ہیں،ساتھ رہ نہیں سکتے؟
”میں اس کالج کی کسی بھی یاد کو ساتھ رکھنا نہیں چاہتا“
”مجھے یاد نہ بناؤ،زندگی کا حصہ بنا لو۔
حوریہ تم بہت اچھی لڑکی ہو،لیکن مجھے سچ میں سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں… سچ یہ ہے کہ مجھے شادی ہی نہیں کرنی،میں کسی بھی رشتے یا تعلق کیلئے تیار نہیں،نہ جانے کتنا وقت لگے،لیکن وہ وقت یہ بہرحال نہیں کہ میں کوئی فیصلہ کروں… تم اپنے لئے کچھ اور سوچ لو۔“
”میں نے تمہیں سوچ لیا ہے“
”مجھے کسی پروفیشنل سے شادی نہیں کرنی“وہ مجھے اس بہانے سے ٹالنا چاہ رہا تھا جانتا تھا کہ ڈاکٹری میرا جنون ہے۔
”ٹھیک ہے میں پروفیشنل ڈاکٹر نہیں بنوں گی“ 
”میرا جنون وہ تھا“وہ ہکا بکا رہ گیا۔
”حوریہ! کیا کہہ رہی ہو تم؟“
”میں تم سے تمہارا ذکر کر رہی ہوں… تم سمجھ کیوں نہیں رہے؟“
”تم ڈاکٹر بنو… تم مجھے مجبور کر رہی ہو۔“
”میں تمہیں منا رہی ہوں۔“
”مجھے اپنی زندگی میں فی الحال کوئی عورت نہیں چاہئے۔
”تم اپنی زندگی میں ایک دوست کو شامل کر لو،یہ دوست عورت کبھی نہیں بنے گی،کیا تمہیں میرے ساتھ سے کوفت ہوتی ہے؟ اتنے سالوں کے ساتھ میں کیا تمہیں مجھ سے کوئی الجھن ہوئی،کوئی شکوہ،شکایت… کچھ بھی اور…؟؟
وہ سوچنے لگا۔
”تم نے مجھے کبھی انکار نہیں کیا عفان،تم مجھے اب کیسے انکار کر سکتے ہو،وہ بھی بلاوجہ،بنا کسی قصور کے؟ کسی کیلئے تم مجھے سزا دے رہے ہو؟“
”مجھے سوچنے کیلئے وقت چاہئے۔
ایک خوبصورت رنگ میرے وجود میں پھوٹا۔
جس وقت پارلر جانے کیلئے میں اپنے بیڈروم میں سے اپنی چیزیں بیگ میں رکھ رہی تھی اس وقت سائیڈ ٹیبل پر رکھا چھوٹا الارم کلاک بجنے لگا تھا،یہ کلاک مجھے قدسیہ نے گفٹ کیا تھا اور یہ میری وارڈروپ کی کسی دراز میں بند تھا لیکن شاید کسی کے ہاتھوں وہ باہر نکل آیا تھا،اس الارم کے بجتے ہی مجھے قدسیہ یاد آ گئی میں نے اس کیلئے دعا کی کہ وہ شیراز کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارے اور اپنا ماضی بھول جائے۔
###
سات سال اور چند ماہ بعد میں نے قدسیہ کو انقرہ میں کڈز پلے لینڈ میں دیکھا میں وہاں حسام کے ساتھ گئی تھی،عفان کو کسی کانفرنس کے سلسلے میں ضروری جانا تھا اور وہ حسام کو بھی اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا لیکن حسام میرے بغیر نہیں جا رہا تھا،حسام ضد نہ کرتا تو عفان مجھے گھر ہی چھوڑ جاتا،اس کیلئے میں آج بھی وہی تھی جو اس کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں تھی۔
لوگوں کے ہجوم میں اسے دیکھتے ہوئے مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں اس کے پاس چلی جاؤں،جتنی وہ کالج میں پیاری ہوا کرتی تھی آج بھی اتنی ہی پیاری تھی اس کی آنکھوں کی چمک دور سے بھی دیکھی جا سکتی تھی۔
سات سالوں میں،میں نے لاکھوں بار یہی دعا کی تھی کہ کہیں سے اچانک قدسیہ مجھے مل جائے اور وہ مجھے مل چکی تھی،حسام کو مکمل فراموش کئے میں ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہی تھی۔
”قدسیہ!“ بہت دیر تک اسے دیکھتے رہنے کے بعد میں اس کے پیچھے جا کر کھڑی ہو گئی آواز اتنی اونچی نہیں تھی کہ فوراً سن لی جاتی،مگر اس نے سن لیا تھا وہ ایسے پلٹی جیسے میرے ہی انتظار میں وہاں کھڑی تھی۔
”حوریہ“ وہ مجھ سے لپٹ گئی اور میرے گالوں پر پیار کرنے لگی ۔
”میں نے تمہیں بہت یاد کیا۔“
”میں نے بھی“ میں نے سچ کہا تھا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی،میں نے مضبوطی سے اسے اپنے ساتھ کھینچ لیا،میں ایک ایسے سہمے ہوئے بچے کی طرح جسے اس کی گمشدہ ماں مل گئی ہو اس سے لپٹی رہی۔
پلے لینڈ میں بنے ریسٹورنٹ میں آکر ہم دونوں بیٹھ گئے وہ مسکرا رہی تھی… اسے مسکرانا چاہئے تھا… میں اس کی نرم پھوار سی مسکراہٹ کو حسرت سے دیکھ رہی تھی۔ کاش میں قدسیہ ہوتی،لیکن حوریہ نہ بنتی۔
”انقرہ میں شیراز کی بہن رہتی ہے،شیراز تو بہت مصروف تھا میں انہیں انقرہ گھمانے لے آئی۔“ اس نے ذرا دور اپنی دو جڑواں بیٹیوں کی طرف اشارہ کیا جو اپنی پھو پھو کے ساتھ انجوائے کر رہی تھیں۔
”تم کہاں ہوتی ہو حوریہ؟“

Chapters / Baab of Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed