Episode 9 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 9 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

بچہ
میں دیکھتا ہوں کہ کہ ایک بچہ ہے ،اکیلا ،اداس۔ لیکن اس میں کسی قسم کی گھبراہٹ یا مایوسی نہیں۔ وہ بچوں کی طرح نہ بے تاب ہے ،نہ بے چین اور نہ ہی بے فکر۔ بڑی عجیب بات تھی۔ لیکن وہ بچہ اتنا اکیلا بھی نہیں تھا۔ اس کے اردگرد ہجوم تھا اور یہ ہجوم بڑے انسانوں کا تھا۔ اس سارے ماحول میں وہ بچہ اکیلا تھا کیونکہ اور کوئی بچہ نہ تھا۔ میں یہ جاننے کیلئے کہ وہ کون ہے اور یہ سب کون ہیں اور یہ میدان کونسا ہے ،اس بچے کے قریب گیا اور اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھوں ،وہ خود ہی بولنے لگ گیا۔
یہ مزید تعجب کی بات تھی۔ اس کے انداز سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یا وہ مجھے جانتا ہے یا میں اسے جانتا ہوں۔ میں نے مزید تجسس کا اظہار کیا تو بچہ بولا ”بے صبر ہونا اچھی بات بھی نہیں۔

(جاری ہے)

زبان اور کان کے استعمال سے پہلے آنکھوں کا استعمال کرنا چاہئے۔ دیکھو یہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ سب لوگ ایک ہجوم ہیں اور سارے کے سارے تنہا ہیں۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہیں۔

یہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں لیکن ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور اسی لئے یہ ایک دوسرے کے پاس سے اجنبی اور بیگانے بن کر گزرتے جا رہے ہیں۔ ان لوگوں کے اندر ایک اور ہجوم چل رہا ہے۔ یہ سب خاموش ہیں لیکن ان کے اندر کا ہجوم ایک ہنگامہ کھڑا کر رہا ہے۔ اندر کا ہجوم ،ہجوم خیال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سب ایسے ہیں ،جیسے یہ سب ہیں۔“
”اور ہاں“بچے نے گفتگو جاری رکھی ”اچھا تو تمہارے سوال کا جواب تو دوں کہ میں کون ہوں ،یہ کون ہیں ،یہ سب کیا ہے اور یہ کہ یہ کونسا میدان ہے۔
تم نے اتنے سوال کر دیئے کہ مجھے جواب کی مشکل سے دوچار ہونا پڑا۔“
بچے کی باتوں میں کہیں کوئی بچپن کا تاثر نہیں تھا۔ اس عمر میں وہ ایسے تھا تو ویسی عمر میں کیسا ہوگا ،میں سوچنے لگ گیا۔ بچے نے میری حیرت کی پرواہ کئے بغیر اپنا بیان جاری رکھا۔ وہ کہنے لگا ”یہ سب میرے رشتہ دار ہیں ،میرے عزیز ہیں ،میرے ہی ہیں ،میرے ہی تھے۔ کل تک یہ سب میرے ساتھ تھے۔
ہم سب یہاں سے دور گاؤں میں رہا کرتے تھے۔ یہ لوگ آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے مجھے چھوڑتے چلے گئے ،اس وعدے کے ساتھ کہ وہ جلد واپس آئیں گے۔ لیکن وہ اس میدان میں آکر سب کچھ بھول گئے۔ بلکہ ایک دوسرے کی پہچان تو کیا ،خود اپنی پہچان اور شناخت بھول گئے۔ شاید واپسی کے وعدے اور واپسی کے راستے ہی بھول گئے۔ ان کے اس دیس میں اب میں اکیلا رہتا ہوں اور میرے ساتھ ان لوگوں کی یادیں رہتی ہیں۔
ان کی یادیں اب پرانے کھنڈرات میں چمگادڑیں بن کر الٹی لٹکتی ہیں۔ وہ صرف رات کے اندھیروں میں نظر آتی ہیں۔ یہ لوگ بڑے بڑے کشادہ ماحول کو چھوڑ کر آئے ہیں لیکن ان لوگوں نے مجھے کبھی یاد نہیں کیا۔ ان کے دل تنگ ہو گئے ہوں جیسے۔ میں مدت بسیار ان کا انتظار کرتا رہا۔ آخر تھک ہار کر ان کی تلاش میں یہاں آ نکلا۔
یہ میدان ،میدان خود پرستی ہے ،اسے آپ دولت اور شہرت کے حصول کی ”تمنا گاہ“بھی کہہ سکتے ہیں۔
یہاں ان لوگوں نے اپنے قد بڑھا لئے ہیں۔ اپنے لہجے بدل لئے ہیں۔ اپنے دل تک سے دستبردار ہو چکے ہیں ،یہ لوگ۔ یہ مشینوں اور کمپیوٹروں پر کام کرتے کرتے خود بھی کمپیوٹر ہو گئے ہیں۔ یہ سب مجھے دیکھتے ہیں ،لیکن پہچانتے نہیں۔ یہ لوگ میری آواز اور پکار سنتے ہیں لیکن ان کو اپنے کانوں پر اعتبار نہیں۔ یہ سب کبھی کبھی مجھے یاد بھی کرتے ہیں لیکن مشینوں نے ان سے احساس چھین لیا ہے۔
یہ اپنے قد سے نکل کر اپنے اصل سے کٹ گئے ہیں۔“
بچہ اپنے بیان کے جادو میں مجھے لپیٹتا جا رہا تھا اور میں ایک بچے کے ہاتھوں بے بس ہونے کی ندامت کو چھپانے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھا کہ بچہ مجھ سے مخاطب ہوا ”تم ایسا کیوں سوچ رہے ہو کہ میں نے تمہیں سامع کیوں بنا دیا۔ یہ اس لئے کہ تم ابھی اپنے قد سے باہر نہیں نکلے۔ تم ابھی تھوڑا تھوڑا زندہ ہو۔
میرے اور ان لوگوں کے درمیان صرف تم ہی ایک پل کا کام کر سکتے ہو۔ تم میری بات سنتے جاؤ کیونکہ اب اس کے سوا تمہارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ ہاں تو یہ لوگ اپنی آبادیاں ویران کرکے آنے والے یہاں کونسی آبادی میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ شاید مر چکے ہیں لیکن ان کے پاس اپنی موت کی خبر دینے کیلئے وقت بھی نہیں تھا۔ یہ بڑی اذیت اور گمنامی میں مرے ہوں گے۔
لیکن نہیں! یہ مرے نہیں۔ یہ تو صرف اور صرف موت کے انتظار میں زندہ ہیں۔ ان کا زیادہ حصہ مر چکا ہے لیکن سانس زندہ ہے۔ ان کا احساس مر چکا ہے ،ان کا دل مر چکا ہے ،ان کی یادداشت مر چکی ہے۔ ان کا مرضی مر گیا ،ان کا مستقبل بھی مر گیا۔ ان کا حال ،بدحال ہے۔ ان کی سماعت بہری ہو گئی ہے۔ ان کی آنکھوں کے آگے بینائی ہی کا پردہ آ گیا ہے۔ آوازوں کی گہر میں ان کی گویائی ڈوب گئی ہے۔
یہ سب لوگ کسی کے نہیں ہیں ،یہ اپنے بھی نہیں ہیں۔ یہ محبت نہیں کر سکتے۔ یہ صرف مقابلہ کر سکتے ہیں اور آخری مقابلہ ،موت کا مقابلہ ہے۔ یہ لوگ ،ذرا غور سے دیکھو۔ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ یہ صرف ”وقت“کھاتے جا رہے ہیں اور وقت پورا کر رہے ہیں اور پھر ان کا وقت ختم ہو جائے گا۔ لیکن نہیں ،ان کو جلد موت نہیں آئے گی۔ ان کے پاس بڑے بڑے ہسپتال ہیں ،بڑے انتظامات ہیں۔
یہ زندہ رہ سکتے ہیں۔ کئی کئی مہینے ،کئی کئی سال بستر پر زندہ رہتے ہیں۔ یہ ہزار قسم کی نالیاں لگا لیتے ہیں اور موت سے چھپ کر خاموش لیٹے رہتے ہیں کہ کسی کو خبر تک نہ ہو۔ یہ بڑے لوگ بن گئے ہیں۔
وہ دیکھو وہ آدمی جو ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔ وہ پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ ہم لوگ کون ہیں۔ وہ اپنا ہی ہے ،وہ بہت قریبی تھا۔ وہ قریب آنا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ قریب آ سکے۔
وہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کا غلام ہو چکا ہے۔ اس کے پاس اپنی مرضی سے چلنے پھرنے تک کا اختیار نہیں۔ وہ ایک صاحب مرتبہ آدمی ہے۔ اس کے پاس اپنے لئے بھی وقت نہیں ہے۔“
بچہ افسون کلام سے مجھے مکمل گرفتار کر چکا تھا۔ میں نے اس سے آزاد ہونا چاہا۔ میں نے چاہا کہ اس کی باتوں کو سنا ان سنا کر کے بھاگ جاؤں۔ بچہ بولا ”تم مجھ سے آزاد نہیں ہو سکتے ،تم بھاگ نہیں سکتے۔
تم میرے حلقہٴ تاثیر میں ہو۔ یہ دیکھو۔ تم خود کیا ہو۔ تم غور کرو۔ تم میری طرح بنتے جا رہے ہو۔ تم خود ایک بچہ ہوتے جا رہے ہو۔ لو یہ دیکھو ،تم میری جیسے ہو گئے۔ لو تم تو میں ہی ہو گئے۔ اب میری کیا ضرورت!“
یہ کہہ کر بچہ غائب ہو گیا۔ میں نے دیکھا اب اس میدان میں اکیلا بچہ تھا۔ میں خود ہی پکار کر کہہ رہا تھا ”آؤ ہم لوٹ چلیں۔ آؤ ہم ایک بار پھر عہد کہن تازہ کریں۔
آؤ ہم سب ہم بن جائیں۔ آؤ تازہ ہواؤں کی طرف۔ مشینوں کو مشینوں پر کام پر لگا کر آؤ بھاگ چلیں۔ آؤ ہم قدرت کے نظاروں کے قریب ہو جائیں تاکہ ہم صداقت کے قریب ہو جائیں۔ آؤ چار دن کی زندگی میں زہر گھولنا بند کر دیں۔ آؤ اذیت دینے اور اذیت لینے کے اذیت ناک عمل سے توبہ کریں۔ آؤ آؤ… گزرے ہوئے زمانوں کو پھر سے یاد کریں۔ آؤ کہ ابھی تھوڑا سا وقت باقی ہے۔
آؤ گزشتہ سے پیوستہ ہو جاؤ ،آؤ زندگی سے دکھ کم کریں۔ آؤ اپنی بجائے دوسروں کیلئے زندگی گزاریں۔ آؤ فریادی کی فریاد سنیں۔ آؤ چمگادڑوں کو آزاد کر دیں اور ویران زمانے آباد کر دیں۔ آؤ بجھے ہوئے چراغ روشن کر دیں۔ آؤ آؤ کہ معاف کر دیں ایک دوسرے کو۔ فتح کی سنت پوری ہو گئی ،عام معافی کی سنت ادا کریں۔ آؤ ایک بار پڑھا ہوا کلمہ پھر سے پڑھیں۔ آؤ حضور اکرمﷺ کی امت کے ہر فرد کو خوشی عطا کریں۔
آؤ دوسروں کی زندگی اور اپنی عاقبت خراب ہونے سے بچائیں۔ آؤ ساتھیو! لیکن تم کیسے ساتھی ہو ،تم ساتھ ہی نہیں دیتے۔ آؤ ایمان کی روشنی تلاش کریں۔ آؤ محبت کے نخلستان آباد کریں۔ آؤ کہ ہم سب ایک ہی ندی کے دھارے ہیں۔ ہم سب ایک ہی ناؤ میں سوار ہیں۔
بند کرو ذاتیات ،بند کرو جھوٹ کو اخبار کی پذیرائی دینا۔ بند کرو ایمان فروشی کے مکروہ کاروبار۔
بند کرو اپنی خواہشات کے بے ہنگم پھیلاؤ کا بے مقصد و بے ترتیب سلسلہ۔ بند کرو ایک دوسرے کو بدنامیوں کے بازاروں کی رسوائی بنانے کا عمل۔ بند کرو کہ تم روبرو لائے جانے والے ہو۔ اس دن ،اس مالک کے روبرو جس کے سامنے تم جھوٹ نہ بول سکو گے اور پھر تمہارے سر سے ستار العیوبی کی چادر اتار دی جائے گی۔ تم کیسے نظر آؤ گے اس دن ،جب عمل تبدیل کرنے کا موقع نہ دیا جائے گا۔
جب توبہ کا لفظ تو ہو گا لیکن اس کے معنی نہ ہوں گے۔ وہ دن بہت دور ہے۔ یہی تو ہے تمہاری ناعاقبت اندیشی۔“
ابھی میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ آواز آئی ”بس اب لوٹ جاؤ اس ماحول سے… یہ تو عالم خواب ہے۔ تم کیا زور لگاتے جا رہے ہو۔“بس پھر کیا تھا ،خواب سے بیداری کے بعد پہلا کام یہ ہوا کہ آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا۔ میں پورا ہی تھا۔ شکر ہے کہ میں بچہ نہ رہا۔ لیکن میں ابھی تک سوچ رہا ہوں کہ وہ کون تھا اور میں کون تھا… اور یہ سب کیا تھا۔ کیا یہ واقعی محض خواب تھا؟

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif