Episode 5 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 5 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

رحمت
رحمت کا تصور یا اس کے وجود کا ثبوت اللہ تعالیٰ نے خود عطا فرمایا۔ اس کا ارشاد ہے اور یہ ارشاد بڑے زور دار لہجے میں آیا ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہونا یعنی خبردار میری رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ اگر انسان کے اعمال اپنے منطقی نتیجے پر منتج ہوں تو رحمت کا لفظ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ انسان محنت کرے گا ،حاصل کر لے گا۔ بدی کرے گا ،سزائے پا لے گا۔
نیکی ہو گی ،انعام پائے گا۔ ہر وجہ کا ایک نتیجہ ہے اور ہر نتیجے کیلئے کوئی نہ کوئی وجہ ہے۔ اگر وجوہ اور نتائج صرف وجوہ اور نتائج ہی ہوتے تو غالباً انسان کے دل سے امید ،آس اور رحمت کا تصور ختم ہو جاتا۔ رحمت ہوتی ہی انسان کو اس کی بداعمالیوں کی سزا سے بچانے کیلئے ،یعنی حال کی غلطی جو مستقبل میں اپنے لئے سزا مرتب کر چکی ہے یا لکھ چکی ہے ،اس سے بچانے والی شے رحمت کہلائے گی۔

(جاری ہے)

پس یہ ارشاد کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہونا ،صرف یہی مفہوم رکھتا ہے کہ اے انسان! اپنے مستقبل سے مایوس نہ ہونا اور یہ کہ اے انسان! اگر کبھی غلطی سرزد ہو جائے تو یاد رکھنا کہ غلطی کی سزا ضرور ہے لیکن یہ بات نہ بھولنا کہ میری رحمت میرے غضب سے زیادہ وسیع ہے۔ غلطی کی سزا دینے والا میں ہی ہوں۔ لیکن یہ میرا ہی فضل ہے کہ میں غلطیاں معاف بھی کرتا ہوں ،خطاؤں سے درگزر بھی کرتا ہوں ،انسان کی کمزوری کو اپنی رحمت کی طاقتیں عطا فرماتے ہوں۔
آنے والے اندیشوں میں مبتلا رہنے والے انسان کیلئے ایک صدا بلند ہوتی ہے کہ خبردار یہ نہ بھولنا کہ میں اور صرف میں اس بات پر قادر ہوں کہ گناہ معاف کر دوں اور یہی نہیں بلکہ انسان کی تمام غلطیوں کو معاف کر دوں اور یہ کہ اس کے تمام گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دوں۔ میں انسان کو تاریکیوں سے نکالتا ہوں ،اسے روشنی عطا کرتا ہوں ،ظلمات سے نور کا سفر میری رحمت کے سہارے ہو سکتا ہے۔
کافروں کو سزا سے پہلے انہیں ہدایت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمانے والا ہوں۔ بے ایمانوں کو ایمان کی دولت عطا کرتا ہوں۔
اللہ کریم کی رحمت کو اگر غور سے دیکھیں تو زندگی کے قدم قدم پر چھائی ہوئی ہے۔ ہمارا ایک ایک سانس اس کا مرہون منت ہے۔ رات کو سونے کے بعد صبح کی بیداری اس کی رحمت کے سہارے ہوتی ہے۔ انسان نہیں جانتا کہ وہ کن کن مشکل مقامات سے گزار دیا جاتا ہے۔
یہ زندگی مشاہدات سے بھری ہوئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ رحمت کے قائل نہیں ،وہ کس مشکل میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کے پاس مال ہوتا ہے ،سکون نہیں ہوتا۔ وہ اپنی آرزوئیں پوری کرکے بھی دولت سکون سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ اس کا فضل ہے کہ وہ انسان کے دل کو سکون و قرار کی دولت سے مالا مال کر دے۔
اللہ کریم نے انسان کو رحمت کا تصور دیا۔ رحمت کے خیال سے ہی انسان کے تصور میں بہار پیدا ہو جاتی ہے۔
ایسی آرزو جس کے حاصل کرنے کی خواہش ہو اور اس کا استحقاق نہ ہو ،رحمت کے انتظار میں پل جاتی ہے۔ مسلمان جنت کی تمنا میں اپنی حیات کا سفر کر رہے ہیں۔ یہ یقین کہ ان کی آخرت بہتر ہو گی ،صرف رحمت کے تصور سے حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے لئے سب سے بڑا اعزاز یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے انتظار میں رہتے ہیں۔ مسلمان رحمت کے حق سے مایوس نہیں ہوتا۔
ہم اعمال پر بھروسہ نہیں کرتے ،بھروسہ اس کے فضل پر ہے۔ ہمیں اپنے اعمال کا آسرا نہیں ،آسرا اس کی رحمتوں کا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ عبادت وہ ہے جو معبود کو منظور ہو جائے ورنہ کروڑوں سال کی عبادت ایک سجدہ نہ کرنے سے ضائع ہوتی دیکھی گئی اور مقرب معتوب ہوا کہ اس نے اپنے عمل کے غرور میں اپنا مقام چھوڑ دیا۔ یہاں مقام صرف منظوری کا ہے ،تقرب صرف رضا مندی کا ہے ،نتیجہ ،اعمال کا نتیجہ ،اعمال پر نہیں عنایات پر ہے۔
عدل اہم چیز ہے لیکن فضل عدل سے بہت زیادہ قوی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ انسان کو ضعیف پیدا کیا گیا ،ترغیبات کے رنگین جال میں انسان پھنس جاتا ہے اور جو لوگ اس جال سے بچ گئے ،وہ رحمت کے دائرے میں پناہ پا گئے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب کئے ہوئے ،اپنے نامزد فرمائے ہوئے انبیاء علیہم السلام کو دنیا میں اس لئے مبعوث فرمایا کہ وہ لوگوں کو گناہ اور کفر کی تاریکی سے باہر نکالیں۔
ان سے جہالت کے اندھیرے دور کریں اور وہ لوگ جو خواہشات کے جال میں جکڑے جا چکے ہیں ،ان کو امید اور رحمت کی قوت عطا فرما کر انہیں ہر بندھن توڑنے کیلئے تیار کر دیا جائے۔
دنیا میں آنے والے تمام پیغمبروں علیہم السلام نے انسانیت کی خدمت کی ،انسان کو فلاح کی طرف سفر کرایا اور سب پیغمبروں میں سب سے زیادہ بزرگ پیغمبرﷺ ،محبوب پیغمبرﷺ ،منور پیغمبرﷺ اور پیغمبروں کے امام پیغمبرﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتوں کے کمال کا مظہر بنا کر بھیجا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے آپﷺ کو سب جہانوں کیلئے رحمت بنا کے بھیجا۔ یہ مقام بڑے غور کا ہے کہ کیا ایک انسان سب انسانوں کیلئے اور سب جہانوں کیلئے رحمت یا باعث رحمت ہو سکتا ہے اور اگر ایک انسان سب انسانوں کیلئے ،سب جہانوں کیلئے، پوری کائنات کیلئے ،ماضی ،حال ،مستقبل کیلئے ،ظاہر باطن کی کائنات کیلئے ،رسول رحمت ہے تو وہ ایک انسان کیا انسان ہوگا۔
اب ایسے انسان کے بارے میں کچھ کہنے کی بجائے اس پر درود و سلام بھیجا جائے۔ عام آدمی اپنی ذات کیلئے باعث رحمت نہیں ہو سکتا اور سرکارﷺ پوری کائنات کیلئے باعث رحمت ہیں۔ یعنی پوری کائنات کیلئے مایوسیوں سے نکلنے کی ضمانت عطا فرماتے ہیں۔ تو مطلب واضح ہوا کہ رحمت قرب رسولﷺ ہے اور اس قرب سے محروم انسان کو اس کے اعمال کی عبرت کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
عمر گذشت کے کفر اور اس کی بداعمالیوں کے نتیجے سے بچنے کا واحد ذریعہ حضورﷺ کی مہربانی ہے۔ ہمیں اپنے اعمال کی کمی بیشی سے بچانے والی ذات حضور اکرمﷺ کی ذات گرامی ہے۔ آپﷺ کا وجود مبارک جہاں باعث تخلیق کائنات ہے ،وہاں باعث قیام کائنات اور باعث نجات کائنات بھی ہے۔
انسان دنیا کے بکھیڑوں میں مبتلا ہو کر بھول جاتا ہے کہ وہ کس سفر پر آیا ،کس مقصد کیلئے آیا اور اسے کہاں جانا ہے۔
وہ کھیل میں مصروف ہو جاتا ہے اور مقصد اعلیٰ اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ حضورﷺ کی ذات گرامی گمراہوں کو ہدایت دے کر صراط مستقیم سے آشنا فرماتی ہے۔ آپﷺ کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے کہ آپﷺ رسولوں میں سے ہیں اور آپ ہی صراط مستقیم پر ہیں۔ یعنی حضورﷺ کے راستے پر چلنے والا ،حضورﷺ سے محبت کرنے والا ،حضورﷺ کی اطاعت کرنے والا اللہ کے قرب کو حاصل کر لیتا ہے اور جس پر حضورﷺ مہربان ،اس پر اللہ مہربان اور جس پر اللہ مہربان ہو جائے ،وہ کسی اعمال کی کمی بیشی سے کیوں خوف کھائے گا۔
اللہ ہی کا ارشاد ہے کہ اے میرے محبوبﷺ! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ان پر عذاب ڈالوں جبکہ آپ ان میں ہیں یعنی جس دل میں حضورﷺ کی یاد ہے ،وہ ہمیشہ قرار میں رہے گا اور جائے قرار بہشت کے علاوہ کیا ہے؟ گویا کہ حضورﷺ کی محبت باعث حصول نجات ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان نیک اعمال نہ کرے کیونکہ یہ حضورﷺ کی محبت سے انحراف ہے۔ حضورﷺ کا ہر عمل ہمارے لئے ایک نمونہ ہے اور ہر عمل ہمارے لئے نجات کا باعث ہے۔
یہاں تک بھی کہا جاتا ہے کہ فقرائے کرام سے سرزد ہونے والی کرامتیں بھی حضورﷺ کی رحمتوں کے جلوے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ آپﷺ کی نگاہ رحمت کی ضمانت ہے۔ آپﷺ کی رحمت اللہ کی رحمت ہے کیونکہ آپﷺ خود ہی اللہ کی رحمت ہیں۔ مولانا روم کو مولوی بنانے والا عمل اس کی رحمت کا عمل ہے۔ رحمت انسان کو عام سے خاص اور خاص سے خاص الخاص بناتی رہتی ہے۔
اقبال کو محرم راز بنانے والی شے یہی رحمت ہے۔ اقبال جانتا تھا کہ اس کے شعر باقی شعراء سے زیادہ بلند نہیں ،اس کا فکر باقی فلسفیوں سے زیادہ بلیغ نہیں۔ ملت کا درد حالی کے پاس بھی تھا اور شب بیداری اسی اقبال کے بقول عطار ،رومی ،رازی اور غزالی کو بھی ملی ،لیکن اقبال کو جو پذیرائی عطا ہوئی ،جو قوم نے اپنے دل میں اسے جگہ دی ،یہ صرف اور صرف حصول رحمت مصطفیﷺ کے دم سے ہے۔
اقبال کردار کا غازی نہ ہونے کے باوجود قلندرانہ مقامات پر فائز کیا گیا۔ اس کی آواز قوم کیلئے ایک پرسوز حدی خواں کی آواز تھی۔ اس کا نالہٴ نیم شبی آج بھی قوم کیلئے بیداری کا پیغام رکھتا ہے۔ اس نے قوم کو ایک ایسے تصور سے ہمکنار کیا جسے پاکستان کا لقب ملا۔ یہی تصور اقبال تھا۔
رحمت ایک مستقبل کا تصور دے کر انسان کو جاوداں کر دیتی ہے۔
خاک افلاک تک جا پہنچتی ہے۔ رحمت کے شکر میں جھکا ہوا سر سرفراز کر دیا جاتا ہے۔
رحمت ایک عام زندگی میں ایسا انقلاب برپا کرتی ہے کہ وہی عام انسان خاک کے ایک ذرے سے ماہتاب و آفتاب بنا دیا جاتا ہے۔ آنے والے زمانوں کو رخ عطا کرنے والے لوگ رحمت سے نوازے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی فکر رحمت کا کرشمہ ہے۔ ان کی فصاحت اور بلاغت رحمت کا اعجاز ہے۔
رحمت رفعتیں عطا کرتی ہے ،فانی کو جاودانی بناتی ہے ،جزو کو کل کے راستے دکھاتی ہے ،کثرت کو وحدت میں سیمٹتی ہے ،مایوسیوں میں امیدوں کے چراغ جلاتی ہے ،ہونی کو انہونی اور انہونی کو ہونی کر دیتی ہے ،غریبی میں بادشاہی اور بادشاہی میں فقیری کو عطا کرنے والی شے رحمت ہے۔ وہ جو دیکھنے میں خاک نشیں نظر آتا ہے ،حقیقت میں عرش نشیں ہے۔ دونوں جہاں کیلئے رحمتوں کا پیغام لانے والی ذات انسان کو تکلیفوں میں مبتلا دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہے۔
آپﷺ کو اپنا کوئی غم نہیں۔
 آپﷺ آدھی آدھی رات تک جاگتے ہیں ،سجدے کرتے ہیں اور روتے ہیں۔ بس امت کا حال دیکھ کر آپﷺ کو آزردہ کرنے والی بات صرف یہی ہے کہ امت نے آپﷺ کا راستہ ترک کر دیا ،لیکن ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ ابھی امیدوں کے چراغاں ہیں ،ابھی اعتماد کی منزلیں طے ہو رہی ہے۔ ابھی لوگوں میں یقین ہے ،آپﷺ کی رحمتوں کا ،آپﷺ کی نوازشوں کا۔
حق نہ رکھنے کے باوجود آپﷺ کی عنایت کو اپنا حق سمجھنے والے اتنی ناحق بات بھی نہیں کر رہے۔ یہی تو حق ہے اور یہی اللہ کے حکم کا مفہوم ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہونا یعنی عمل کی کوتاہی کی وجہ سے حق نہ رکھنے کے باوجود رسول رحمت کی عنایت کو اپنا حق مانتے رہنا۔ یہی راستہ مایوسیوں سے بچنے کا راستہ ہے۔ اسی یقین کو ایمان کہتے ہیں۔ وہ اللہ جس نے ہمیں اپنا دین عطا فرمایا ،اپنی عنایات عطا فرمائیں ،ہمیں آنکھیں عطا کیں اور آنکھوں کیلئے روشن روشن کائنات بنائی ،اسی اللہ نے جس نے ہمارے لئے دنیا کی راہیں آسان فرمائی ،ہمارے لئے دریاؤں کو حکم دیا کہ ہمیں راستہ دے دیں ،بلند پہاڑوں کیلئے حکم ہے کہ انسان کو راستہ دے دیں۔
 ہر راز کو حکم ہے کہ انسان کیلئے آشکار ہو جائے ،ہر مخفی کو ظہور کا حکم دینے والا اپنی رحمتوں کے اٹل ہونے کا اعلان فرماتا ہے۔ رحمت آکے رہے گی ،گناہ معاف کر دیئے جائیں گے ،شرط اظہار ندامت ہے ،شرط خلوص دل سے توبہ ہے۔ شرط حضورﷺ کے دامن سے وابستہ ہونے کی تمنا ہے۔ شرط اللہ کی رسی کو مل کر مضبوط پکڑنے کی ہے یعنی شرط رحمت کی تمنا ہے اور اس کا انعام حصول رحمت۔
رحمت کے کرشمے دیکھنے والی آنکھ اکثر پرنم رہتی ہے۔ رحمت والے لوگ اس جہاں میں رہ کر بھی اس جہاں کے خیال میں زندہ ہوتے ہیں۔ دور کے زمانے بھی ان کو حضورﷺ کے قریب رکھنے میں رکاوٹ نہیں ڈالتے کیونکہ اس نگاہ میں صدیوں کے فاصلے بھی کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ وہ نگاہ صدیاں عبور کرکے اپنے درویشوں کی زندگی کو آج بھی روشن کرتی ہے۔ آپﷺ آج بھی قریب کرتے ہیں اور قریب ہوتے ہیں۔
یہی رحمت کا کرشمہ ہے کہ اس میں نہ ماضی دور ہوتا ہے نہ مستقبل بعید ہوتا ہے۔ اس میں فاصلے سمٹ جاتے ہیں ،فاصلے تاریخ کے ہوں یا جغرافیے کے ،اس میں کچھ اہمیت نہیں رکھتے۔ آج رجوع کرنے والا پرانے جلوے کو حاضر پاتا ہے۔ گزرے زمانے کے جلووں کو پکارنے والا مایوس نہیں کیا جاتا کیونکہ جلوے گزرتے نہیں۔ سورج میں روشنی قائم ہے ،چاند میں نور باقی ہے۔
آسمانوں کی گردش برقرار۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کائنات کیلئے رحمت کا سبب ماضی بن جائے۔ یہ ناممکن ہے۔ کائنات حاضر ،رحمت حاضر ،کائنات موجود رحمت موجود بلکہ یہاں تک کہ کائنات نہ موجود ہو ،رحمت تب بھی موجود رہتی ہے کیونکہ رحمت دراصل حی و قیوم کی صفت ہے اور اس صفت سے حضورﷺ کو متصف کیا گیا۔ جب صفت نہیں مر سکتی تو موصوف نعوذ باللہ کیسے فانی ہو سکتے ہیں۔
رحمتیں مرنے کے بعد بھی حاصل ہوتی رہتی ہیں۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے ماں باپ پر رحم فرما ،ہماری اولادوں پر فضل کر اور اگر ماں باپ یا اولاد رخصت ہو چکے ہوں ،تب بھی دعا کے حوالے سے ان پر رحمت ہو سکتی ہے۔ رحمت ہڈیوں پر کیا ہو گی ،خالی بے جان گوشت پوست پر کیا ہو گی ،رحمت تو ہمارے ماں باپ پر ہو گی اور اگر ماں باپ زندہ نہیں تو پھر ماں باپ کا لفظ کس کیلئے ہے۔
ہم کسی واہمے کیلئے دعا نہیں کر رہے ہیں کیونکہ یہ دعا ہمیں حی و قیوم نے بتائی ہے۔ اللہ واہموں کی بخشش کی دعائیں نہیں بتاتا۔ رحمت کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جاری ہے اور رحمت مانگنے والے کیلئے ہے اور نہ مانگنے کیلئے بھی ہے اور کبھی کبھی تو نہ مانگنے والے زیادہ خوش قسمت نظر آتے ہیں کہ ان کیلئے ہر صاحب راز نے دعا کی۔
اللہ کو بھول جانے والے لوگ اللہ کو تو یاد ہیں۔
وہ جنہوں نے اللہ کو نظر انداز کر دیا ،اللہ انہیں نظر انداز نہیں کرتا۔ وہ جنہوں نے اللہ کو چھوڑ دیا ،اللہ انہیں نہیں چھوڑتا۔ اللہ نے پیغمبر بھیجے کہ ان ناسمجھ لوگوں کو ہدایت عطا فرمائی جائے۔ ان لوگوں کا استحقاق نہیں ،لیکن ان پر رحمت کرنا رحمتوں والے کی شان ہے۔ وہ اتنی بڑی رات کے اندر روشنی کا چراغ جلاتا ہے۔ وہ کفر کے اندھیروں میں ایمان کے نور کا جلوہ دکھاتا ہے۔
رحمت حق اس شخص کی تلاش میں رہتی ہے جس کی آنکھ پرنم رہتی ہے۔ آنسوؤں کے قریب رہنے والے رحمت حق کے قریب ہیں۔ انسان کی زبوں حالی پر ترس کھانے والے رحمت حق کے اندر ہیں۔ رحمت کرنے والے دراصل رحمت حاصل کرنے والے ہیں۔ انسان کے قریب رہنے والے خدا کے قریب ہیں اور خدا کے قریب رہنے والے محبوب خداﷺ کے قریب رہتے ہیں اور یہ قرب ،قرب رحمت ہے۔
رسول رحمت کی ہر بات حصول رحمت کا ذریعہ ہے۔ آپﷺ نے کسی سے کبھی انتقام نہیں لیا۔ غلاموں کو ایک دن میں ستر مرتبہ معاف کرنے کا حکم فرمایا۔ آپﷺ پوری کائنات کیلئے دعوت رحمت ہیں۔ اپنوں کو عبادت کے غرور سے بچاتے ہیں اور عبادت سے محروموں کو رحمت کا تصور دے کر عبادت کے قریب لاتے ہیں۔ فریاد کرنے والوں کو رحمت کے حصول کا حق عطا فرماتے ہیں۔ جس کو رحمت کا حق مل گیا ،اسے رسول رحمت کے دامن میں پناہ مل گئی۔ جسے حضورﷺ کے دامن میں پناہ مل گئی ،اس کا کام آسان ہو گیا یعنی حضورﷺ پر ہمیشہ درود و سلام بھیجتے رہنا اور یہی اصل نسخہ ہے ،حصول رحمت کا۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif