Last Episode - Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed

آخری قسط - غروبِ محبت - سمیرا حمید

”ہاں“ میری سانسیں دھونکی کی طرح جلنے لگی،جس شخص نے مجھ سے کبھی محبت نہیں کی تھی اب وہ مجھ سے ہمیشہ نفرت کرے گا اب روز اول نفرت کا طوق میرے گلے میں ڈالا جائے گا۔“
”اور اب تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں معاف کر دوں؟“
”میں تم سے التجا کرتی ہوں۔“
”مجھے تم سے گھن آتی تھی… وجہ آج معلوم ہوئی کیوں آتی تھی وہ بلاوجہ نہیں تھی،میں نے زندگی میں کسی کو پہچانا یا نہیں لیکن میں نے اتنا ضرور محسوس کر لیا تھا کہ مجھے تم سے نفرت کرنی ہے کیوں کرنی ہے تم نے آج بتا دیا۔
”یہ کم ہے جو تم کہہ رہے ہو۔“
”تمہیں ایک بار بھی یہ خیال نہیں آیا کہ تم مجھے اس جہنم سے نکال دو،مجھے بتا دو کہ قدسیہ جھوٹی نہیں تھی وہ شیراز سے محبت نہیں کرتی تھی اس کی زبردستی شادی کی گئی تھی… صرف اتنا ہی کافی ہوتا میرے لئے… مجھے معلوم ہوتا کہ میں نے قدسیہ کو ٹھیک پہچانا تھا… کیا تمہیں معلوم ہے میں اس سے کتنی محبت کرتا تھا…“ وہ چلایا۔

(جاری ہے)

”تم جانتی ہو؟ اتنی نفرت کے باوجود مجھے آج بھی وہی ہر طرف وہی دکھائی دیتی ہے اس کے جانے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا،اسے پہلی بار دیکھنے سے اس سے آخری بار ملنے تک وہ ایک ایک لمحہ میرے اندر موجود ہے۔
نہ اُسے محبت کا دعویٰ کرنا تھا نہ ہی مجھے ہم دونوں کو ہی معلوم تھا کہ ہمارے درمیان کیا ہے… تم نے اس عورت سے نفرت کرنے پر مجھے مجبور کیا؟
تمہیں کیسے ہمارے اندر چھپی اس محبت کا سوراخ ملا؟ کیسے معلوم ہوا تمہیں؟؟
”کاش مجھے معلوم نہ ہوا ہوتا“ میری آواز لرزنے لگی۔
”کتنا پیار کرتی تھی قدسیہ تم سے… اسی کے پیار کو دیکھتے ہوئے مجھے تم عزیز تھی… اس کے جانے کے بعد اسی کا سمجھ کر میں نے تمہیں دوست بنائے رکھا،میری محبت میں اندھی ہو گئی تھی تو قدسیہ کی محبت کا ہی خیال کر لیا ہوتا،اس کی شادی کی خبر نے مجھے پاگل کر دیا تھا۔ تمہیں کیا لگا میں نارمل ہو گیا،بھول گیا اسے…؟؟ آج بھی ہر جگہ مجھے وہی لکھی نظر آتی ہے۔
عفان نے تنفر سے مجھے گھورا… نفرت کا طوق میرے وجود کا ہار بنا،جس محبت کا خواب میں نے دیکھا تھا اس کا یہ انجام ہوا۔
”میں اس سے محبت اور نفرت کے درمیان ہی لٹکا رہا اتنے سال،اسے گالیاں دے دیتا اور چھپ کر روتا… اسی کیلئے روتا،تمہیں ترس نہیں آیا مجھ پر؟ “اس نے پکڑ کر مجھے جھنجھوڑا۔
”مجھے ہمیشہ صرف خود پر ہی ترس آیا عفان۔
”تم نے صرف اپنا ہی سوچا… اپنی محبت… اپنی زندگی… اتنے سالوں میں بھی تم اپنی ہی محبت کی التجائیں کرتی رہیں،اپنے لئے ہی محبت مانگتی رہیں۔ جن سے محبت کی جاتی ہے انہیں تو دیا جاتا ہے،تم چھینتی ہی رہیں سب… اور اب چاہتی ہو تمہیں معاف کر دیا جائے… قدسیہ نے تمہیں معاف کر دیا… غلط کیا،اسے تم پر تھوک دینا چاہئے تھا۔“
”یہ کام تم کر دو عفان! تھوک دو مجھ پر“
”تم اس لائق بھی نہیں… افسوس میری اولاد تم جیسی کے بطن سے پیدا ہوئی… میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں خود کو جلا کر خاک کر دوں،اس خاکی پتلے کیلئے ہی تم اتنی گھٹیا بن گئیں تھیں نا… میں نے یقینا کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہوگا جس کی سزا تم مجھ ملی۔
”میں نے محبت کا گناہ کیا عفان…“
”ابھی بھی محبت کا نام لے رہی ہو… خالی ہاتھ ہو اور سمجھتی ہو کہ تم جیسے لوگ اس جذبے کے مالک ہیں…“
”ہاں! خالی ہاتھ ہوں… اس انجام تک آن پہنچی ہوں اسی لئے کہہ رہی ہوں… میں روؤں،گڑگڑاؤں،تمہارے پاؤں پڑ جاؤں… ہاتھ جوڑ کر تمہارے قدموں میں سر رکھ دوں تو بھی تم مجھ سے محبت نہیں کروں گے… اور تم میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دو تو بھی میرے وجود سے تمہیں اپنے لئے ایک ایک بوند نفرت نہیں ملے گی… میں ایک محبت کی مالک ہوں عفان… اگر میں نے تم دونوں کی محبت پر شب خون نہ مارا ہوتا تو میری جیسی محبت کی پرستش کی جاتی… میں نے اس شب خون کی سزا پا لی ہے،تمہاری نفرت ہی میرے لئے سزا ہے،گزر جانے والے ہر پل کے ساتھ تمہارے لئے میری محبت بڑھتی ہی جا رہی ہے،کیا یہ سزا کم ہے؟ کیا یہ سزا کم ہے کہ تم مجھ پر تھوکنا بھی نہیں چاہتے۔
میں تمہارے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتی اور تم مجھے دیکھنا بھی نہیں چاہتے… ان سالوں میں،میں نے بھی برابر کی سزا کاٹی ہے… یہ سب میری وجہ سے ہوا… اسے جھیلنا بھی اب مجھے ہی ہے… مجھے تم سے محبت بھی کرنی ہے اور تم سے الگ بھی رہنا ہے… تمہاری سزا تو ختم کر دی میں نے میری کب ختم ہوگی؟
”ایک عفان کیلئے تم نے اتنا کچھ کیا،اتنا جھوٹ،اتنا فریب تم تو انسانیت کیلئے ایک گالی ہو۔
”کاش تم جان سکتے تم میرے لئے کیا ہو“
”میں نے جان لیا… اسی لئے اتنی تکلیف میں رہا“ وہ طنز سے ہنسا۔
”میں جا رہی ہوں عفان“ لاکھوں کروڑوں امیدیں زندہ کی جاتیں تو بھی مجھے روک لئے جانے کی ایک امید بھی زندہ نہ ہو پائی… کچھ امیدیں،خواہش منہ بند قبروں کی طرح ہوتی ہیں کتنے ہی چکر کاٹوں،چراغ جلاؤ،قبروں کے منہ نہیں کھلتے… اور کیا کبھی کسی نے ایسا ہوتے دیکھا ہے؟
”تمہیں بہت پہلے چلے جانا چاہئے تھا“ تابوت میں آخری کیل گاڑ دیا گیا… بس اسے منہ بند قبر میں اتار دیا گیا۔
”مجھے میری ہی بددعا لگ گئی ہے،کاش اب مجھے قدسیہ کی ہی دعا لگ جائے،عفان کبھی تو صرف نفرت کو میرے لئے ترک کر دے… اور محبت تو وہ آبی چشمہ ہی رہے گا جو صرف روح میں ہی پھوٹتا ہے اور عفان پور پور بند تھا،اگلے دن شکاگو کیلئے جاتے ہوئے میرے پاس صرف ایک ہی چیز تھی اپنی ادھوری تعلیم کو مکمل کرنے کی امید… میں نے دعا کی کہ میں بھی کسی مردہ ہوئے دل میں زندگی دوڑا سکوں… کسی کے دل کے نقص کیلئے مسیحا بن سکوں… شاید کبھی…
                                   #…#…#

Chapters / Baab of Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed