Episode 21 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 21 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

حقوق
کسی انسان کا کسی انسان پر یا سماج پر یا ملک و قوم پر کتنا حق ہے ،اس کیلئے کوئی قانون نہ بھی ہو تب بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جس شے کی جتنی افادیت ہو گی اتنی ہی قیمت ہو گی۔ اتنا ہی حق ہوگا۔
حقوق کا تعین ،حقوق کا احترام اور حقوق کی ادائیگی کو توازن کہتے ہیں۔ حقوق کی حفاظت میزان ہے۔ حقوق کا لحاظ کرنے والا معاشرہ ایک متوازن اور فلاحی معاشرہ کہلاتا ہے۔
زندگی حقوق سے باہر نکل جائے تو سرکش و باغی ہو جاتی ہے۔ اس کی تمام قدریں پامال ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس کا تمام جمال ختم ہو جاتا ہے۔ اگر زندگی حقوق سے محروم ہو جائے تو ایک بے بس ،محکوم شے بن کے رہ جاتی ہے۔
کامیاب معاشرہ وہی ہے کہ چپکے سے فرائض ادا ہوتے رہیں اور چپکے سے ہی حقوق ادا ہوتے رہیں۔

(جاری ہے)

جس دور میں انسان کو حقوق کے حصول کیلئے جہاد کرنا پڑے ،اسے جبر کا دور کہتے ہیں اور اگر حقوق کے حصول کیلئے صرف دعا کا سہارا ہی باقی رہ جائے تو اسے ظلم کا زمانہ کہتے ہیں اور وہ زمانہ جس میں کچھ لوگ حق سے محروم ہوں اور کچھ لوگ حق سے زیادہ حاصل کریں ،اسے افراتفری کا زمانہ کہتے ہیں۔

جہاں ہر شے ،ہر جنس ،ایک ہی دام فروخت ہونے لگے اسے اندھیر نگری کہا جائے گا۔
حقوق اور اہمیت کا لحاظ ہی معاشروں کو ترقی کی منازل عطا کرتا ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق کے احترام سے ہی سماج میں قیام پیدا ہوتا ہے۔ دوسروں کے حقوق کا احترام کئے بغیر اگر ان پر اختیار جتایا جائے تو ممکن ہے کچھ عرصہ کے بعد جتانے کیلئے اختیار ہی نہ رہے۔ حقوق کی ادائیگی محبت پیدا کرتی ہے اور حقوق کی پامالی نفرت۔
محبت اطاعت پیدا کرتی ہے اور نفرت بغاوت۔ طاقتور حقوق ادا کرتا رہے تو طاقتور ہی رہے گا۔ حقوق نہ ادا کرنے والا ظالم کہلائے گا اور ظالم سے طاقت چھن جائے گی۔ یہ قدرت کا اصول ہے۔
انسان پر ایک زندگی میں کئی حقوق واجب الادا ہیں۔ تفصیل بیان کرنا ناممکن ہے۔ سب سے زیادہ اہم تین قسم کے حقوق ہیں یعنی سماج کے حقوق اپنی ذات کے حقوق اور اپنے خالق کے حقوق۔
سماج کے حقوق میں قوم کے حقوق ،ملک کے حقوق ،حکومت کے حقوق ،پاس رہنے والوں کے حقوق اور ان لوگوں کے حقوق جہاں انسان موٴثر ہوتا ہے۔ قوم کے حقوق میں سب سے مقدم حق یہ ہے کہ ہم قوم کو قوموں کی برادری میں معزز مقام دلانے کیلئے سعی کریں۔ قومیں افراد کی محنت سے سر بلند ہوتی ہیں۔ ہم اپنے مفاد کو قوم کے مفاد پر قربان کرنا سیکھ لیں تو قوم ترقی کرنا شروع کر دے گی۔
اگر افراد قومی منفعت کو ذاتی مفادات پر نثار کرتے ہیں تو نتیجہ مناسب نہیں ہو سکتا۔
ہم لوگ قبیلے ،ذاتیں ،فرقے اور صوبائی اور مذہبی عصیتیں ترک کرکے ایک قوم بنے ہیں۔ اگر پھر عصیتیں لوٹ آئیں تو قوم ختم ہو جائے گی۔ ہم جب پاکستانی ہیں تو یہ ذات کیا اور وہ ذات کیا۔ سندھی ،بلوچی ،پٹھان ،پنجابی۔ کیا معنی۔ ہماری قومی شناخت پاکستان کے دم سے ہے۔
ہم پاکستانی ہیں۔ ہمیں پاکستانی ہی رہنا چاہئے۔ یہ قوم کا حق ہے کہ ہم انفرادی تشخص کی بجائے اجتماعی تشخص کے حصول کیلئے کوشاں رہیں۔
ہم پر ملک کے حقوق ادا کرنا ضروری ہے۔ ہم وطن پرست رہیں۔ ہم مفاد وطن عزیز رکھیں۔ ہم وطن کی آبرو پر آنچ نہ آنے دیں۔ ہم ملکی وحدت اور سلامتی کا خیال رکھیں۔ ہم سب ملک کے محافظ ہیں۔ ہم ہی ملک کا سرمایہ ہیں۔
ملک نے ہمیں ایک قوم بنایا۔ ایک وحدت بنایا۔ اس ملک کے حصول کیلئے بڑا خون قربان کیا گیا۔ بڑے کٹھن مراحل سے قافلہ گزرا ہے۔ بڑے مشکل زمانے آئے ہیں ،اس قوم پر۔ بڑے طوفانوں سے گزرا ہے ،ہمارا ملک ،ہمارے چھوٹے سے سفر میں ایک بڑا سا حادثہ بھی رونما ہو چکا ہے۔ ابھی ہم اپنے ملک کے حقوق کا مکمل خیال نہیں رکھتے۔ چھن جانے کے بعد بہشت کی قدر ہوتی ہے۔
کہیں خدا نخواستہ یہ ملک ،ہمیں نامنظور نہ کر دے۔ ابھی وقت ہے۔ ملک کے حقوق ادا کرنا ضروری ہے۔ ہمیں گھر کی بات گھر تک رکھنا چاہئے۔ ہم اس ملک کے امین ہیں۔ یہ ملک ہمارا محافظ ہے۔ ملک سلامت ہے تو ہم سلامت ہیں۔ یہ نہیں تو ہم کہاں…؟
ملکی زندگی میں ہر شخص کو شامل کیا جائے۔ ہر شخص کی زندگی میں ملک کو شامل کیا جائے۔ حقوق ادا ہو جائیں گے۔
ہمارے ذاتی اختلافات ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہماری ذاتی انا ملک کے مفاد میں نہیں۔
ملک حکومتوں کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ لیکن عوام کے بغیر ملک صرف جغرافیہ ہی تو ہے۔ صرف مٹی۔ حکومت اور عوام مل کر وطن کی تعمیر کریں تو ترقی ہو گی۔
عوام کا حق ہے کہ انہیں پرسکون زندگی ملے۔ ان کی نیندیں پرسکون ہوں۔ دن پرسکون ،راتیں پرسکون ،سرحدیں محفوظ ،جان و مال محفوظ ،مستقبل و حال محفوظ ،غرضیکہ زندگی اپنی تمام رعنائیوں سمیت سلامت رہے اور اگر خدا نخواستہ ملک پر کوئی افتاد پڑے تو ہر زندگی ملک پر نثار ہونے کیلئے بے قرار ہو۔
انسان پر اس کی اپنی ذات کے بڑے حقوق واجب الادا ہیں۔ اپنے ظاہر کے حقوق ،اپنے باطن کے حقوق۔ ظاہر کے حقوق یہ ہیں کہ ہم اپنے آپ کو ایک باعزت شہری بننے کیلئے تیار رکھیں۔ اپنے دور کی رائج تعلیم کا حصول فرض ہے۔ ہمارا ہم پر حق ہے کہ ہم اپنے آپ کو گرد و پیش سے باخبر رکھیں۔ اپنے ماحول سے آگاہ رہیں۔ ہم اپنے مشاہدات و تجربات سے دوسروں کو آگاہ کریں۔
چراغ سے چراغ روشن ہو اور یوں اوہام پرستی سے نجات ملے۔ اپنی شناخت قائم کرنا ہمارا فرض ہے۔ اپنا تشخص قائم کرنا ضروری ہے۔ اپنا لباس ،اپنی زبان ،اپنا لہجہ ،اپنی جلوت و خلوت کا خاص خیال رکھنا ہمارا ہم پر حق ہے۔
ہمارے باطن کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ہم احساس کی دنیا زندہ رکھیں۔ ہم اپنے دل کو محسوس کرنے والا بنائیں۔ سوچنے والا ذہن اور محسوس کرنے والا دل نصیب والوں کو عطا ہوتے ہیں۔
ہم اپنے آپ کو اپنے مذہب سے علمی اور عملی طور پر آشنا رکھیں تو حقوق ادا ہوں گے۔ مذہب صرف تعلیم نہیں ،مذہب صرف عمل نہیں ،مشین کی طرح۔ ہمیں اپنے مذہب کے ساتھ ایک شعوری لگن ہونی چاہئے۔ دین اور دنیا کی فلاح کا حصول ہمارا مدعا ہونا چاہئے۔ ہماری مساجد ہمارے لئے فلاحی مراکز بن جائیں تو ایک خوبصورت انقلاب آ جائے۔
حقوق و فرائض کا خیال رکھنے والا معاشرہ ہمیشہ فلاحی ہوتا ہے۔
اسلام سے بہتر کون سا دین ہو سکتا ہے اور اس کے اصولوں سے زیادہ بہتر کوئی اصول نہیں ہو سکتا۔ اسلامی فلاحی معاشرہ دنیا کے تمام معاشروں سے بہتر ہے۔ اسے قائم کیا جائے۔ اسلامی فلاحی معاشرہ حکم اور چہرے سے قائم نہیں ہو سکتا۔ یہ محبت اور شوق سے قائم ہو گا۔ ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ معاشرہ بن جائے گا۔ جب تک انسان اپنی روح کو بیدار نہیں کرتا ،وہ کوئی فلاحی کام نہیں کر سکتا۔
ایک روشن روحانی زندگی کا حصول بھی ہم پر فرض ہے۔ یہ ہمارا حق بھی ہے کہ ہم کسی روحانی تجربے سے گزریں اور اگر ممکن نہ ہو تو کم از کم کسی روحانی بزرگ سے آشنائی تو ہونا چاہئے۔ روح زندہ تو انسان زندہ ،نہیں تو نہیں۔
انسان کا سوچنا بھی عمل ہے اور محسوس کرنا بھی ایک عمل ہے۔ ایک انسان کسی کھیت ،کھلیان ،فیکٹری ،دفتر میں کام کر رہا ہو ،اسے مصروف کہیں گے۔
وہ کام کر رہا ہے۔ ایک کرسی پر خاموشی سے آنکھیں بند کئے سوچنے والا انسان بظاہر بے کار بیٹھا ہے لیکن یہ بہت بڑا کام کر رہا ہے۔ فکر کے سمندروں میں غوطہ لگانے والے ،گوہر مراد نکالنے والے لوگ محسنین کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی فکر ہی ان کا عمل ہے۔ صاحب فکر ہونا بھی ہمارا فرض ہے۔ ہمارا یہ حق مقدم ہے کہ ہم خود کو صاحب خیال بنائیں۔ صاحب فکر بنائیں۔
قوم کو نئی منزلوں سے آشنا کرانے والوں کا احترام سب پر فرض ہے۔ ان کا حق یہ ہے کہ ان کی حفاظت کی جائے۔ ان کا خیال رکھا جائے۔
انسان پر سب سے اہم حق خدا کا ہے۔ زندگی دینے والا چاہتا ہے کہ زندگی اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلائی جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے محبوبﷺ کا راستہ ہی محبوب راستہ ہو۔ اللہ کریم انسانی زندگی کو اپنی طرف گامزن دیکھنا چاہتا ہے۔
وہ چاہتا ہے کہ انسان اس کی طرف رجوع رکھے۔ اس کی طرف سفر کرے۔ اس کی طرف گامزن رہے۔ خدا سے غافل رہنے والی زندگی حجابات میں کھو جاتی ہے۔ خالق کے خیال کو چھوڑ کر مخلوق کے خیال میں گم ہونے والا انسان دین و دنیا کے خسارے میں رہتا ہے۔ اللہ ہمیں ایک ہمیشہ رہنے والی سرشاری کی طرف دعوت دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اس عارضی زندگی کو ایسے اصولوں کے مطابق بسر کریں کہ ابدی حیات حاصل کر سکیں۔
وہ ہمیں حقیقی خوشی اور سرخوشی سے تعارف کراتا ہے۔ وہ اپنے محبوبﷺ کی محبت سے نوازتا ہے۔ وہ ہمیں ایک کامیاب زندگی سے تعارف کراتا ہے۔ ہم پر فرض ہے کہ اس کی اطاعت کریں۔ یہ اس کا حق ہے۔ سب حقوق سے مقدم حق ،یہ ہمیں ادا کرنا ہے۔ یہ ایک ایسی ادائیگی ہے جس میں کوئی معذوری کوئی مجبوری آڑے نہیں آ سکتی۔ یہ وہ فرض ہے جس کے ادا نہ کر سکنے کا کوئی جواز معقول نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں سے بھی لوگوں کے حقوق کی ادائیگی فرض کر دی ہے۔ مثلاً اللہ نے فرمایا کہ ماں باپ کی اطاعت کرو۔ یہاں تک کہ ان کے آگے اف بھی نہ کہو اور اگر والدین بڑھاپے میں پہنچ جائیں تو ان کیلئے اپنے بازو رحمت و شفقت کے بازو بنا دو اور دعا کرو کہ اے اللہ میرے والدین پر ایسے رحم فرما جیسے انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم فرمایا۔
ماں باپ کی اطاعت حقوق العباد میں شامل ہے۔ لیکن حقوق العباد اللہ ہی کے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ یعنی حقوق العباد بھی حقوق اللہ ہی ہیں۔
اللہ نے فرض کر رکھا ہے کہ لوگ اللہ کے محبوبﷺ کی اطاعت کریں۔ حضورﷺ کی آواز سے اونچی آواز تک نہ نکالیں۔ حضورﷺ کے فرمان سے زیادہ معتبر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ حضورﷺ کے بتائے ہوئے راستے کے علاوہ کوئی بھی راہ اس قابل نہیں کہ اس پر چلا جائے۔
انسان اللہ کے بتائے ہوئے حقوق ادا کرتا چلا جائے تو فلاح یقینی ہے۔ رہا انسان کا اپنا حق ،اللہ پر۔ وہ تو انسان نے پیدا ہوتے ہی حاصل کر رکھا ہے۔ اس کے پیدا ہونے سے پہلے خوراک کا انتظام کر دیا گیا تھا۔ اس کی پرورش کرنے کیلئے والدین موجود تھے۔ اس کے استقبال کیلئے پوری دنیا موجود تھی۔ اسے آنکھیں عطا کر دی گئیں اور دیکھنے کیلئے ایک خوبصورت کائنات موجود تھی۔
یہاں تک کہ عبادت کیلئے مسجد تک موجود تھی۔ اس کے باوجود اللہ کا ارشاد کہ اے بندے مانگو تمہیں کیا چاہئے۔ اللہ دعائیں سنتا ہے۔ قبول کرتا ہے۔ اس نے موسموں کو حکم دے رکھا ہے کہ انسان کیلئے مناسب ہوا اور خوراک کا انتظام کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اطاعت کرنے والے انسان کو اشرف بنا دیا۔ زمین و آسمان مسخر کرنے والا انسان صرف پنے رب کے سامنے جھکنے کا فرض ادا کرے۔ اسے ہر چیز کو جھکانے کا حق ہے۔ سب کو نگوں کرنے والا اپنے مالک کے سامنے نگوں ہو جائے۔ یہ حق ہے۔ اللہ ہمیں حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif