Episode 11 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 11 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

کہانی
یہ جیون ایک کہانی ہے اور یہ کہانی بڑی پرانی ہے۔ پہلے بچے کے ساتھ ہی کہانی پیدا ہو گئی اور پھر کہانی سے کہانی اور پھر کہانیاں ہی کہانیاں… ایک جال ہے کہ بچھا ہوا ہے۔ کچھ پوری کہانیاں ہیں اور کچھ ادھوری… کسی کا آغاز نہیں ،کسی کا انجام نہیں…
کہانی سنانے والا کوئی نہ ہو ،تو بھی کہانی خود کو سناتی رہتی ہے۔ سامع نہ بھی ہو تو بھی کہانی جاری رہتی ہے۔
وجود آدم سے پہلے بھی کہانی تھی اور تخلیق آدم کے بعد تو کہانی کا باقاعدہ آغاز ہو گیا تھا۔ فردوس بریں کا قصہ ،طاغوت، ابلیس اور پھر لغزش آدم ،دانہ گندم ،پھر سفر سوئے زمیں ،فردوس گم گشتہ… اور پھر قیام و قرار فی الارض… ایک مکمل کہانی۔
اس کے بعد عروج آدم خاکی… سب کہانی ہے۔ چھن جانے کے بعد جس مقام کی دوبارہ تلاش شروع ہو جائے ،وہی مقام انسان کا بہشت ہے۔

(جاری ہے)

انسانوں کی اقسام کی طرح کہانیوں کی بھی بہت سے اقسام ہیں۔ شاید ہر آدمی کیلئے الگ قسم ہے۔ رونے والوں کیلئے المیہ ،ہنسنے والوں کیلئے طربیہ ،سیاحت کا شوق رکھنے والوں کیلئے سفر نامے ،سیاحت نامے ،بہادروں کیلئے رزمیہ ،صاحبان فکر کیلئے تمثیل نگاری اور علامتی کہانیاں اور کچھ ملامتی کہانیاں۔ مختصر کہانی، طویل کہانی ،بامقصد کہانی ،بے معنی کہانی ،مذہبی کہانی ،اخلاقی کہانی ،جنسی کہانی ،روحانی کہانی ،غرضیکہ فانی اور لافانی کہانی۔
بھول جانے والی کہانی، نہ بھولنے والی کہانی… بس کہانی ہی کہانی ہے۔
کسی علاقے میں جاؤ وہاں کی علاقائی کہانی ،کہیں بھی نہ جاؤ تو تصوراتی اور تخلیلاتی کہانی… انسان میں جب تک کہانی سننے کا شوق ہے ،کہانی رہے گی۔ ہم ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔ اپنی اپنی داستان… اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر وہی ایک دفعہ کا ذکر …
کہانی سننے کا شوق بچپن سے ہی پیدا ہوتا ہے یا کر دیا جاتا ہے ،تمام لائبریریاں کہانیوں سے بھری پڑی ہیں۔
سائنس کے ارتقاء کے ساتھ سائنسی کہانیاں شروع ہو گئیں۔ انسان کہانیوں سے بچ نہیں سکتا۔ انسانی کہانیاں نہ ملیں تو جانوروں کی کہانیاں موجود ہیں ،دانائی اور حکمت کے خزانوں کے ساتھ۔ مثلاً پیاسا کوا، لالچی کتا ،اتفاق کی برکت ،بے وفا دوست اور ریچھ اور نادان اور دانا بکریوں کی کہانی ،جو کچھ اس طرح سے ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک پہاڑی نالے پر ایک نہایت ہی تنگ پل تھا۔
مشکل سے پاؤں رکھا جاتا تھا۔ ایک دفعہ دو نادان بکریاں آمنے سامنے سے پل کے درمیان تک آ گئیں۔ جگہ تنگ تھی ،دونوں نہیں گزر سکتی تھیں۔ واپس جانا بھی مشکل تھا۔ ایک دوسرے کو کوسنے لگیں کہ تم نے میرا راستہ روکا ہے ،جھگڑا شروع کر دیا۔ باتوں باتوں میں سینگوں کا استعمال شروع کر دیا اور پھر… دونوں دھڑام سے نیچے گر گئیں۔ کچھ دیر کے بعد دو دانا بکریاں آمنے سامنے سے پھر درمیان میں آ گئیں۔
انہوں نے غصہ کرنے کی بجائے صورتحال کا جائزہ لیا۔ سینگوں کی بجائے عقل سے کام لیا اور ایک بکری بیٹھ گئی اور دوسری نے اس کے اوپر سے گزر کر اپنی راہ لی… دونوں بچ گئیں۔
وہ دن گئے جب بچوں کو سکولوں میں ”گلستان“”بوستان“کی کہانیاں پڑھایا کرتے تھے اور نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ با اخلاق معاشرہ پیدا ہوتا تھا اور آج جو کچھ ہو رہا ہے ،ویڈیو کی کہانیوں کا اثر ہے۔
جنسی تشدد اور دہشت گردی پہلے فلموں میں دکھائی جاتی ہے اور پھر سماج میں اسے دیکھا جاتا ہے۔ جب ذہن پختہ ہو جائے تو اصلاح کا امکان کم ہو جاتا ہے۔
کہانی کیلئے ضروری ہے کہ اس میں ایک مرکزی خیال ہو مثلاً پاکستان کی کہانی میں مرکزی خیال اقبال کا ہے۔ ایک مرکزی کردار بھی ہونا چاہئے ،جیسے قائد اعظم ،ایک آغاز بھی ہو جیسے ۱۹۴۷ء ،اس میں ایک ماحول بھی ہونا چاہئے۔
ہمارا ماحول۔ اگر اخبارات کچھ نہ بیان کریں تو۔ کہانی میں ایک کلائمکس بھی ہونا چاہئے ۔ کلائمکس یا نقطہٴ عروج اس مقام کو کہتے ہیں جس کے بعد یہ مقام نہیں رہتا۔ عروج ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ ہر حکمران اپنے دور کو عروج کا نقطہ سمجھتا ہے ،یہ جانے بغیر کہ عروج کے بعد زوال ہوتا ہے۔ شکر ہے پاکستان نے ابھی عروج حاصل کرنا ہے۔ ہم ابھی راہگذر میں ہیں۔
عروج کے حوالے سے ایک کہانی مشور ہے۔ کہتے ہیں کسی خطے نے عروج حاصل کر لیا۔ یہ بہت قدیم زمانے کا ذکر ہے۔ مالک نے دیکھا کہ بندہ فطرت میں مداخلت کر رہا ہے ،جبریل کو حکم دیا کہ بستی کو اڑا دیا جائے۔ عزرائیل سے نہیں ،جبریل سے کہا گیا۔ جبریل نے عرض کی کہ اے مالک الملک! اجازت ہو تو میں ان لوگوں کے علم کا معیار دیکھ لوں۔ اجازت مل گئی۔
وہ گئے اور ایک گڈریئے کو دیکھا کہ وہ جنگل میں بھیڑیں چرا رہا تھا۔ جبریل انسانی لباس میں اس کے پاس پہنچے اور بولے ”بھائی کچھ حساب لگانا جانتے ہو۔“وہ بولا ”ہاں! لیکن بہت کم۔“جبریل نے کہا ”حساب لگاؤ ،اس وقت جبریل کہاں ہے؟“گڈریئے نے چھڑی سے ہی زمین پر دو چار لکیریں کھینچیں اور کہا ”آسمان پر تو نہیں ہے“جبریل نے کہا ”مزید حساب لگاؤ“اس نے حساب لگایا اور بولا ”زمین پر بھی نہیں ہے۔
“جبریل نے مزید حساب کیلئے کہا۔ وہ بولا ”بھئی یا تم جبریل ہو یا میں… میں تو نہیں ہوں… بس تم ہی جبریل ہو…“اس کے بعد بستی کو نابود کر دیا گیا۔
مولانا روم نے کہانیوں کے روپ میں معرفت کے مسائل حل کئے۔ وہ علم باطن اور علم روح کے اظہار کیلئے کہانیاں لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر شوق مر جائے تو انسان کے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
عشق کو مولانا ”طبیب جملہ علت ہائے ما“کہتے ہیں۔ ان کی ہر کہانی پر مغز و پرسوز ہے۔ وہ درس باطن دے رہے ہیں اور کہانیاں بیان کر رہے ہیں۔ نکتے کھولتے چلے جاتے ہیں اور بات کی وضاحت ہوتی چلی جاتی ہے۔ اقبال کو علم کا خزانہ پیر رومی کے فیض سے حاصل ہوا۔ رومی کہتے ہیں کہ مریض محبت کو اگر چارہ ساز سے نسبتِ قلبی نہ ہو تو سب چارہ سازی حجاب ہے۔
محبوب کا ہاتھ ہی دست شفا ہے۔ یہی عالم قوموں کا ہے۔ اگر قائد محبوب ہو تو ہر نسخہ شفا ہے ،ورنہ بے تعلق ہجوم چارہ گراں مرض کے اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ہم لوگ چارہ سازوں کے چنگل میں ہیں۔ قائدین کے نرغے میں آ گئی قوم… خدا لیڈروں سے بچائے ،خدا لیڈر سے ملائے…
بہرحال کہانیاں تعلیم و تبلیغ کیلئے بھی موزوں ہیں اور عرفان ذات کیلئے بھی۔
سیف الملوک کہانی ہے ،ایک شاہزادے اور ایک پری کی… لیکن یہ داستان ہے خود آگہی کی منزلوں کی ،یہ سیر ہے وادی حیرت کی ،یہ بیان ہے فراق کے درد کا،بارگاہ حسن میں دل کی فراد کا۔ میاں محمد صاحب نے رنگ بھر دیئے ایک فرضی کہانی میں۔ اس میں قدر دانوں اور قدر شناسوں کے احسانات کا ذکر ہے ،محسنوں کا فیض ہے اور شکر کا اظہار کہ
میں گلیاں دا کوڑا روڑا محل چڑھایا سایاں
یعنی سخی نے ہمیں کیا سے کیا کر دیا… گلیوں سے نکال کر محلوں میں بٹھا دیا… وہ اگر چاہے تو قطرہ بھی سمندر ہو جائے۔
بڑے عرفان کی داستان ہے ،بڑے درجے کا بیان ہے ،کہانی لیکن معرفت کی داستان۔
کہانی کہانی کے روپ میں اصل کہانی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم داستانیں سنتے سناتے کہیں خود بھی کسی داستان کا حصہ نہ بن جائیں۔ ہمیں ہر لمحہ بیدار رہنا چاہئے۔ ہمارے ہاں بھی بڑے جادو بیان داستان گو موجود ہیں۔ غریبوں کو امیر ہونے کا کاذب مژدہ سنانے والے داستان گو ،غریبی میں مزید اضافہ کرکے رخصت ہو جاتے ہیں اور غریب دیکھتا رہ جاتا ہے بیچارہ۔
آسمانوں کے تذکرے سنتے سنتے انسان بھول جاتا ہے کہ اس کے پاؤں زمین پر ہیں۔
داتا گنج بخش نے بھی بہت سی کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کے اپنے انداز ہیں۔ وہ توحید ،رسالت اور عرفان کے بارے میں وضاحتیں دینے کیلئے کہانی پیش کرتے ہیں مثلاً ایک دفعہ انہوں نے اپنے شیخ سے پوچھا ”جناب توحید کیا ہے؟“شیخ نے کہا ”پھر کبھی بتاؤں گا۔“کچھ ہی دنوں بعد سفر حج کا آغاز ہوا۔
دوران سفر ایک دن نماز ظہر سے فارغ ہوکر یہ لوگ بیٹھے ہی تھے کہ مغرب سے ایک سوار آیا۔ داتا صاحب کے شیخ نے تعظیم کی ،استقبال کیا۔ آنے والے نے کان میں کچھ کہا لیکن شیخ نے معذرت ظاہر کی۔ سوار واپس چلا گیا۔ داتا صاحب نے پوچھا ”سرکار یہ کون تھے؟“آپ نے کہا ”یہ تیرے سوال کا جواب تھا کہ توحید کیا ہوتی ہے۔“داتا صاحب نے وصاحت کی التجا کی۔
شیخ نے کہا ”یہ خضر تھے۔ کہتے تھے کہ اگر مناسب سمجھو تو میں تمہارے ساتھ حج کے سفر کیلئے ہمراہی اختیار کروں۔ میں نے کہا نہیں… کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں حج کے خیال سے غافل ہو کر تمہارے خیال میں مصروف ہو جاؤں“بس توحید یہی ہے کہ وحدت مقصد قائم رہے۔ ایک مقصد سے دوسرا مقصد نہ نکالنا چاہئے ،خواہ دونوں مقاصد ہی نیکی کے ہوں۔ نیکی اور ہے ،توحید اور۔
ایک اور کہانی بھی آپ نے لکھی۔ ایک سفر میں داتا صاحب اپنے چند ساتھیوں سمیت سفر پر روانہ تھے۔ حج ہی کا سفر تھا۔ ایک آدمی کو قافلے کا امیر بنا دیا گیا تھا۔ راستے میں قزاقوں نے سب قافلے کو روک لیا اور اپنے سردار کے روبرو پیش کر دیا۔ سردار نے کہا ”جو کچھ ہے حاضر کر دو۔“سب نے سب کچھ حاضر کر دیا۔ سردار نے پھر کہا ”ان سب کی تلاشی لو…“تلاشی لینے پر امیر قافلہ کے پاس خفیہ جیب میں سے کچھ اشرافیاں برآمد ہوئیں۔
ڈاکوؤں کے سردار نے حکم دیا کہ ”اسے قتل کر دیا جائے۔“داتا صاحب نے مداخلت کی اور کہا ”یہ نہیں ہو سکتا ،وہ ہمارے امیر قافلہ ہیں ،ہم یہ برداشت نہیں کریں گے۔“سردار نے کہا ”عجیب آدمی ہو… یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سچے آدمیوں کا امیر جھوٹا ہو… اسے چھوڑ دو واپس جانے کیلئے اور تم اپنا سفر جاری رکھو۔ ہم لوگ ڈاکو نہیں ہیں ،ہم تو سرکاری ڈیوٹی والے لوگ ہیں۔
دودھ پانی الگ کرنے والے ،حاجیوں کو توکل کی منزل عطا کرنے والے۔ آئندہ یاد رکھنا سالار کارواں کیلئے ضروری ہے کہ وہ صادق ہو ،امین ،ہو ،جھوٹے سالاروں نے ہی تو ملت کا بیڑہ غرق کر رکھا ہے۔“
جہاں کہانیوں نے باطن روشن کئے ہیں ،وہاں کہانیوں نے ہی فسادات پھیلائے۔ ملت اسلامیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں کہانیوں کا حصہ ہے۔ مثلاً ایک دفعہ ایک آدمی نے دوسرے سے پوچھا ”بھائی آپ نے وہ کہانی سنی ہے۔
“دوسرے نے کہا ”نہیں بھائی میں نے دوسری کہانی سن رکھی ہے۔“بس کہانی ختم ہو گئی۔ لیکن یہ کیا کہانی ہوئی۔ یہی تو بڑی کہانی ہے کہ ایک آدمی نے ایک کتاب پڑھ لی وہ ایک فرقہ بن گیا ،دوسرے نے دوسری کہانی پڑھ لی وہ دوسرا فرقہ بن گیا۔ جس نے جو کتاب پڑھ لی ،وہ الگ فرقہ بنتا چلا گیا۔ کہانیاں جاری ہیں اور فرقے بننے کا کام بھی جاری ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے۔
ہم ایک خدا ،ایک رسولﷺ اور ایک کلمے سے آغاز کر رہے تھے اسلام کا۔ اب تھوڑے ہی عرصہ کے بعد بن گئے ستر فرقے۔ کس نے بنائے؟ کون ہے ہم میں سے جو امام حسین کے قافلے میں موجود تھے اور کون ہے جو یزید کے ساتھ موجود تھا۔ ہم سب ناموجود تھے اور کہانیاں ختم لے رہی تھیں۔ قلم چل رہے تھے اور صداقت قلم ہو رہی تھی۔ فرقہ پرستوں کی کہانی درمیان سے شروع ہوئی اور اسے درمیان میں ہی ختم کر دینا چاہئے۔
یہ بہت کافی ہے کہ ہم کلمہٴ توحید کی مرکزیت پر یقین رکھتے ہوئے ملت واحدہ ہو جائیں۔ پاکستان کی کہانی جو اقبال کی بلند خیالی سے شروع ہوئی ہے ،اسے بلند اقبالی حاصل ہونا چاہئے… ورنہ؟ ورنہ کچھ نہیں۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif