Episode 15 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 15 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

سنگتیں
خیال ایک ایسا پرندہ ہے کہ جب چاہے جہاں چاہے جیسے چاہے ،آ سکتا ہے۔ جب آنے پہ آتا ہے تو آتا ہی چلا جاتا ہے اور جب نہ آنا چاہے ،اسے لاکھ بلاؤ نہیں آتا۔ قطعاً نہیں۔ اگر انسان اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کو ساتھ ساتھ بیان کرنا شروع کرے ،تو ایک عجیب سلسلہ چل نکلے گا۔ خیال میں خیال آتا چلا جائے گا اور بیان سے بیان ہوتا رہے گا نہ اس کی انتہا ،نہ اس کی حد…
کبھی کبھی تو خیال میں خیال یوں ہوتا ہے جیسے خواب میں خواب دیکھنا۔
ہم سب خواب میں ہی خواب دیکھتے ہیں۔ یہ زندگی خود ایک خواب ہے اور اس میں ہمارے عزائم اور منصوبے اور ارادے سب خواب ہیں۔ پورے ہو جائیں تو بھی خواب… ادھورے رہ جائیں ،تو بھی خواب۔ خواب نہ چھوڑے جا سکتے ہیں ،نہ پورے کئے جا سکتے ہیں… بس دیکھے جا سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

کبھی کبھی بیان بھی کئے جا سکتے ہیں۔ بس ایسے ایک بار اتفاق ہوا… ایک لمحے کیلئے خیال آیا اور خیال چلا گیا۔

لیکن اس ایک لمحے میں زمانے بدل گئے… تصورات تبدیل ہو گئے…
دیکھتا ہوں… یا ممکن ہے سوچتا ہی ہوں کہ قیامت شروع ہے۔ آہستہ آہستہ آتی چلی جاتی ہے۔ دھماکے… کڑک… گرج… چمک… چنگھاڑ… اور زلزلے اور پھر ایک ایک کرکے رخصت ہوتے رہے ،سب گردو پیش کے انسان ،اپنے بیگانے ،قریبی اور دور کے لوگ چلتے گئے۔ نہ واپس آنے والی منزلوں کی طرف۔ مجھے خواب میں ہی یا ممکن ہے خیال میں ہی خوشی بھی ہوئی کہ میں زندہ ہوں… میں محسوس کر سکتا تھا کہ میں زندہ ہوں… میں چھو سکتا تھا… میں چھوا جا سکتا تھا… تیزی سے ہر طرف آنے والی موت کے درمیان میں زندہ تھا۔
میں خوش تھا کہ مجھے موت نہیں آئی… عمل جاری رہا حتیٰ کہ ہنگامہ قیامت ختم ہو گیا اور پھر سکوت ہی سکوت ،مکمل سناٹا ،نہ کوئی راز رہا نہ محرم راز۔ میں اکیلا ،مجبور اور فانی انسان ،واحد… حسرت… اور کوئی میرے جیسا نہ تھا۔ اب خوشی نہیں تھی… غم تھا ،خوف تھا بلکہ ایک شدید کرب تھا… کہ اے میرے خدا… یہ زندگی زندگی نہیں… میں اس حالت میں بھی سوچ رہا تھا۔
خیال تھا کہ آتا ہی چلا جا رہا تھا۔ غور کے بعد معلوم ہوا… نکتہ کھلا کہ مرنے والے تو خدا جانے کہاں گئے۔
دراصل زندہ رہنے والا واحد انسان ہی مر گیا… میں ،میرے جیسوں کے بغیر کیا ہوں… ایسی زندگی جو کسی اور ذی جان کے بغیر ہو ،کیا زندگی ہے نہ کوئی آواز نہ کوئی صورت… بس تنہائی اور سکوت مرگ… میں نے محسوس کیا کہ میں ،میں نہیں رہا… میں کہیں سے ٹوٹ گیا ہوں… کہیں سے کٹ گیا ہوں… کہیں سے گر گیا ہوں… میں اپنوں میں تھا خواہ بیگانوں میں تھا ،میں ،میں تھا… اب میں ،میں نہیں ہوں… بس میں سوچتا چلا گیا… میں بظاہر ایک اکائی ہوں۔
لیکن میں ہی دور تک پھیلا ہوا سلسلہ ہوں۔ میرے لئے یہ خوشی کی بات نہیں کہ سب ختم ہو جائیں… اور میں ہی زندہ رہوں… یہ اپنی موت کی ایک شکل ہے… یہ اپنی تباہی کی ایک داستان ہے کہ سب تباہ ہو جائیں یہی تو اپنے نہ ہونے کا اصل جواز ہے کہ کوئی بھی نہ ہو… تلاش مر جائے تو متلاشی مر جاتا ہے۔ دشمن بھی مر گیا… دوست بھی مر گئے… تو ہم ہی مر گئے… بزرگ مر گئے… ایک ایک کررکے رخصت ہو گئے… اولاد رخصت ہو گئی… ہم فریاد بن گئے! واحد فریاد… نہ کوئی ہمدرد ،نہ داد خواہ… ہم غم بن گئے… غم خوار بغیر… نہ ختم ہونے والا غم… یہ زمانہ میری ضیافت ہے۔
دور تک پھیلا ہوا سلسلہ میرا ہی سلسلہ ہے۔ میں جہاں ہوں ،وہاں بھی ہوں اور میں جہاں نہیں ہوں ،وہاں بھی میں ہوں۔ یہ دنیا میری ہی تکمیل کا سلسلہ ہے… یہی ہے میرے ماضی کی خانقاہ اور یہی ہے میرے مستقبل کا مقبرہ…
اس دنیا میں سب لوگوں کی موجودگی میں مجھ پر کئی زمانے بیت چکے ہیں۔ ایک ایک لمحے میں مجھ پر صدیاں گزر گئیں ،کتنے جگ بیت گئے۔
مجھے جو کچھ ملا سب کے دم سے ملا۔ سب ہیں تو ہم ہیں۔ میری آج کی دعاؤں کے الفاظ کسی اور کی زبان سے ادا ہوتے ہوتے میرے پاس آئے ہیں۔ میری آج کی سوچ بھی کتنے اذہان کا سفر کرتی کرتی مجھ تک آئی ہے۔ سب سلامت رہیں تو میں سلامت ہوں ،وہ جنت جس میں اپنے علاوہ کوئی نہ ہو ،وہ دوزخ سے بدتر ہے۔ جنت سب کی خوشی کا نام ہے۔ سب کی عافیت کا نام ہے۔ میں جس چیز کو کہتا ہوں وہ شاید میں نہیں ،میں اپنے علاوہ بہت سی چیزوں کا نام ہے۔
سچ پوچھو تو جنت میری عافیت کا نام ہے۔ احباب میری تکمیل کا اور دشمن بھی میرے ہی عزائم کا ،یہ سب نام ہیں میرے ہی… مختلف روپ ہیں اور کعبہ بھی اپنے ہی دل کا نام ہے۔ عبادت اپنی پیشانی کا نام ہے۔ یہی پیشانی جھکتی ہے توانسان ساجد ہو جاتا ہے۔ اپنی جبین نیاز ہی سجدوں سے سرفراز ہوتی رہتی ہے… قرات کلام الٰہی کیلئے بھی انسان ہی کی زبان درکار ہے… اور سننے کیلئے انسان کے کان کی ضرورت ہے اور خشیت اللہ کیلئے انسانی دل کا ہونا لازمی ہے۔
کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں میرا ہونا نہ ہو… سفر میرے دم سے ،قیام میرے دم سے ،حج میرے ہی دم سے… دعا کیلئے انسانی ہاتھ کا اٹھنا ضروری ہے… اللہ انسان سے مانوس ہے اور انسان اللہ کا محتاج ہے…
زندگی کے سب ہنگامے ،سب رعنائیاں ،سب سلسلے ،سب ہجوم ،سب تنہائیاں ،سارے غم اور ساری خوشیاں میرے ہی لئے ہیں… اندازہ کیجئے ،علی الصبح… میری میز پر ایک رنگ برنگے سجے سجائے اخبار کی خاطر دنیا کتنے حادثات سے گزر جاتی ہے… سچ جھوٹ مل کر میرے پاس آ جاتا ہے اور یوں میری مصروفیت کا اہتمام ہوتا ہے… فون آتے ہیں ،فون جاتے ہیں اور پھر بل… میرے ہی نام… میرے ہی لئے… میری کمائیاں ختم ہوتی ہیں اور شروع ہوتی ہیں… اور آہستہ آہستہ میں اور میرا حاصل ختم ہو جاتے ہیں۔
لیکن نہیں… میں اپنے وجود سے نکل کر اپنے احباب کے دل میں جا بستا ہوں۔ وہ جو میرے دل میں ہوتے ہیں ،میں ان کے دل میں رہتا ہوں اور یوں میں ہمیشہ رہتا ہوں… میرے دوست رہتے ہیں… میں رہتا ہوں… میری کتابیں رہتی ہیں… میں رہتا ہوں… جب تک میرے تذکرے ہیں ،میں ہوں… اور میرے تذکرے کبھی ختم نہیں ہوتے… یہ عجیب بات ہے کہ ہمیشہ رہنے والی کتاب میں ان کے تذکرے بھی ہیں ،جو ہمیشہ نہیں رہے… یہ کیسے ہے؟ جب تک زندہ کتاب ہے ،وہ زندہ ہیں… اور زندہ کتاب ہمیشہ ہی زندہ ہے… مارنے والے نے مرنے والوں کو ذکر میں زندہ رکھا… اور مارنے والے نے مر جانے والوں کو… قربانی دینے والوں کو مردہ کہلانے سے بچائے رکھا… حکم ہوا کہ میری راہ میں مرنے والوں کو کوئی مرا ہوا نہ کہے… کیونکہ وہ تو زندہ ہیں… بس انسانوں کو شعور ہی نہیں ہے… ان شہدا کو اللہ کے پاس سے رزق ملتا ہے… بس شان والے کی شان ہے… جو چاہے کرے… مالک ہے… لیکن ایک چھوٹی سی بات یہ ہے کہ اسی کوکب کی تابانی سے اس کا جہاں روشن ہے…
انسان کا ہونا بہت ضروری تھا اور انسانوں کے دیس میں اپنے قدم بہت ہی ضروری تھے… شہر آباد کئے گئے… صدیوں سے تزئین گلستان ہوتی رہی… اور آخر اس گلشن ہستی میں اپنی آمد ضروری تھی… ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک دینے والے پھولوں کو ہمارے دم سے قرار ملا… کہ ہم ان کو دیکھ دیکھ کر مست ہو گئے… کیا بات ہے… باغ میں پھول اور پھولوں میں باغ…
آنکھوں میں جلوے اور جلووں میں آنکھیں… خوشبو میں رنگ اور رنگ میں خوشبو… ہر چیز ہر دوسری شے کے خیال میں محو… محو کرنے والا اور محو ہونے والا… سب ایک ہی محویت کا حصہ ہیں… میں وصول بھی کرتا ہوں اور میں ہی ارسال بھی کرتا ہوں… چہرے بھی میرے ہیں اور آنکھیں بھی میری ہیں… میرے ہی خیال کی زد میں ہیں ،سب فاصلے… سب دوریاں پاس ہی رہتی ہیں… بس ایک نگاہ کی بات ہے… اتفاقاً ہی اٹھ گئی تو وقت بدل جائے گا… انقلابات بپا ہو جائیں گے… جو نہیں ہے ،ہو جائے گا اور جو ہے ،نہیں رہے گا… حاضر غیب ہو جائے گا اور غیب حاضر… ناممکنات کو ممکنات بنانے والی نگاہ کسی وقت بھی اٹھ سکتی ہے… اور پھر حجابات اٹھ جائیں گے… سکوت سے کلام کا پہلو نکل آئے گا… صدیاں سمٹنا شروع ہو جائیں گے اور لمحے پھیلنے شروع ہو جائیں گے… بطون سے ظہور کا سفر ایک نگاہ کا سفر ہے… ظلمات سے نور کا سفر ایک نگاہ کا سفر ہے… بیگانے کو اپنا بننے کیلئے صرف ایک نظر کافی ہے۔
جان لینے کے ارادے سے آنے والا ،جان نثار کرنے لگا… یہی اعجاز نگاہ ہے… اپنا مقدر بس وہی نگاہ ہے… ورنہ دامن عمل تو خالی ہے…
میرے لئے چشم رحمت کشا ہوتی ہے… میرے لئے عبادت بنتی ہے… اور میرے لئے توبہ کے دروازے کھلے رکھے گئے… میرے لئے وہ دل بنایا گیا… جس میں اس کا سودا ہے… وہ دل جو کرشمے تلاش کرتا ہے دلبری کے… جو سردلبری سے آشنائی کا دم بھرتا ہے… یہ اپنا ہی تو دل ہے جو ناکام ہو ،تب بھی برے وقت میں کام آتا ہے… یہی ہے وہ مقام جہاں وقت کے فاصلے سمٹ جاتے ہیں… جہاں دور کا جلوہ پاس نظر آتا ہے۔
اسی دل کو عرش اللہ کہا گیا… اسی سے منزلیں طے ہوتی ہیں… یہی دل بارگاہ صمدیت میں قبول کراتا ہے… اسی دل کی بدولت زمین پر سجدہ ہو ،تو آسمان سے منظوری آتی ہے… سب جلوے اسی کے ہیں… سب رعنائیاں اسی کی ہیں… سب نغمے اسی کے… سب الاپ اسی کے… سب کرشمے اسی کے… سب فریادیں اسی کی اور سب قبولیت اسی کی… دل سلامت ہے تو سب سلامت ،نہیں تو کچھ بھی نہیں… میں کب سے ہوں ،اس جہان اجنبی میں…؟ کس کیلئے ہوں…؟ اور کب تک ہوں…؟ میں کس کے انتظار میں ہوں…؟ کیا پیدا ہونے سے پہلے بھی میرا کوئی کردار تھا…؟ کیا یہ سب فریادیں جدائی کے قصے ہیں…؟
کیا یہ داستان داستان فراق ہے…؟ کیا یہ لباس بدلنے کے بعد ہم اپنے اصل سے ملنے والے ہیں…؟ کیا اسے بھی انتظار ہے؟ کیا یہ سب یک طرفہ ہے؟ نہیں ایسے نہیں ہو سکتا… یہ بڑا گہرا راز ہے… میری خوشی کسی اور کے خوش رہنے سے ہے… اور کوئی شے ختم ہوتی ہے تو میرا غم بنتا ہے… مرتا وہ ہے اور روتا میں ہوں… بیمار وہ ہوتا ہے ،پریشان میں ہوتا ہوں۔
مفلس وہ ہوتا ہے ،سخی میں بنا دیا جاتا ہے… وہ شادی کرے ،میں بارات بن جاتا ہوں… وہ سفر پر جانے لگے ،میں الوداع کرتا ہوں… وہ آخری سفر پر چلا جائے ،میں ماتم کرنے میں سوگوار ہو جاتا ہوں… میں بدلتا رہتا ہوں لیکن میں قائم رہتا ہوں… کیا تبدیل ہوتے رہنا ہی میرا کردار ہے؟ کیا میں اپنا نصیب ہوں…؟ کیا میں کسی اور کا نصیب ہوں…؟ کیا میں خوش نصیب ہوں…؟ کیا میں بدنصیب ہوں…؟ میں بہرحال اپنے نصیب پر خوش ہوں… میں اپنے حال پر راضی ہوں۔
میرا مستقبل مجھے راضی رکھے گا… جو آج خوش نصیب ہے ،وہ کل بھی خوش نصیب ہوگا… دوستی سلامت رہے تو زمانہ سلامت رہتا ہے… دنیا بہتر ہو تو آخرت بھی بہتر ہو جاتی ہے… ہر شے کا ہونا ہی بہتر ہے… ستم کے زمانے ہوں تو لذت ستم کو قائم رکھو… کرم کے زمانے ہوں تو بھی آنکھ کو خشک نہ ہونے دو… تر آنکھ ہی ضمانت ہے بخشش کی… آنکھ میں موتی ہوں تو دامن میں گوہر مراد ہوتا ہے… اور اگر آنکھ خشک ہو تو دامن مراد… خالی ہوگا…
بس یہی راز ہے کہ میں اور میرا گرد و پیش اس لئے متعلق ہیں کہ میری آنکھ میں نمی رہے… اور یہی آنسو مجھے وابستہ رکھتے ہیں… اپنے آپ سے ،اپنے ماحول سے ،اپنے ماضی سے ،اپنے مستقبل سے… اپنے اصل سے… اپنے محبوب سے… اپنے مقام سے… اپنے مالک و معبود سے…
خدایا میری یہ تمنا ضرور پوری فرمانا کہ میرے آنسو خشک نہ ہوں اور میرے آنسو رائیگاں نہ ہوں… ان قطروں میں کئی قلزم پنہاں ہیں… یہ آنسو عہد گزشتہ کی نجات ہو سکتے ہیں اور انہی کے دم سے عہد آئندہ… سب کیلئے… ہر ایک کیلئے… بد اور نیک کیلئے… باعث رحمت ہو سکتا ہے…
خدایا یہ آرزو ہے کہ میں سلامت رہوں اور سب کی سلامتی کے ساتھ کیونکہ میرا ہونا دراصل میرے وابستگان کا ہونا ہے۔
جنت میں ہونا سب کے ساتھ ہونا چاہئے… جنت ہے ہی بس وہی مقام ،جہاں کوئی بری خبر نہ آئے… کوئی یہ نہ بتائے کہ فلاں عزیز دوزخ میں چلا گیا…
خدایا اپنے ماننے والوں کو… اپنے محبوبﷺ سے محبت کرنے والوں کو… سب کو معاف فرما… امت رسول عربیﷺ پر رحم فرما میرے مولا… سب سب کے ساتھ سلامت رہیں… یہاں بھی مل کر… وہاں بھی مل کر… زندگی سب کی زندگی ہے اور جنت سب کی جنت ہے…! یہی پیغام دے گیا وہ ایک لمحہ جو آیا اور اس کے آتے ہی زمانے بدل گئے… سب سلامت تو ہم سلامت!!

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif