Episode 12 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 12 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

آنکھیں
عجائبات دہر میں سب سے بڑا عجوبہ انسانی آنکھ ہے۔ یہ ایک کیمرے کی طرح ہے لیکن اس کی ساخت میں قدرت کاملہ نے کمال دکھایا ہے… یہ چہرے کی زینت ہونے کے ناطے سے بھی انسان کی شخصیت کا طرہٴ امتیاز ہے۔
آنکھیں اس کائنات کے ساتھ ہمارے رابطے کا ذریعہ ہیں۔ جس ذات نے انسانی آنکھ کو دیکھنے والا بنایا ،اسی نے انسان کے دیکھنے کیلئے ایک خوبصورت کائنات بنائی ،رنگا رنگ کے جلوے پیدا فرمائے اور ان جلووں میں اپنی جلوہ گری کے کرشمے دکھائے…
فنکار ،فن کے جلووں میں خود جلوہ گر ہے… آنکھ نہ ہوتی تو کسی رنگ اور کسی روشنی کی کوئی ضرورت و افادیت نہ تھی… مشاہدہ ،جہاں مشہود کی جلوہ گری کا کمال ہے ،وہاں یہ شاہد کے انداز نظر کا حسن بے مثال بھی ہے… قدرت نے جس ذوق تخلیق کا اظہار بے رنگ زمین میں رنگ دار گلکاری کرکے کیا ہے ،اس کی داد بس چشم بینا ہی دے سکتی ہے… بس آنکھ والا ہی ترے جوبن کا تماشا دیکھ سکتا ہے… دیدہٴ کور تو پھر دیدہٴ کور ہی ہے…
آنکھ آسمان کے کروڑوں ستاروں کو بیک وقت دیکھ سکتی ہے۔

(جاری ہے)

یہ آسمان کو زمین پر اتارتی ہے۔ یہ دور کے جلوے قریب لاتی ہے۔ یہ کیا کیا نہیں دیکھتی… یہ سب کچھ دیکھ سکتی ہے ،لیکن یہ صرف اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی… خود بینی کیلئے اسے کسی آئینے کی ضرورت ہے… کسی اور کی ضروت ہے… زمین و آسمان کی وسعتیں اس کے سامنے آشکار ہوتی ہیں ،صرف اپنی ذات مخفی ہوتی ہے… اپنی ذات کا سفر کسی اور ذات کے تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں… یہ وسیلہ ہی خودبینی کیلئے اہم ترین ذریعہ ہے۔
خود شناسی نہ ہو تو خدا شناسی کا عمل ممکن ہی نہیں… آئینہ ہی آنکھوں کو اپنے باطن میں اترنے کا راستہ بتاتا ہے۔ اگر آئینہ میسر نہ ہو ،تو آنکھ خود کو دہر شناس سمجھ کر غرور میں مبتلا ہو جاتی ہے…
آنکھ انسان کو بڑے بڑے کرشمے دکھاتی ہے۔ آنکھ جب محو نظارہ ہو تو اس کی مستی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے… سرشار اور محو حیرت آنکھ بارگاہ حسن میں دم بخود ہو جاتی ہے… آنکھ جلوے میں گم ہوتی ہے اور وجود بے حرکت اپنے آپ سے بے خبر ،اپنے گرد وپیش سے بے نیاز ،گردش زمان و مکاں سے آزاد ہو جاتا ہے… زمانہٴ انتظار میں آنکھوں میں چنار جلنے کا موسم ہوتا ہے۔
موسم فراق میں آنکھوں سے انگارے پھوٹتے ہیں۔ دل خون ہو کر اشکوں کے ساتھ بہہ جانا چاہتا ہے…
آنکھیں دور کے منظر کو قریب سے دیکھنا چاہتی ہیں… جلوے کی جدائی میں ایک نیا جلوہ پیدا ہو جاتا ہے… ایک متاع بے بہا حاصل ہو جاتی ہے… درد کی دنیا ،سوز کی دنیا ،آرزو مندی کی دنیا ،انسان کو عطا ہوتی ہے… آنکھیں انسان کو لبادوں اور نقابوں کے اندر دیکھنے کا شعور عطا کرتی ہیں۔
رونے والی آنکھ قرب حق کے ذرائع میں سب سے بڑا ذریعہ ہے… آنکھیں ہمیں ایک دوسرے کی پہچان کراتی ہیں… آنکھیں آنکھوں کو پہچان لیں تو بس ہم نے ایک دوسرے کو پہچان لیا… آنکھوں کا کمال یہ ہے کہ پہلی ملاقات سے پہلے بھی ایک دوسرے کی شناسا ہوتی ہیں… تبھی تو ہم فوراً کہہ اٹھتے ہیں ،ہاں یہی ہے وہ نظارہ جس کی تلاش تھی…
آنکھیں ایک اور انداز سے بھی انسان کی رہنمائی کرتی ہیں اور یہ بہت بڑی رہنمائی ہے… آنکھیں جلوے کو دیکھ کر اسے ایک خاص شعور کے ماتحت ،جسم کے مختلف حصوں کو ٹیلی کاسٹ کرتی ہیں اور پھر ایک خاص قسم کا انداز پیدا ہو جاتا ہے ،انسانی زندگی میں… دیکھا ہوا نظارہ ارسال کر دیا جاتا ہے ،دل کو ،دماغ کو ،نفس کو ،روح کو اور قوت متخیلہ کو… آنکھوں کے اس عمل سے عرفان ذات کے دلچسپ سفر کا آغاز ہوتا ہے…
اگر نظارہ دماغ کو ارسال ہو تو انسان حیرت کے سفر پر روانہ ہوتا ہے… اسے ماہیت اشیاء سے تعارف ہوتا ہے… وہ ہونے اور نہ ہونے کے عمل کو دیکھتا ہے… وہ سفر کرتا ہے اور دیکھتا ہے ،وقت کے عبرت کدے میں من مانیاں کرنے والوں کے عبرتناک انجام کو… وہ دیکھتا ہے کہ گھمنڈ ،غرور اور تفاخر سے زندگی بسر کرنے والے کاذب لوگ کس عاقبت تک پہنچے… ان کے ساتھ کیا ہوا ،جو دلوں کو زخمی کرتے تھے۔
وہ زمین پر اکڑ اکڑ کر چلتے تھے۔ آج زمین کے اندر کس حال میں ہیں… جنہیں حق کی آواز سنائی نہ دیتی تھی ،وہ اپنے لئے کیا رسوائی لکھ گئے… کہاں گئے دارا و سکندر ،کہاں گئے وہ ،جو کل تک یہاں تھے۔ آنکھیں کتنے بڑے المیے سے تعارف کراتی ہیں۔ کتنے بڑے حادثے کی نقاب کشائی کرتی ہیں… یہ دنیا ہے ،یہاں کوئی نہیں ٹھہر سکا… وقت کا دریا سب کچھ بہا لے جاتا ہے… اس صحرا میں کتنے قافلے گم ہو گئے ،کتنے ہی محلات مسمار ہوئے ،کتنی بستیاں ویران ہو گئیں… کتنے باغ سوکھ گئے اور کتنے دیار اجڑ گئے… آنکھیں ایک منظر کے بعد اور منظر دکھاتی چلی جاتی ہیں اور انسان کہہ اٹھتا ہے کہ باقی رہی تو ذات رب ذوالجلال… ہر شے فانی ،ہر شے مسافر ،ہر چیز راہی ہے… آنکھوں کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ وہ صاحبان فکر کو خوراک مہیا کرتی ہیں… جلوے کے اندر جلوہ… آئینے کے اندر آئینہ… اور دریا کے اندر دریا… نظاروں کا صحیح چناؤ ہی اصل تعلیم ہے۔
یہی احسان ہے آنکھوں کا۔
اور آنکھیں ،اگر مناسب سمجھیں تو ،جلوہ دل کو ارسال کر دیتی ہیں اور پھر بس گل و نغمہ ،رنگ و نور ،حسن و کمال ،شب انتظار ،شب وصال و شب فراق کے جلوے ہوتے ہیں اور انسان… خاموش ،دھڑکنے والا دل اچانک نئی دھڑکنوں سے آشنا ہو جاتا ہے… دلیری کے کمال ہوتے ہیں ،انسان کے سامنے… شوق دیدار اور شوق نظارہ انسان کو بے تاب کر دیتے ہیں… انسان بس ایک چہرے کو ہی مقصد حیات مان لیتا ہے۔
باقی سب لغو نظر آتا ہے… آنے والے کو پھر سے آنے کی دعوتیں ہوتی ہیں اور جانے والے پر قیامتیں نثار ہوتی ہیں… وجود محبوب ہی وجود مقدس بن جاتا ہے… یہ کائنات دل والوں کیلئے ایک اور جہت اختیار کر جاتی ہے… اس میں کششیں ہوتی ہیں لطف ہوتا ہے… آنکھیں چار ہوتے ہی زمین و آسمان کا رنگ بدل جاتا ہے… موسم بدل جاتے ہیں ،کیفیتیں بدل جاتی ہیں ،تعلقات بدل جاتے ہیں ،ترجیحات بدل جاتی ہیں… مکان و لامکاں تک بدل جاتے ہیں…
آنکھوں نے جلوہ کیا دکھایا کہ جہاں بلکہ دونوں جہاں بدل گئے… پتھر دل سے چشمے جاری ہو جاتے ہیں۔
نزاکت احساس سے تعارف ہوتا ہے۔ بے حسی اور جمود ختم ہو جاتے ہیں… آنے والے زمانوں کیلئے حسین یادیں مرتب ہوتی ہیں۔ آنکھیں بولتی نہیں ہیں ،صرف دیکھتی ہیں لیکن آنکھوں کے انداز نظر پر سب گویائیاں نثار ہو جاتی ہیں۔
ندرت خیال اور ندرت بیان کا زمانہ آتا ہے۔ انسان ،انسان پر مرتا ہے… تمنائے قرب حسن ہی محبت ہے… غرضیکہ آنکھیں محبت شناس کراتی ہیں… اور زندگی نثر سے نکل کر نظم میں داخل ہو جاتی ہے… آنکھیں بڑی محسن ہیں۔
کبھی کبھی آنکھیں روح کی طرف روانہ کر دیتی ہیں ،منظر کی لطاف کو… بس انسان کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کیلئے یہی کافی ہے… آنکھیں موٴذن ہیں، روح کی… کہ جاگ اے سونے والے! جلوہٴ حق منتظر ہے ،طالب دیدوار کا… ”الست بربکم“کا زمانہ یاد کرو… وہ دن یاد کرو کہ تم نے ہی کہا”بلی۔“کیا تم بھول گئے… ابھی کل ہی کی تو بات ہے… تم پر شفقتیں ہوئی تھیں،تم پر عنایات نازل ہوئیں۔
تم پر رحمت کا مینہ برسا ،تم پر اس نے اپنے جلووں کو آسان کیا… تمہیں عطا کی اپنے محبوبﷺ کی محبت… یہ دیکھو… جن لوگوں کے آستانے ہیں، زندہ ہیں… اللہ کی یاد کرنے والوں نے قبرستانوں میں میلے لگا دیئے اور غافل لوگوں نے زندگی کو ہی قبرستان بنا دیا… کیا کر رہے ہو تم لوگ… یہ آنکھوں کا احسان ہے کہ وہ غاقل کو بیدار کرتی ہیں۔ وہ اسے ایسا منظر دکھاتی ہیں کہ بس انسان ایک زمانے سے کسی اور زمانے میں پہنچ جاتا ہے۔
وقت کے فاصلے سمٹ جاتے ہیں اور روح محو عبادت ہو جاتی ہیں… جبین شوق میں ہزاروں سجدے تڑپ تڑپ جاتے ہیں… اور انسان پہنچ جاتا ہے وہاں ،جہاں اس کی خود آگہی ،خدا آگہی کے سفر میں داخل ہوتی ہے۔ یہی زمانہ حاصل ہستی ہے… اسی زمانے میں تطہیر وتقدیس کی جلوہ گری ہوتی ہے۔ ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں ،مقطعات ہی مقطعات۔ آنکھوں کا یہ احسان سب سے بڑا احسان ہے…
آنکھیں کبھی کبھی انسان سے ناراض ہو جاتی ہیں… اور پھر اس کو بدبخت نظاروں کی طرف لے جاتی ہیں۔
وہ آوارہ پھرنے لگ جاتا ہے… وہ برہنگی اجسام کا دلدادہ ہو جاتا ہے۔ آنکھیں ایسا ایسا منظر تلاش کرکے انسان کے آگے پیش کرتی ہیں کہ وہ کہیں کا نہیں رہتا… بدبخت نظاروں کا متلاشی انہی بدبختیوں کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے اور پھر وہ اس عاقبت تک جا پہنچتا ہے ،جو ان نظاروں کی ہوتی ہے… نفس کو اکسانے کا عمل آنکھوں سے شروع ہوتا ہے… اور پھر انسان ایک درندے کی طرح اپنے شکار کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتا ہے… گناہ کی تلاش ہی تو گناہ ہے… آنکھوں کا یہ عمل کبھی کبھی تو قوموں کو تباہ کر دیتا ہے… اگر خدا نہ کرے ،کبھی نہ کرے ،ہماری قوم کو کبھی کسی فرض کے پورا کرنے کی کوتاہی کی سزا ہوئی تو اس کی وجہ وی سی آر بھی ہو سکتی ہے… نظاروں کا گناہ ختم ہو جائے تو وجود کا گناہ ختم ہو سکتا ہے… ایسی باطل شناس آنکھیں شفایاب ہو سکتی ہیں۔
اگر ان کو وہ سرمہ مل جائے ،جسے خاک مدینہ و نجف کہا گیا ہے…
آنکھیں کبھی کبھی گزرا ہوا زمانہ بھی دکھا دیتی ہیں… جو ہو چکا ،وہ پھر سے ہونے لگتا ہے۔ جو گزر گیا وہ پھر سے گزرنے لگتا ہے… جس سانحہ پر ہم رو چکے ہوں ،اس پر پھر سے رونے کو جی چاہتا ہے۔ یہ آنکھوں کا کمال ہے کہ ایک خاص وقت میں ایک خاص منظر دکھا دیتی ہیں اور پھر پرانے نغمات یاد آ جاتے ہیں۔
پرانے ترانے ،ہاں قومی ترانے یاد آتے ہیں… لیکن کیا کیا جائے…
آنکھوں کی تمام کوششیں خاموش ہو جاتی ہیں… عہد جنوں ہی نہیں ہوتا… لوگ مطلب اور منفعت کی دنیا میں گم ہوتے ہیں… کون آتا ہے ،درد کے صحرا میں… اور عہد جنوں بھی ایک یادگار ہی تو دے گیا… ایک مینار… اس نے ہمیں شرمندہ تو نہیں کرنا… ہم شرمندہ ہی کیوں ہوں… چلو ہم آنکھیں بند کر لیتے ہیں… لیکن…
رہ گئی کان میں صدائے جرس
کارواں کا غبار آنکھوں میں

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif