Episode 17 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 17 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

عظیم لوگ
تاریخ عالم اور تہذیب آدم کا بغور مطالعہ کرتے وقت ہمیں دو قسم کے لوگ نظر آتے ہیں ،گمنام اور نامور۔ اپنی سادگی اور سادہ دلی میں مست رہنے والے گمنام لوگ معاشرے ،نسلیں ،قومیں اور ملتیں بنتے ہے ہیں۔ یہی لوگ ناموروں کو پیدا کرتے یں اور خود کسی ناموری کے ذوق سے یکسر بے نیاز اپنی دنیا میں مصروف و سرشار رہتے ہیں۔ یہ عظیم لوگوں کو دیکھ دیکھ کر خوش رہتے ہیں۔
ان کے تذکرے پڑھ کر خوش رہتے ہیں ،ان کی اطاعت بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ بغیر کسی شور و غوغا کے زندگی بسر کرتے ہیں اور کسی کو بہت بڑا جنازہ بنانے کی تکلیف دیئے بغیر خاموشی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
یہ لوگ کب آئے ،کب گئے ،کسی کو خبر نہیں۔ یہ لوگ اپنے ماحول کے ظالم حصار میں رہے۔ اپنے گھروں میں ،اپنے شب و روز میں مبتلا ،اپنے آپ میں مست ،اپنی غریبی اور غریب الوطنی میں مجبور ،اپنے محدود دائرے میں مقید ،کسی شہرت و عظمت کے تصور سے آزاد ،کسی تاریخ میں داخل ہونے کے جذبے سے یکسر لاتعلق ،ناموری کے حصول کے جذبوں سے عاری ،زندگی کے تھپیڑے کھاتے ہوئے آئے اور تھپیڑے کھاتے ہوئے رخصت ہو گئے۔

(جاری ہے)

انہیں اتنا بھی معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کیوں اور کب غلام ہوئے اور کیوں اور کیسے آزاد ہوئے۔ یہ لوگ ضرورتیں پوری کرتے کرتے پورے ہو گئے۔ اپنے بعد کوئی بہت بڑی یادگاریں نہیں چھوڑ گئے ،کوئی بڑے کارنامے سرانجام نہیں دے گئے۔ عوام الناس کا یہ ہجوم ایک الگ راز ہے ،اس کی ایک الگ اہمیت ہے۔ انہیں خالق نے الگ کام کیلئے تخلیق کیا۔
دوسرا گروہ ناموروں کا ہے۔
عظیم انسان ،اپنی ذات کو نمایاں اور روشن کرنے والے یہ لوگ وقت کے چہرے پر اپنے نام کی مہریں ثبت کرتے رہے۔ یہ فتوحات کرتے تھے، علم و ادب ،فلسفہ ،تاریخ و تہذیب ،عمرانیات و عرفانیات ،ریاضیات و معاشیات میں مقامات حاصل کرنے والے یہ عظیم لوگ ایک الگ طرح کی زندگی رکھتے تھے۔ یہ درد کے صحراؤں میں بیٹھ کر دنیا کو نخلستان کی خبر دیتے تھے۔ یہ لوگ اپنے اشکوں سے چراغاں پیدا کرتے رہے۔
یہ بے بسی میں رہ کر بھی دنیا کیلئے نوید حیات کے نسخے بناتے رہے۔ ان کی تشنگی دوسروں کیلئے آب حیات سے کم نہ تھی۔ دنیا کو سیراب کرنے والے خود اپنی پیاس لے کر خاموشی سے رخصت ہو گئے۔
عظمت کا سفر کرب کا سفر ہوتا ہے۔ جب لوگ سوتے ہیں ،یہ لوگ جاگتے ہیں۔ ان کے فارمولے جدا ،ان کے جذبے الگ ،ان کے آغاز ،ان کے انجام سب نرالے تھے۔
فطرت نے یوں تو ہر ایک کو یکساں انداز سے پیدا کیا ہے ،ہر ایک کو یکساں صفات عطا کی ہیں ،ہر بچہ ایک ہی بچہ ہوتا ہے اور مرنے والا ایک ہی میت ،لیکن غور والی بات یہ ہے کہ قدرت نے کچھ بچوں کو بچپن سے ہی علیحدہ بنایا۔
کسی کا چہرہ خوبصورت اور بہت زیادہ خوبصورت بنا دیا گیا ،اب اس چہرے کی وجہ سے وہ شخص زندگی میں باقیوں سے ممتاز رہے گا۔ اس کی صفات الگ ہوں گی اور وہ ایسے مقامات حاصل کے گا جو عام انسانوں کو نصیب نہیں ہوتے۔ حسن کامیابیوں کے میدان میں اپنا سفر طے کرتا ہے اور یہ سفر انسان کو عظمتوں کے علاقے میں لے جاتا ہے۔
کچھ لوگ پروانہ صفت پیدا ہوتے ہیں۔
وہ محبت کے پرستار اپنے وجود میں ایک نئی امنگ موجود پاتے ہیں اور علم اور تعلیم کے بغیر عشق کے عجائبات سر کرتے ہیں۔ شوق والا دل عطا ہے ،یہ فطرت کا عطیہ ہے اور یہیں سے انسان کی عظمت کا سفر شروع ہو جاتاہے۔ اس میں کسی کے ناراض ہونے کی بات نہیں۔
یہ بات سمجھنے کیلئے مشاہدے کی ضرورت ہے کہ جو آدمی عظمت میں نمایاں ہو اس کو اگرچہ عام انسانوں کی طرح پیدا کیا گیا لیکن اس کی صلاحیتوں میں کوئی ایک صلاحیت ایسی رکھ دی گئی جس نے ہر صورت کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے۔
پارہ چین سے نہیں بیٹھتا ،آگ روشن ہو کر رہتی ہے ،دریا آخر روانہ ہو کر رہے گا۔
ہم لوگ دیکھتے ہیں کہ ریاض کرنے سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ یہ ہمارا اپنا کمال ہے لیکن جب لوگوں کو ریاض کے بغیر ریاض کا نتیجہ حاصل ہو ،انہیں کیا کہا جائے۔ ہزار محنت کی جائے ،ہزار استاد رکھے جائیں ،شعر اس وقت تک موزوں نہیں ہوگا جب تک انسان کے باطن میں شعریت اور نغمگی نہ ہو۔
یہ صفات کیسے پیدا ہوتی ہیں ،اس کا کوئی جواب نہیں۔ اسے اللہ کا فضل کہتے ہیں۔
عظمت گہوارے میں عظمت ہوتی ہیں۔ یہ کسی سکول کی تعلیم کا نتیجہ نہیں۔ یہ قدرت کے دیئے ہوئے علم کا نتیجہ ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ بڑے مصنفوں سے فیض حاصل کریں ،غزالی کو پڑھنا بہت ضروری ہے لیکن یہ سوچنا بھی فرض ہے کہ غزالی کو کس نے غزالی بنایا۔ عظمت کی شاہراہیں بننے سے پہلے بھی عظیم لوگوں کا وجود ہوتا ہے۔
یہ لوگ فطرت کے انعام یافتہ ہوتے ہیں۔ دنیا کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم کرنا مشکل نہیں کہ انسانوں میں یکساں صفات کے باوجود ،الگ الگ مزاج بنے ہیں۔ ایک مسجد میں مل کر باجماعت نمازیں ادا کرنے والے کئی سالوں کی رفاقت کے بعد بھی مختلف المزاج نظر آتے ہیں۔
قدرت نے کچھ ایسا انتظام کیا ہے کہ ایک انسان جو بظاہر قابل توجہ نہیں ،اس کو بھی پسند کرنے والے بلکہ پرستش کرنے والے مل جاتے ہیں۔
ایک ملک سے دوسرے ملک میں سفر کرنے والا اپنی پسند کا انسان دیکھتا ہے اور دونوں نمایاں ہو جاتے ہیں۔ لیلیٰ ایک لڑکی ،عام فہم ،مجنوں بھی اپنی جگہ پر ایک انسان لیکن دونوں کے درمیان محبت کے ناطے اس طور پر طے ہوئے کہ دونوں نمایاں ہوتے گئے اور ان کی داستان کتنے شعراء کیلئے ایک نمایاں بلکہ عظیم کلام کا باعث بنی۔ لیلیٰ مجنوں تو چلو عورت اور مرد تھے ،مجاز ہوگا۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ عشق حقیقی ہے لیکن ہم سے زیادہ جاننے والے یعنی حضرت مولانا جامی اور امیر خسرو اس داستان کو داستان عشق حقیقی کہتے ہیں۔
یہ کیا راز ہے کہ کوئی صحرا میں عظیم بن رہا ہے ،کوئی پہاڑوں پر عظیم ہو رہا ہے ،کوئی فتوحات میں اور کچھ لوگ شکست میں عظیم ہو گئے۔ یونان نے روم کو فتح کر لیا اور رومیوں کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر فاتح یونانی ان کے شاگرد ہو گئے ،ان سے سیکھنے لگ گئے۔
فاتح ہونے کے بعد ان کے غلام ہو گئے۔ یزید فاتح ہوا لیکن ہمیشہ ہمیشہ کیلئے باعث ندامت۔
بہرحال عظیم لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو پیدا ہوتے ہی عظیم ہوتے ہیں۔ ان کی پیدائش پر فطرت کی طرف سے نشانیاں نازل ہوتی ہیں ،چرند پرند کو باخبر کیا جاتا ہے کہ آ گیا وہ جسے بھیجا گیا عظمت کا تاج پہننے کیلئے۔ چھوٹے دل والے لوگ اس میں حسد نہ کریں ،یہ اس سماج کی بہت عزت ہے جس میں منتخب اور مقدس نفوس کو بھیجا جائے۔
چھوٹا آدمی جھگڑتا ہے ،لڑتا ہے کہ اس نے عظیم ہونا تھا ،وہ پروں کے بغیر پرواز کرنا چاہتا ہے۔ وہ صلاحیتوں کے بغیر مرتبہ چاہتا ہے ،وہ حق کے بغیر حصہ لینا چاہتا ہے ،اس کے نصیب میں محرومی لکھی جا چکی ہے۔ فطرت کے کام دیکھتے جاؤ ،اس نے کوا بنایا اور مور بنایا۔ یہ بظاہر فرق ہے لیکن دونوں ایک ہی جلوے کے حصے ہیں۔ رات دن کا حصہ ہے، دن رات کا حصہ ہے۔
زندگی موت کا حصہ ہے ،موت زندگی کا حصہ ہے۔ اس میں جھگڑے کی کوئی بات نہیں۔
دوسری قسم کے عظیم لوگ وہ ہیں جو محنت کو کرامت بناتے ہیں۔ وہ اپنے عمل میں تواتر قائم کرتے ہیں ،اپنی لگن میں استقامت قائم کرتے ہیں ،اپنے سفر میں یکسوئی حاصل کرتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ چل کر آخر ایک دن وقت کی بلند چوٹیاں سر کر لیتے ہیں۔ یہ کام بھی ہر ایک کے بس کا نہیں ہے۔
چھوٹے ظرف کے لوگ اگر یہ عزم کرلیں کہ کسی درخت کے پتے گن کر دم لیں گے تو آدھا کام کرنے کے بعد وہ بالعموم یہ کہیں گے ”چھوڑو یہ کیا کام ہے ہم کوئی اور بڑا کام کریں گے“ اور اس طرح مقاصد بدلتے بدلتے بے مقصدیت پیدا کرکے گمنامیوں کی وادیوں میں چلے جاتے ہیں۔
تیسری قسم کے عظیم لوگ وہ انسان ہیں جنہیں کوئی لمحہ ،کوئی خوش نصیب لمحہ ،کوئی انسان ،کوئی نصیب ساز انسان ،کوئی واقعہ ،کوئی خوشگوار واقعہ اچانک ان کے پاس سے گزرتا ہوا انہیں عظیم بنا جاتا ہے۔
ایسے کتنے لوگ ہیں جو رات کو گمنامی کی نیند سوئے اور صبح ناموری کی روشنی میں بیدار ہوئے۔ یہ تو عام فہم بات ہے۔ کسی خاموش شاعر کا کلام چھپنے سے پہلے عظیم نہیں ہوتا اور کلام چھپ جائے تو ناموری عطا ہو جاتی ہے۔ ایک انسان اپنے شب و روز میں میانہ زندگی گزار رہا ہے۔ اس کے سامنے ایک چیلنج آتا ہے ،وہ اس چیلنج کو قبول کرتا ہے اور ایک خوش بخت عمل کر گزرتا ہے۔
نتیجہ یہ کہ وہ عظیم غازی علم الدین شہید بن جاتا ہے۔ اس طرح بے شمار مثالیں ہیں ان لوگوں کی ،جنہیں واقعات نے عظیم بنایا۔
یہاں تک تو بات واضح ہے کہ عظیم لوگ آتے رہتے ہیں ،اپنی عظمتوں کو فیض بناتے ہیں اور کبھی کبھی اپنی عظمتوں کو ایک جھنڈا بنا کر کسی سرزمین پر گاڑ جاتے ہیں۔ آنے والی نسلیں انہیں دعائیں دیتی ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مذہب کے حوالے سے عظیم لوگوں کے ساتھ وابستگی اس وقت تک خطرناک ہو سکتی ہے جب تک وہ عظیم لوگ ایک مذہبی زندگی نہ گزار رہے ہوں۔
ہم تھوڑی دیر کیلئے عظیم لوگوں کو باعث عزت سمجھتے ہوئے اپنے لئے اولی الامران لیں تو اولی الامر کا اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کا تابع ہونا ضروری ہے ورنہ اس کی اطاعت کی بجائے اس کے خلاف جہاد لازمی ہے۔ یہ بات ہمارا ذہن قبول نہیں کر سکے گا۔ ہم کسی ایک صفت میں حاصل ہونے والی عظمت کے نتیجے میں بننے والے عظیم آدمی کو باعث تقلید مان لیتے ہیں اور یہاں سے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
ایک عظیم وکیل ضروری نہیں کہ عظیم امام مسجد ہو۔ بس عظیم کو اسی شعبے تک عظیم سمجھنا چاہئے جس میں اس نے عظمت حاصل کی۔ اس شعبے میں اس کی تقلید بھی جائز ہے لیکن اس کو اس کے شعبے سے نکال کر دوسرے شعبے میں باعث عظمت ثابت کرنا دھوکا ہے۔ مثلاً لارڈ رسل کا فلسفہ صحیح ہے ،خوبصورت ہے لیکن اس کی زندگی کی تقلید کرنا ہمارے لئے جائز نہیں ہے۔
اس کا فلسفہ سند لیکن اس کی زندگی مومن کیلئے غیر مستند ہے۔
اپنے ہاں بھی جو لوگ عظیم ہیں ،ان کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ جس شعبے میں اور جس مقام پر وہ عظیم ہیں ان کو سلام پیش کیا جائے اور جہاں ان کی زندگی معذرت سے گزر رہی ہے ،وہاں سے گریز کیا جائے۔ ہمارے ہاں وقت یہ ہے کہ جو علماء صاحبان ہیں ،وقت کے تقاضوں کی عظمتوں سے بے خبر ہیں اور جو لوگ عظیم ہیں وہ احکام شریعت سے غافل نظر آتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ قوم جب کسی ہیرو کی تقلید کرتی ہے تو دین سے بے راہ ہو جاتی ہے اور اگر دینی طور پر پابندزندگی گزارے تو وقت کے تقاضے نظر انداز سے ہو جاتے ہیں۔ ہم یہاں تک متعصب ہیں کہ کسی بڑے آدمی کا اس طرح نام بھی نہیں سننا چاہتے کہ وہ دینی معاملات میں کمزور تھا۔ ہم اس کی خوبی کے پرستار ہیں اور عظمت کی پرستش کے دوران اس کی زندگی کے غافل حصے کی بھی تقلید کر جاتے ہیں۔
مثلاً کوئی عظیم مفکر ،قوم کو عظمتوں سے آشنا کرنے والا دین کے کسی فرض کی ادائیگی میں ذرا کمزور ہو تو اتنا کہنے کی بھی جرأت نہیں ہوتی کہ یہاں وہ صحیح ہے ،یہاں وہ صحیح نہیں۔
ہماری قوم ایک مثالی عظمت اور عظیم آدمی کی تلاش میں ہے اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ ہم لوگ سمجھ نہیں سکتے کہ دنیا کے عظیم انسانوں میں صرف ایک یا چند صفات کی عظمت ہے۔
واحد عظیم ہستی حضور اکرمﷺ کی ہے جن کی زندگی کا ہر شعبہ مثالی ،ہر عمل بے مثال ،جن کی ہر صفت ،جن کی نشست و برخاست ،جن کا جاگنا سونا اور جن کا بولنا سننا باعث تقلید ہے۔ جن کے نقش قدم پر چلنا ہی فلاح کی راہ ہے۔ باقی تمام عظیم ہستیوں کا ان کی اس صفت کے مطابق جائزہ لینا چاہئے ،جس میں وہ عظیم ہیں۔ ہر آدمی ،خواہ کتنا ہی عظیم ہو ،تقلید کے قابل نہیں۔ اگر ہم ہر ایک کو قابل تقلید رہنما بناتے رہے تو قوم ایک بے جہت اور بے سمت سفر میں گم ہو سکتی ہے۔ اکابرین ملت کو آفتاب رسالتﷺ کی کرنیں ہی مانا جائے۔ بس نور ظہور سب حضورﷺ کا ہے۔ باقی سب عظمتیں صرف دیکھنے کیلئے ہیں ،تقلید کیلئے نہیں۔ تقلید صرف اس ذات کی جسے اللہ کی تائید حاصل ہے۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif