Episode 16 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 16 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

وسعتیں
یوں تو ہمارے گرد انسانوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو ہماری زندگی چند انسانوں میں بسر ہو جاتی ہے۔ چند اپنے اور چند ہی بیگانے۔ یہی ہے ہماری کل کائنات۔ کل اثاثہ یہی چند نفوس ہیں۔ اگر صرف دیکھیں تو ایک وسیع ہجوم ہے لیکن اگر غور کریں تو ہمارا دائرہ واقفیت بہت ہی مختصر ہے۔ لامحدود انسانوں میں ایک محدود دائرہ بہت غور طلب بات ہے۔
کیا ہم سب الگ الگ رہنے کیلئے پیدا ہوئے؟ کیا یہ مجبوری اور بیگانگی ہمارا مقدر ہے؟ کیا یہ ہماری ناکامی ہے؟ یہ سب کیا ہے؟ ہم ایک زندگی میں کتنے انسانوں کو نام سے پکار سکتے ہیں؟ کتنے انسان ہمیں نام لے کر بلا سکتے ہیں؟ اگر تعلق اتنا محدود ہے تو یہ وسیع لاتعلقی کیا ہے؟ یہ اجنبی منظر میرے کس کام کا… یہ اخبار ،یہ خبریں… ہمارے کس کام کی… کون ہے وہ جس کے بارے میں مجھے بتایا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

کون ہیں وہ جو میرے لئے خبریں بن رہے ہیں… میرے لئے تغلق نہیں بنتے ،بس خبریں بنتے ہیں… ہر خبر میرا احساس نہیں ،ہر واقعہ میرے متعلق نہیں… ہر اہم چیز میرے لئے اہم نہیں… مجھے شناسائی کے ایک مختصر دائرے میں جکڑ کے رکھ دیا ہے اور میرے سامنے ہوتا ہے ،شب و روز تماشا…
مجھ پر اپنے متعلقین اور وابستگان کے فرائض پورا کرنے کی ذمہ داری ہے۔
باقی منظر صرف دیکھنا ہی تو ہے… ہر انسان اپنے اپنے مدار میں چل رہا ہے۔ اپنے مخصوص مقناطیسی فیلڈ میں بے بس و پابند ہے… یہ بے بسی شاید زندگی کی اساس ہے۔ ہم اپنے شب و روز کا تجزیہ کرنے میں اور شب و روز کے بارے میں ایک فیصلہ کن بیان دینے میں عجلت سے کام لیتے ہیں۔ ہمارا مشاہدہ اور ہمارا فیصلہ ہماری مجبوری سے متاثر ہوتا ہے اور یوں اسی شغل میں زندگی تمام ہو جاتی ہے…
ہم پر اس وسیع ہجوم کی ذمہ داری نہیں… ہم جواب دہ ہیں صرف اس دائرے میں، جو ہمارا ہے… اس زندگی کے بارے میں ،جو ہماری ہے۔
اس عمل کے بارے میں ،جس کی ہمیں مہلت دی جاتی ہے۔ اس لامحدود وقت سے صرف چند گنتی کی ساعتیں ہمارے حصے میں آئیں۔ ہمیں وہیں تک ہی رہنا پڑتا ہے۔ وہ ساعتیں کٹ جائیں تو ہماری زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ وقت کا قافلہ چلتا رہتا ہے۔ ہم ہی اس قافلے سے بچھڑ جاتے ہیں۔ وسعتیں ہماری تنہائی کو مزید تنہا کر دیتی ہے۔
ہماری زندگی ،ہمارے سورج اور ہمارے چاند سے وابستہ ہے۔
ہم سورج سے پرے وسعتیں جاننے کا شوق رکھتے ہیں۔ ان وسعتوں کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اگر انسان تقریباً دو لاکھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک سفر طے کرے توکبھی کبھی یہ فاصلے لاکھوں سال تک بھی ختم نہیں ہوتے۔ وسعتیں بڑھتی جاتی ہیں… خلائیں گہری ہوتی جاتی ہیں… یہ کسی اور مخلوق کا فاصلہ ہے جو انسان طے کرنا چاہتا ہے۔
زندگی کے مختصر ایام خلاؤں میں بھٹکتے ہی گزر جاتے ہیں اور آخر ہماری خاک اس خاکدان میں واپس چلتی جاتی ہے۔ وسعتیں ختم نہیں ہوتیں ،صرف زندگی ختم ہوتی ہے…
بنانے والے نے ہر طرف لامحدود مناظر بنائے ہیں… ہر انسان کو ہر جلوہ نظر نہیں آتا اور جنہیں کچھ نظر آتا ہے ،انہیں بھی بس ایک حد تک آشنائی ہوتی ہے۔ انسان اپنی حد نگاہ کے اندر ہی دیکھنے پر مجبور ہے اور یہ دیکھنا ،ضروری نہیں کہ صحیح ہو… اصل جلوہ نظر آنے والے جلوے کے برعکس بھی ہو سکتا ہے… نظر آنے والے ستارے ،یوں محسوس ہوتے ہیں کہ ننھے ننھے ٹمٹماتے ہوئے دیئے ہیں۔
روشن فانوس ،ہوا میں معلق ،ہماری چھت کو سجانے کیلئے کاریگری کا کمال ہے… لیکن یہ کمال ،اس کمال کے مقابلے میں کچھ نہیں جو ستاروں کی اصل کو جاننے میں ہے۔ جتنے ستارے ہیں اگر اتنی زمینیں اکٹھی کر دی جائیں تو شاید ایک ستارے کے اصل وجود کے برابر ہو… وسعت کا اندازہ خوف پیدا کرتا ہے…
صرف یہی نہیں۔ کچھ ستارے شاید گرم اور کچھ یخ ٹھنڈے… قدرت ہے قادر مطلق کی… اس وسعت کا آخر ہمارے ساتھ کیا تعلق۔
نہ ہم اس کو طے کر سکتے ہیں نہ ہم اسے پور طرح محسوس کرکے خوش ہو سکتے ہیں۔ بے تعلق وسعتیں اور بے تعلق فاصلے انسان کیلئے کیا پیغام رکھتے ہیں۔ ہم ”زمینی مخلوق“ آخر آسمانی وسعتوں سے کیا حاصل کریں گے۔ ہمیں اپنے جامے میں رہنے سے ہی عافیت نصیب ہو سکتی ہے۔ آسمانوں پر جھنڈے لگانے سے کیا مسئلہ حل ہوا۔ زندگی تاریک تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں دور کی چمک لے ڈوبی… پاس ہی کراہنے والے زندگی ہمارے لئے اہمیت کھو چکی ہے… ہماری بینائی ہی ہماری راہ میں حائل ہو چکی ہے… ہماری دوربینی دراصل فرائض سے فرار ہے۔
کائنات کی وسعتوں میں یہ فرار آسانی سے ممکن ہے… انسان پر بم گرانے والے ،انسانوں کو تباہ کرنے والے ،کون سے سفر پر روانہ ہیں۔ کونسی وسعت کو جاننے کے در پے ہیں۔
وسعتیں اور فاصلے ختم نہیں ہو سکتے۔ نظارے لامحدود ہیں اور زندگی محدود… ہماری صلاحیتیں تو ہماری زندگی سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ ہم مناظر دیکھنے کیلئے تیاری کر رہے ہوتے ہیں کہ ہماری بینائی ناراض ہو جاتی ہے… ہم بہت زیادہ علم بلکہ علوم اپنے ذہن میں محفوظ کرتے ہیں۔
ادیب ،سکالر اور محقق کہلاتے ہیں لیکن اچانک یادداشت جواب دے جاتی ہے… خدا اس وقت سے بچائے۔
وسعتیں انسان کو مزید محدود بنا رہی ہیں… لائبریریاں علم سے محبت کی بجائے علم کی ہیبت طاری کر رہی ہیں… کتابوں کے سمندر سے کیا حاصل کیا جائے… کہاں سے شروع کی جائے اور کہاں ختم ہو گی ،یہ داستان… زندگی کے بارے میں کچھ معلوم کرنے کیلئے کتابیں پڑھنا پڑتی ہیں اور یہ سب کتابیں، بے شمار کتابیں ،اتنے متضاد فارمولے بتاتی ہیں کہ زندگی پھر تلاش میں ہی رہتی ہے… یہ تضاد بھی بہت وسعت کا مالک ہے۔
ہم کتابوں میں گم ہو جاتے ہیں اور زندگی ہمارے پاس سے رخصت ہو جاتی ہے… ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں… ہمارے اپنے ہمارے پاس نہیں ہوتے…
اور پھر ہم زندگی کی اس عظیم وسعت سے نکل کر موت کی عظیم تر وسعت میں داخل کر دیئے جاتے ہیں۔ نہ آنے پر اختیار ،نہ جانے پر اختیار۔ کہنے کو ہم بڑے بااختیار ہیں… موت کے بعد کیا ہوگا… لیکن کون ہوگا… بلکہ کیوں ہوگا… اس سوال کا جواب ہمیں مذہب آشنا کرتا ہے… مذہب ایک اور وسعت ہے… لامحدود کائنات… واحد و قہار اللہ کی حکومت موت کے بعد… جب رحم اور رعایت کا دور ختم ہو چکا ہوتا ہے۔
ایک عظیم نفسانفسی ،ایک خوف کہ ہم نے وہ نہ کیا جو ہمیں کرنا تھا اور ہم تو بس وسعتوں کے چکر میں گم رہے… اور ہم سے جواب مانگا جائے گا حقوق العباد کے بارے میں ،حقوق اللہ کے بارے میں…
سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ کائنات کے خالق نے یہ سب عظیم فاصلے اور عظیم وسعتیں تخلیق فرمائی ہیں… ان کے علاوہ بھی بڑی وسعتیں ہیں۔ مخلوقات کی اتنی اقسام ہیں کہ اس وسعت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہو سکتا۔
دنیا میں نازل ہونے والی زبانیں… ایک وسیع و عظیم علم ہے… پہاڑ… سمندر… صحرا… بے کراں وسعتیں ہیں… ایٹم کے اندر کرشمہ سازی کے عجوبے… حیرت پیدا کر دینے والی وسعت… ایک بیج میں بے شمار درخت اور ہر درخت میں بے شمار بیج ،حیرت ہے… وسعت ہی وسعت ہے۔ زندگی سے موت اور موت سے زندگی پیدا کرنے کا عمل ،سیپ کے باطن میں موتی کا بننا ،مٹی کی تاریکی میں بیج کا پلنا ،سب وسعتوں کی اطراف ہیں… لیکن سب سے بڑا عجوبہ ،سب سے بڑی وسعت ،انسان کی تخلیق ہے… یہ اشرف المخلوقات… وسعتوں کا مالک ہے… کائنات میں اور کوئی مخلوق نہیں جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ وسعتوں کی مالک ہے…
انسان کیلئے وسعتیں ہیں… انسان کے دن منور کرنے کیلئے سورج دہک رہا ہے ،جل رہا ہے۔
انسان کی راتوں کو سکون بخشنے والا چاند روشنی رکھتا ہے… ستارے اپنی ذاتی وسعتوں کے باوجود انسان کے آسمان کو ایک حسن و جمال کا منظر عطا کرتے ہیں۔ انسان کی خوراک کیلئے اہتمام کر دیا گیا ہے… زمین سے اگنے والے پودے ،سبزیاں ،پھل انسان کے دستر خوان کی زینت بنتے ہیں اور پھر چراگاہوں میں چرنے والے ریوڑ ،ہوا میں اڑنے والے پرندے اور پانی میں تیرنے والی مچھلیاں انسان کیلئے دودھ ،گوشت ،گھی ،مکھن ،پنیر ،کیا کچھ نہیں دیتے… وجود کیلئے خوراک اور لباس کیلئے اون…
انسان ایک بے پناہ اور بے انتہا و سعت ہے… اس کے اندر وسعت ہے… خیال کی وسعت ،احساس کی وسعت ،شعور و آگہی کی وسعتیں انسان ہی کیلئے تو ہیں… خالق نے اپنے اظہار کیلئے انسان ہی کو منتخب کیا… اپنی محبت کیلئے انسان ہی کا دل چنا گیا…
یہ چناؤ بھی بڑا عظیم اور وسیع ہے… انسان کے علاوہ اور کوئی مخلوق یا وسعت اس امانت کی اہل نہ پائی گئی… یہ جہالت ہی سہی ،اپنی جان پر ظلم ہی سہی لیکن ہے یہی سب سے بڑی بات ،عظیم وسعت کہ ایک عظیم ترین خالق ،وسعتوں کا خالق ،اگر آیا تو اسی انسان کے دل میں آیا… اس نے اپنا اظہار کیا تو اسی انسان کی زبان سے… یہی وارث ہے کائنات کا… اور یہی وارث ہے اس کی محبت کا… سوز و گداز صرف انسان کے پاس ہے… فرشتوں اور جنات کے پاس عبادت تو ہے لیکن محبت اور عشق کی مستی انسان کا نصیب ہے…
ستارں کی گزر گاہیں ماپنے کے بجائے ہم اس احسان کا جائزہ یں جو ہم پر کیا گیا… اس وسعت کا احساس کریں جو ہمیں عطا ہوئی… اس تعلق کا شکر ادا کریں جو ہمیں نصیب ہوا… انوکھا ،نرالا ،وسیع تعلق… اصل وسعت یہی وسعت ہے۔
اپنی ہستی اور اس کا مدعا سمجھنا… اپنے خالق کو پہچاننا ،اپنے رازق سے باخبر رہنا… اپنے ہونے سے آشنا ہونا اور اپنے نہ ہونے سے قبل از وقت آگاہ ہونا… باقی سب وسعتیں حجاب ہیں۔ قابل دریافت اور قابل عزت صرف وسعت انسان ہے۔ وسعت قلب ہے… وسعت زمین و افلاک اپنی جگہ لیکن وسعت دل ،کیا بات ،جس میں وسعتیں پیدا کرنے والے وسیع عرش و کرسی رکھنے والے ،خالق کل کا وسیع جلوہ سما سکتا ہے… دل بینا پر باقی سب وسعتیں اور فاصلے نثار… یہی ہے حاصل ہستی اور یہی ہے مدعائے حیات۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif