Episode 13 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 13 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

کائنات اور کائنات
قدرت کے قوانین اور اصول اٹل ہی۔ قدرت اپنے بنائے ہوئے قوانین اور اصولوں کے مطابق خود بھی پابندی اختیار کرتی ہے ور دوسروں کو بھی ان میں پابند کرکے رکھ دیتی ہے۔ اللہ کا نظام نہیں بدلتا۔ اس نے جو کچھ کر دیا وہ ہو گیا اور ایسا ہوا کہ ہمیشہ ہی ہوتا رہا۔ سورج مشرق سے نکلتا ہے تو نکلتا ہی چلا آ رہا ہے۔ مغرب میں ڈوبتا ہے تو مغرب میں ہی ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔
یہ عجب بات ہے کہ ہر روز نئی اور نرالی شان والا اللہ ، ہر چیز کو اس کے حصار اور اس کے مدار میں ہمیشہ حرکت کرتے رہنے کا حکم لکھ چکا ہے اور جو کچھ وہ لکھ چکا ہے ، وہ اٹل ہے… ہمارے ارادے بدلتے رہتے ہیں لیکن اس کا ”امر“ اٹل ہے ، تبدیل نہیں ہوتا… زمین کی گردش  بلکہ گردش شام و سحر،گردش افلاک ،گردش زمانہ ،ہر چیز مقرر شدہ اور مکتوب ہے ،ایک مخفی کتاب میں…
جاننے والے جانتے ہیں کہ زندگی کے نصیب میں موت لکھی جا چکی ہے۔

(جاری ہے)

ہونا نہ ہونا ہو کر رہتا ہے۔ قادر مطلق نے قوانین قدرت بیان فرما دیئے ہیں کہ ایسا ہو گا ،ایسا نہیں ہوگا… انسان جتنی کوشش کرے گا ،اتنا ہی نتیجہ حاصل کرے گا۔ یہ اصول ہے۔ دریا پہاڑوں سے نکلے گا… رواں دواں اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگا اور سمندر سے ہمکنار ہوگا… آسمانوں سے مینہ برسے گا ،زمین سے پودے اگیں گے ،پرندے ہوا میں اڑیں گے اور مچھلیاں پانی میں تیریں گی… سب اصول مقرر ہو چکے ہیں۔
تمام قوانین مرتب ہو چکے ہیں۔ سب باتیں طے ہو چکی ہیں۔ ہر آغاز کا ایک انجام ہوگا اور ہر انجام کسی آغاز پر منتج ہو گا۔
اگر بات صرف یہاں تک ہوتی تو یہ کائنات ،یہ زندگی ایک مشین بن کر رہ جاتی۔ لیکن غور کرنے والے ،فکر کرنے والے ،تدبر و تفکر کرنے والے جانتے ہیں کہ اس منظم اور مرتب کائنات کے ساتھ ساتھ ایک اور کائنات بھی ہے… جہاں کے اصول ،اصولوں کے جہاں سے الگ ہیں۔
جہاں کے قانون ،قانون کی دنیا سے بہت ہی مختلف ہیں۔ یہ ایک نرالی کائنات ہے۔ بالکل مختلف یکسر عجیب ،بلکہ ایک عجوبہ…
اصول تو یہ ہے کہ آگ جلائے گی ،لیکن عجیب بات یہ ہے کہ نار ہے اور اس میں گلزار ہے اور اس گلزار کے اندر محرم اسرار جلوہ گر… اصول بنانے والے نے اصول کو معطل کرنے کا بھی اصول بنایا ہے۔ جس نے آگ کو حدت عطا فرمائی ،اسی نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ٹھنڈی ہو جائے ،سلامتی کے ساتھ ابراہیم پر… منشا کا اصول الگ ہے… وہ چاہے تو کیا سے کیا ہو جائے… وہ اپنے اصولوں کا کیوں پابند ہوگا… قانون تو یہ ہے کہ محنت کرنے سے رزق ملے گا لیکن جب دینے والا چاہے تو بے حساب دے دیتا ہے۔
بے پناہ دیتا ہے۔ وہ زمین اور آسمان کے خزانوں کا مالک ہے اور کسی کے آگے جوابدہ نہیں ،نہ اس کا کوئی آڈٹ کر سکتا ہے۔
کائنات کا کوئی اصول ایسا نہیں ،جس میں استثناء نہ ہو۔ علم ہی کو لیجئے۔ علم مکتب سے ملتا ہے۔ اساتذہ سے ملتا ہے۔ لیکن یونیورسٹی شیکسپیئر کا علم تو دے سکتی ہے ،شیکسپیئربننے کا علم نہیں دے سکتی۔ اقبال نے شرق و غرب کے علوم حاصل کر لئے۔
اس کی روح میں تشنگی بڑھ گئی… اب شرق و غرب کے علوم کے بعد کیا ہے؟ ”بعد“ تو صرف اصول سے باہر کی کائنات کا علم ہے۔ وہ علم جو کتاب میں نہیں۔ وہ صرف ”جنون“ سے ملتا ہے ،نظر سے ملتا ہے ،نصیب سے ملتا ہے۔ قانون سے باہر ،اصول سے پرے ،الگ ،نرالا ،انوکھا علم ،انوکھی کائنات کی دریافت کا علم ،ایسی کائنات جہاں عمل معطل ہے اور علم ہی علم ہے۔ جہاں صرف مشاہدہ ہے ،حیرت ہے ،نیرنگی ہے ،کوئی اصول نہیں۔
یہ ظاہری کائنات اس کائنات کے مقابلے میں بہت ہی مختصر ہے۔ وہ کائنات منشا کی کائنات ہے۔ عنایات کی کائنات ہے ،عطا کی کائنات ہے۔ ایسی کائنات ،جہاں وقت ساکن ہو جاتا ہے اور جلوے متحرک رہتے ہیں۔ جہاں دن رات ،ماہ و سال نہیں ہوتے۔ وہاں صرف محویت اور جلوے ہوتے ہیں۔ علم ہی علم ہوتا ہے اور تعلیم نہیں ہوتی۔ اس کائنات میں دنیا کو علم عطا کرنے والے ہوا کرتے ہیں۔
یہ علم ”لدنی“ والوں کی کائنات ہے۔ اس کائنات میں محنت نہیں ،محبت کام آتی ہے ،ادب کام آتا ہے ،نصیب کام آتا ہے۔
نصیب کے حق میں بات کرنے سے کوشش کے حق میں بات کرنے والے خفا ہو جاتے ہیں۔ جب تک کوشش کی محرومیاں سمجھ میں نہ آئیں ،نصیب کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ کوشش کامیاب ہو جائے تب بھی بے نصیب آدمی ناکام ہو جاتا ہے۔ کامیاب کوششوں نے بڑی ویرانیاں چھوڑی ہیں ،اس دنیا میں۔
کوشش کو اگر ہاتھی کہہ لیا جائے تو نصیب ابابیل کی کنکری ہے۔ یہ سلسلہ بہت طویل ہے۔ یہ داستان بہت لمبی ہے۔
بہرحال مقصد یہ ہے کہ ظاہری کائنات جس میں کوشش اور اصول پر زور دیا جاتا ہے ،اس باطنی کائنات سے قدرے مختلف ہے۔ جہاں نصیب اور نصیب والوں کی جلوہ گری ہے۔ اس کائنات کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔ وہ باطنی کائنات دعاؤں کی کائنات ہے۔
دعا نصیب ساز ہوتی ہے۔ دعا ناممکنات کو ممکن بنا دیتی ہے۔ وقت بدل جاتا ہے۔ زمانے بدل جاتے ہیں۔ ناتواں توانا ہو جاتے ہیں۔ شکست فتح میں بدل جاتی ہے اور معزول سرفراز کر دیئے جاتے ہیں۔ وہ کائنات روح کی کائنات ہے ،نشانیوں کی کائنات ہے ،جلووں کی کائنات ہے ،محبوب کے انکشاف کی کائنات ہے ،رضا اور منشا کی کائنات ہے۔ وہ مخفی کائنات اسی ظاہری کائنات کے اندر ہے۔
وہاں خاموشی بولتی ہے۔ وہاں درخت باتیں کرتے ہیں۔ پہاڑ پیغام رسانیاں کرتے ہیں۔ دریا علامتیں بن جاتے ہیں اور سمندر حقیقت کا روپ اختیار کر جاتے ہیں۔ اس کائنات میں دل والے ،روح والے ،حق والے داخل کئے جاتے ہیں۔ اس کائنات کا سفر راتوں کو پچھلے پہر طے ہوتا ہے۔ اس کائنات میں اشکوں کے چراغ جلتے ہیں۔ روشنی ہی روشنی ،نور ہی نور ،جلوے ہی جلوے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں اصول اور قانون تبدیل ہو جاتے ہیں۔ وقت کے فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔ غیب حاصر اور حاضر غیب ہو جاتا ہے۔ اسی کائنات میں موت کا عمل معطل ہو جاتا ہے۔ دور کی آواز قریب سے سنائی دیتی ہے۔ یہ مخفی کائنات اللہ کے خاص بندوں کی کائنات ہے۔ ان لوگوں کی جن پر اس کا فضل ہوتا ہے۔ یہ کائنات کوشش سے نہیں ،نصیب سے میسر آتی ہے۔ یہ عجب بات ہے کہ انسان آگ لینے جائے اور پیغمبری لے آئے… یہ کیسی کائنات ہے!
یہ باطنی کائنات سب سے پہلے اپنے باطن میں دریافت ہوتی ہے ور پھر یہ کائنات پھیلتی ہوئی کل کائنات بن جاتی ہے۔
یہاں کے اصول عجیب ،یہاں کے قوانین نرالے ہیں۔ یہاں منزلیں نہیں ہوتیں۔ صرف سفر ہوتا ہے ،مسلسل سفر۔ ایک مقام کے بعد ایک اور مقام انتظار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں دیکھنے کیلئے آنکھ بند کرنا پڑتی ہے اور سننے کیلئے کان درکار نہیں۔ یہاں سماعت دل کے کان سے ہوتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اس کائنات میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ یہ کائنات نظاروں کی کائنات ہے۔
ایثار کی کائنات ہے۔ دوسروں کے دکھ بانٹنے کی کائنات ہے… اس کائنات کے معتبر نام وہی ہیں جو دوسروں کے غمگسار ہیں… دوسروں کی تکالیف کم کرنے والے… خوشیاں دینے والے لوگ اس کائنات کے خوش نصیب ساکن ہیں۔ وہ خوش نصیب جن کے پیش نظر انسان کی زندگی کو آسان بنانا ہے ،جو ہمہ حال منشائے محبوب اور آواز دوست پر لبیک کہتے ہیں۔
اس کائنات کا دستور عجیب ہے۔
یہ باطنی کائنات اتنی پراسرار ہے جتنا انسان کا اپنا باطنی وجود… باطن میں ارادہ ہوتا ہے اور ظاہر اس ارادے کے مطابق عمل پیرا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مثلا ذہن یا دماغ ارادہ کرے تو اعضا و جوارح حرکت شروع کر دیتے ہیں۔ اگر دل میں محبت آئے تو زبان میں شائستگی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اگر باطن میں غصہ آئے تو ظاہری وجود کے چہرے پر تیوری اور نفرت کا اظہار ہونا لازمی ہے۔
باطن مصروف عبادت ہو تو ظاہر معصومیت کا پیکر بن جاتا ہے۔
اس طرح یہ پراسرار باطنی کائنات صاحبان ارادہ کی کائنات ہے۔ وہاں جو فیصلے ہوتے ہیں ،وہ ظاہر کی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔ وہاں دعائیں ہوتی ہیں اور ظاہر میں تاثیریں میسر آتی ہیں۔ وہاں ارادے بدلتے ہیں اور یہاں زمانے بدل جاتے ہیں۔ وہاں مزاج بدلتے ہیں تو یہاں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔
بس وہاں ”کن“ کی جلوہ گری ہے تو یہاں ”فیکون“ کی کار فرمائی ہے۔ یہ پراسرار لوگوں کی پراسرار کائنات سب کے سامنے ہے لیکن یہ سب پر آشکار نہیں ہوتی۔ اس میں داخل ہونے کا کوئی حتمی اصول نہیں۔ بس نصیب اور منشاء الٰہی ہے۔ جس کا نصیب بیدار ہو گیا ،وہ صاحب اسرار ہو گیا… جن کو منشاء الٰہی میسر ہو ،انہیں آہ سحر گاہی میسر ہوتی ہے اور آہ سحر گاہی اس کائنات اور باطنی کائنات میں رابطے کا بڑا معتبر ذریعہ ہے…

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif